... loading ...
آج سے ٹھیک 20 برس قبل معروف امریکی جریدے ٹائم میگزین کے دسمبر 2001 کے شمارے کے سرورق پر منہ چھپا کر جاتے ہوئے ایک طالبان رہنما کی تصویر شائع ہوئی تھی ،جس کی عین نیچے ’’جنگ کا اختتام ‘‘ کی شہ سرخی واضح طور پر درج تھی۔ یعنی دسمبر 2001 کے اختتام پر ہی امریکی ذرائع ابلاغ اپنی دانست میں یہ اعلان فرماچکا تھا کہ افغانستان سے طالبان کا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاتمہ کرکے امریکی و نیٹو افواج کے زیرنگرانی افغان عوام کی اُمنگو ں کے مطابق ایک مستحکم جمہوری حکومت قائم کردی گئی ہے۔ عالمی ذرائع ابلاغ کا طالبان کے متعلق یہ وہ پہلا اندازہ تھا، جو چند ماہ بعد ہی اُس وقت بُری طرح سے غلط ثابت ہوگیا، جب طالبان مجاہدین نے افغان سرزمین پر موجود پہاڑیوں میں چھپ کر نیٹو افواج کے خلاف تاریخ کی سب سے طویل اورمہلک گوریلا جنگ یعنی چھاپہ مار کارروائیوں کا باقاعدہ آغاز کردیا۔ نیٹو اور امریکی افواج کے خلاف جس دن طالبان کی مرکزی قیادت نے’’ گوریلا جنگ ‘‘لڑنے کا فیصلہ کیا تھا۔ دراصل اُسی روز ہی افغانستان میں امریکا کی شکست کی بنیاد رکھ دی گئی تھی۔لیکن جدید ہتھیاروں سے لیس اور ڈالروں کے نشے میں بُری طرح سے دھت امریکی قیادت سرے سے ادراک ہی نہ کرسکی کہ طالبان کی گوریلا جنگ مستقبل میں امریکا کے لیے کس قدر بھیانک خواب ثابت ہوگی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ عالمی ذرائع ابلاغ کو افغانستان کے حالات و واقعات پر اپنے تحقیقی تجزیے اور مطالعاتی تبصرے پیش کرتے ہوئے کم و بیش دودہائیوں سے زائد ہونے کی آئی ہیں لیکن آج بھی طالبان کے متعلق اُن کا کوئی اندازہ ، پیش گوئی اور تجزیہ درست ثابت نہیں ہوپارہا۔ المیہ ملاحظہ ہو کہ گزشتہ دو ماہ میں عالمی ذرائع میں طالبان اور افغانستان کے بارے میں جتنے تجزیے پیش کیے گئے ،وہ تمام کے تمام مکمل طور پر غلط ثابت ہوئے ہیں ۔ مثلاً پہلے کہا گیا کہ امریکی افواج کے انخلاء کے بعد افغانستان خانہ جنگی میں مبتلا ہو جائے گا،مگر جب ایسا نہ ہوسکا تو پھر مضامین لکھے جانے لگے کہ طالبان کی پیش قدمی سے ڈر کر افغان مہاجرین اپنے پڑوسی ممالک بالخصوص پاکستان پر یلغار کردیں گے ۔ لیکن افغان عوام نے دیگر ممالک میں ہجرت کے بجائے اپنے ملک میں رہنے کو ترجیح دی تو تجزیہ کار وں نے عالمی برادری کویقین دلانا شروع کردیا کہ طالبان کو افغانستان میں اپنا اقتدار قائم کرنے میں ابھی بھی 90 روز کا طویل عرصہ درکار ہوگا۔ مگر طالبان جب فقط 9 روز میں ہی کابل میں داخل ہوجانے میں کامیاب ہوگئے ہیں تو اَب یہ کہا جارہا ہے کہ طالبان افغانستان میں وسیع البنیاد اور مستحکم حکومت نہیں تشکیل دے پائیں گے ۔
عالمی ذرائع ابلاغ کی طالبان کے متعلق تاریخی عدم واقفیت اور بدترین متعصبانہ رویے کو دیکھتے ہوئے یقین سے کہا جاسکتاہے ،طالبان کے بارے میں اُن کا یہ آخری تجزیہ بھی اُن کی ماضی میں کی گئی لایعنی پیش گوئیوں کی مانند مکمل طور پر غلط ثابت ہوگا۔ کیونکہ جس حیران کن تیز رفتاری اور آسانی کے ساتھ طالبان نے دیکھتے ہی دیکھتے افغانستان کے90 فیصد سے زائد علاقے پر اپنا اقتدار مستحکم کرلیا ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ افغان عوام کی ایک بڑی اکثریت روزِ اوّل سے طالبان کے ساتھ ہے،جبکہ نیٹو افواج کی چھتر چھایہ تلے قائم ہونے والی کٹھ پتلی افغان حکومت کی مصنوعی عوامی اور جمہوری حمایت صرف کابل شہر تک ہی محدود تھی۔ وگرنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ طالبان صرف ایک ہفتہ کی مختصر مدت میں افغانستان کے تمام علاقوں پر ،بغیر کسی لڑائی یا مزاحمت کے اپنی حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوجائیں ۔اَب تو حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ افغانستان سے خاموشی سے راہ فرار اختیار کرنے والے سابق افغان صدر اشرف غنی اور ان کی حکومت کے دیگر اہم وزراء اور رہنماؤں کا کابل کے گلی ،کوچوں میں کوئی نام سننے کو بھی تیار نہیں ہے۔
سچی بات تو یہ ہے کہ افغانستان میں طالبان کے اقتدار سے صرف وہاں کی وہ خاص الخاص اشرافیہ ہی نا خوش اور خوف زدہ دکھائی دے رہی ہے، جس کی گزر اوقات برسہا برس سے امریکی ڈالروں پر ہورہی تھی ۔شاید یہ ہی وجہ ہے کہ مہاجرین کے سیلاب نے اپنا رخ افغانستان کے سرحدی علاقوں کے بجائے کابل ائیرپورٹ کے اردگرد کے علاقوں کی جانب موڑ لیا ہے۔ جس کی شدت کا اندازہ افغان رکن پارلیمنٹ’’ فرزانہ کوچائی‘‘ کے حال ہی میں کیے گئے ایک ٹویٹ سے بخوبی لگایا جاسکتاہے کہ کس کسمپرسی کے عالم میں افغان اشرافیہ جلدازجلد چور راستوں سے افغانستان کے دارالحکومت سے بھاگنے کی کوشش کر رہی ہے۔ افغان رکن پارلیمنٹ’’فرزانہ کوچائی‘‘ اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر لکھتی ہیں کہ ’’ہم کہیں نہیں جا سکتے، چھپنے کے لیے کوئی جگہ باقی نہیں بچی۔ میں نے اپنے کچھ ہم خیال دوستوں سے بات کی ہے جو کابل سے باہر بھارت یا کسی اور پڑوسی ملک جانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔۔ ۔ مگر تمام مسافرطیارے مسافروں سے بھرے ہوئے ہیں۔ مسافروں کو کہا جا رہا ہے کہ فلائٹس بھری ہوئی ہیں۔ شاید ہم یہاں پھنس گئے ہیں، جو لوگ باہر جانے کی کوشش کر رہے ہیں وہ بھی آخر اَب کہاں جا سکتے ہیں؟‘‘۔
دوسری جانب امریکی سی ون تھرٹی ہرکلولیس میں فوجی کتوں کے لئے جگہ تھی پر انکے لئے نہیں تھی جنہوں نے امریکی وفاداریوں کے چکر میں اپنی قوم سے غداریاں کیں۔ کوئی ٹائروں تلے کچلا گیا کوئی فضا سے اچھال دیا گیا، کوئی بیچارہ جہاز کے ٹائروں کو پکڑے ہوے ہاتھ پھسلنے سے مارا گیا۔ اپنی قوم سے غداریاں کرنے والے اپنے آقاؤں کے لئے کسی ٹشو پیپر سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے، یہاں تک کہ ان کتوں جتنی بھی نہیں جو آخری جہاز میں روانہ ہوے، یہی ایک تلخ حقیقت ہے جو اس قوم کو ہمیشہ یاد رکھنی چاہئے، آپ عہد ساز لمحات دیکھ رہے ہیں، لکھی جانے والی تاریخ میں یہ لمحات ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے، جس طرح ویتنام سے بھاگنے والا آخری امریکی ہیلی کاپٹر ہمیشہ کے لئے کیمرے کی قید میں محفوظ ہوا ویسے ہی یہ سی ون تھرٹی ہمیشہ کے لئے امر ہوگیا۔ ہیلی کاپٹر میں بھی امریکیوں نے بیٹھ کر مقامی غداروں کی سیڑھی ہی کھینچ دی تھی اور کابل ائیربیس پہ بھی جہاز میں اپنے کتے ڈال کر باقی مقامی ہمدردوں کو ٹائروں تلے کچل دیا۔ہر قوم کے غداروں کے لئے ایک عبرت کا سبق امریکہ پھر دوبارہ چھوڑ گیا کہ امریکہ کی دوستی دشمنی سے ہمیشہ زیادہ زہریلی ہوتی ہے۔
اگر بہ نظر غائر جائزہ لیا جائے تو منکشف ہوگا کہ امریکا کی طوطا چشمی کے الم ناک مناظر دیکھنے کے بعد طالبان حکومت سے متعلق ،افغان اشرافیہ کا تمام تر خوف بلاجواز ہے۔ کیونکہ طالبان نے ایک سے زائد بار پوری صراحت کے ساتھ اپنے اعلانات میں وضاحت کردی ہے کہ ’’ امارات اسلامی افغانستان ان تمام افراد کے لیے اپنے دروازے کھولتی ہے جنہوں نے ماضی میں کبھی بیرونی حملہ آوروں کے لیے کام کیا ہے یا ان کی مدد کی ہے یا جو عاقبت نااندیش افراد ابھی بھی کرپٹ افغان حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں ۔ہم ان سب کے لیے عام معافی کا اعلان کرتے ہیں اور انہیں دعوت دیتے ہیں کہ وہ افغان قوم اور ملک کی خدمت کریں‘‘۔نیز اپنے ایک بیان میں طالبان ترجمان نے اس بات کا اعادہ بھی کیا ہے کہ’’ طالبان اپنی حکومت قائم ہونے کے بعد وسیع تر عوامی مفاد میں خزانہ، عوامی سہولیات، سرکاری دفاتر اور آلات، پارکس، سڑکوں اور پل وغیرہ کی حفاظت پر خاص توجہ دیں گے۔وہ اس لیے کہ طالبان قیادت بخوبی سمجھتی ہے کہ یہ عوام کی املاک ہیں اور اس سلسلے میں کسی بھی قسم کی ذاتی مداخلت یا غفلت ہرگز برداشت نہیں کی جائے گی اور اس کا انتہائی سختی کے ساتھ تحفظ کیا جائے گا‘‘۔
علاوہ ازیں طالبان قیادت نے اس بے بنیاد پروپیگنڈہ کو بھی سختی سے رد کردیاہے کہ طالبان افغانستان میں پیش قدمی کے دوران عام عوام اور بے گناہ افراد کو قتل کررہے ہیں۔ حیران کن طور پر امارات اسلامی افغانستان ، نے کابل میں داخل ہونے کے بعد نہ تو کسی کی شہری کی نجی املاک مثلاً گاڑی، زمین، گھر، مارکیٹوں یا دکانوں کو ذرہ برابر نقصان پہنچایا ہے اور کسی شہری کے ساتھ زور زبردستی کرنے کی کوشش کی ہے۔ بلکہ اُلٹا طالبان، افغان حکومت کے اہم ترین رہنماؤں کے فرار ہونے کے بعد دارلحکومت میں عوام کے مال و جان کی حفاظت کی خدمات بحسن و خوبی انتہائی چابک دستی کے ساتھ انجام دے رہے ہیں ۔ طالبان کی معاملہ فہمی ،دور اندیشی اور مفاہمانہ رویے کا اندازہ اس ایک بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ دارلحکومت کابل ائیرپورٹ کی اندرونی سیکورٹی ابھی بھی مکمل طور پر امریکی افواج کے پاس ہے ۔جہاں سے بیرونِ ملک جانے کے خواہش مند افراد کے لیے مختلف ممالک کی جانب سے فضائی آپریشن بھرپور انداز میں جاری ہے۔ لیکن طالبان کابل میں ہونے کے باوجود ائیرپورٹ کی جانب آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھ رہے ۔یعنی طالبان معاہدہ کے مطابق نیٹو افواج اور اُن کے سہولت کار افراد کے انخلاء کی راہ کسی بھی قسم کی روکاوٹ نہیں ڈال رہے۔
اَب تک کی سب سے اچھی بات یہ ہی ہے کہ ابھی تک طالبان نے جو کہا ہے اُس پر من و عن عمل بھی کر کے دکھایا ہے ۔خاص طور پر افغانستان کے بڑے صوبائی دارلحکومتوں کو فتح کرنے کے بعد طالبان نے تشدد سے حتی المقدور گریز سے کام لیاہے۔ دراصل 90 کی دہائی اور آج کے طالبان کے رویے اور حکمت عملی میںکافی فرق آچکا ہے۔ ماضی میں طالبان نے افغانستان کا اقتدار بذور طاقت جنگ کر کے حاصل کیا تھا۔ مگر اس بار طالبان افغانستان کے 90 فیصد علاقے پر قابض ہونے کے باوجود بھی مذاکرات ، بات چیت اور مفاہمت کی منفرد ’’سیاسی حکمت عملی ‘‘ کے ساتھ افغانستان کا اقتدار حاصل کرنے کے خواہش مند نظر آتے ہیں ۔ طالبان کے حالیہ رویے نے عالمی برادری کو ششدر کر دیا ہے اور مغربی و یورپی ممالک کے سربراہان حیران ہیں کہ آخر طالبان نے افغان عوام پر ایسا کیا جادو کیا ہے کہ وہ فقط9 دنوں میں افغانستان کے اتنے بڑے علاقے پر قابض ہوچکے ہیں ۔ جس پر وہ کبھی ماضی میں بھی قابض نہیں ہو سکے تھے۔ واضح رہے کہ بدخشان اور اس سے متصل تخار ان، اُن دو تاجک اکثریتی صوبوں میں سے ہے جو شمالی اتحاد کے مضبوط گڑھ تھے ۔یہاں طالبان ماضی میں ہر قسم کی کوششوں کے باوجود قبضہ نہیں کر سکے تھے۔مگر اب کی بار یہ دونوں اُن اولین صوبوں میں سے تھے، جن کے تمام اضلاع پر ماسوائے صوبائی مراکز کے طالبان نے سب سے پہلے قبضہ کرلیا تھا۔
ہمیں تو محسوس ایسا ہو رہا ہے کہ طالبان کی ’’جادوئی فتوحات ‘‘ میں کچھ پراسرار سفارتی کمالات چین ،روس اور پاکستان کے بھی ضرور شامل ہیں ۔ جب ہی تو بڑی بڑی نجی ملیشیا رکھنے والے کمانڈر ز بھی طالبان سے جنگ کرنے کے بجائے ’’سرنڈر‘‘ کرنا زیادہ پسند فرمارہے ہیں ۔نیز جس طرح کابل میں طالبان کے داخلے کے فوراً بعد شمالی اتحاد کی اعلیٰ قیادت اسلام آباد پہنچی ہے ۔ اس کے بعد زیادہ امکانات یہ ہی دکھائی دے رہے ہیں کہ افغانستان میں طالبان کی زیرقیادت ایک ایسی وسیع البنیاد حکومت بننے جارہی ہے ، جس میں افغانستان میں بسنے والے تمام اہم نسلی گروہوں کی نمائندگی شامل ہوگی اور طالبان کی اِس حکومت کو عالمی برادری سے تسلیم کروانے کے لیے روس اور چین فیصلہ کن کلیدی کردار ادا کریں گے۔ دوسری جانب جس طرح کے مثبت رویے کا اظہار طالبان قیادت کی جانب سے دیکھنے میں آرہا ہے ، اس کے بعد امریکا کے لیے بھی افغانستان میں طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے کے سوا کوئی چارہ کار باقی نہیں رہے گا۔سرِ دست یہ ہی کہا جاسکتاہے نئے ،مستحکم اور پر امن افغانستان کی تعمیر و ترقی کے لیے طالبان قیادت نے ایک بہت ہی اچھی شروعات کی ہے، اگر عالمی برادری نے طالبان کے اس مثبت رویے کی حوصلہ افزائی کرنے میں بخل سے کام لیا تو پھر افغانستان میں ہر طرح کے بدترین حالات کی براہ راست ذمہ داری صرف اور صرف عالمی برادری پر ہی عائد ہوگی ، نہ کہ طالبان پر۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔