... loading ...
(مہمان کالم)
کارلوٹا گال
کابل پر طالبان کے قبضے سے چند دن پہلے میں نے دیکھا کہ ایک افغان عورت مشرقی ترکی کے ایک بس سٹیشن پر‘ بنچ پر بیٹھی سسکیاں لے رہی تھی جبکہ اس کے بچے زمین پر بیٹھے رو رہے تھے۔ جب ہماری ٹیم ان کا انٹرویو کر رہی تھی تو ترک سکیورٹی فورس کے 14 اہلکاروں نے ان افغان مہاجرین کو گرفتار کر لیا۔ ترکی اس وقت ایرانی سرحد عبور کر کے آنے والے ہزاروں افغان مہاجرین کے خلاف سخت کریک ڈائون کر رہا ہے۔ ترک اہلکار ان کی حالتِ زار کی رپورٹنگ کرنے کی اجازت نہیں دے رہے تھے۔ کافی دیر بات چیت کے بعد انہیں پولیس کی گاڑی میں بٹھا لیا گیا۔ 17 سالہ گل احمد نے کہا ’’ہم انتہائی مایوسی کے عالم میں گھر سے نکلے تھے۔ ہمیں خوف تھا کہ ہمیں قتل کر دیا جائے گا یا ہمیں زبردستی عسکری گروہوں میں بھرتی کر لیا جائے گا؛ چنانچہ ہماری فیملی کے لیے یہی بہتر ا?پشن تھا‘‘۔ ایک ہفتہ پہلے تک ہزاروں افغان شہری طالبان سے بچنے کے لیے کابل ایئر پورٹ پر جمع تھے۔ ہزاروں زمینی راستے سے 1400 میل طویل ایران سے گزر کر ترک سرحد پر پہنچنے کی کوشش کر رہے تھے۔ ایسے ہی ہزاروں افغان شہری طالبان کے خوف سے مشرقی شہر وین میں جمع تھے۔ حالیہ چند مہینوں کے دوران جب افغانستان میں نیٹو کا مشن بری طرح ناکام ہو رہا تھا‘ ہر ہفتے 30 ہزار افغان شہری اپنے ملک سے فرار ہو رہے تھے۔ ان کی بڑی تعداد پہلے ترکی میں سیاسی پناہ لینا اور پھر یورپ جانا چاہتی ہے۔
چونکہ اب طالبان افغانستان پر قابض ہو چکے ہیں اس لیے مہاجرین کی تعداد میں بھی لامحالہ اضافہ ہو گا۔ اب لوگ اپنی جائیدادیں بیچ کر مستقل نقل مکانی کی باتیں کر رہے ہیں۔ بہت سے مہاجرین نے ہمیں بتایا کہ انہوں نے بڑے بڑے گروپس کی شکل میں ہجرت کی ہے مگر ان میں سے بہت کم لوگ ترک گارڈز سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوئے۔ اگرچہ دنیا بھر میں پْرتشدد کارروائیوں کی وجہ سے عراق، شام اور کئی افریقی ممالک سے لاکھوں کی تعداد میں لوگ بے گھر ہوئے ہیں مگر افغان جنگ کا باب بند ہونے کی وجہ سے آخری لہر افغان مہاجرین کی آئی ہے۔ یورپ کی طرح ترکی میں بھی عوامی سطح پر امیگرنٹس اور مہاجرین کے خلاف ایک ناپسندیدگی پائی جاتی ہے جو کئی مرتبہ تشدد میں بھی بدل جاتی ہے۔ انقرہ میں مقیم کئی شامی مہاجرین پر چاقو کے حملوں کے واقعات رونما ہوئے ہیں۔ افغان ہیومین مانیٹرز کے مطابق گزشتہ مہینے سے ترکی نے بھی مہاجرین کو واپس دھکیلنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔
ترک صدر طیب اردوان کے مطابق‘ ترک معیشت کی تنزلی کی وجہ سے 36 لاکھ شامی مہاجرین اور 3 لاکھ افغان مہاجرین کا بوجھ ہمارے لیے ایک سیاسی مسئلہ بن چکا ہے۔ انہوں نے کھل کر اعلان کیا ہے کہ ترکی مزید افغان مہاجرین کے لیے اپنے دروازے نہیں کھولے گا۔ صدر طیب اردوان نے کئی مرتبہ مہاجرین کے خطرے کو یورپی یونین کے ساتھ مذاکرات کے دوران ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے تو دوسری طرف ترک حکام بھی مہاجرین کی تعداد روکنے کے لیے ان کے خلاف سخت کارروائیوں میں مصروف ہیں۔ طیب اردوان مغربی ممالک پر سخت تنقید کر تے ہیں کہ وہ کم ترقی یافتہ ممالک سے یہ امید یں لگائے بیٹھے ہیں کہ وہ اکیلے ہی مہاجرین کا بوجھ برداشت کریں۔ انہوں نے ایک ٹی وی تقریر میں کہا ’’یورپ‘ جو لاکھوں مہاجرین کے لیے ایک پرکشش منزل بن گیا ہے‘ اپنے شہریوں کی خوشحالی اور سیفٹی کے لیے اپنی سرحدیں بند کر کے اس مسئلے سے لاتعلق نہیں رہ سکتا۔ یہ ترکی کا فرض یا ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ یورپ کے لیے مہاجرین کا ڈپو بن کر رہ جائے‘‘۔ ترک صدر نے اتوار کو فون پر جرمنی کی چانسلر اینجلا مرکل کو متنبہ کیا کہ افغانستان سے مہاجرین کی تازہ ترین لہر آنے کے بعد ان کا ملک کوئی اضافی بوجھ نہیں اٹھائے گا کیونکہ ترکی پہلے ہی پانچ ملین مہاجرین کا بوجھ سنبھالے ہوئے ہے۔ وین شہر میں مقیم افغان مہاجرین نے بتایا کہ ترکی پہلے ہی اپنی سرحدوں پر سکیورٹی سخت کر چکا ہے اور مہاجرین کو سختی سے پیچھے دھکیلا جا رہا ہے۔ جولائی میں صرف ایک آپریشن میں ترک پولیس نے 1400 افغان مہاجرین کو گرفتار کرکے واپس بھیجا تھا۔ سینکڑوں بچوں اور خواتین کو اس وقت حراست میں لے لیا گیا جب وہ مشرقی ترکی میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔ وین شہرکے ایک وکیل محمد کیکان کا کہنا ہے کہ اس طرح کی جبری بے دخلی عالمی کنونشن برائے مہاجرین کی خلاف ورزی ہے۔ شاید ہی کوئی افغان اپنے ان انسانی حقوق سے ا?گا ہ ہو مگر ترکی تو اپنے قوانین کی بھی پاسداری نہیں کر رہا جس کے تحت ملک بدری سے قبل ان مہاجرین کو ایک اپیل کا حق حاصل ہے۔
ایک افغان مہاجر عبدالواحد کے مطابق‘ وین شہر میں جن افغان مہاجرین کو گرفتار کیا گیا‘ انہیں تارکین وطن کے ایک حراستی مرکز میں رکھا گیا اور پھر کسی قانونی کارروائی کے بغیر ایران کی طرف دھکیل دیا گیا۔ گرفتار ی سے قبل 30 سالہ نجیب اللہ نے اپنے انٹرویو میں بتایا کہ ہم اپنے ایک سالہ جڑواں بچوں کے ہمراہ ایک کٹھن اور مشکل ترین راستے سے تین دن کے سفر کے بعد ترکی میں داخل ہونے کی تین مرتبہ کوشش کر چکے تھے مگر ہمیں ہر مرتبہ زبردستی واپس بھیج دیا جاتا۔ اس کی 20 سالہ بیوی زینب کی طبیعت سخت خراب تھی اور وہ کہہ رہی تھی کہ اس سے تو بہتر تھا کہ ہم افغانستان میں ہی رک جاتے اور وہیں مر جاتے۔ یہ فیملی ازبک نسل سے تعلق رکھتی ہے اور دو مہینے پہلے اپنا گھر چھوڑنے پر مجبور ہوئی تھی جب طالبان نے شمالی افغانستان میں ان کے ضلع کا کنٹرول سنبھال لیا تھا۔ نجیب اللہ نے بتایا ’’ہمارے پاس کچھ نہیں تھا۔ وہ ہمیں حکم دیتے تھے کہ ان کے لیے کھانے کا انتظام کریں جبکہ ہمارے پاس اپنے کھانے کے لیے کچھ نہیں تھا‘‘۔ عبدالواحد کو حراستی مرکز میں چار دن رکھنے کے بعد ملک بدر کر دیا گیا اور اس نے ہمیں ایران سے فون پر اس بات کی اطلاع دی تھی۔ وہ پہلے سے ترکی میں رہ رہا تھا اور اپنی بیوی اور دو بچوں کو ایران سے ترکی میں داخل ہونے میں مددکرنے کے لیے وین شہر پہنچا تھا۔ اس کی فیملی استنبول میں اس کے پاس ا?نے کے لیے 10 مرتبہ سرحد عبور کرنے کی کوشش کر چکی تھی مگر جب بھی وہ ترکی میں داخل ہوتے پولیس انہیں پکڑتی اور واپس بھیج دیتی۔ ا س نے بتایا کہ ایک مرتبہ انہیں یہاں سے ایک سو میل دور واقع ٹیٹوان شہر کی سرحد سے بھی گرفتار کیا گیا تھا۔ ’’میری بیوی نے انہیں سیاسی پناہ دینے کے لیے کہا۔ اس نے پولیس حکام کو بتایا کہ وہ اپنے بچوں کو سکول بھیجنا چاہتی ہے۔ پہلے تو پولیس حکام نے اسے کہا کہ اوکے مگر پھر انہیں ملک بدر کر دیا‘‘۔ بہت سے افغان مہاجرین نے ہمیں بتایا کہ وہ تو افغانستان میں ہی کسی روزگار کی تلاش میں تھے مگر طالبان کے قبضے نے انہیں ایک مرتبہ پھر اپنا وطن چھوڑنے پر مجبور کر دیا کیونکہ ہمیں اپنی جان کا خطرہ تھا۔ دو مہاجرین نے ہمیں بتایا کہ ان کے فیملی ممبرز کو قتل کر دیا گیا تھا۔ 15 سالہ الیاس نے بتایا کہ وہ اپنے چار دوستوں کے ساتھ بھاگنے پر مجبور ہوا کیونکہ چار مہینے پہلے اس کے والدکو قتل کر دیا گیا تھا۔ اس نے بتایا کہ انہیں راستے میں سوالات پوچھنے کے لیے بھی روک لیا گیا تھا، پھر ایران میں انسانی ا سمگلروں نے انہیں لوٹ لیا مگر انہوں نے کچھ کھائے بغیر خالی ہاتھ ترکی کی طرف اپنا سفر جاری رکھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔