... loading ...
یہ طالبان اُسلوب ہے! بے نیازانہ ، جارحانہ اور عاجزانہ۔ دشمن کی طاقت سے بے نیاز، خود پر بھروسے کے تیور میں انتہائی جارح اور اپنے رب کے حضور حاضر ہونے کے احساس سے نہایت مجبور وعاجز!!!بے نیازی ایسی کہ اربوں ڈالر کی پیش کشوں کی جانب نظر تک نہ اُٹھائی، جارحیت ایسی کہ بی ۔52 طیارے ، مہلک ڈرون، خطرناک میزائل نظام، حریف ملیشیائیں اور تیس ممالک کا جنگی حجم مل کر بھی اُن کے تیوروں کا مقابلہ نہ کرسکے۔ اور عاجزی ایسی کہ حریف جنگی کمانڈروں پر غالب آکر اُن کی دلجوئیاں کیں، اُنہیں معاف کیا۔ ایک قطرۂ خون انتقام میں نہ بہایا۔یہ معرکۂ روح وبدن تھا۔ ابلیس مشینوں کے سہارے آگے بڑھا۔ مگر اللہ کی مشیت اپنے مومنوں کی پامردی سے ظاہر ہوئی۔ علامہ اقبال واضح کرگئے:
دنیا کو ہے پھر معرکۂ رُوح و بدن پیش
تہذیب نے پھر اپنے درِندوں کو اُبھارا
اللہ کو پامردیِ مومن پہ بھروسا
اِبلیس کو یورپ کی مشینوں کا سہارا
یہ سقوطِ کابل نہیں، سقوط کابل بیس برس پہلے کا واقعہ ہے جب امریکی تکبر، جنگی مشینری کی کینچلی بدل کر یہاں برسا تھا۔ دشت ِ لیلیٰ ، قلعہ جنگی اور تورا بورا میں اپنی وحشتوں کے ساتھ ننگا ہوا تھا۔تب ننگ ِ انسانیت کارروائیوں کو تہذیب کی کہانی کہا گیا۔ جن عورتوں سے فرشتے حیا کرتے تھے، وہ رونقِ بازار بنا دی گئیں۔ افغانیوں کی غیرت ِ دیں کا علاج ، ملا کو کوہ ودمن سے نکال کر کیا گیا ۔ بوڑھے، بچے اور عورتیں تک اس جنگ کا ایندھن بنادی گئیں تاکہ بش کے واشنگٹن میں آزادی کی پری چہرہ کو کوئی خطرہ نہ رہے۔ کابل کچھ تہذیب یافتہ ہو جائے۔ گنوار ملاؤںسے جدیدیت کاالہڑ پن میلا نہ ہو۔ قال اللہ و قال الرسول کی صدائیں لبرل چنچلاہٹوں کو پھیکی نہ کرسکیں۔ چوراہوںمیں شعلۂ عریاں بن کر رہنے والیوں کی تقدیس میں کمی نہ واقع ہو۔ درندے گلی کوچوں میں انسانی جسموں کو خون میں نہلائیں تو یہ قیامِ تمدن کی روایت کے لیے ناگزیر قربانی محسوس ہو۔زندگی، پیٹ کے محور پر پِھرتے ہوئے دل کا خیال دل میں نہ لاسکے۔ پست فطرت روٹی پر جیے۔ خاک اور نور میں ربط ، عرش اور فرش میں جوڑ باقی نہ رہے۔ ارفع اقدار کی بحث ایک مذاق لگے، مقصدِ اعلیٰ کی زندگی دقیانوسی محسوس ہو۔سقوطِ کابل بیس برس پہلے کا واقعہ ہے۔
بیس برس قبل تقویم میں یہ 7 اکتوبر کی کی تاریخ تھی، افغانستان میں رات کا اندھیرا کچھ زیادہ گہرا تھا۔ کابل چھیننے کی واردات شروع ہونے والی تھی۔ ٹی وی چینلز نے وہ تمام مناظر قید کررکھے ہیں۔ مورچہ شکن میزائل اور بمبار طیاروں کا یہ وقت تھا۔ویڈیو گیمز کے شوقین بچوں کے لیے یہ مناظر اپنے کھیلوں سے زیادہ حیران کن تھے۔ تب تہذیب کے درندے ان کارروائیوں کو ”دیرپا آزادی” کے لیے جنگ قرار دیتے تھے۔ اس سے ذرا قبل ہی ان جنونی ، جنگی کارروائیوں کی وحشت ودہشت کم کرنے کے لیے مقدس الفاظ کی بمباری شروع کردی گئی تھی۔ نخوت کے پتلے امریکی صدر بش نے سترہ روز قبل 20 ستمبر کو کانگریس سے خطاب میں انسانی جسموں کے چیٹھرے اڑانے کے منصوبے کو لفظوں کی جادو گری سے تہذیب کی کہانی بنایا تھا۔ اُن کے الفاظ بھی کسی بمباری سے کم نہ تھے: امریکی پوچھ رہے ہیں کہ وہ ہم سے نفرت کیوں کرتے ہیں؟ وہ ہماری آزادی سے، ہماری مذہبی آزادیوں سے، ہماری آزادیٔ تقریر اور ووٹ دینے کی آزادی سے نفرت کرتے ہیں”۔امریکی بمبار طیاروں نے بعد کے ایام میں جنہیں نشانا بنایا وہ ان بھاری بھرکم الفاظ کا مطلب بھی نہ جانتے تھے۔ امریکی جن سے نفرت کرتے تھے، انہیں خود سے نفرت کرنے والا بنا کر پیش کیا۔ الفاظ کی اس جادوگری میں، سیاہ کو سفید اور سفید کو سیاہ کرنے میں ذرائع ابلاغ کی رکھیلیں ساتھ تھیں۔ زہرِ ہلاہل، قند قرار دے دیا گیا۔ بش نے کابل کو نشانا بناتے ہوئے اپنی جن آزادیوں کو خطرے میں باور کرایا تھا۔ اپنے خوف ناک حملوں سے کابل میں ایسی ہر آزادی کو خود روند کر رکھ دیا۔ ان حملوں میں آزادی، دولت ، ٹیکنالوجی،ترقی ، جنگ اور امن کے حقیقی معنی تک کچل دیے گئے ۔ دنیا کے سب سے سفاک شخص بش نے فضائی حملوں کا اعلان یہ کہہ کر کیا تھا: ہم ایک امن پسند ملک ہے”۔ برصغیر کے وسائل ہڑپنے والے ملک کا استعمار ذرا قدیم ہوگیا تھا، برطانیا اب امریکی وحشتوں کا رفیق ہے۔ تب وہاں ایک ایسا شخص وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز تھا جسے” بش کا پوڈل” کہتے تھے، ٹونی بلیئر نے اپنے بیان میں ملک کی جگہ قوم کا لفظ استعمال کرتے ہوئے بش کی نقالی کی: ہم ایک امن پسند قوم ہے”۔ یہ قدیم وجدید دانش کے بہتے سوتوں پر بھی حملے اور قبضے کے ایاّم تھے۔ سقوطِ کابل بیس برس پہلے کا واقعہ ہے۔
سقوطِ کابل بش کا غل غپاڑا اور اُباما کا بس ایک ہنگامہ تھا۔ یہ ٹرمپ کی لاگ اور بائیڈن کی آگ ہے۔ امریکی صدور اپنی طاقت کے بھرم میں فریب خوردہ رہے۔بے چین و بے تاب، برباد و نامراد، ناکام و بے نیلِ مرام۔کابل کب طالبان کے ہاتھ سے گیا تھا۔یہ ہمیشہ ان ہی ہاتھوں میں تھا۔کابل میں کہاں! حامد کرزئی ، اشرف غنی ، عبداللہ عبداللہ، دوستم ایسے حاشیہ بردار تاریخ کے کوڑے دان میں رہتے ہیں۔ اپنے آقاؤں کے دماغ سے سوچتے ہوئے یہ اُن کے انجام سے بھی پہلے اپنے انجام کو پہنچتے ہیں۔ سلسلۂ روزوشب میں کھوٹے کھرے پرکھے جاتے ہیں اور چھانٹ دیے جاتے ہیں۔ یہاں کوئی بش، اُباما ، ٹرمپ ،بائیڈن، کرزئی، غنی بسیرا کیسے کر سکتے ہیں؟ کابل ان کے ہاتھوں میں کبھی تھاہی نہیں۔ یہ ملاعمر کے رومال کے ساتھ بندھا تھا، وہ جب قبر میں سرخرو اُترے تو وہاں فاتحہ پڑھ رہا تھا ، نہ دکھائی دینے والے چراغ جلا رہا تھا،نہ مدہم ہونے والی روشنی پھیلا رہا تھا۔یہ اُسی روشنی کے پھیلاؤ میں ملا ہیبت اللہ اخوند کے مطالعہ حدیث و تفسیر میں چمکتا تھا۔ یہ ملا عبدالغنی برادر کو کراچی میں کچھ میلے ہاتھوں سے پہنائی جانی والی ہتھکڑی میں جکڑا ہوا تھا۔اُن سے رازو نیاز کرتا تھا۔تیرہ و تار راتوں میں اپنوں کی کج ادائیوں اور بے وفائیوں پر اُنہیں تسلی دیتا تھا۔ یہ امریکی بھانڈوں اور بھونپوؤں کی طرح پیش آنے والے کچھ ناعاقبت اندیش حکمرانوں کے مسخروں کی ٹھوکروں میں رکھے جانے والے ملا ضعیف کے ساتھ لڑھکتا ہوا گوانتا نامو بے پہنچ گیا تھا۔ پھر رہائی پاکر یہی کابل اپنے کابل سے بغلگیر ہوا تھا۔ کابل سے کابل کی ملاقات میں اسلام آباد کے بے رحم موسموں کا تذکرہ آج بھی رہتا ہے۔ کابل کہاں گیا تھا؟ یہ تو ملاحسن کی دوسری ٹانگ تھا۔ یہ ملا عبدالجلیل کی چمکتی پیشانی پہ رہتا تھا۔ یہ ملاعمر کے خوش خصال بیٹے کی مسکراہٹ سے تازگی لیتا تھا۔ کابل ، شہید افغانوں کا نوحہ اور ملا عمر کی دعا ہے۔اب یہاں راستی کے راستے کے فدا کار اور صدق و تکبیر کے صدا کار مجاہدین کے لشکر اُترتے ہیں۔ یہ اپنے شہیدوں کے وارث اور امن و آشتی کی فوج کے غازی ہیں۔ یہ عقوبتوں میں مسکرانے والے ، گوانتا نامو بے میں اپنے رب سے راضی رہنے والے، آسمان سے برستی آگ میں اذانِ حق پکارنے والے ہیں۔ کابل کے دروبام پر اب وادیٔ ایمن کا نور چھایا ہے، اُس کا آسماں سحر کے نور سے آئینہ پوش ہوا جاتا ہے۔ یہ سقوطِ کابل کا نہیں کابل کی واپسی کا موقع ہے۔ سینہ چاکانِ چمن سے سینہ چاکوں کے ملنے کا لمحۂ مسعود ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭