... loading ...
طالبان تاریخ کی عدالت میں سُرخرو ہوئے۔ طالبان کا بیس سالہ جہاد کامیابی کے ساتھ کابل کا چہرہ دیکھ رہا ہے۔ بھارتی مفادات کا محافظ ،امریکی گماشتہ اشرف غنی کابل سے فرار ہوگیا۔
اتوار کا سورج بھارت کی سرزمین پر روشنی لے کر نہیں اُترا۔ 15 اگست کی مناسبت سے بھارت اس روز اپنے استعماری زعم کے ساتھ یومِ آزادی مناتا ہے۔ مگر اسی روز طالبان کابل میں داخل ہوگئے۔ بھارتی طیارہ اپنے سفارتی عملے کے تحفظ کے لیے کابل کے ہوائی میدان پر پرواز کرتا رہا ، مگر اُسے اُترنے کی اجازت شام تک نہیں مل سکی تھی۔ ذرائع ابلاغ پر ایک ھڑبونگ مچی رہی۔ بھارت اپنی آزادی کا جشن منانے کے بجائے افغانستان میں اپنی بیس سالہ سرمایہ کاری کے ڈوبنے کا ماتم کرتا رہا۔ یہ بھارت کے خطے میں عزائم کی موت کا لمحہ تھا۔ یہ انتہا پسند ہندو حکومت کے مکرو فریب ، نیابتی (پراکسیز) پھندوںاورسازشوں کی ناکامی کا دن تھا۔ بھارت نے اپنے یومِ آزادی کو یوم ماتم کے طور پر منایا۔ بھارتی ذرائع ابلاغ حالت ِ سوگ میں اعلان کررہے تھے کہ ”اب افغانستان مکمل طور پر طالبان کی غلامی میں چلاگیا”۔آج تک ٹی وی بار بار یہ کہہ رہا تھاکہ ”طالبان باغیوں نے کابل کے ساتھ پورے ملک پر قبضہ کرلیا”۔ طالبان کو دنیا کی تاریخ کی سب سے بڑی جنگی مشینری کے ذریعے اقتدار سے بے دخل کیا گیا تھا۔ کہُساروں اور بہادروں کی سرزمین تب امریکی غلامی میں تھی۔ سرمایہ داریت کے منتر پر رقصاں ذرائع ابلاغ درحقیقت غلام ہیں۔ افغانستان طالبان کے ذریعے پوری طرح آزاد مملکت کا سفر طے کررہا ہے۔ یہ پورے ملک پر قبضہ کرنے کا معاملہ نہیں، دراصل طالبان نے اپنے ملک سے استعمار اور استعماری گماشتوں سے قبضہ چھڑایا ہے۔ ذرائع ابلاغ پہلی حقیقت ، پہلا سوال اور پہلا منظر ہمیشہ نظروں سے اوجھل رکھتے ہیں۔ سوال یہ نہیں کہ طالبان کیا کریں گے؟ پہلا سوال یہ ہے کہ امریکی قیادت میں نیٹو اور غیر نیٹو اتحادی ممالک افغانستان کیا لینے گئے تھے؟ اُن کے پاس افغانستان پر حملے کا کیا جواز تھا؟ تیس ممالک مل کر جن طالبان کو شکست نہیں دے سکے، اُن پر اقتدار کے جواز کا سوال اُٹھانا بے شرمی کی انتہا سے بھی بڑھ کر ہے۔ طالبان سے کابل میں اقتدار کا جواز پوچھنے والے ان بیس برسوں میں امریکا اور اُن کے لے پالکوں کے جواز کا پہلا سوال نظر انداز کردیتے ہیں۔ آج کے کابل کے مناظر دکھانے والے 7 اکتوبر کو افغانستان میں بی۔ 52بمبار طیاروں کے حملوں کے مناظر اوجھل رکھتے ہیں۔ امریکا کا افغانستان پر حملہ اور طالبان کی اقتدار سے جبری بے دخلی پہلی حقیقت ہے، آج طالبان کے کابل کے صدارتی محل میں داخل ہونے کاواقعہ اس حقیقت کے بعد بیس سالہ جدوجہد کا نتیجہ ہے۔ مگر اِسے ایک انوکھے واقعے اور قبضے کا تناظر دے کر پہلی حقیقت کے طور پر مغربی اور بھارتی ذرائع ابلاغ دکھا رہے ہیں۔
ذرائع ابلاغ میں ڈھٹائی اور بے شرمی کہاں سے جنم لیتی ہے؟درحقیقت سرمائے کی تھاپ پہ ناچنے والے نام نہاد ذرائع ابلاغ نے ”آزادی” کو ایک عقیدے کے طور پر پیش کیا ہے مگر یہ مغربی سرمایہ پرست حکومتوں کی ”رکھیلیں ”ہیں۔جب طالبان اپنی زبردست اور ہمہ گیر فتح کے ساتھ کابل میں داخل ہورہے تھے، تو امریکی سیکریٹری خارجہ نے کہا کہ” افغانستان کی جنگ میں امریکا کو فتح حاصل ہوئی ہے”۔ مغربی ذرائع ابلاغ اب امریکی ناکامی کوفتح کے ایک نئے روپ میں پیش کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ لطف کی بات یہ ہے کہ امریکی سیکریٹری خارجہ ساتھ یہ بھی اعلان کررہے تھے کہ کابل میں امریکی سفارت خانے سے پرچم اتار کر کابل ہوائی اڈے پر پہنچا دیا گیا ہے ، جہاں سے امریکی سفارتی عملے کو محفوظ مقام پر منتقل کرنے کے لیے ایک خصوصی آپریشن جاری تھا۔ ذرائع ابلاغ کو اس پر قطعاً حیرت نہیں ہوتی کہ یہ کون سی فتح ہے جس میں فتح یاب ملک اپنا سفارت خانہ بھی محفوظ نہیں رکھ سکتا۔ یہاں تک کہ اُس کی عمارت پر پرچم بھی نہیں لہرا سکتا۔ مگر امریکی سرمائے کا جادو یہ دیکھنے نہیں دیتا۔ بھارت میں بھی ذرائع ابلاغ اِسی فریب کا حصہ بنے رہے۔ پاکستان میں بھی مشکوک صحافیوں کی ایک لمبی فہرست ہے جو طالبان کی اس ہمہ گیر فتح کو ”اگر ، مگر” کے سوالات سے آلودہ کرنے کی مغربی سازشوں میں دانستہ نادانستہ شریک ہیں۔
افغانستان میں اپنی شرمناک شکست کو فتح قرار دینے کی ڈھٹائی صرف امریکا ایسا ملک ہی دکھا سکتا ہے۔ درحقیقت امریکا کو افغانستان میں جو شکست ہوئی ہے، وہ آنجہانی سوویت یونین کی شکست سے زیادہ بڑی، ہمہ گیر اور شرمناک ہے۔ سوویت یونین افغانستان میں اپنی حمایت یافتہ مگر نامقبول اور ناقابل قبول پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی آف افغانستان (PDPA) کی حکومت کو بچانے کے لیے دسمبر 1979ء میں افغانستان آیا تھا۔ سوویت افواج نے نو سال تک سر ٹکرانے کے بعد فروری 1989ء میں افغانستان اور سوویت ازبکستان کو جوڑنے والے دوستی پُل کو شکست کی ہزیمت کے ساتھ اس طرح عبور کیاکہ خود سوویت یونین کا مستقبل تاریک تھا۔ مگر افغانستان میں اس کے باوجود ایک ایسی حکومت موجود تھی جس کے خلاف مجاہدین کو تقریباً دو سال تک مسلسل لڑائی لڑنا پڑی۔ تب کی سرکاری افواج نام نہاد حکومت کی سوویت حمایت کے ساتھ بڑی دیر تک میدان میں رہی۔ یاد رہنا چاہئے کہ تب سوویت افواج تنہا تھی۔ جبکہ مجاہدین کو امریکا سمیت دنیا کے اکثر ممالک کی کھلی حمایت حاصل تھی۔ اس کے باوجود کابل میں دُہرائے جانے والے حالیہ مناظر کی طرح کچھ بھی اچانک نہیں ہوا تھا۔
حالیہ ہفتوں میں جو مناظر افغانستان میں دکھائی دیے، وہ اتنے اچانک ہیں کہ خود مجاہدین کے بعض حلقے بھی اس پر حیران دکھائی دیتے ہیں۔ امریکا کے افغانستان پر حملے کی نوعیت سوویت افواج سے مختلف اس لیے تھی کہ وہاں تنہا ایک ملک تھا جبکہ مجاہدین کی حمایت امریکا سمیت اکثر ممالک کررہے تھے۔ پاکستان اس جہاد کا اعلانیہ ساتھی تھااور مجاہدین کا مددگار۔مگر امریکا کے افغانستان پر حملے میں طالبان تنہاتھے یہاں تک کہ پاکستان بھی امریکا کا نان نیٹو اتحادی بن کر مجاہدین کے خلاف برسرپیکار تھا۔ طالبان کی حمایت مسلمان ممالک میں بھی کوئی نہیں کررہا تھا۔ ترکی امریکی جنگ کا حصہ تھا۔ سعودی عرب اور پاکستان بھی۔ امریکا کی حمایت میں تیس ممالک طالبان کے خلاف برسر پیکار تھے۔ جس میں آنجہانی سوویت یونین کا وارث ملک روس بھی کافی لمبے عرصے تک امریکا کا مددگار رہا۔ سوویت افواج کی نوسالہ لڑائی کے برعکس امریکا پوری دنیا کی حمایت اور تاریخ کے سب سے بڑے جنگی حجم کے ساتھ تقریباً بیس برسوں تک طالبان کی تنہا قوت کے ساتھ لڑتا رہا۔امریکا کی طرح خود نیٹواتحاد کی اپنی تاریخ کی بھی یہ سب سے بڑی جنگ تھی۔امریکا جنگی میدان میں طالبان کے ہاتھوں پٹا، پھر مذاکرات کی میز پر بھی سفید اور کالے عماموں والے ان بوریا نشینوں سے کچھ حاصل نہ کرسکا۔ یہاں تک کہ اُسے اپنے متعین وقت سے پہلے افغانستان سے اس طرح نکلنا پڑا کہ اُس کا سفارت خانہ اپنا پرچم تک لہرانے میں کامیاب نہیں۔ اس موقع پر وہ اپنی انٹیلی جنس کی ناکامی سے بھی دوچار ہے۔ ابتدا میں امریکا یہ منصوبہ بناتار ہا کہ وہ افغان فورسز کی ایک لمبے عرصے تک فضائی مددکرتار ہے گا۔ چنانچہ وہ طالبان کے اگلے دو برسوں تک اقتدار پر قابض ہونے کے عمل کو مشکل قرار دے رہا تھا۔ پھر طالبان کی پیش قدمی کے بعد امریکا کی جانب سے یہ کہا جانے لگا کہ طالبان ایک سال میں کابل پر کنٹرول حاصل کرسکتے ہیں۔ پچھلے ہفتے یہ مدت مزید سکڑ کر چھ ماہ بیان کی جانے لگی۔ اور گزشتہ روز جب طالبان کابل میں داخل ہورہے تھے تو خود امریکا کے لیے یہ اتنا اچانک تھا کہ اُسے اپنے سفارتی عملے کو تحفظ دینے کے لیے ایک ہنگامی مشن ترتیب دینا پڑا۔ امریکا عسکری ، سفارتی اور انٹیلیجنس کی تمام جہتوں سے طالبان کے آگے ناکام ہوا۔ مگر امریکی سیکریٹری خارجہ ڈھٹائی سے کل یہ فرمارہے تھے کہ امریکا افغانستان کی جنگ میں کامیاب رہا۔ ایسی ڈھٹائی اور بے شرمی امریکی استعمار اور اُس کے گماشتے ہی دکھا سکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔