... loading ...
(مہمان کالم)
پریا پارکر
ایپل کے چیف ایگزیکٹو ٹم کک نے جون میں اپنے سٹاف کو ای میل میں لکھا ’’وڈیو کانفرنس کالنگز نے ہمارے درمیان فاصلوں کو کم کر دیا ہے مگر ایسی کئی باتیں ہیں جن کی نقالی کرنا ممکن نہیں ہے‘‘۔ پھر انہوں نے ایک منصوبے کا اعلان کیا جس کے مطابق خزاں میںاسٹاف کو ہفتے میں تین دن آفس آنا پڑے گا۔ دو دن بعد ایپل کے 80 ملازمین نے مسٹر کک کے نام ایک خط لکھا جس میں کہا گیا تھا کہ ’’ایسا لگتا ہے کہ ایگزیکٹو ٹیم کی ریموٹ یا فاصلاتی کام کرنے سے متعلق سوچ اور ایپل کے ملازمین کے تجربے میں کافی اختلاف ہے‘‘۔
ایک مدت سے کمپنی نے ڈیلٹا ویری اینٹ کی وجہ سے اپنے رِی اوپننگ پلان کو ملتوی کیے رکھا مگر ایک سوال نے ایپل اور ملک کی کئی دیگر کمپنیوں کوالجھائے رکھا۔ وہ یہ کہ ہمیں کیسے اور کیوں ایک دوسرے سے ملنا چاہئے اور اس کا فیصلہ کون کرے گا؟ ملاقاتوں کا سلسلہ تو کووڈ آنے سے پہلے ہی منقطع ہو چکا تھا۔ ایک آن لائن شیڈولنگ سروس ڈوڈل نے 2019ء میں اپنی رپور ٹ میں لکھا تھا کہ ہر سال کسی ایجنڈے کے بغیر ہونے والی میٹنگز کمپنیوں کو نصف ٹریلین ڈالرز میں پڑتی ہیں۔ ایک کنسلٹنگ فرم کورن فیری نے 2019ء میں ایک سروے منعقد کرایا تھا جس میں 67 فیصد ملازمین کا کہنا تھا کہ ضرورت سے زیادہ میٹنگز انہیں اپنا کام نہیں کرنے دیتیں۔ جب کووڈ پھیلا تو ہم نے یہ محسوس کرنا شروع کیا کہ ہم آن لائن کیا کچھ مزید بہتر طریقے سے کر سکتے ہیں (چیٹس کا استعمال، بریک آئوٹ رومز اور پولنگ وغیرہ) کیونکہ ہم جسمانی طور پر ایک دوسرے کے اتنا قریب نہیں ہوتے۔ کئی ملین گھنٹوں تک اپنی ورچول میٹنگز کی بنا پر ہم وہ سوال بھی کر سکتے ہیں جو عموماً جائے ملازمت پر نہیں پوچھے جاتے۔ ہمارے مجموعی ٹائم کی کیا قدر و قیمت ہے اور ہمیں اسے کیسے تقسیم کرنا چاہئے؟
کووڈ شرو ع ہونے سے کافی پہلے میں نے موثر اجتماع کے بارے میں کافی ریسرچ کی تھی۔ میں نے زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے ایک سو سے زائد افراد کے انٹرویوز کیے تھے (ان میں ہاکی کوچز، موسیقار، بورڈ کے چیئرمین اور پارٹی پلانرز شامل تھے) جنہوں نے مسلسل اور معنی خیز گروپ تجربات کا سامنا کیا تھا۔ ان میں کئی باتیں مشترک تھیں۔ یہ گروپ جتنی مرتبہ بھی آپس میں ملا‘ اس نے اپنی مخصوص ضروریات کا اندازہ لگایا۔ وہ افراد یہ جانتے تھے کہ ہم آپس میں کیوں مل رہے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی مفروضہ قائم نہیں کیا کہ ان سب نے مل کر ایک خاص انداز سے معاملات کو دیکھنا ہے۔
1990ء کی دہائی میں میری ایک پسندیدہ مثال یہ تھی کہ بروکلین میں ریڈہک کمیونٹی جسٹس سنٹر میں ججز، وکلا اور کمیونٹی ممبرز کا ایک گروپ اس بات پر غور کرنے کے لیے جمع ہوا کہ ہماری عدالتیں کس طرح کام کرتی ہیں۔ بجائے اس کے کہ پورے ملک کے سول، فیملی اور فوجداری مقدمات کو الگ الگ سماعت کرنے کے‘ اگر ایک ہی جج اپنے علاقے کے تمام کیسز کو سن لے تو کیا ہوگا؟ کیا ہو اگر کوئی جج ملزم کو محض جیل بھیجنے کے بجائے اس کی بیماری کی تشخیص اور طویل مدتی علاج کا تعین بھی کرے۔ کسی عدالت کی کارروائی اس کمیونٹی کے کس علاقے میں ہونی چاہئے؟ کتنا اچھا ہو اگر کونسلنگ، تنازعات کا حل ایک ہی عمارت کی چھت کے نیچے ہو۔ ان سوالات اور ان کے جوابات پر کام کر کے ریڈ ہک سنٹر نے کسی مجرم کے بار بار جرم کے ارتکاب کی عادت اور جیل ٹائم کو کم کر دیا اور عوام کا فوجداری مقدمات کی سماعت پر اعتماد بڑھا دیا ہے۔پروجیکٹ کے موجودہ ڈائریکٹر امینڈا برمین نے مجھے بتایا تھا کہ (ہمارے دماغ میں کوئی مخصوص نقشہ نہیں ہوتا کہ ہم نے کیسے ایک جگہ پر جمع ہونا ہے اور اسے کیسا نظر ا?نے کی ضرور ت ہے) خود جائے ملازمت ہی اپنے ارکان سے زیادہ کھلے دل و دماغ اور دلیری سے سوالات پوچھے گی جیسے ریڈہک گروپ والوں نے کیا تھا۔ اپنے ملازمین کی اقسام اور ان کے کام کاج کی نوعیت کے مطابق ان تنظیموں کو بھی اپنے ملازمین کے لیے مربوط اصولوں کی ضرورت پڑے گی۔ وہ یہ لائن کہاں کھینچیں گے یہ بات مختلف جائے ملا زمت پر مختلف نظر آئے گی۔ مثال کے طور پر کسی سٹ کام رائٹر کے کمرے میں شاید یہ احساس پایا جاتا ہو کہ بہترین لطائف فاصلے پر رہنے والے لوگ ہی لکھ سکتے ہیں۔
آرگنائزیشنز کو اپنے ملازمین کی ضروریات کا لازمی خیال رکھنا چاہئے۔کام کی اپنائیت کے حوالے سے سفید فام اور رنگدار لوگوں کی سوچ میں کافی خلا پایا جاتا ہے۔ فاصلاتی کام جغرافیائی طور پر دور دراز علاقوں اور معذور لوگوں کے لیے ایک طرح سے غلامی ہے۔ حالیہ سٹڈیز سے یہ بھی پتا چلا ہے کہ سفید فام کولیگز کے مقابلے میں سیاہ فام لوگ ریموٹ ملازمت کو زیادہ پسند کرتے ہیں۔ اگر ہم ملازمین سے یہ سوال پوچھیں کہ کیا آپ سب اپنے دفاتر واپس جانا پسند کریں گے تو یہ ایک غلط سوال سمجھا جائے گا۔ اس کے بجائے منیجرز کو یہ پوچھنا چاہئے کہ جب ہم ایک دوسرے سے بالمشافہ ملاقات نہیں کر سکتے تو آپ کے دل میں کیا کیا آروزئیں جنم لیتی ہیں؟ آپ کو کیا کچھ یاد نہیں آیا اور آپ اس سے جان چھڑانا چاہتے ہیں۔ اپنی ضرور ت کے تحت کووڈ کے دوران آپ نے میٹنگز کے لیے کیا کیا جتن کیے جو آپ کے لیے مفید بھی رہے؟ ہم اس وقت کیا تجربہ کر سکتے ہیں؟
ان تجربات کے بارے میں مینجمنٹ اور سٹاف کے درمیان بحث مباحثہ ہونا چاہئے نہ کہ انہیں کوئی مراسلہ بھجوا دیا جائے۔ اس طرح انقلابی قسم کے نئے نئے امکانات پیدا ہوتے ہیں۔ بھلے آپ اپنے ملازمین کو گھر سے ہی کام کرنے کی اجازت دیے رکھیں مگر سال کے دوران چند مرتبہ سٹاف کو بالمشافہ ملنے کا بھی موقع فراہم کریں اور ان ملاقاتوں میں ایک موثر ٹیم برقرار رکھنے کے لیے ان کے باہمی روابط کو مضبوط کرنے پر بھی فوکس قائم کریں۔ شاید ایک ڈراپ بکس کی طرح آپ بھی ’’ورچول فسٹ‘‘ کا راستہ اپنا لیتے مگر جب بالمشافہ تعاون کی اشد ضرورت ہو تو ملازمین کو مقامی سٹوڈیو بک کرانے کی بھی اجازت دے دیں۔ ممکن ہے کہ آپ کو خود ایک ہفتے کے کام کے تجربے سے گزرنا پڑے۔ کک ا سٹارٹرز 2022ء سے ہفتے میں چار دن کام کرنا شروع کریں گے۔ کمپنی کے چیف ایگزیکٹو عزیز حسن نے لکھا کہ ایسا نہیں ہوگا کہ 40 گھنٹے کا کام چار دنوں میں سمٹ جائے گا۔ پھر ہمیں کل 32 گھنٹے کام کرنا ہو گا۔ جب ہم ملازمین کو یہ اجازت دے دیں گے کہ وہ ا?زادانہ طور پر پروجیکٹس لیں اور اپنی فیملیز کے ساتھ اپنا وقت گزاریں تو اپنے کام کے اوقات میں وہ زیادہ پیدا واری بن جائیں گے۔ ہمارے پا س جائے ملازمت پر ایک غیر معمولی تجربہ کرنے کا موقع بھی ہے۔ ایسے لمحات بار بار میسر نہیں ہوتے اور نہ یہ زیادہ دیر تک برقرار رہتے ہیں۔ آئیں! اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے چیزوں کونئے سرے سے کرنا شروع کریں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔