... loading ...
(مہمان کالم)
پال کرگمین
کووِڈ نے بے شمار امریکی شہریوں کی ملازمتوں کو متاثر کیا ہے۔ ان میں ہم جیسے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور وائٹ کالر ملازمین‘ جن کی تنخواہیں کافی بہتر تھیں‘ گھر پر رہ کر ہی کام کرنے لگے۔ لاکھوں ایسے سروس ورکرز‘ جن کی تنخواہیں نسبتاً کم تھیں‘ کی ملازمتیں اچانک ختم ہو گئیں کیونکہ کووڈ کی وجہ سے لوگوں نے باہر کھانا پینا اور سفر کرنا ترک کر دیا تھا۔ اب ہماری معیشت بحال ہو رہی ہے۔ کووڈ کا ڈیلٹا ویری اینٹ ا?نے کے باوجود معیشت کا بہتری کی طرف سفر جاری ہے مگر بہت سے ایسے امریکی بھی ہیں جو کووِڈ سے پہلے والی ملازمتوں پر واپس جانے سے گریز کر رہے ہیں۔
جو لوگ پچھلے ایک ڈیڑھ سال سے گھر پر رہ کر کام کرنے کے عادی ہو گئے ہیں‘ اب انہیں جائے ملازمت پر ا?مد و رفت ایک بوجھ محسوس ہوتی ہے۔ ان میں سے وہ لوگ جو ملازمتوں سے محروم ہو گئے تھے‘ اب انہیں احساس ہو رہا ہے کہ وہ اپنی کم تنخواہوں اور جائے ملازمت کے گھٹیا ماحول کی وجہ سے کس قدر ناخوش تھے‘ اس لیے وہ اب اپنی سابقہ ملازمتوں پر نہیں جانا چاہتے۔
سچی بات یہ ہے کہ جب پہلے پہل بزنس سے لیبر کی کمی کی شکایات موصول ہونے لگیں تو مجھے یقین نہ ا?یا۔ دیکھا گیا ہے کہ جب کبھی معیشت کساد بازاری سے نکل کر بحالی کی راہ پر گامزن ہوتی ہے تو ایسی شکایات اکثر منظر عام پر آتی ہیں اور اس کا اکثر یہ مفہوم لیا جاتا ہے کہ ملازمین اپنی ملازمت چھن جانے پر اتنے پریشان نہیں ہیں۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ ا?ج سے سات ا?ٹھ سال پہلے لوگوں کی ایک بڑی تعداد اکثر کہا کرتی تھی کہ ان کی موجودہ مہارت پیشہ ورانہ تقاضوں پر پورا نہیں اترتی اور اب بیروزگاری کی شرح کو مالیاتی بحران سے پہلے کی سطح پر لانا ممکن نہیں ہوگا؛ تاہم اس مرحلے پر ایسا لگ رہا ہے کہ واقعی کچھ گڑبڑ ہو رہی ہے۔ اس بات کا احساس آپ کو خالی اسامیوں کے اعداد و شمار دیکھ کر بخوبی ہو جائے گا۔ اتنی زیادہ بیروزگاری کی موجودہ صورت حال کو پیش نظر رکھ کر دیکھا جائے تو اتنی زیادہ اسامیوں کے خالی ہونے کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ آپ اس بات کا اندازہ ہوٹل اور ریستوران کے شعبے کے حالا ت دیکھ کر بھی لگا سکتے ہیں جو شعبہ کووڈ سے سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ کووڈ سے پہلے کے دور کے مقابلے میں اس شعبے میں ملازمت مانگنے والوں کی تعداد آج بھی کم ہے؛ چنانچہ ورکرزکو ملازمت پر واپس لانے کے لیے کووِڈ سے پہلے کی تنخواہوں سے زیادہ معاوضے کی پیشکش کی جا رہی ہے۔
بالفاظ دیگر ملازمین کی ایک بڑی تعداد اپنی ملازمتوں پر واپس جانے کے لیے ا?مادہ نہیں بشرطیکہ انہیں پہلے سے زیادہ تنخواہ اور بہتر ورکنگ کنڈیشن کی پیشکش کی جائے۔ مگر ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ کیا یہ بری بات ہے؟ قدامت پسندوں کے نزدیک یہ واقعی بری بات ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ورکرز اس لیے بھی ملازمت پر واپس جانے کے لیے تیار نہیں ہیں کیونکہ حکومت سے ملنے والے بیروزگاری الائونس میں ان کا بہتر گزارہ ہو رہا ہے مگر یاد کریں کہ مالیاتی بحران کے بعد بھی تو وہ اسی قسم کی باتیں کیا کرتے تھے۔ کہا جاتا تھا کہ بیروزگاروں کے نازنخرے اٹھائے جا رہے ہیں حالانکہ اصل وجہ یہ تھی کہ کانگرس میں ریپبلکن ارکان کی طرف سے نافذ کردہ تباہ کن بچت پروگرام کی وجہ سے معیشت کی بحالی کا عمل بہت سست رفتار تھا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ بیروزگاری الائونس کے اثرات پر تشویش اور فکرمندی کا معاملہ بھی اب ماضی کے مقابلے میں بہتری کی طر ف مائل ہے۔ بیروزگاری کے دنوں میں ملنے والی سرکاری امداد کساد بازاری (گریٹ ریسیشن) کے دنوں میں ملنے والے الائونس سے کہیں زیادہ اور فراخدلانہ ہے یعنی موجودہ بے روزگاری الائونس کے ساتھ اضافی 300 ڈالر فی ہفتہ‘ جو دسمبر میں ملنا شروع ہو ئے تھے اور اگلے مارچ میں اس میں مزید اضافہ کر دیا گیا تھا۔ اگرچہ یہ 2020ء میں ملنے والے الائونس 600 ڈالر فی ہفتہ سے پھر بھی کم تھا۔ اگر ان دونوں الائونسز کو ملا لیا جائے تو یہ کم تنخواہ پانے والے ورکرز کی نارمل آمدنی کے مقابلے میں زیادہ آمدن بن جاتی ہے۔ لیکن کیا اس بیروزگاری الائونسز سے روزگار کی شرح پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں؟ اس کا جواب ہے کہ نہیں‘ ایسا نہیں ہے۔
جمعہ کے دن ملازمتوں کے بارے میں سرکاری سطح پر جاری ہونے والے اعداد و شمار سے اس سے قبل ہونے والی سٹڈیز کے نتائج کو مزید تقویت ملتی ہے جن میں منفی اثرات مرتب ہونے کی بات کی گئی تھی۔ اس مرتبہ ریپبلکن ارکان نے جان بوجھ کر ایسے اعداد و شمار فراہم کیے ہیں جن سے ان کے اپنے ہی دعووں کی نفی ہوتی ہے۔ اضافی بیروزگاری الائونس ستمبر میں ختم ہونا تھا مگر بہت سی ریپبلکن ریاستوں نے اسے مقررہ مدت سے پہلے ہی منسوخ کر دیا۔ اگر یہ بیروزگاری الائونس ہی نئی ملازمتیں پیدا کرنے کی راہ میں رکاوٹ تھا تو ان ریاستوں میں روزگار کی فراہمی کی شرح ان ڈیموکریٹ ریاستوں سے زیادہ ہونی چاہئے تھی جنہوں نے یہ الائونس دینا جاری رکھا۔ مگر ایسا نہیں ہوا۔ تو کیا پھر اس مطلب یہ لیا جائے کہ یہ وجہ سرکاری الائونس نہیں تھی جس کی وجہ سے ورکرز اپنی پرانی ملازمتوں پر واپس جانے سے گریز کر رہے تھے؟ اس میں کئی دیگرعوامل بھی کارفرما ہو سکتے ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ ابھی کورونا وائرس کا خوف ختم نہیں ہوا۔ بہت سے ورکرز وائرس کے خوف کی وجہ سے آج بھی گھر وں میں رہنے پر مجبور ہیں۔ چائلڈ کیئر یعنی بچوں کی دیکھ بھال بھی ملازمت پیشہ والدین کے لیے ایک اہم مسئلہ ہے۔ اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ ابھی تک بہت سے ا سکول بند ہیں اور چائلڈ کیئرکا نظام بری طرح متاثر ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تاہم میرا اندازہ یہ ہے‘ اور اسے میرا اندازہ ہی سمجھا جائے‘ اگرچہ کئی ماہرین کے خیالات بھی مجھ سے ملتے جلتے ہیں جن کا میں ذکر بھی کر چکا ہوں کہ کووڈ کی وجہ سے ہماری زندگی میں جو اتھل پتھل ہوئی ہے‘ اس میں ہمارے لیے بہت سے سیکھنے کے مواقع بھی مضمر ہیں۔ کئی ایسے خوش قسمت لوگ بھی تھے جنہیں گھر پر رہ کر کام کرنے کا موقع ملا تو انہیں پہلی مرتبہ یہ احساس ہوا کہ انہیں جائے ملازمت پر ا?نے جانے میں کتنی تکلیف اٹھانا پڑتی ہے۔ ہوٹلوں اور ریستورانوں میں کام کرنے والے کئی ورکرز کو بیروزگاری کے دنوں میں یہ ادراک ہوا کہ انہیں اپنی پرانی ملازمت کس قدر ناپسند تھی۔ اب تو یوں لگتا ہے کہ یہ ورکرز اپنی پرانی ملازمتوں پر نہ جانے کے لیے کوئی بھی قیمت دینے کو تیار ہیں۔ اور یہ بات ان عمر رسیدہ لوگوں کی حد تک تو بہت ہی درست ہو گی جنہیں اب لیبر فورس سے نکال دیا گیا ہے۔ حالیہ ’’لیبر شارٹیج‘‘ کے پیچھے یہی کہانی چھپی ہے جو ہمارے نزدیک کوئی مسئلہ نہیں بلکہ ایک اچھی بات ہے۔ اس کے برعکس کووِڈ نے بہت سے امریکی شہریوں کو یہ سوچنے کا موقع فراہم کیا ہے کہ ہمارے لیے کیا کرنا اہم اور ضروری ہے۔ انہیں اب یہ احساس ہو رہا ہے کہ ناخوشگوار اور ناپسندیدہ کام کرنے کے لیے انہیں جو معاوضہ دیا جا رہا تھا‘ وہ کافی نہیں تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔