... loading ...
(مہمان کالم)
ڈیوڈ سینگر
امریکی صدر جو بائیڈن کے اعلیٰ مشیر بھی اب یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ وہ طالبان کے زوردار حملے کی منصوبہ بندی کے سامنے افغان فوج کی شکست، ہزیمت اور پسپائی کو دیکھ کر حیران ہیں۔ ا?ج طالبان کابل کے صدارتی محل میں براجمان ہیں۔ گزشتہ بیس سال کو دیکھیں تو ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہئے تھا۔گزشتہ بیس سال سے افغانستان کے بارے میں اگر کوئی خوش فہمی تھی تو وہ یہ کہ امریکا نے افغان فوج پر 83 بلین ڈالرز خرچ کرکے اسے جدید ترین ٹریننگ اور اسلحے سے اس قدر لیس کر دیا ہے کہ اب طالبان اس کی قوت کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے۔ پینٹاگون صدر جو بائیڈن کے امریکی صدر بننے سے بھی پہلے یہ وارننگ جاری کر چکا تھا کہ طالبان میں اتنی قوت ہے کہ وہ افغان فوج کو روند ڈالیں گے مگر انٹیلی جنس رپورٹس‘ جو ساری اب غلط ثابت ہو چکی ہیں‘ میں یہ کہا جاتا تھا کہ طالبان کو افغانستان پر قبضے میں چند ہفتے نہیں کم از کم 18مہینے لگ سکتے ہیں۔
امریکی کمانڈرز یہ بات اچھی طرح جانتے تھے کہ افغان فوج میں ایسی خامیاں موجود ہیں جن کے تدارک کی طرف کبھی دھیان ہی نہیں دیا گیا، اس میں وسیع پیمانے پر کرپشن پائی جاتی ہے، کئی کئی مہینوں تک فوج اور پولیس کے اہلکاروں کو تنخواہیں نہیں دی جاتیں، حاضر سروس فوجی ڈیوٹی سے بھاگ جاتے ہیں، پانی اور خوراک تو چھوڑیں‘ انہیں اسلحہ دیے بغیر محاذِ جنگ پر بھیج دیا جاتا ہے۔ طالبان کے مقابلے پر جانے والی افغان فوج کو کئی دنوں سے بار بار شکست کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ گزشتہ دنوں پہلے وہ ملک کے سب سے بڑے تجارتی مرکز مزار شریف اور اس سے اگلے روز جلال آباد چھوڑ کر بھاگ کھڑی ہوئیں۔
صدر جو بائیڈن کہتے ہیں کہ افغانستان میں پائی جانے والی اس مسلسل صورت حال سے ہماری اس بات کو تقویت مل رہی ہے کہ امریکی حکومت اب افغان حکومت اور فوج کو مستقل سہارا نہیں دے سکتی۔ موسم بہار میں اوول آفس میں ہونے والی ایک میٹنگ میں صدر جوبائیڈن نے اپنے وزیروں اور مشیروں کو بتایا کہ ہم افغانستان میں ایک سال رہیں یا پانچ سال‘ اس سے وہاں کی صورتحال پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔آخری بات یہ کہ افغان فوج کو اپنے اوپر اعتما دہی نہیں تھا، اس لیے امریکا یا صدر بائیڈن کی کوششوں سے امریکی تاریخ کی اس طویل ترین جنگ کو ختم کرنے کے لائحہ عمل پر کوئی اثر نہیں پڑنا تھا۔ برطانیہ نے انیسویں صدی میں جتنا عرصہ افغانستان میں اپنی فوج رکھی‘ امریکا نے اس سے کہیں زیادہ اور سوویت یونین کے مقابلے میں دوگنا عرصے تک اپنی فوج وہاں رکھی مگر اس سے نتائج پر کوئی فرق نہیں پڑا۔
امریکا کے حالیہ چار صدور میں سے صدر جو بائیڈن کو افغانستان میں سب سے مشکل چوائس کا سامنا کرنا پڑا مگر وہ وہاں سے نکلنے والے پہلے صدر بن گئے ہیں۔ ’افغانستان سے انخلا کے فیصلے اور وہاں سے کیسے نکلنا ہے‘ کے موضوع پر ان کے صدر بنتے ہی بحث شروع ہو گئی تھی۔ ڈگلس لیوٹ‘ جو ایک ریٹائرڈ جنرل ہیں، وہ صدر جارج ڈبلیو بش اور صدر بارک اوباما کے دور میں نیشنل سکیورٹی کونسل میں افغان سٹریٹیجی کے سربراہ رہ چکے ہیں‘ کا کہنا ہے ’’صدر ٹرمپ کے دور میں ہم افغانستان سے مکمل انخلا سے صرف ایک ٹویٹ دور ہوتے تھے۔ صدر بائیڈن کے دور میں ہر وہ شخص‘ جو ان سے واقف تھا یا جو یہ دیکھ چکا تھا کہ کس طرح وہ دس سال پہلے بھی امریکی فوج میں کمی کرنے پر زور دیتے تھے‘ یہ بات بخوبی جانتا تھا کہ وہ افغانستان کی لڑائی میں برسرپیکار امریکی فوج کو نکالنے کے لیے پْرعزم تھے مگر دوسری طرف پینٹاگون اپنے بیانیے پر یقین رکھتا تھا کہ ابھی ہمیں وہاں رہنا چاہئے۔ میری پریشانی یہ تھی کہ اس حوالے سے کسی قسم کی ہنگامی پلاننگ موجود ہی نہیں تھی۔ اگر ہر کوئی جانتا تھا کہ ہم جلد افغانستان سے نکلنے والے ہیں تو ہم نے پچھلے دو سال میں ایسا کوئی پلان کیوں نہیں بنایا کہ اس فیصلے پر عمل کیسے درآمد کرانا ہے‘‘۔
جس دن نیوز چینلز نے پینسلوینیا کے لوگوں سے کہنا شروع کیا تھا کہ وہ 7 نومبر کو اس آرمی کے چیف کمانڈرکے طور پر جو بائیڈن کا انتخاب کریں جو 14 لاکھ فوجیوں پر مشتمل ہے تو پینٹاگون کے عہدیدار جانتے تھے کہ افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلا کا عمل روکنے کے لیے صدر بائیڈن کو قائل کرنے کے لیے انہیں سرتوڑ کوشش کرنا پڑے گی۔ وزارتِ دفاع کے حکام بھی جو بائیڈن کے پیشرو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو افغانستان سے امریکی فوج کو نکالنے سے باز رہنے پر زور دیتے رہے تھے جبکہ وہ یہ عمل بڑی تیز رفتاری سے مکمل کرنا چاہتے تھے۔ گزشتہ سال انہوں نے ایک ٹویٹر پیغام میں یہ اعلان کیا تھا کہ اگلے کرسمس تک تمام امریکی فوجی وطن واپس آچکے ہوں گے۔
وزارتِ دفاع کے عہدیداروں نے عوامی سطح پر تو صدر ٹرمپ کے اس عمل کی حمایت کی تھی جب انہوں نے گزشتہ سال فروری میں طالبان کے ساتھ ایک امن معاہدے پر دستخط کیے تھے جس کے مطابق اس سال مئی تک افغانستان سے تمام امریکی افوا ج کا انخلا مکمل کیا جانا تھا؛ تاہم یہ حکام چاہتے تھے کہ نئے صدر جو بائیڈن مذاکرات کو طوالت دے کر اس انخلا کو التوا میں ڈالنے کی کوشش کریں۔ جب نومبر کے الیکشن میں کامیابی کے بعد صدر جو بائیڈن نے امریکا کے صدر کا منصب سنبھالا تو وزارتِ دفاع کے اعلیٰ حکام نے لابنگ کی ایک مہم شروع کر دی تاکہ صدر جو بائیڈن کو اس بات پر قائل کیا جائے کہ انسدادِ دہشت گردی کی ایک چھوٹی سی فورس کو اگلے چند سال تک مزید افغانستان میں رکھنا امریکا کے مفاد میں ہے۔
انہوں نے صدر بائیڈن کو یہ بات سمجھانے کی بھی کوشش کی کہ گزشتہ بیس سال کے دوران کسی بھی صدر کے مقابلے میں صدر ٹرمپ کے دور میں افغان طالبان پہلے کے مقابلے میں زیادہ مضبوط ہوئے ہیں اور انہیں انٹیلی جنس ایجنسیوں کی اس پیش گوئی اور اندازے سے بھی آگاہ کیا جس میں یہ کہا گیا تھا کہ اگلے دو سے تین سال کے اندر اندر القاعدہ ایک بار پھر افغانستان میں اپنے پائوں مضبوطی کے ساتھ گاڑ سکتی ہے۔
کانگرس کے منظور کردہ فور ا سٹار میرین جنرل جوزف ڈن فورڈ نے 3 جنوری کو یہ سفارش کی تھی کہ صدر بائیڈن کو یکم مئی تک افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کا فیصلہ فی الحال ملتوی کر دینا چاہئے اور سکیورٹی کی صورتِ حال بہتر ہونے کی صورت میں ہی وہاں سے اپنی فوج کو واپس بلانا چاہئے۔ پینل کی اس رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ٹائم لائن کی پابندی کرتے ہوئے فوج کو بلانے کے بجائے صرف اسی صورت میں اسے واپس بلایا جائے اگر طالبان امن معاہدے کی مکمل پاسداری کریں‘ ورنہ اتحادی فوج کی واپسی کی صورت میں وہاں خانہ جنگی کا خطرہ بہت بڑھ جائے گا۔ جن دنوں صدر جو بائیڈن سینیٹ فارن ریلیشن کمیٹی میں تھے‘ تو وہ غیر ممالک کی تعمیر و ترقی کی امریکی کوششوں کے سخت ناقد تھے اور کہتے تھے کہ کابل پر حملہ ہونے کی صورت میں چند سو امریکی فوجی کیا کر سکتے ہیں؟ ان کے مشیر بتاتے ہیں کہ ان کے خیال میں امریکا کی تادیر موجودگی سے افغان حکومت کا امریکا پر انحصار بہت بڑھ جائے گا اور وہ خود اپنی ذمہ داریاں نبھانے سے کترائے گی۔ جو بائیڈن نے اپنے وزیر خارجہ انٹونی بلنکن اور قومی سلامتی کے مشیر سمیت اپنے قریبی رفقا کو بتا رکھا تھا کہ امریکا کچھ بھی کر لے‘ افغانستان میں نئی خانہ جنگی ناگزیر ہے جسے امریکا کسی صور ت نہیں روک سکتا۔ مارچ میں پینٹاگون کے حکام نے بتایا کہ انہیں احساس ہو گیا ہے کہ صدر جو بائیڈن کے ساتھ معاملات میں کوئی پیش رفت نہیں ہو سکتی۔ اگرچہ انہوں نے ہمارا موقف سنا اور بڑے اہم سوالات بھی کرتے رہے مگر ان کا کہنا تھا کہ وہ افغانستان سے انخلا کا ذہن بنا چکے ہیں۔ مارچ میں جنرل ملی اور مسٹر آسٹن نے صدر بائیڈن کو ان سنگین نتائج کی پیشگی اطلاع دیتے ہوئے آخری کوشش کی جو افغان طالبان کی جارحانہ پیش قدمی کے خلاف افغان فوج کی ناقص کارکردگی کی صورت میں برآمد ہوں گے۔
6 اپریل کو صدر جو بائیڈن نے جنرل ملی اور مسٹر آسٹن کو بتایا کہ وہ چاہتے ہیں کہ 11 ستمبر تک تمام امریکی فوج افغانستان سے وطن واپس آجائے۔ انٹیلی جنس اداروں نے اپنی بریفنگ میں جو بائیڈن کو یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ اگر افغانستان میں کوئی خونریز جنگ شروع ہوئی تو امریکی فوج کے انخلا کے فیصلے کو ملتوی کر دیا جائے گا۔ جون کے آخر تک انٹیلی جنس اداروں کا خیال تھا کہ اگر طالبان نے اسی رفتار سے اپنی پیش قدمی جاری رکھی تو انہیں کابل پہنچنے تک کم از کم ڈیڑھ سال کا عرصہ لگے گا۔ افغان فوج کو عددی اور فضائی طاقت کی برتری حاصل ہے‘ بشرطیکہ وہ اپنے جنگی جہاز اور ہیلی کاپٹر اڑاتے رہیں۔
اگرچہ پینٹاگون نے اپنے انخلا کا سلسلہ تیز رفتاری سے شروع کر دیا تھا کیونکہ انہیں خوف تھا کہ افغانستان میں کم تعداد میں امریکی فوج اور سروس مین کو رکھنا خطرے سے خالی نہیں ہو گا، خاص طور پر ایک ایسی جنگ کے لیے جسے امریکا نے ہارنے کے خوف سے ترک کر دیا تھا۔ 4 جولائی سے قبل ہی‘ امریکا نے افغانستان میں اپنے تمام آپریشنز ختم کرتے ہوئے بگرام ایئر بیس‘ جو اس جنگ کا مرکزی عسکری مرکز تھی‘ خالی کرکے افغان حکومت کے حوالے کر دی تھی۔
صدر بائیڈن کا کہنا تھا کہ ’’افغان حکومت ایئر فورس کی طاقت کے ساتھ اپنا دفاع خود کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے کیونکہ اس میں ہم بھی ان کا ہاتھ بٹا رہے ہیں‘‘۔ ایک ہفتے بعد انہوں نے پھر اپنی بات کا اعادہ کیا کہ ’’افغان فوج اپنا دفاع خود کرنے کی اہل ہے؛ تاہم سوال یہ ہے کہ کیا وہ ایسا کریں گے؟‘‘۔ اس فیصلے کے ناقدین کے خیال میں صدر جو بائیڈن نے کم تعداد میں امریکی فوج کی موجودگی کی اہمیت کا اندازہ لگانے میں غلطی کی اور امریکی فوج نکالنے کے فیصلے پر عمل کرنے سے مسئلہ سنگین تر ہو گیا۔ جنرل ڈیوڈ پیٹراس‘ جو 2010 ء میں افغانستان میں امریکی فوج کے کمانڈر رہے ہیں اور پھر انہیں سی آئی اے کا ڈائریکٹر بنا دیا گیا تھا‘ کا کہنا ہے ’’ہم نے فوج کو شکست کھانے کے لیے چھوڑ دیا۔ جو بائیڈن کی ٹیم تیز رفتار انخلا میں پنہاں خطرات کا ادراک نہیں کر سکی۔ اس کے تباہ کن نفسیاتی اثرا ت مرتب ہوئے‘‘۔ مگر اس طرح کی تنقید کا جواب دیتے ہوئے جو بائیڈن حکومت کے عہدیدار کہتے ہیں کہ افغان فوج کا طالبان کے ساتھ کوئی موازنہ تھا ہی نہیں‘ کہاں 3 لاکھ فوج اور کہاں 75 ہزار طالبان۔
جمعے کے روز پینٹاگون کے پریس سیکرٹری جان کربی نے کہا ’’انہیں ایک اہل اور قابل ایئر فورس کی سپورٹ تھی جو طالبان کوحاصل نہیں تھی۔ ان کے پاس جدید اسلحہ تھا۔ انہیں ٹریننگ کی برتری میسر تھی جو ہم انہیں گزشتہ بیس سال کے عرصے میں دیتے رہے ہیں‘‘۔ مگر جب جان کربی اس برتری کا ذکر کر رہے تھے تو کسی نے بھی ان میں فرق کا اندازہ نہیں لگایا۔ امیریکن سنٹرل کمانڈ کے سابق کمانڈر ریٹائرڈ جنرل جوزف ووٹل‘ جو 2016ء سے 2019ء تک افغان جنگ کی قیادر کرتے رہے ہیں‘ کا کہنا ہے ’’امریکی فوج کے ساتھ چھوڑ کر چلے جانے اور تیزی سے بدلتے ہوئے حالات کے بارے میں افغان کمانڈرز کے احساس نے افغان فوجیوں کو یہ دیکھنے پر مجبور کر دیا کہ ان کے سامنے کیا ہے اور ان کے پیچھے کیا ہے اور انہوں نے سوچ لیا کہ اب اپنی مرضی کا فیصلہ کرنا ایک آسان راستہ ہے‘‘۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے ایک بیان میں کہا ہے کہ جب میں نے امریکی صدارت کا بھاری منصب سنبھالا تھا تو میرے پاس یہی ایک چوائس تھی کہ صدر ٹرمپ اور افغان طالبان کے مابین فروری 2020ئ میں قطر میں ہونے والے امن معاہدے کی پاسداری کروں یا افغانستان میں اپنی عسکری موجودگی بڑھاتے ہوئے مزید امریکی فوج دوسرے ملک میں بھیج دوں اور وہ وہاں جا کر ایک مرتبہ پھر ان کی خانہ جنگی میں حصہ لے۔ میں امریکا کا چوتھا صدر تھا جو افغانستان میں لڑنے والی امریکی فوج کی کمان کر رہا تھا۔ ان میں سے دو صدر ڈیمو کریٹس تھے اور دو ریپبلکن۔ میں کبھی یہ جنگ امریکا کے پانچویں صدر کو منتقل نہیں کرنا چاہتا اور نہ میں کبھی کروںگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔