وجود

... loading ...

وجود

سندھ میں تعلیمی ادارے کھل گئے ،لیکن کب تک؟

پیر 30 اگست 2021 سندھ میں تعلیمی ادارے کھل گئے ،لیکن کب تک؟

 

یہ بات تو سب ہی بخوبی جانتے اور مانتے بھی ہیں کہ صوبہ سندھ میں تعلیم کا فروغ کبھی بھی سندھ حکومت کی انتظامی ترجیحات میں سرے سے شامل ہی نہیں رہاہے ۔لیکن کچھ عرصے سے سندھ حکومت کی جانب سے تعلیم کے متعلق جو جانب دارانہ سیاسی رویہ پورے شد و مد کے ساتھ بطور’’حکومتی پالیسی‘‘ اختیار کیا جارہا ہے ، اُسے دیکھتے ہوئے یقین سے کہا جاسکتاہے کہ سندھ حکومت خیال اور سوچ کی حد تک بھی تعلیم کے متعلق نرم گوشہ نہیں رکھتی ۔ شاید اسی لیے ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ کورونا وائرس کے انسداد، اور بچاؤ کے لیے اختیار کیے جانے والے حفاظتی انتظامات کے بہانے سے جو معاندانہ سلوک نجی تعلیمی اداروں اور ان میں زیر تعلیم بچوں یا وہاں پڑھانے والے اساتذہ کے ساتھ کیا جارہا ہے ۔ اُس سے صوبہ سندھ میں برس ہا برس سے فروغ تعلیم کے لیے کی جانے والی کوششوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔
واضح رہے کہ سندھ میں کورونا کے باعث حکومت کی جانب سے تعلیمی اداروں کی طویل عرصہ تک بندش کا فیصلہ طالب علموں، ان کے والدین، اساتذہ اور درس گاہوں کے منتظمین سب کیلئے پریشان کن ثابت ہوا ہے اور قومی ذرائع ابلاغ کے علاوہ سوشل میڈیا پر بھی سندھ حکومت کی جانب سے تعلیمی اداروں کی بندش میں بار،بار کی توسیع پر ،معاشرے کے ہر طبقہ فکر کا شدید منفی ردِعمل سامنے آرہا ہے۔جبکہ نجی اسکولوں میں پڑھنے والے طلبا و طالبات اپنے معزز اساتذہ کے ہمراہ صوبہ بھر میں سراپا احتجاج بھی ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ سندھ حکومت نجی تعلیمی اداروں سے وابستہ ذمہ دار افراد کے پرامن احتجاج کے پیچھے چھپے ہوئے محرکات کا درست ادراک کرکے نجی تعلیمی اداروں کے نمائندہ رہنماؤں سے مذاکرات کی میز پر گفت و شنید کرنے کے بعد تعلیمی اداروں کی بندش کے معاملہ پر کوئی ٹھوس، دیرپا اور متفقہ لائحہ عمل مرتب کرکے ،ایک ایسا قابل عمل راستہ نکالنے کی کوشش کرتی ۔جس سے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کی روک تھام میں مدد بھی ملتی اور کسی نہ کسی حد تک تعلیمی اداروں میں عملی تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رہتا۔
بلاشبہ کورونا کی وبا نے پوری دنیا میں معمولات زندگی کو جس بری طرح متاثر کیا ہے، تاریخ میں اس کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔ ابتدا میں عام طور پر سمجھا جارہا تھا کہ ویکسین لگوانے والے اس خطرناک مرض سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محفوظ و مامون ہو جائیں گے۔لیکن اس وائرس کے متعلق اَب تک کے تمام اندازے غلط ثابت ہوئے ہیں۔یعنی ویکسین لگوانے والے بھی تازہ ترین سائنسی تحقیقات کی رو سے مرض میں مبتلا ہونے کے خطرے سے محفوظ نہیں ہیں۔ شاید یہ ہی وجہ ہے کہ بڑی تیزی کے ساتھ دنیا بھر میں اب یہ خیال مستحکم ہورہا ہے کہ صرف کورونا وائرس کے ڈر اور خوف سے معمولات زندگی کو مستقل بنیادوں پر معطل نہیں رکھا جا سکتا۔ لہٰذا دنیا کے اکثر ممالک میں دفاتر، کاروبار اور تعلیم گاہوں سمیت تمام کاروبار زندگی احتیاطی تدابیر پر حتی الامکان عمل درآمد کے ساتھ بحال ہوچکا ہے۔نیز پاکستان میں بھی عملاً ملک کے تمام حصوں میں بیشتر کاروبار زندگی بھرپور انداز میں جاری و ساری ہے لیکن کتنی بدقسمتی اور افسوس کی بات ہے کہ صوبہ سندھ میں تعلیمی اداروں کی بندش کے معاملہ پر ابھی تک متاثرہ فریقین کو اعتماد میں لے کر کوئی مستقل فریم ورک ،اُصول،قواعد یا ضوابط طے نہیں کیے جارہے ۔جس پر سندھ بھر میں بالعموم اور شہری علاقوں میں بالخصوص سخت اضطراب پایا جاتا ہے۔
بظاہر پاکستان پیپلزپارٹی ایک عوامی اور جمہوری سیاسی جماعت ہونے کی دعویدار ہے ۔ لیکن معذرت کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ سندھ کے تعلیمی اداروں کے ساتھ وہ سراسر آمرانہ اور تحکمانہ انداز میں نمٹنے کی کوشش کررہی ہے۔ یعنی لطیفہ ملاحظہ ہو کہ تجارتی و کاروباری اداروں کی بندش کا معاملہ زیر غور ہو یا پھر مذہبی اجتماعات کو محدود کرنے کے حوالے سے کوئی چھوٹا ،موٹا سا انتظامی فیصلہ کرنا ہو۔سندھ حکومت کے اہم ترین وزراء سب سے پہلے نہ صرف کاروباری رہنماؤں سے تفصیلی مشاورت کرتے ہیں بلکہ مذہبی رہنماؤں سے بات چیت کر کے اُن کی مرضی کے مطابق کاروباری اور مذہبی سرگرمیاں محدود کرتے ہیں ۔ جبکہ تعلیمی اداروں کی غیر معینہ مدت تک بندش کا فیصلہ کرنا ہو یا پھر تعلیمی اداروں کی بندش میں توسیع کرنے کا سرکاری حکم نامہ جاری کرنے کی بات۔ کسی بھی مرحلے پر، کبھی بھی تعلیمی اداروں کی نمائندہ تنظیمات ،یا اُن کے رہنماؤ ں سے’’نتیجہ خیز مذاکرات‘‘ کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی جاتی ۔ گوکہ عوامی دباؤ میں آکر فی الحال سندھ حکومت نے یکم ستمبر سے سندھ بھر کے تمام تعلیمی ادارے کڑی شرائط کے ساتھ کھولنے کا سرکاری حکم نامہ جاری کردیا ہے۔ لیکن تعلیمی اداروں سے منسلک اساتذہ، طلبا ء وطالبات بدستور اس خوف اور تشویش میں مبتلاہیں کہ نہ جانے کب سندھ حکومت کی جانب تعلیمی اداروں کی بندش کا نیا سرکاری حکم نامہ جاری ہوجائے۔
دراصل بعض حلقوں کا خیال ہے کہ سندھ حکومت، وزیراعظم پاکستان عمران خان کے ’’سیاسی پرخاش ‘‘ میں سندھ کے تعلیمی اداروں کو کھولنے میں سیاسی و انتظامی لیت ولعل سے کام لیتی ہے۔ یعنی اگر وفاقی حکومت تعلیمی اداروں کھولنے کا کہے تو سندھ حکومت کی حتی المقدور خواہش اور کوشش ہوتی ہے کہ وفاق کے اس حکم نامے پر کم ازکم سندھ میں عمل درآمد ممکن نہ ہوسکے۔ حالانکہ اگر سندھ کے تعلیمی اداروں کو غیر معینہ مدت تک صرف اس لیے بند رکھا جائے گا کہ تحریک انصاف کی حکومت تعلیمی ادارو ں کو کھولنے کی حامی ہے تو اس ’’سیاسی ضد ‘‘ میں بھلا وزیراعظم پاکستان عمران خان کی ’’سیاسی صحت ‘‘ کون سا فرق پڑنا ہے۔
ہاں ! یہ ضرور ہے کہ صوبہ سندھ میں تعلیمی اداروں کو بار، بار کھولنے اور بند کرنے کا ’’سیاسی کھیل ‘‘ کھیلنے سے سندھ کا تعلیمی نظام جو پہلے ہی سخت زبوں حالی اور تنزلی کا شکار ہے ، مزید دگرگوں ہوجائے گا۔ شاید یہ ہی وجہ ہے کہ بعض لکھنے والے سوشل میڈیا پر یہاں تک لکھ رہے ہیں کہ ’’پاکستان پیپلزپارٹی اس لیے شہری علاقو ں میں تعلیمی اداروں کی غیر معینہ مدت تک بند ش پر کمر بستہ ہے ۔ تاکہ شہری آباد ی، معیار تعلیم کے لحاظ سے زبردست تنزلی کا شکار ہو سکے ‘‘۔حد تو یہ ہے کہ کچھ کہنے والے ٹک ٹا ک اور یوٹیوب پر یہ تک کہنے میں کوئی عار نہیں سمجھ رہے کہ ’’سندھ حکومت میں اکثر وزراء جاگیر دارانہ پس منظر کے حامل ہیں اور چونکہ بڑے جاگیر دار ہمیشہ سے ہی تعلیم کو اپنے مزارعوں کے لیے دماغ کا خلل سمجھتے آئے ہیں ۔ شاید اس لیے وہ بھی سندھ کے عوام کو تعلیم جیسے موذی مرض کے مضر اثرات سے محفوظ رکھنے کے لیے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں رکھنا چاہتے ‘‘۔اگر سندھ حکومت زبانِ خلق کو واقعی نقارہ خدا سمجھتی ہے توکم ازکم اَ ب کی بار اُسے سندھ میں تعلیمی ادارے کھولنے کا فیصلہ منسوخ نہیں کرنا چاہیے ۔
٭٭٭٭٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر