وجود

... loading ...

وجود

امریکی شہری اور پرانی ملازمتیں

بدھ 01 ستمبر 2021 امریکی شہری اور پرانی ملازمتیں

(مہمان کالم)

پال کرگمین

کووِڈ نے بے شمار امریکی شہریوں کی ملازمتوں کو متاثر کیا ہے۔ ان میں ہم جیسے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور وائٹ کالر ملازمین‘ جن کی تنخواہیں کافی بہتر تھیں‘ گھر پر رہ کر ہی کام کرنے لگے۔ لاکھوں ایسے سروس ورکرز‘ جن کی تنخواہیں نسبتاً کم تھیں‘ کی ملازمتیں اچانک ختم ہو گئیں کیونکہ کووڈ کی وجہ سے لوگوں نے باہر کھانا پینا اور سفر کرنا ترک کر دیا تھا۔ اب ہماری معیشت بحال ہو رہی ہے۔ کووڈ کا ڈیلٹا ویری اینٹ ا?نے کے باوجود معیشت کا بہتری کی طرف سفر جاری ہے مگر بہت سے ایسے امریکی بھی ہیں جو کووِڈ سے پہلے والی ملازمتوں پر واپس جانے سے گریز کر رہے ہیں۔
جو لوگ پچھلے ایک ڈیڑھ سال سے گھر پر رہ کر کام کرنے کے عادی ہو گئے ہیں‘ اب انہیں جائے ملازمت پر ا?مد و رفت ایک بوجھ محسوس ہوتی ہے۔ ان میں سے وہ لوگ جو ملازمتوں سے محروم ہو گئے تھے‘ اب انہیں احساس ہو رہا ہے کہ وہ اپنی کم تنخواہوں اور جائے ملازمت کے گھٹیا ماحول کی وجہ سے کس قدر ناخوش تھے‘ اس لیے وہ اب اپنی سابقہ ملازمتوں پر نہیں جانا چاہتے۔
سچی بات یہ ہے کہ جب پہلے پہل بزنس سے لیبر کی کمی کی شکایات موصول ہونے لگیں تو مجھے یقین نہ ا?یا۔ دیکھا گیا ہے کہ جب کبھی معیشت کساد بازاری سے نکل کر بحالی کی راہ پر گامزن ہوتی ہے تو ایسی شکایات اکثر منظر عام پر آتی ہیں اور اس کا اکثر یہ مفہوم لیا جاتا ہے کہ ملازمین اپنی ملازمت چھن جانے پر اتنے پریشان نہیں ہیں۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ ا?ج سے سات ا?ٹھ سال پہلے لوگوں کی ایک بڑی تعداد اکثر کہا کرتی تھی کہ ان کی موجودہ مہارت پیشہ ورانہ تقاضوں پر پورا نہیں اترتی اور اب بیروزگاری کی شرح کو مالیاتی بحران سے پہلے کی سطح پر لانا ممکن نہیں ہوگا؛ تاہم اس مرحلے پر ایسا لگ رہا ہے کہ واقعی کچھ گڑبڑ ہو رہی ہے۔ اس بات کا احساس آپ کو خالی اسامیوں کے اعداد و شمار دیکھ کر بخوبی ہو جائے گا۔ اتنی زیادہ بیروزگاری کی موجودہ صورت حال کو پیش نظر رکھ کر دیکھا جائے تو اتنی زیادہ اسامیوں کے خالی ہونے کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ آپ اس بات کا اندازہ ہوٹل اور ریستوران کے شعبے کے حالا ت دیکھ کر بھی لگا سکتے ہیں جو شعبہ کووڈ سے سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ کووڈ سے پہلے کے دور کے مقابلے میں اس شعبے میں ملازمت مانگنے والوں کی تعداد آج بھی کم ہے؛ چنانچہ ورکرزکو ملازمت پر واپس لانے کے لیے کووِڈ سے پہلے کی تنخواہوں سے زیادہ معاوضے کی پیشکش کی جا رہی ہے۔
بالفاظ دیگر ملازمین کی ایک بڑی تعداد اپنی ملازمتوں پر واپس جانے کے لیے ا?مادہ نہیں بشرطیکہ انہیں پہلے سے زیادہ تنخواہ اور بہتر ورکنگ کنڈیشن کی پیشکش کی جائے۔ مگر ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ کیا یہ بری بات ہے؟ قدامت پسندوں کے نزدیک یہ واقعی بری بات ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ورکرز اس لیے بھی ملازمت پر واپس جانے کے لیے تیار نہیں ہیں کیونکہ حکومت سے ملنے والے بیروزگاری الائونس میں ان کا بہتر گزارہ ہو رہا ہے مگر یاد کریں کہ مالیاتی بحران کے بعد بھی تو وہ اسی قسم کی باتیں کیا کرتے تھے۔ کہا جاتا تھا کہ بیروزگاروں کے نازنخرے اٹھائے جا رہے ہیں حالانکہ اصل وجہ یہ تھی کہ کانگرس میں ریپبلکن ارکان کی طرف سے نافذ کردہ تباہ کن بچت پروگرام کی وجہ سے معیشت کی بحالی کا عمل بہت سست رفتار تھا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ بیروزگاری الائونس کے اثرات پر تشویش اور فکرمندی کا معاملہ بھی اب ماضی کے مقابلے میں بہتری کی طر ف مائل ہے۔ بیروزگاری کے دنوں میں ملنے والی سرکاری امداد کساد بازاری (گریٹ ریسیشن) کے دنوں میں ملنے والے الائونس سے کہیں زیادہ اور فراخدلانہ ہے یعنی موجودہ بے روزگاری الائونس کے ساتھ اضافی 300 ڈالر فی ہفتہ‘ جو دسمبر میں ملنا شروع ہو ئے تھے اور اگلے مارچ میں اس میں مزید اضافہ کر دیا گیا تھا۔ اگرچہ یہ 2020ء میں ملنے والے الائونس 600 ڈالر فی ہفتہ سے پھر بھی کم تھا۔ اگر ان دونوں الائونسز کو ملا لیا جائے تو یہ کم تنخواہ پانے والے ورکرز کی نارمل آمدنی کے مقابلے میں زیادہ آمدن بن جاتی ہے۔ لیکن کیا اس بیروزگاری الائونسز سے روزگار کی شرح پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں؟ اس کا جواب ہے کہ نہیں‘ ایسا نہیں ہے۔
جمعہ کے دن ملازمتوں کے بارے میں سرکاری سطح پر جاری ہونے والے اعداد و شمار سے اس سے قبل ہونے والی سٹڈیز کے نتائج کو مزید تقویت ملتی ہے جن میں منفی اثرات مرتب ہونے کی بات کی گئی تھی۔ اس مرتبہ ریپبلکن ارکان نے جان بوجھ کر ایسے اعداد و شمار فراہم کیے ہیں جن سے ان کے اپنے ہی دعووں کی نفی ہوتی ہے۔ اضافی بیروزگاری الائونس ستمبر میں ختم ہونا تھا مگر بہت سی ریپبلکن ریاستوں نے اسے مقررہ مدت سے پہلے ہی منسوخ کر دیا۔ اگر یہ بیروزگاری الائونس ہی نئی ملازمتیں پیدا کرنے کی راہ میں رکاوٹ تھا تو ان ریاستوں میں روزگار کی فراہمی کی شرح ان ڈیموکریٹ ریاستوں سے زیادہ ہونی چاہئے تھی جنہوں نے یہ الائونس دینا جاری رکھا۔ مگر ایسا نہیں ہوا۔ تو کیا پھر اس مطلب یہ لیا جائے کہ یہ وجہ سرکاری الائونس نہیں تھی جس کی وجہ سے ورکرز اپنی پرانی ملازمتوں پر واپس جانے سے گریز کر رہے تھے؟ اس میں کئی دیگرعوامل بھی کارفرما ہو سکتے ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ ابھی کورونا وائرس کا خوف ختم نہیں ہوا۔ بہت سے ورکرز وائرس کے خوف کی وجہ سے آج بھی گھر وں میں رہنے پر مجبور ہیں۔ چائلڈ کیئر یعنی بچوں کی دیکھ بھال بھی ملازمت پیشہ والدین کے لیے ایک اہم مسئلہ ہے۔ اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ ابھی تک بہت سے ا سکول بند ہیں اور چائلڈ کیئرکا نظام بری طرح متاثر ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تاہم میرا اندازہ یہ ہے‘ اور اسے میرا اندازہ ہی سمجھا جائے‘ اگرچہ کئی ماہرین کے خیالات بھی مجھ سے ملتے جلتے ہیں جن کا میں ذکر بھی کر چکا ہوں کہ کووڈ کی وجہ سے ہماری زندگی میں جو اتھل پتھل ہوئی ہے‘ اس میں ہمارے لیے بہت سے سیکھنے کے مواقع بھی مضمر ہیں۔ کئی ایسے خوش قسمت لوگ بھی تھے جنہیں گھر پر رہ کر کام کرنے کا موقع ملا تو انہیں پہلی مرتبہ یہ احساس ہوا کہ انہیں جائے ملازمت پر ا?نے جانے میں کتنی تکلیف اٹھانا پڑتی ہے۔ ہوٹلوں اور ریستورانوں میں کام کرنے والے کئی ورکرز کو بیروزگاری کے دنوں میں یہ ادراک ہوا کہ انہیں اپنی پرانی ملازمت کس قدر ناپسند تھی۔ اب تو یوں لگتا ہے کہ یہ ورکرز اپنی پرانی ملازمتوں پر نہ جانے کے لیے کوئی بھی قیمت دینے کو تیار ہیں۔ اور یہ بات ان عمر رسیدہ لوگوں کی حد تک تو بہت ہی درست ہو گی جنہیں اب لیبر فورس سے نکال دیا گیا ہے۔ حالیہ ’’لیبر شارٹیج‘‘ کے پیچھے یہی کہانی چھپی ہے جو ہمارے نزدیک کوئی مسئلہ نہیں بلکہ ایک اچھی بات ہے۔ اس کے برعکس کووِڈ نے بہت سے امریکی شہریوں کو یہ سوچنے کا موقع فراہم کیا ہے کہ ہمارے لیے کیا کرنا اہم اور ضروری ہے۔ انہیں اب یہ احساس ہو رہا ہے کہ ناخوشگوار اور ناپسندیدہ کام کرنے کے لیے انہیں جو معاوضہ دیا جا رہا تھا‘ وہ کافی نہیں تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج وجود جمعرات 21 نومبر 2024
پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج

آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش وجود جمعرات 21 نومبر 2024
آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر