وجود

... loading ...

وجود

مسلمانوں کے خلاف زہراگلنے کی کھلی چھوٹ

پیر 16 اگست 2021 مسلمانوں کے خلاف زہراگلنے کی کھلی چھوٹ

 

اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہیں ہوگاکہ بی جے پی حکومت میں سب سے زیادہ توانائی فرقہ پرست اور فسطائی عناصر کو حاصل ہوئی ہے ۔ ان کے حوصلے اتنے بلند ہیں کہ وہ جب اور جہاں چاہیں مسلمانوں کو مارنے اور کاٹنے کا اعلان کرسکتے ہیں۔ان کی لنچنگ کرسکتے ہیں اور انھیں شارع عام پر ’جے شری رام ‘کہنے پر مجبور کرسکتے ہیں۔انھیں اس بات کا اچھی طرح احساس ہے کہ ملک میں کوئی ان کا کچھ بگاڑ نہیں پائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ زہر اگلنے کے بعد چند دن حراست میں رہتے ہیں اور پھر قانون کے شکنجے سے آزاد ہوکر زیادہ طاقت کے ساتھ دوبارہ مسلمانوں کو دھمکیاں دیتے ہیں۔اس کا تازہ ترین ثبوت جنترمنتر کا واقعہ ہے ، جہاں کھلے عام مسلمانوں کی گردنیں کاٹنے کی باتیں ہوئیں۔ جس شخص نے یہ پروگرام منعقد کیا تھا، اسے 72 گھنٹے بعد گرفتار کیا گیا ، لیکن چوبیس گھنٹے سے بھی کم وقت میں عدالت نے اس کو ضمانت دے دی۔اس اشتعال انگیزی کا ایک انتہائی خطرناک ملزم پنکی چودھری ابھی تک پولیس کی گرفت سے باہر ہے اور وہ نیوزچینلوں کو انٹرویو دے کر اب بھی زہر اُگل رہا ہے ، لیکن پولیس اور قانون کی مشینری اس کا کچھ نہیں بگاڑ پارہی ہے ۔اس دوران اترپردیش کے کانپور شہر میں ایک مسلم رکشا والے کو اس کی کمسن بیٹی کے سامنے انتہائی بے دردی سے زدوکوب کیے جانے کی ویڈیو بھی وائرل ہوئی ہے ۔کھلی غنڈہ گردی کرنے والے ’جے شری رام ‘کا نعرہ لگارہے ہیں۔
سبھی جانتے ہیں کہ جنتر منترکاعلاقہ دہلی میں جمہوری احتجاج کے ایک اہم سنگ میل کے طورپر جانا جاتا ہے ۔ یہاں ہرجماعت اور فردکو اپنے دستوری حقوق کے لیے آواز بلند کرنے کی چھوٹ ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں بڑی بڑی جمہوری تحریکوں نے جنم لیا ہے ۔ شاید اسی لیے جنتر منتر کو جمہوریت کی پناہ گاہ بھی کہا جاتاہے ۔لیکن گزشتہ اتوار کو یہاں مذہبی جنونیوں نے فرقہ پرستی کا جو ننگا ناچ کیا ہے ، وہ اپنی مثال آپ ہے ۔ ’بھارت چھوڑوتحریک ‘ کی سالگرہ پر یہاں جو لوگ ’دیش جوڑنے ‘ کے نام پر اکٹھاہوئے تھے ، انھوں نے کھلے عام مسلمانوں کے قتل عام کی دھمکیاں دیں۔ ہندوستان میں رہنے کے لیے ’جے شری رام ‘ کہنے کی شرط لگائی اور وہ سب کچھ کہا جس کی اجازت ملک کا قانون کسی بھی صورت میں نہیں دیتا۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ سب کچھ پولیس کی موجودگی میں ہوامگر وہ خاموش تماشائی بنی رہی۔اس سے زیادہ شرمناک بات یہ ہے کہ کسی نام نہاد سیکولر پارٹی نے اس واقعہ کی مذمت نہیں کی۔
یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے کہ فسطائی ٹولہ ملک میں مسلمانوں کو للکار رہا ہے ۔جب سے بی جے پی نے اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کی ہے تب سے اس قسم کے واقعات مسلسل رونما ہورہے ہیں۔مسلم دشمن عناصر کی ٹولیاں کھلے عام انھیں قتل کرنے اور مسلم خواتین کے ساتھ زیادتی کرنے کی دھمکیاں دے رہی ہیں۔ مسلمانوں کے جائز اور دستوری حقوق کو پیروں تلے روندنے کی باتیں ہورہی ہیں۔ یہ سب کچھ حکومت کی ناک کے نیچے یعنی راجدھانی دہلی میں ہورہا ہے جہاں نظم ونسق کی مشنری براہ راست مرکزی وزیرداخلہ امت شاہ کے کنٹرول میں ہے ، لیکن وہ ان شرمناک واقعات سے قطعی بے خبر ہیں ۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جنتر منتر کے واقعہ پر عوامی احتجاج کے بعد جب پولیس حرکت میں آئی تو اس نے ’ نامعلوم ‘ افراد کے خلاف معاملہ درج کیا۔ جبکہ مسلمانوں کے قتل عام کی کھلی دھمکیاں دینے والوں کے چہرے اس وقت تک اتنے نمایاں ہوچکے تھے کہ ہرکوئی انھیں پہچان سکتا تھا۔ لیکن پولیس کے پاس ان چہروں کو شناخت کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں تھا۔کافی لعنت وملامت کے بعد اشتعال انگیز ویڈیو میں موجود کچھ لوگوں کو گرفتار کیا گیا۔ گرفتار شدگان میں دہلی بی جے پی کے سابق ترجمان اشونی اپادھیائے بھی شامل تھے ، جو اپنے ہم نواؤں کے ساتھ تعزیرات ہند کی 200دفعات کو دستور سے خارج کرنے کا مطالبہ کرنے وہاں جمع ہوئے تھے ۔ ان میں بیشتر دفعات وہ ہیں جو اس ملک میں مسلمانوں کو سراٹھاکر جینے کے مواقع فراہم کرتی ہیں۔اشونی اپادھیائے اب شہ سرخیوں میں ہیں اور پوری امید ہے کہ انھیں کوئی بڑی ذمہ داری سونپی جائے گی اور وہ بی جے پی کے اہم لیڈران میں شمار ہونے لگیں گے ۔جب سے بی جے پی نے مرکز میں اقتدار سنبھالا ہے تب سے یہی ہورہا ہے ۔ یعنی جس کسی کو پارٹی میں اپنا قد بلند کرنا ہوتا ہے ، وہ مسلم دشمنی کے کاروبار میں شامل ہوجاتا ہے کیونکہ موجودہ نظام میں سب سے زیادہ منافع بخش کاروبار یہی ہے ۔یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ پچھلے سال دہلی اسمبلی کے انتخابات کی مہم کے دوران ’’ گولی مارو۔۔۔‘‘ کا نعرہ اچھالنے والے جونیئر مرکزی وزیرانوراگ ٹھاکر کو حالیہ کابینی ردوبدل میں ترقی دے کر کابینہ درجہ کا وزیر بنادیا گیاہے ۔
جنتر منتر کے واقعہ کے سلسلے میں جن لوگوں کی گرفتاریاں عمل میں آئی ہیں، وہ سماج میں مسلمانوں کے خلاف مستقل زہر گھولنے کا کام کررہے ہیں۔ اس سے قبل دہلی کے دوراکا علاقہ میں حج ہاؤس کی تعمیر کے خلاف ہوئی پنچایت میں بھی یہی لوگ پیش پیش تھے ۔ دہلی بی جے پی کے صدرآدیش گپتا نے اس میں شریک ہوکر احتجاج کرنے والوں کا حوصلہ بڑھایا تھا۔دہلی ہوائی اڈے کے نزدیک مجوزہ حج ہاؤس کے لیے زمین تو بارہ سال پہلے الاٹ کی گئی تھی ، لیکن وہاں ابھی تک حج ہاؤس کی تعمیر کاکام شروع نہیں ہوپایاہے ،البتہ اس کی مخالفت میں سنگھ پریوار کی تمام تنظیمیں صف آراء ہوگئی ہیںاور انھوںنے دوراکا کے تمام باشندوں کی ایک تنظیم بناکر مجوزہ حج ہاؤس کی اس انداز میں مخالفت شروع کردی ہے ،گویا اس کی تعمیر سے علاقہ کا امن وامان غارت ہوجائے گا۔ اتنا ہی نہیں یہاں فساد جیسے حالات پیدا ہونے اور علاقہ سے ہندوؤں کی نقل مکانی کا اندیشہ بھی ظاہر کیا گیا ہے ۔ یہ سب دراصل مسلمانوں کو دیوار سے لگانے کی سازش کا ایک حصہ ہے جس میں حکمراں جماعت پوری طرح شامل ہے ۔
اس سے قبل سوشل میڈیا پرمسلم خواتین کی نیلامی کے لیے ’ لبرل ڈاگ‘ اور ’سلی ڈیلز ‘جیسے فتنہ انگیز ایپ کی دھوم سنائی دی تھی جس کی تحقیقات کے لیے پچاس سے زیادہ ممبران پارلیمنٹ نے وزیرداخلہ کو میمورنڈم دیا تھا۔ اتنا ہی نہیں اس معاملے میں دہلی خواتین کمیشن نے بھی پولیس سے جواب طلب کیا تھا، لیکن ابھی تک نہ تو حج ہاؤس کی مخالفت کرنے والوں اور اور نہ ہی مسلم خواتین کی بے حرمتی کرنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں آئی ہے ۔آپ کو یاد ہوگا کہ پچھلے ماہ دہلی سے متصل ہریانہ کے پٹودی علاقہ میں مسلم خواتین کے خلاف انتہائی توہین آمیز تقریریں کی گئی تھیں۔ تقریر کرنے والا نوجوان وہی رام بھکت گوپال تھا جسے گزشتہ سال جامعہ میں طلباء پر فائرنگ کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ بعد کو اسے عدالت نے ضمانت دے دی تھی، لیکن جیل سے رہا ہونے کے بعد وہ دوبارہ مسلم دشمنی کے کاروبار میں شامل ہوگیا ۔پٹودی میں انتہائی اشتعال انگیز تقریر کرنے کے الزام میں اس کی دوبارہ گرفتاری عمل میں آئی۔ ایک فاضل جج نے اس کو کورونا سے زیادہ خطرناک وائرس قرار دیتے ہوئے ضمانت دینے سے انکار کردیا تھا، لیکن چند دن بعد اسے ایک دوسری عدالت سے ضمانت مل گئی۔ پٹودی کے انتہائی اشتعال انگیز پروگرام میں بھی بی جے پی کے ترجمان شریک ہوئے تھے ۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ جو لوگ مسلمانوں کے خلاف زہر اگلتے ہیں اور قتل عام کی دھمکیاں دینے والوںکے خلاف ایسی معمولی دفعات کے تحت مقدمے قائم ہوتے ہیں کہ انھیں پہلی ہی پیشی میں ضمانت مل جاتی ہے ۔جنتر منتر واقعہ کے سلسلے میں بھی یہی ہوا اور کلیدی ملزم کو چوبیس گھنٹے کے اندر عدالت نے ضمانت پر چھوڑدیا۔ اس کے برعکس جن مسلمانوں کو اشتعال انگیزی کے الزام میں گرفتار کیا جاتا ہے ، ان پر وطن دشمنی اور دہشت گردی کی ایسی سنگین دفعات لگائی جاتی ہیں کہ انھیں ضمانت ہی نہ ملے ۔ پچھلے سال شمال مشرقی دہلی کا فساد بھڑکانے کے الزام میں جن سماجی کارکنوں کو گرفتار کیا گیا تھا، وہ ابھی تک جیل میں ہیں ،کیونکہ ان پر انسداد دہشت گردی قانون یو اے پی اے کے تحت کارروائی کی گئی ہے ۔ ان میں سے بیشتر وہ نوجوان ہیں جنھوں نے شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاجی تحریک میں حصہ لیا تھااور شاہین باغ جیسے بے نظیر احتجاجی پروگرام منعقد کیے تھے ۔ ان سب کو انتقامی کارروائی کے تحت شمال مشرقی دہلی کے فساد کی سازش میں ماخوذ کرلیا گیا ہے اور اتنی سخت دفعات لگائی گئی ہیں کہ ڈیڑھ سال گزرجانے کے باوجود انھیں ضمانت نہیں مل سکی ہے ۔اس کے برعکس جن لوگوں نے اعلانیہ فساد بھڑکایا تھا، ان کا بال بھی بیکا نہیں ہوا ہے ۔ان میں ایک مثال دہلی کے بی جے پی لیڈر کپل مشرا ہیں،جنھوںنے پچھلے سال جعفرآباد میں ڈی سی پی کی موجودگی میں فساد کرانے کی کھلی دھمکی دی تھی ، لیکن سارے ثبوت موجود ہونے کے باوجود ان کے خلاف کوئی مقدمہ درج نہیں کیا گیا۔ جب ہائی کورٹ کے جج جسٹس مرلی دھر نے جب اس معاملے میں دہلی پولیس کو پھٹکار لگائی تو راتوں رات ان کا تبادلہ چندی گڑھ کردیا گیا۔اس موقع پر اشتعال انگیزی کی تمام حدیں پار کرنے والی راگنی تیواری کے خلاف بھی کوئی مقدمہ درج نہیں ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ جنتر منتر پر دھاڑتی ہوئی نظر آئی۔
سبھی جانتے ہیں کہ اس وقت مسلمانوں کو مشتعل کرنے کی جو بھی کوششیں کی جارہی ہیں، ان کا ایک ہی مقصد ہے کہ ملک کے اندر ہندومسلم تفریق پیدا کرکے اصل مسائل سے لوگوں کی توجہ ہٹائی جائے اور مسلمانوںمیں خوف وہراس پھیلایا جائے ۔ اطمینان بخش بات یہ ہے کہ مسلمانوں نے آخری درجے کی اشتعال انگیزی کے باوجود ابھی تک صبر وضبط کادامن نہیں چھوڑا ہے ۔ آگے بھی یہی امید ہے کہ وہ فرقہ پرست اور فسطائی طاقتوں کے جال میں نہیں پھنسیں گے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر