... loading ...
(مہمان کالم)
جوڈیتھ ڈینووچ
امریکا میںپری اسکول اور ایلیمنٹری اسکول کے بچوں پر ماسک کی پابندی کے مخالفین نے اس خدشے کا اظہا رکیا ہے کہ ا س پابندی سے بچوںمیں زبانیں اورسماجی میل جول سیکھنے کی صلاحیت متاثر ہوگی یا اس سے بھی بدتر یہ کہ (ریاست اوٹا کے ایک باپ کے الفاظ میں )ان کے دماغ کی ری وائرنگ ہو جائے گی۔حتیٰ کہ جو والدین ماسک کے حامی بھی ہیں انہیں بھی تشویش ہے کہ ایک دوسرے کی مسکراہٹ یا غصے کو دیکھے بغیر ایک پورے تعلیمی سال کے دوران بچوں پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
والدین کی یہ تشویش قابلِ فہم مگر بلا ضرورت ہے۔اگرچہ ابھی تک سائنسدانوں کے پاس زیادہ ڈیٹا موجود نہیں ہے کہ کسی وبا کی صورت میں ماسک پہننے سے بچوں کی نشو نما پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں تاہم ا س بات کو سمجھنے کے لیے بہت سی وجوہات موجود ہیں کہ ماسک پہننے سے انہیںکوئی نقصان نہیں ہوگا۔ایسے بھی کلچر ہیں جہاں بچوں کی ٹیچرزاور نگہبان اپنا چہرہ ڈھانپ کر رکھتی ہیں اور ان کا منہ اور ناک ان کے حجاب یاپردے میں چھپ جاتے ہیں وہاں تعلیم حاصل کرنے والے بچے بھی دیگر کلچرز میں پروان چڑھنے والے بچوں کی طرح ہی مختلف مہارتیں سیکھ لیتے ہیں۔یہاں تک کہ پیدائشی طو رپر نابینا بچے بھی بولنا‘ پڑھنا اور دوسرے لوگوں کے ساتھ سماجی میل جول رکھنا سیکھ لیتے ہیں۔بلکہ کئی وجوہ کی بنا پر یہ کہا جا سکتاہے کہ ماسک پہننے والے بچے کئی سماجی اور ذہنی مہارتیں بہتر انداز میں سیکھ سکتے ہیںجن کی مدد سے وہ اپنی سیلف کنٹرول اور توجہ دینے جیسی صلاحیتوںکو بہتر اور مزید طاقتور بنا سکتے ہیں۔ہم یہ ہرگز نہیں کہہ رہے کہ ماسک پہننا ماسک نہ پہننے سے بہتر ہے۔ماسک پہننا تکلیف دہ اور پریشانی کا باعث بنتا ہے مگر جب تک انہیں پہننا ہماری ضرورت ہے ہمیں ان سے فائدہ اٹھانا چاہیے کیونکہ ماسک پہننے سے ہمیں سیکھنے اور نشونما پانے کے کئی نمایاں فوائد حاصل ہوتے ہیں۔زبان سیکھنے کو ہی لے لیجئے۔یہ بات درست ہے کہ ماسک ہمارے منہ کو ڈھانپ لیتا ہے جبکہ نابالغ بچوں میں زبان سیکھنے میں منہ کی شکل اور حرکت کا ایک اہم کردار ہوتا ہے مگر ایک دوسرے سے بات کرتے وقت منہ کے علاوہ کئی دیگر اہم عوامل بھی با ت کو سمجھنے میں ہماری رہنمائی کرتے ہیں۔
یہ پتہ چلا ہے کہ ہم جس شخص کو دیکھ رہے ہوتے ہیں یا جس کے ساتھ بات کرنے کی کوشش کررہے ہوتے ہیں اس کی بات کو سمجھنے کے لیے اس کے منہ کی طرح اس کی آنکھوںمیں دیکھنا بھی اتنا ہی اہم ہوتا ہے۔آئی ٹریکنگ ریسرچ سے ثابت ہوا ہے کہ جب کوئی بڑاشخص دوسال کے بچے سے بات کرتا ہے تو وہ بچہ اس شخص کے منہ کے مقابلے میں دوگنا وقت اس کی آنکھوں کو دیکھتا ہے۔درحقیقت بچوں کی بڑوں کے خیالات اور جذبات کو سمجھنے کے لیے صرف آنکھوں کے استعمال کی صلاحیت سے ان کی سماجی اور جذباتی انٹیلی جنس کی عکاسی ہوتی ہے۔
بچے نئے الفاظ کے معنی اور دوسرے لوگوں کے خیالات کو سمجھنے کے لیے کئی دیگر علامات سے بھی سیکھتے ہیں مثلاً علمِ عروض‘ اشارے اور سیاق و سباق وغیرہ۔بعض اوقات یہ اشارے بہت ہی خفیف اورنازک ہوتے ہیں۔ماسک پہن کر کلاس میں بیٹھے بچوں کے لیے یہ اچھا موقع ہوتا ہے کہ وہ ان اشاروں کو سمجھنے کی طرف زیادہ توجہ دینے کی پریکٹس کریں مثال کے طو رپر کسی بڑے کی آواز کی ٹون اور کسی ٹیچر کی باڈی لینگویج وغیرہ۔
ماسک پہننے سے ہم بچوں کو اس بات کی طرف بھی توجہ دلا سکتے ہیں کہ وہ اپنے جسم اور جسمانی رویوں کی طرف زیادہ دھیان دیں۔اسکول میں دن بھر ماسک پہننے سے بچوں کے اندر سیلف کنٹرول اور سیلف ریگولیشن یعنی خود کو قواعد و ضوابط کاپابند بنانے کا موقع ملتا ہے جو بصورت دیگر ان کے لیے بہت چیلنجنگ ہوتا ہے۔چھوٹے بچوں کواپنا ماسک کھینچنے کی عادت پر قابوپانا چاہئے اور بڑے بچوں کو بھی اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ کب ماسک ان کے منہ سے سلپ ہوتا ہے اور کب اسے اتارنا نقصان دہ نہیں ہوتا۔
یہ بات سمجھانے کی ضرور ت نہیں کہ بچے کبھی اپنے ماسک منہ پرچڑھانے میں اتنے ماہر نہیں ہوں گے مگر سیلف کنٹرول اور سیلف ریگولیشن پر ہونے والی ریسرچ سے ثابت ہوا ہے کہ جو بچے اپنی مہارتوں میںیکتا ہونا چاہتے ہیںانہیں چاہئے کہ اپنے ماسک منہ پر پہنے رکھیں تو وہ بڑے ہو کر اپنے اہداف بہتر انداز میں حاصل کریں گے۔وہ اپنے مسائل کا حل اور پریشان کن حالات کا سامنابہتر انداز میں کریں گے۔شاید سب سے اہم بات یہ ہے کہ وبا کے دنوں میں جو بچے ماسک پہنتے ہیں انہیں اپنی کمیونٹی کا خیال رکھنے کا موقع بھی ملتا ہے۔ پری اسکول جانے والے بچے یہ بات اچھی طرح سمجھ جائیں گے کہ انسانی ا?نکھ سے نظر نہ آنے والے جراثیم ہماری بیماری کا باعث بنتے ہیں اور ہاتھ دھونے کی عادت جراثیموں کو پھیلنے سے روکتی ہے۔
حال ہی میں ہونے والی ایک سٹڈی سے پتہ چلا ہے کہ جن بچوں نے کووڈ کا سامنا کیا ہے وہ ماضی کے بچوںکے مقابلے میں متعدی بیماریوں کو بہتر انداز میں سمجھتے ہیں۔انزائٹی اور بے یقینی کے زمانے میں ماسک پہننے والے بچے دوسرے لوگوں کی بہترا نداز میں حفاظت اور مدد کر سکتے ہیں۔ہم بڑی عمر کے بچوں کو ماسک پہنا کر فرائض اور قربانی جیسے اہم اخلاقی نظریات کی تعلیم دے سکتے ہیں۔مثال کے طورپرسات سال کی عمر کے بچے یہ سمجھتے ہیں کہ ضرورت کے وقت دوسروں کے لیے اپنے مفادات کی قربانی دے کر انسان کو زیادہ اچھا محسوس ہوتا ہے۔ ماسک پہننے سے جو تکلیف یا الجھن محسوس ہوتی ہے وہ بھی ایک طرح کا ایثاراور عوامی خدمت ہوتی ہے جو بچوںمیں اپنی زندگی کے دیگرسماجی مسائل کی طرف توجہ دینے کی تحریک پیدا کرتی ہے مثلاً بچوں کا ایک دوسرے کو ڈرانا دھمکاناوغیرہ۔انجام کار اسکول میں بچوں کا ماسک پہننا کیسا لگتا ہے یا وہ ماسک پہن کر کس طرح کے نفسیاتی فوائد سے بہرہ مند ہو سکتے ہیں اس امر کا انحصار والدین اور ٹیچرز پر ہوتا ہے کہ وہ روزمرہ مسائل اور معاملات کو ان بچوں کے سامنے کس اندازمیں پیش کرتے ہیں۔اس بات کی قوی امید ہے کہ ہمیں ہمیشہ کے لیے تو ماسک نہیں پہننے پڑیں گے مگر جب تک ہمارے لیے ماسک پہننا ضروری اور مجبوری ہے ہمیں نہ صرف انہیں پہننا ہوگا بلکہ ان سے مقدور بھر فائدہ بھی اٹھاناچاہئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔