... loading ...
دوستو،کہتے ہیں کہ پاکستان کا سب سے مہنگا شہر اسلام آباد ہے جب کہ سب سے غریب پرور شہر کراچی کو کہاجاتا ہے۔۔ہمارے دوست پپو نے ملک بھر کی سیر کی ہے،تمام بڑے شہروں میں آوارہ گردی کی ہے ان کا بھی یہی کہنا ہے کہ کراچی سے اچھا کوئی شہر نہیں، کراچی میں ایسا کیا ہے کہ اسے غریب پرور شہر کہاجاتا ہے؟
کراچی، دلی کی طرح کئی بار اجڑا، اور بدستور اجاڑا جا رہا ہے۔ گو کہ کراچی کو بجا طور پر منی پاکستان کہا اور سمجھا جاتا ہے۔ لیکن یہ منی پاکستان اس قدر لاوارث ہے کہ اس کا کوئی پرسان حال نہیں۔ کراچی کے قدیم باشندوں کی باتیں سنو تو دل میں ایک ہوک سی اٹھتی ہے کہ ہمارا شہر تو پاکستان کے ابتدائی برسوں ہی سے کمائوپوت رہا ہے، قومی آمدنی میں سب سے زیادہ پیسہ کراچی سے آتا ہے، بقول معاشی تجزیہ کاروں کے کہ، کراچی چلتا ہے تو پاکستان پلتا ہے۔۔اس شہر کی مردم شماری ہی ایمانداری سے نہیں کی گئی تو وسائل کی منصفانہ تقسیم کس طرح ممکن ہے۔ہمارا دعویٰ ہے کہ کراچی کی آبادی تین کروڑ سے کم نہیں، لیکن 2017کی آخری مردم شماری میں کراچی کی آبادی صرف 14.97ملین یعنی ڈیڑھ کروڑ کے قریب ظاہر کی گئی ہے۔ اب ظاہر ہے وفاق سے کراچی کو جو حصہ ملتا ہے وہ ڈیڑھ کروڑ لوگوں کے لیے ہی ہوتا ہے، جسے تین کروڑ لوگ استعمال کرتے ہیں۔ یعنی پانچ افراد اگر ایک وقت کے کھانے میں دس روٹیاں کھاتے ہیں، لیکن روٹیاں صرف پانچ ملیں گی تو ایک فرد کے حصے میں ایک روٹی آئے گی۔ سب ہی بھوکے رہیں گے اور مسائل پیدا ہوں گے۔ اسی لیے کراچی کے شہریوں کو بجلی پوری ملتی ہے، نہ پانی اور نہ گیس۔یہاں کے شہری پینے کا پینے خریدتے ہیں، ویسے ہی جیسے دودھ خریدتے ہیں، سارا سارا دن باہر جان مار کر گھر کو لوٹنے والے طویل راستوں سے ہو کر گزرتے ہیں تو یونہی ان کا سفر اتنا طے ہوجاتا ہے جتنا عموماً ایک سے دوسرے شہر تک کے لیے کوئی کرے۔
یہ وہ شہر ہے جہاں پورے ملک سے لوگ روزگار کی تلاش میں آتے ہیں اور کہنے والے کہتے ہیں اس غریب پرور شہر میں کوئی بھوکا نہیں سوتا، یہاں کی ہوا مہربان ہے اور یہاں کے مکین کشادہ دل۔ملک میں بڑے خیراتی اداروں کی ابتدا کراچی سے ہوئی۔مولانا ایدھی نے کراچی سے ہی دنیا کی سب سے بڑی ایمبولینس سروس کا آغاز کیا،پھر رمضان چھیپا میدان میں آئے، شہر میں کوئی حادثہ یا واقعہ ہوجائے، دس ایمبولینس موقع پر موجود ہوتی ہیں۔ سیلانی سمیت کئی مخیر اداروں کے دسترخوان روزانہ لاکھوں غریبوں کا پیٹ بھرتے ہیں، تین ٹائم کا کھانا بلاجھجک ان دسترخوانوں پر بغیر کسی روک ٹوک مل جاتا ہے۔رمضان المبارک میں مجال ہے کسی کا روزہ مکروہ ہوجائے، سڑکوں،چوراہوں پر دنیا بھر کی چیزیں افطار میں دستیاب ہوتی ہیںاور نوجوان لڑکے زبردستی افطار کی دعوت دے کر روکتے ہیں۔۔
کراچی میں کوئی سرکاری ٹرانسپورٹ سسٹم نہیں،جو بسیں،وین یا کوچز چلتی ہیں سب نجی بنیادوں پر۔۔اسی لیے ماضی میں جب بھی کوئی تنظیم ہڑتال کا اعلان کرتی ہے تو سب سے پہلے ٹرانسپورٹرز کو دھمکایاجاتا ہے کہ گاڑیاں سڑکوں پر نکالنے کی کوئی ضرورت نہیں۔۔اعلیٰ عدلیہ نے چنگ چی چلانے کی اجازت بھی دے دی ہے، جس سے جہاں بہت سے لوگوں کو شکایت ہے وہیں یہ سواری اکثریت کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں۔ چنگ چی کے حوالے سے ایک واقعہ بھی سن لیجئے۔۔چنگ چی ایسی سواری ہے جس میں آگے موٹرسائیکل لگی ہوتی ہے پیچھے کیبن نما ڈھانچے میں چھ افراد کے بیٹھنے کی گنجائش ہوتی ہے، چنگ چی کا ڈرائیور ساتویں سواری کو اپنے پیچھے بٹھالیتا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ نوٹ کماسکے۔۔چنگ چی والے گاڑی کو بھگاتے بھی ’’نائٹ رائیڈر‘‘ کی کار کی طرح ہوتے ہیں۔۔اندھادھند تیزرفتاری میں جب وہ کسی کھڈے میں چنگ چی کو مارتے ہیں تو پیچھے بیٹھی سواریوں کی چیخیں نکل جاتی ہیں، اور کبھی غلطی سے اچانک ڈرائیور بریک ماردے تو پھر ڈرائیور کی ’’چیخ ‘‘ نکل جاتی ہے۔۔کیونکہ ساتویں سواری بالکل اس سے جڑ کے جو بیٹھی ہوتی ہے۔۔
بات ہورہی تھی کراچی کی، یہاں کی لڑکیوں کی بھی اپنی ادائیں اور اپنی وفائیں ہیں۔۔ہر علاقے کی لڑکی کا اپنا الگ لائف اسٹائل ہے، کورنگی، لانڈھی، ملیر، شاہ فیصل کالونی، بلدیہ، نیوکراچی کی لڑکیوں کے بولنے کے انداز سے پتہ لگ جاتا ہے کہ ان کا تعلق کسی مضافاتی علاقے سے ہے، ڈیفنس، کلفٹن، گلشن اقبال وغیرہ کی لڑکیوں کے ہرجملے میں انگریزی کا اتنی کثرت سے استعمال ہوتا ہے کہ اگر اتنی کثرت سے وہ عربی کا استعمال کرلیں تو یقینی طور پر جنت ان پر واجب ہوجائے۔مضافاقی علاقے کی لڑکی ہو یا کسی پوش علاقے کی۔۔محبت تو سب ہی کرتی ہیں۔۔مضافاتی لڑکیوں کی اپنے بوائے فرینڈز سے فرمائشیں بھی بالکل منفرد ہوتی ہیں۔۔ ایک لڑکی نے اپنے بوائے فرینڈ سے کہا۔۔ جانو میکڈونلڈز پر لنچ کرادو ناں۔۔ لڑکے نے کہا ،تم میکڈونلڈز کی اسپیلنگ بتادو تو لنچ پکا بلکہ گھروالوں کے لیے پارسل بھی کرادوں گا۔۔لڑکی تھوڑی سے گھبرائی پھر کہنے لگی ، چلو کے ایف سی پر ہی کچھ کھلادو۔۔لڑکے نے کہا، اگر تم یہ بتادو کہ کے ایف سی کس کا مخفف ہے تو جو بولوگی وہ کھلاؤں گا۔۔ لڑکی تھوڑی مزید پریشان ہوئی، کہنے لگی۔۔چلو پھر اسٹوڈنٹ کی بریانی ہی کھلادو۔۔لڑکے نے کہا، اسٹوڈنٹ کا مطلب بتادو تو جتنی مرضی بریانی کھانا گھر والوں کے لیے بھی لے آنا۔۔لڑکی کے چہرے سے ہوائیاں اڑنے لگیں۔۔بولی۔۔مزیدار حلیم ہی کھلادو برنس روڈ سے ۔۔ تو لڑکا بولا۔۔اگر برنس روڈ بالکل ٹھیک ٹھیک لکھوگی تو حلیم لازمی کھلاؤں گا۔۔لڑکی تنگ آکر بولی۔۔چل رہنے دے،پھر گٹکا ہی کھلادے جیب سے نکال کر۔۔لڑکا خوش ہوکر بولا۔۔جانو ایک ہی ہے آدھا آدھا کھالیتے ہیں۔یہ بات بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ کراچی کی لڑکیوں میں منشیات کا استعمال تیزی سے بڑھنے لگا ہے، سگریٹ نوشی، شیشہ پینا، پان، گٹکا، ماوا، مین پوری سے یہ لوگ پوری طرح لطف اندوز ہونے لگی ہیں۔۔ کچھ تو چرس اور ہیروئین کی بھی عادی ہوچکی ہیں۔۔ یعنی جس کے پاس جیسا مال اس کا نشہ بھی کرے ویسا ہی دھمال۔۔پوش علاقے کی لڑکیوں مضافاتی لڑکیوں سے کچھ زیادہ ہی تیزطرار ہوتی ہیں، جس کی وجہ تعلیم کا نظام ہے، پوش علاقوںمیں چونکہ مہنگے انگریزی تعلیمی ادارے ہوتے ہیں جہاں پڑھائی زیادہ اچھے انداز میں ہوتی ہے اسی لیے وہ کچھ زیادہ ذہین ہوتی ہیں، جب کہ مضافاتی علاقوں میں نام نہاد انگریزی اسکولوں کا یہ حال ہوتا ہے کہ کوئی لڑکی اگر وہاں سے میٹرک کرلے تو پھر اگلے ہی سال وہ اسی اسکول میں میٹرک کے طلبا کی ٹیچر ہوتی ہے۔ پوش علاقوں کے انگریزی اسکولوں کی ٹیچرز کی کم سے تنخواہ دس ہزار ہوتی ہے جب کہ مضافاتی اسکولوں کی ٹیچرزکی کم سے کم تنخواہ ایک ہزار روپے ہوتی ہے، اس سے نظام تعلیم کے بنیادی ’’فرق‘‘ کا بخوبی اندازہ لگایاجاسکتا ہے۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔بددیانت لوگوں سے کبھی وفا کی اُمید مت رکھو۔۔یہ صرف کراچی والوں کے لیے ہے، سوچنا ضرور۔۔ خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔