وجود

... loading ...

وجود

دفتری میل ملاقات کا فیصلہ کون کرے گا؟

اتوار 29 اگست 2021 دفتری میل ملاقات کا فیصلہ کون کرے گا؟

(مہمان کالم)
پریا پارکر

ایپل کے چیف ایگزیکٹو ٹم کک نے جون میں اپنے سٹاف کو ای میل میں لکھا ’’وڈیو کانفرنس کالنگز نے ہمارے درمیان فاصلوں کو کم کر دیا ہے مگر ایسی کئی باتیں ہیں جن کی نقالی کرنا ممکن نہیں ہے‘‘۔ پھر انہوں نے ایک منصوبے کا اعلان کیا جس کے مطابق خزاں میںاسٹاف کو ہفتے میں تین دن آفس آنا پڑے گا۔ دو دن بعد ایپل کے 80 ملازمین نے مسٹر کک کے نام ایک خط لکھا جس میں کہا گیا تھا کہ ’’ایسا لگتا ہے کہ ایگزیکٹو ٹیم کی ریموٹ یا فاصلاتی کام کرنے سے متعلق سوچ اور ایپل کے ملازمین کے تجربے میں کافی اختلاف ہے‘‘۔
ایک مدت سے کمپنی نے ڈیلٹا ویری اینٹ کی وجہ سے اپنے رِی اوپننگ پلان کو ملتوی کیے رکھا مگر ایک سوال نے ایپل اور ملک کی کئی دیگر کمپنیوں کوالجھائے رکھا۔ وہ یہ کہ ہمیں کیسے اور کیوں ایک دوسرے سے ملنا چاہئے اور اس کا فیصلہ کون کرے گا؟ ملاقاتوں کا سلسلہ تو کووڈ آنے سے پہلے ہی منقطع ہو چکا تھا۔ ایک آن لائن شیڈولنگ سروس ڈوڈل نے 2019ء میں اپنی رپور ٹ میں لکھا تھا کہ ہر سال کسی ایجنڈے کے بغیر ہونے والی میٹنگز کمپنیوں کو نصف ٹریلین ڈالرز میں پڑتی ہیں۔ ایک کنسلٹنگ فرم کورن فیری نے 2019ء میں ایک سروے منعقد کرایا تھا جس میں 67 فیصد ملازمین کا کہنا تھا کہ ضرورت سے زیادہ میٹنگز انہیں اپنا کام نہیں کرنے دیتیں۔ جب کووڈ پھیلا تو ہم نے یہ محسوس کرنا شروع کیا کہ ہم آن لائن کیا کچھ مزید بہتر طریقے سے کر سکتے ہیں (چیٹس کا استعمال، بریک آئوٹ رومز اور پولنگ وغیرہ) کیونکہ ہم جسمانی طور پر ایک دوسرے کے اتنا قریب نہیں ہوتے۔ کئی ملین گھنٹوں تک اپنی ورچول میٹنگز کی بنا پر ہم وہ سوال بھی کر سکتے ہیں جو عموماً جائے ملازمت پر نہیں پوچھے جاتے۔ ہمارے مجموعی ٹائم کی کیا قدر و قیمت ہے اور ہمیں اسے کیسے تقسیم کرنا چاہئے؟
کووڈ شرو ع ہونے سے کافی پہلے میں نے موثر اجتماع کے بارے میں کافی ریسرچ کی تھی۔ میں نے زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے ایک سو سے زائد افراد کے انٹرویوز کیے تھے (ان میں ہاکی کوچز، موسیقار، بورڈ کے چیئرمین اور پارٹی پلانرز شامل تھے) جنہوں نے مسلسل اور معنی خیز گروپ تجربات کا سامنا کیا تھا۔ ان میں کئی باتیں مشترک تھیں۔ یہ گروپ جتنی مرتبہ بھی آپس میں ملا‘ اس نے اپنی مخصوص ضروریات کا اندازہ لگایا۔ وہ افراد یہ جانتے تھے کہ ہم آپس میں کیوں مل رہے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی مفروضہ قائم نہیں کیا کہ ان سب نے مل کر ایک خاص انداز سے معاملات کو دیکھنا ہے۔
1990ء کی دہائی میں میری ایک پسندیدہ مثال یہ تھی کہ بروکلین میں ریڈہک کمیونٹی جسٹس سنٹر میں ججز، وکلا اور کمیونٹی ممبرز کا ایک گروپ اس بات پر غور کرنے کے لیے جمع ہوا کہ ہماری عدالتیں کس طرح کام کرتی ہیں۔ بجائے اس کے کہ پورے ملک کے سول، فیملی اور فوجداری مقدمات کو الگ الگ سماعت کرنے کے‘ اگر ایک ہی جج اپنے علاقے کے تمام کیسز کو سن لے تو کیا ہوگا؟ کیا ہو اگر کوئی جج ملزم کو محض جیل بھیجنے کے بجائے اس کی بیماری کی تشخیص اور طویل مدتی علاج کا تعین بھی کرے۔ کسی عدالت کی کارروائی اس کمیونٹی کے کس علاقے میں ہونی چاہئے؟ کتنا اچھا ہو اگر کونسلنگ، تنازعات کا حل ایک ہی عمارت کی چھت کے نیچے ہو۔ ان سوالات اور ان کے جوابات پر کام کر کے ریڈ ہک سنٹر نے کسی مجرم کے بار بار جرم کے ارتکاب کی عادت اور جیل ٹائم کو کم کر دیا اور عوام کا فوجداری مقدمات کی سماعت پر اعتماد بڑھا دیا ہے۔پروجیکٹ کے موجودہ ڈائریکٹر امینڈا برمین نے مجھے بتایا تھا کہ (ہمارے دماغ میں کوئی مخصوص نقشہ نہیں ہوتا کہ ہم نے کیسے ایک جگہ پر جمع ہونا ہے اور اسے کیسا نظر ا?نے کی ضرور ت ہے) خود جائے ملازمت ہی اپنے ارکان سے زیادہ کھلے دل و دماغ اور دلیری سے سوالات پوچھے گی جیسے ریڈہک گروپ والوں نے کیا تھا۔ اپنے ملازمین کی اقسام اور ان کے کام کاج کی نوعیت کے مطابق ان تنظیموں کو بھی اپنے ملازمین کے لیے مربوط اصولوں کی ضرورت پڑے گی۔ وہ یہ لائن کہاں کھینچیں گے یہ بات مختلف جائے ملا زمت پر مختلف نظر آئے گی۔ مثال کے طور پر کسی سٹ کام رائٹر کے کمرے میں شاید یہ احساس پایا جاتا ہو کہ بہترین لطائف فاصلے پر رہنے والے لوگ ہی لکھ سکتے ہیں۔
آرگنائزیشنز کو اپنے ملازمین کی ضروریات کا لازمی خیال رکھنا چاہئے۔کام کی اپنائیت کے حوالے سے سفید فام اور رنگدار لوگوں کی سوچ میں کافی خلا پایا جاتا ہے۔ فاصلاتی کام جغرافیائی طور پر دور دراز علاقوں اور معذور لوگوں کے لیے ایک طرح سے غلامی ہے۔ حالیہ سٹڈیز سے یہ بھی پتا چلا ہے کہ سفید فام کولیگز کے مقابلے میں سیاہ فام لوگ ریموٹ ملازمت کو زیادہ پسند کرتے ہیں۔ اگر ہم ملازمین سے یہ سوال پوچھیں کہ کیا آپ سب اپنے دفاتر واپس جانا پسند کریں گے تو یہ ایک غلط سوال سمجھا جائے گا۔ اس کے بجائے منیجرز کو یہ پوچھنا چاہئے کہ جب ہم ایک دوسرے سے بالمشافہ ملاقات نہیں کر سکتے تو آپ کے دل میں کیا کیا آروزئیں جنم لیتی ہیں؟ آپ کو کیا کچھ یاد نہیں آیا اور آپ اس سے جان چھڑانا چاہتے ہیں۔ اپنی ضرور ت کے تحت کووڈ کے دوران آپ نے میٹنگز کے لیے کیا کیا جتن کیے جو آپ کے لیے مفید بھی رہے؟ ہم اس وقت کیا تجربہ کر سکتے ہیں؟
ان تجربات کے بارے میں مینجمنٹ اور سٹاف کے درمیان بحث مباحثہ ہونا چاہئے نہ کہ انہیں کوئی مراسلہ بھجوا دیا جائے۔ اس طرح انقلابی قسم کے نئے نئے امکانات پیدا ہوتے ہیں۔ بھلے آپ اپنے ملازمین کو گھر سے ہی کام کرنے کی اجازت دیے رکھیں مگر سال کے دوران چند مرتبہ سٹاف کو بالمشافہ ملنے کا بھی موقع فراہم کریں اور ان ملاقاتوں میں ایک موثر ٹیم برقرار رکھنے کے لیے ان کے باہمی روابط کو مضبوط کرنے پر بھی فوکس قائم کریں۔ شاید ایک ڈراپ بکس کی طرح آپ بھی ’’ورچول فسٹ‘‘ کا راستہ اپنا لیتے مگر جب بالمشافہ تعاون کی اشد ضرورت ہو تو ملازمین کو مقامی سٹوڈیو بک کرانے کی بھی اجازت دے دیں۔ ممکن ہے کہ آپ کو خود ایک ہفتے کے کام کے تجربے سے گزرنا پڑے۔ کک ا سٹارٹرز 2022ء سے ہفتے میں چار دن کام کرنا شروع کریں گے۔ کمپنی کے چیف ایگزیکٹو عزیز حسن نے لکھا کہ ایسا نہیں ہوگا کہ 40 گھنٹے کا کام چار دنوں میں سمٹ جائے گا۔ پھر ہمیں کل 32 گھنٹے کام کرنا ہو گا۔ جب ہم ملازمین کو یہ اجازت دے دیں گے کہ وہ ا?زادانہ طور پر پروجیکٹس لیں اور اپنی فیملیز کے ساتھ اپنا وقت گزاریں تو اپنے کام کے اوقات میں وہ زیادہ پیدا واری بن جائیں گے۔ ہمارے پا س جائے ملازمت پر ایک غیر معمولی تجربہ کرنے کا موقع بھی ہے۔ ایسے لمحات بار بار میسر نہیں ہوتے اور نہ یہ زیادہ دیر تک برقرار رہتے ہیں۔ آئیں! اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے چیزوں کونئے سرے سے کرنا شروع کریں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج وجود جمعرات 21 نومبر 2024
پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج

آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش وجود جمعرات 21 نومبر 2024
آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر