... loading ...
مہمان کالم
۔۔۔۔۔
مائیکل مور
زیادہ تر لوگ جس بات کا اعتراف نہیں کریں گے ، میں کروں گا۔ امریکا بشکریہ ایک اور جنگ ہار گیا ہے ۔ آئیں اس کو یقینی بنائیں کہ یہ ہماری آخری جنگ ہی ہو ۔
جشن منانے کے لیے یہاں کچھ نہیں ہے ۔ یہ صرف تفکر، سوچ بچار اور اپنے آپ کو اپنے آپ سے بچانے کا تاریخی لمحہ ہے ۔ہمیں ابھی اس پر ایک منٹ بھی کھپانے کی ضرورت نہیں ہے کہ بائیڈن نے ان خراب معاملات کے خاتمے کو بہادری سے سنبھالتے ہوئے کیا ٹھیک کیا اور کیا غلط ۔ بشمول اس کے کہ اس نے طالبان سے غیرمعمولی مذاکرات کیے جس میں اس نے یقینی بنایا کہ ایک بھی امریکی (سپاہی، جاسوس اور سفارتی عملہ) کو نقصان نہ پہنچے ، اور بائیڈن نے اب تک ہر امریکی اور غیر ملکی صحافی کو زندہ نکال دیا ہے ، نیز طالبان سے وعدہ لیا کہ جو لوگ اس کی کوریج کے لیے رہیں گے انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ اور پھر ایسا ہی ہوا ، کہ ایک بھی بندے کو نقصان نہیں پہنچا !
عام طور پر طالبان جیسی قوت کو جو بھی دشمن نظر میں آئے فوراً اسے مارنے میں جلدی مچاتی ہے ۔ (لیکن اس بار)ایسا نہیں ہوا! اور ہمیں اس سے پتا چلے گا کہ بائیڈن اور اس کی ٹیم کی بات چیت کی مہارت اور ذہانت تھی جس کی وجہ سے بڑے پیمانے پر قتل عام نہیں ہوا۔ (دوسری جنگِ عظیم میں فاتحین کی طرف سے ہونے والے قتلِ عام )جیسا کچھ نہیں ہوا۔پورا ہفتہ، درجنوں طیارے محفوظ طریقے سے کابل سے اڑ گئے اور ان میں سے ایک بھی طیارہ نہیں مار گرایا گیا۔ اس افراتفری کی صورتحال میں ہمارا کوئی بھی فوجی ہلاک نہیں ہوا۔ یہ سب اس دوران ہوا جب ناقص تربیت یافتہ صحافیوں، جو سوچتے ہیں کہ وہ 1990 کی دہائی کے طالبان کی کوریج کر رہے ہیں، کی گھبراہٹ اور ہیجان سے سانس پھولی ہوئی تھی۔
(سی این این پر جیک ٹیپر نامی صحافی’ سر قلم ہو جائیں گے‘ ،جیسی مسلسل باتیں کر کے خوف و ہراس پھیلاتے رہے اور یہ چیخ و پکار کرتے رہے کہ طالبان لڑکیوں کو “اغوا” اور “ریپ” کرتے ہیں اور ان لڑکیوں کو کمسن دلہنیں بننے پر مجبور کیا جاتا ہے ) ۔۔۔۔ جبکہ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ میں یہ نہیں سننا چاہتا کہ ہمیں کس طرح “مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے ” کہ طالبان کی اس فتح اور ہمارے انخلاء میں کیا غلطی ہوئی ۔ میں چیخ نہیں سکتا لیکن یہ بہت زوردار طریقے سے کہنا چاہتا ہوں کہ:
ہم (مستقبل میں)کبھی بھی کسی صورت حال میں اپنے آپ کو ایسی صورتحال میں نہیں ڈالنے جا رہے ۔ کیونکہ دوسرے ممالک پر جارحیت کر کے ان پر قبضہ کرنے کے سلسلہ کو ختم ہونا ہو گا۔ درست؟ جی بالکل درست !!
ذرا دیکھیں تو سہی:کوریا،ویت نام ، کمبوڈیا، عراق (1991)،عراق (2003)،افغانستان ،جن پر ہم نے دوسری جنگ عظیم کے بعد سے حملہ کیا ہے ، ان تمام میں دو مشترک (تھیم)تصورات تھے :۔
اولاً:ان ممالک میں سے کسی نے کبھی ہم پر حملہ نہیں کیا اور نہ ہی ہماری زندگیوں کو کسی قسم کا خطرہ لاحق کیا ۔ جو کہ ہماری طرف سے جوابی طور پر مسلح طاقت کے استعمال کا واحد حقیقی جواز بنتا۔
ثانیاً: ان ممالک میں سے کوئی ایک بھی گوروں کا ملک نہیں ہے ۔ شاید کوئی خاص وجہ ہے ، کہ 8 مئی 1945 سے اب تک ہم صرف رنگت والے لوگوں کو مارتے آ رہے ہیں۔ یہ محض اتفاق ہے ، ہے ناں؟
ویت نام میں ویت کانگ کی طرح ، ہمیں افغانستان میں (طالبان کی )ایک ٹوٹی پھوٹی فوج کے ہاتھوں شکست ہوئی، وہ فوج جس کے پاس ایک بھی ہیلی کاپٹر نہیں تھا ، ایک بھی جیٹ لڑاکا طیارہ نہیں تھا ، کوئی اسٹیلتھ بمبار نہیں ، کوئی میزائل نہیں ، کوئی نیپام بم نہیں (کوئی بموں کی ماں نہیں )، کوئی برگر کنگ کی سپلائی نہیں ، ایک بھی ایئر کنڈیشنڈ خیمہ نہیں ۔جی، ایک بھی نہیں! کوئی ایک بھی ٹینک نہیں ، صرف داڑھی والے مٹھی بھر لوگ جو ہوا میں گولیاں چلاتے تھے ۔
اوہ ، اور ویت نام کے ساتھ ایک اور مماثلت ۔ یہ ان کا اپنا ملک تھا! ہمارا نہیں۔ ہم حملہ آور تھے ۔ ویت نام میں ہم نے 20 لاکھ لوگ مارے ۔ افغانستان میں مرنے والوں کا تخمینہ ڈھائی لاکھ کے قریب ہے ۔ عراق میں ہم نے تقریباً ایک ملین کو قتل کیا (بل کلنٹن کی سویلین بمباری مہم کے آغاز سے )۔
ہم نے 20 سال تک افغانستان میں 2.4 ٹریلین ڈالر (ڈھائی ہزار ارب ڈالر) سے زائد خرچ کیے جبکہ امریکا میں غریب لوگ خوراک ، طبی دیکھ بھال ، اچھے اسکولوں سے محروم رہے ۔ سیاہ فام اکثریت والے شہر فلنٹ کے پینے کے پانی میں اس کے گورنر نے زہر شامل کر دیا تھا۔ امریکا میں ہر سال ہزاروں افراد کو پولیس نے گولیاں ماریں۔
ہم نے اس ملک افغانستان پر جارحیت کرنے کے لیے 2400 سے زائد امریکی جانوں کی قربانی دی جہاں بن لادن کہیں نہیں تھا۔ بش نے کہا کہ اس کو جلدی پکڑنے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔2011 میں ، اباما کی سیل ٹیم نے انہیں پاکستان کے “ویسٹ پوائنٹ” سے بالکل نیچے ایک گھر میں پایا۔ کس نے سوچا ہو گا ۔۔۔ !
کیسی افسوسناک افراتفری ہے ۔ ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس کے فنڈ زبند کریں ، این ایس اے (نیشنل سیکیورٹی ایجنسی)کے فنڈز بند کریں ، ہوم لینڈ سیکیورٹی کے فنڈز بند کریں۔ انہوں نے ہمارے جوانوں کو مرنے کے لیے بھیجا۔ شرمندہ ہونے کے لیے ۔کسی افغان نے ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملہ نہیں کیا۔ 9/11 کے19 ہائی جیکروں میں سے 15 کا تعلق سعودی عرب سے تھا۔ افغانستان سے نہیں ، عراق سے نہیں ، ایران سے نہیں۔ (’’بادشاہ بش‘‘سعودی شاہی خاندان کا ان کے دیرینہ دوست جارج ڈبلیو بش کے لیے عرفی نام) اس بش نے سعودی
عرب پر حملہ کیوں نہیں کیا؟ اوہ اچھا۔۔۔۔۔۔ ان سعودیوں کے پاس وہ چیز ہے جس کی ہمیں ضرورت ہے ۔ ہمارا پیٹرول پمپ۔ تو ، ہاں ، ہم نے یہ احمقانہ ، نامعقول جنگ ہار دی اور مجھے خوشی ہے کہ یہ بآلاخر ختم ہو گئی ہے ۔ ہماری جعلی افغانستان آرمی ہمارے جانے کا انتظار بھی نہیں کر سکی ۔ ہمارے افغانستان سے نکلتے ہی افغان فوجیوں نے اپنے جعلی آرمی یونیفارم کو (جو ہم نے انہیں دیے تھے ) زمین پر پھینک دیا اور ان پر تھوک دیا، اور سڑکوں پر طالبان کے ساتھ جشن میں شامل ہو گئے ۔ طالبان نے ان میں سے ایک پر بھی گولی نہیں چلائی۔ ہاں البتہ، افغان مترجمین اور دیگر جنہوں نے 20 سال تک دشمن (یعنی امریکا) کے ساتھ گٹھ جوڑ کیا ، ان کی شامت آ سکتی ہے ۔ (بالکل ایسے جیسے اگر روس امریکی ریاست الاسکا پر حملہ کر دے اور الاسکا کے کچھ لوگوں نے ان روسیوں کے ساتھ تعاون کیا ہو تو ان روسیوں کے جانے کے بعد کچھ امریکی شاید ایسے لوگوں سے انتقام چاہتے ہوں)۔ آپ سمجھ گئے ، آپ سمجھ رہے ہیں ناں؟
ٹی وی پر پنڈت چیخے :ہم نے اپنے افغان مددگاروں کو چھوڑ دیا ہے ! کوئی بھی دوبارہ ہم پر اعتماد نہیں کرے گا! کوئی بھی ہم پر یقین نہیں کرے گا! ہمارے الفاظ کی کوئی قدر نہیں رہی ‘‘ !!
جی بالکل! درست! جی ہاں ! ہم پر کبھی یقین نہیں کیا جانا چاہیے ! دنیا نوٹ کر لے :
٭اگر آپ ہمیں اپنی طرف آتا دیکھیں تو (خوش آمدید کہنے کی بجائے ) ہم سے دور بھاگ جائیں، کیونکہ ہم سے آپ کو سوائے سانحات کے کچھ نہیں ملے گا۔ اس لیے (ہمارے آنے پر) ہماری مدد کرنے کا نہ سوچیں۔
٭اگر ہم عالمی ماحولیات کے معاہدے پر دستخط کرتے ہیں تو ہم اس پر عمل نہیں کریں گے !
٭اگر ہم آپ کے ملاؤں کے ساتھ ایٹمی معاہدے پر دستخط کرتے ہیں تو اس پر یقین نہ کریں۔کیونکہ اصل میں اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ ہم آپ پر بمباری کے لیے تیار ہو رہے ہیں۔
اور آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ جب ہم امریکی عوام، پر ایک بھی صبح ایسی نہیں ہوتی جب ہم کبھی آپ کے بارے میں ذرا بھی سوچتے یا پروا کرتے ہوں کہ آیا آپ کے 80 فیصد لوگ استحصال اور غربت کی حالت میں رہتے ہیں یا نہیں ۔ ہم (امریکی) صرف اپنے بارے میں سوچتے ہیں:ہم۔۔۔۔ اور صرف ہم۔۔۔ اور یہ سوچتے ہیں کہ آپ لوگ ہمارے لیے کیا کر سکتے ہیں۔۔۔ ہماری امریکی طرزِ زندگی کی خاطر کیسے استعمال (اور قربان) ہو سکتے ہیں۔ اس لیے آپ (غیرامریکیوں) کو یقینی بنانا ہو گا کہ ہم ما بدولت کے ہیلی کاپٹروں کی تشریف آوری کے لیے آپ کی کوئی نہ کوئی چھت ضرور موجود ہو، اور وہی ہیلی کاپٹرز جس پر ہم بعد میں دھوکا دے کر فرار ہو سکیں۔
امریکا میں ہمیشہ ہزیمت کا وقت ہی ہوا چاہتا ہے ۔ (طنزیہ فقرہ)
چلتے چلتے ایک بات اور:ہماری فوج اور افغان شہری کسی دن ہمیں معاف کر دیں۔ ان تمام خاندانوں کے لیے بہت تعزیت اور پیار جنہوں نے اس مکروہ افسوسناک جنگ میں اپنے پیاروں کو کھویا۔ میں صرف تصور کرسکتا ہوں کہ آپ سب نے اس ہفتے کیسا محسوس کیا ہوگا۔ ہمارے انیس عدد امریکی سابق فوجی روزانہ خودکشی کر لیتے ہیں۔ براہ کرم ، ہمیں مت چھوڑیں۔ میں/ہم آپ کو نہیں چھوڑیں گے ۔
٭٭٭٭٭٭٭