وجود

... loading ...

وجود

شہرت کا جنون

هفته 21 اگست 2021 شہرت کا جنون

آجکل ملک میں ٹک ٹاکروں کا چرچاہے ویڈیو بن کر فالورز بڑھانے کا جنون ہے یہ ایسا جنون ہے جومعاشرے کی اخلاقی اقداراور اصولوں کواہمیت نہیں دیتاجس سے معاشرے کی بنیادیں شکستہ ہو رہیں اور خاندانی نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار توہے ہی خود ٹک ٹاکرکوبھی آئے روز حادثات کا سامنا ہے جی ہاں اگر معاشرے کو نقصان پہنچ رہا ہے تو ٹک ٹاکر بھی غیر محفوظ ہیں رواں برس دوفروری کوچھ لاکھ فالورز رکھنے والی مسکان شیخ کو ساتھی ٹک ٹاکر ریحان شاہ سمیت گولیوں کا نشانہ بنایا گیا لیکن لاکھوں فالورز رکھنے والوں کی لاشیں گھروالوں نے لیجانے سے گریز کیا کئی روز تک لاشیں لاوارث ہسپتال پڑی رہیں مگرکوئی فالور بھی تدفین کی ہمت نہ کر سکا پھربھی شہرت کے جنون میں کمی نہیں آرہی کوئی ٹرین کے ساتھ ٹک ٹاک بناتے جان گنوا رہا ہے تو کوئی بندوق سے اپنی جان لے رہا ہے ہلاکتوں کے باوجود شہرت کا جنون بڑھتاجا رہا ہے یہ شہرت کا جنون معاشرتی اقدار کی بھی تباہی کا باعث بن رہا ہے سوشل میڈیا کی تعمیری اہمیت سے انکار نہیں لیکن میرے کہنے کا مقصدیہ ہے کہ شہرت کے جنون میں جان کو دائو پر لگانا اور خاندانی نظام تباہ کرنابھی غلط ہے بدنامی کی شہرت عارضی ور اِس کے نتائج نہایت تباہ کن ہیں اگر اچھے ہوتے تو حوا کی بیٹی کی لاش وصول کرنے سے گھر والے انکاری نہ ہوتے ۔
سوشل میڈیا پرشہرت کا جنون بیماری کی حد تک پہنچ چکا ہے مناہل ملک نام کی بھی ایک خاتون ہے جو تقریباََ تین برس سے نت نئی ٹک ٹاک بنا کر شہرت حاصل کرنے کے چکر میں تھی لیکن فالورز بڑھانے میں مسلسل ناکام تھی پھر اُس نے اخلاق کو بالائے طاق رکھتے ہوئے عریاں تصاویر لگائیں اور راتوں رات فالورز کی تعداد نصف ملین کرلی اب اِسے کیا کہیں گے؟ اسلام تو پردے کا حکم دیتا ہے عریانی و فحاشی کی کوئی گنجائش ہی نہیں عورت کا حسن اور عزت پردے میں ہیں جو شہرت کی بھوکی بازاری عورتیں سرعام تماشہ بنتی ہیں یہ وقتی طورپر مشہور تو ہوجاتی ہیں لیکن عزت پھوٹی کوڑی کی نہیں رہتی جب کوئی کھلونا بن کر سب کو کھیلنے کی دعوت دے گا توشہرت کے جنون کا شکارخواتین کو یقین ہونا چاہیے کہ کھلونے سے لوگ کھیلیں گے ہی سرآنکھوں پرنہیں بٹھائیں گے ۔
چودہ اگست کو لاہور گریٹر اقبال پارک میں جو ہوا وہ غلط اور قابلِ مزمت ہے اور کسی حوالے سے اِس کی ناتائید کی جا سکتی ہے نہ ہی کسی ملوث کو بے گناہ قراردیا جا سکتا ہے لیکن ملوث لڑکوں کی طرح عائشہ اکرام بھی واقعے کی مکمل طورپر زمہ دار ہے اور یہ واقعہ بھی شہرت کے بدترین جنون کاشاخسانہ ہے ایک لڑکی گھر سے روانہ ہونے سے قبل وقت اور مقام کے بارے سب کو مطلع کرتے ہوئے مقبولیت ظاہر کرنے کے لیے اپنے فالورز سے اگر بروقت پہنچنے کی استدعا کرے تو ہجوم ہی اکٹھا ہوگا ۔ قبل ازیں لگائی جانے والی ویڈیوز میں کبھی لڑکے سے کپڑے لینے ،کبھی ٹکٹ خریدنے اور کبھی پیسے دینے کے نام پر گالوں کو چھوا گیا اور پھردعوتِ گناہ دیتی ایسی ہر ویڈیو کو فالورز سے لائیک اور شیئر کرنے کا مطالبہ بھی ہوا زرا دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں ہیجان انگیز قسم کی ویڈیو زسے شہرت حاصل کرنے والی لڑکی سے کیا کوئی احترام سے پیش آسکتا ہے؟ عائشہ اکرام کسی کی بہن اور بیٹی بھی ہوگی اِس لیے کسی کی بہن یا بیٹی سے غیر اخلاقی حرکت ہو اُس کی تائید ممکن ہی نہیں لیکن میرا تو سوال اتنا سا ہے کہ کسی کی بہن اور بیٹی جب عزت کرانے کی بجائے شہرت کے جنون کے علاوہ کچھ دیکھنے پر تیار نہ ہو تو کیا کسی اور کو الزام دے سکتے ہیں؟
ایک بات پورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ گریٹر اقبال پارک کا واقعہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہوا ہے اچانک کی بات میں کوئی صداقت نہیں جب سے میر اجسم میری مرضی کا راگ شروع ہوا ہے ملک میں انہونیاں ہو رہی ہیں بچے ،بچیوں سے زیادتی کے واقعات بڑھنے لگے ہیں بہن بھائی،باپ بیٹی کے رشتے پامال ہو رہے ہیں رشتوں کاتقدس ختم ہو نے لگا ہے لیکن عالمی سطح پر خود کو روشن خیال ثابت کرنے کے لیے حکومت بھی تعلیم کے ساتھ تربیت پر توجہ دینے کی بجائے آزاد روی کی حوصلہ افزائی کرنے پر مجبور ہے اسی لیے خاندانی نظام کی ٹوٹ پھوٹ میں سرعت آگئی ہے ڈی آئی آپریشن ،ایس ایس پی آپریشن ،ڈی ایس پی اور ایس ایچ او کو معطل کرکے حکومت نے عالمی سطح پر یہی پیغام دیا ہے کہ عورت کی آزادی پر قدغن کا باعث بننے والوں کے خلاف کاروائی ہو رہی ہے یہاں کچھ نام نہاد لبرل اینکراور صحافی بھی مورچہ سنبھالے ملک کو بدنام کرنے کی مُہم میں بڑھ چڑھ کر شریک اور عورت کے احترام کا درس دیتے پھر رہے ہیں ارے بھائی کون عورت کے احترام سے انکاری ہے عورت کے احترام کی اسلام جتنی تلقین کرتا ہے کسی اور مزہب میں نظیر نہیں ملتی لیکن سوال پھر وہی ہے کہ کوئی عزت کرانے کی متمنی بھی تو ہو۔
یہ جو بات بات پر مغرب کی مثالیں دی جاتی ہیں ذرا یہ تو بتائیں کہ کسی مغربی ملک میں خاندانی نظام کا وجود ہے؟ درست کہ کسی عورت کی مرضی کے بغیر کوئی ہاتھ نہیں لگا سکتا لیکن کیا وہاں عورت کو واقعی عورت کہہ سکتے ہیں ؟اسلام میں تو گھر داری اور خاندان کی تربیت کا فریضہ عورت کے زمے ہے جب عورت اپنا فریضہ چھوڑ کر شمع محفل بنے گی اور شہرت کے جنون میں بے حیائی کی تشہیر اوردعوتِ گناہ دے گی تو جنسی مریض معاشرہ ہی وجود میں آئے گا جس میں زندہ اور قبر میں سوئے بھی نشانہ بن سکتے ہیں ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کی پاک دامنی کی گواہی قرآن دیتا ہے اگر عاشہ اکرام اپنے نام کی ہی کچھ لاج رکھ لیتی تو آج ملک اور مزہب کی ملک سے باہر رسوائی کا باعث نہ بنتی حالت یہ ہے کہ سپین کا سب سے بڑا اخبار صفحہ اول پر ایک عورت کو چار سو مردوں کی طرف سے چھیڑ چھاڑ کی کہانی شائع کرتا ہے مستقبل میں بھی اگرایسے واقعات ہوں تو اچھنبے کی بات نہیں ہو گی اِس لیے حریم شاہ ،جنت مرزا ،کنول آفتاب جیسی لڑکیاں ملک،مزہب اور خاندان کی بدنامی کے اشتہار لگاکر سستی شہرت حاصل کرنے کی بجائے اگر ملک میںنیکی اور تعمیری کاموں میں حصہ لیں تو کوئی قندیل بلوچ بے موت نہ ماری جائے ۔ نیکی اور تعمیری سرگرمیوں سے خاندان کی عزت میں بھی اضافہ ہوگا اگر مادام رتھ فائو غیر ملکی ہوکر پاکستان میں تکریم حاصل کر سکتی ہیں تو پاک وطن کی بیٹیاں کیوں ملک ،مزہب اور خاندان کی بدنامی سے شہرت کشید کرنے پر تلی ہیں؟جنھوں نے عزت بچانی ہے وہ کینڈین وی لاگر روزی گبرئیل کے پاکستان کے طول وعرض میں سفر سے ہی کچھ سیکھ لیں بات پھر وہی ہے کہ شہرت کا جنون تباہی کا باعث ہے بدنام ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا پر یقین کرنے والیاں یادرکھیں ماروی سرمد جیسے کردار قابلِ تقلید نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر