... loading ...
4 جولائی 1977ء کی شام کابینہ کا اجلاس تھا وزیراعظم غیر معمولی طور پر سنجیدہ تھے۔ جنرل ضیاء الحق بھی اس اجلاس میں موجود تھے۔ اجلاس ختم ہوا توذوالفقارعلی بھٹو اپنے کمرے میں چلے گئے جنرل ضیا بھی ان کے ہمراہ تھے وہ تقریباً 10 منٹ تک مسٹر بھٹو کے ساتھ رہے۔ جنرل ضیاالحق کمرے سے باہر نکلے تو ان کے چہرے کا رنگ بدلا ہوا تھا اور وہ بے حد عجلت میں نظر آتے تھے۔ ان کی عادت تھی کہ وہ ہاتھ ملاتے وقت ایک ہاتھ سے مخالف فریق کا ہاتھ کلائی سے پکڑ کر بڑی گرم جوشی سے مصافحہ کرتے تھے اور کافی دیر تک ہاتھ تھامے رکھتے تھے۔ اس رات یوں لگا جیسے وہ۔۔۔ ہاتھ ملا نہ رہے ہوں، ہاتھ چھڑا رہے ہوں۔ قومی اتحاد کے وفد سے مذاکرات کرنے والی پیپلز پارٹی کی مذکراتی ٹیم کے رکن اوراس وقت کے وزیراطلاعات مولانا کوثر نیازی نے اپنی کتاب “اور لائن کٹ گئی‘‘ میں مزید لکھاہے ’’ 4 اور 5 جولائی کی درمیانی رات کو جو کچھ ہوا وہ مارشل لاء کا نقطہ آغاز ہرگز نہیں تھا بلکہ خشت اول میں کجی تو بہت پہلے آچکی تھی‘‘ ۔۔اس کا صاف صاف مطلب یہ بھی ہے کہ مارشل لاء دبے پائوں دستک دے رہا تھا لیکن حکومت اور پیپلزپارٹی کے رہنمائوںکو اس کا ادراک نہ ہوسکا یعنی آرمی چیف جنرل ضیاء الحق پہلے ہی دل ہی دل میں فیصلہ کرچکے تھے کہ ذوالفقارعلی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ دیا جائے جبکہ ان دنوںکچھ سیاسی مبصرین اس خدشے کااظہار بھی کررہے تھے کہ PNAکی تحریک کے دوران 20 اپریل 77 کو کراچی’ حیدر آباد اور لاہور میں محدود مارشل لاء لگا کر وزیرِ اعظم بھٹو نے اصلی مارشل لا ء کی راہ ہموار کر دی تھی اس جواز سے جنرل ضیاء الحق نے پورا پورا فائدہ اٹھایا۔
تاریخ بتاتی ہے کہ 5 جولائی 1977 کو ہونے والی فوج کی اس کارروائی کو جسے “آپریشن فیئر پلے” کا نام دیا گیا تھا کوئی ایسا اچانک اور غیر متوقع اقدام بھی نہیں تھا۔ سیاسی سمجھ بوجھ رکھنے والے افراد ایک عرصہ سے اس خدشے کا اظہار کر رہے تھے۔ ان کے خیال میں اس کے لیے نہ جانے کب سے پس پردہ تیاریاں ہو رہی تھیں اور اور فضا کو ایسے سازگار بنایا جا رہا تھا کہ مارشل لاء لگنے کے بعد قوم اسے درپیش مسائل کا واحد حل سمجھ کر خوش دلی کے ساتھ قبول کرلے کیونکہ حالات نے بھٹو حکومت اور نوجماعتوںکے اتحادپر مشتمل قومی اتحاد کی اس سیاسی محاد آرائی کو حق اور باظل کی جنگ بناکررکھ دیا تھا جب پیپلزپارٹی کی جمہوری حکومت کا خاتمہ کیا گیا تو لوگوںنے مٹھائیاں بانٹیں،حلوے کی دیگیں تقسیم کیں اور سڑکوںپر نوافل پڑھ کر یوم ِ نجات منایا، یہ سب تاریخ کا حصہ ہیں پیپلزپارٹی کی حکومت کیخلاف میڈیا نے بڑا پاورفل کردار اداکیااور بھٹو مخالف صحافیوں نے بڑا مال کمایابھٹو کے بارے میں اتنی کہانیاں تراشیں گئیں کہ توبہ ہی بھلی، اب تو اس حوالے سے تاریخ کو از سرنو ِلکھنے کی کوششِ ناتمام کی جا رہی ہے تاریخی حقائق کو اپنی پسند کے مطابق مسخ نہیں یکسر تبدیل کیا جا سکتا ہے اوریہ سب کچھ نام نہاد روشن خیال عناصر کر رہے ہیں۔ کئی بزرگ دانشور اپنی ذہنی تسکین کے لیے بھٹومرحوم کو جمہوریت کا دیوتا سمان ثابت کرنے کے لیے ان کے نئے بت تراش رہے ہیں اور کچھ جنرل ضیاء الحق کو اب بھی مرد ِ مومن مرد ِ حق ثابت کرنے کے لیے زمین وآسمان کے قلابے ملا رہے ہیں پیپلزپارٹی کے اکثر مخالفین کاالزام ہے کہ 77ء کے عام انتخابات میں تاریخ کی بدترین دھاندلی کی گئی بھٹو مرحوم واقعی اپنے چاروں صوبوں کے (وزرائے اعلی) سمیت بلامقابلہ منتخب ہو گئے تھے۔ ایک سوال ہے کیا لاڑکانہ سے جماعت اسلامی کے جان محمد عباسی مرحوم کو اغوا نہیں کیا گیا ؟جس کی انتخابی عذر داریاں بھٹو مرحوم اوران کے اٹارنی جنرل یحییٰ بختیار بھگتتے رہے۔ بھٹو مرحوم نے مارچ 77 ء کے عام انتخابات میں پاکستان کی تاریخ کی بدترین دھاندلی کی، انتخابی عمل کو قدموں تلے روندا انتخابی ادارے کو اتنابے توقیر کیا کہ آج تک الیکشن کمیشن اورانتخابی عمل کو ہمیشہ مشکوک نظروں سے دیکھا جاتا ہے بھٹو مرحوم سمیت کم از کم اٹھائیس ارکان قومی اسمبلی بلامقابلہ منتخب ہوگئے۔ الزامات اور حالات کے تناظر میں جو کچھ بھی کہا جائے عبث ہے کیونکہ آج پیپلزپارٹی کے اس وقت کے رہنمائوں میں سے زیادہ تر اپنے خالق ِ حقیقی سے جا ملے ہیںکسی الزام کی تائیدیا تردید کے لیے کوئی زندہ موجود نہیں ہے۔
بھٹوحکومت کا تختہ ۔۔دھڑن تختہ کیوں ہوا اس کے لیے ماضی کے جھروکوں میں جھانکنا ضروری ہے پاکستانی قوم سقوط ڈھاکا کا زخم بھولنے کی کوشش کررہی تھی بلاشبہ ذوالفقار علی بھٹو نے اس وقت ملک کو سنبھالا دیا جب قوم انتہائی مایوسی کا شکار تھی ملکی تاریخ پہلا متفقہ آئین نافذ العمل ہو چکا تھا،جمہوری دور حکومت کے پہلے انتخابات ہو چکے تھے، ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی ایک بار پھر اکثریت کے ساتھ حکومت بنانے کی پوزیشن میں تھی لیکن اس وقت وزیر اعظم کے مشیر انہیں لے ڈوبے حقیقت یہ بھی کہ اس وقت سیاست میں بھٹو کے پائے کا کوئی لیڈر نہیں تھا حتی کہ ان کا متبادل بھی دور دور تک کوئی دکھائی نہیں دیتا تھا پاکستان قومی اتحاد میں مختلف نظریات اور مسالک کے لوگ موجود تھے ان میں کوئی قدر مشترک تو نہ تھی لیکن وہ سب کے سب بھٹو دشمنی میں متحدہوگئے تھے عام انتخابات کے نتیجہ میں اپوزیشن جماعتوںکے اتحاد پی این اے نے چند نشستوں پر دھاندلی کا الزام لگایا اور انتخابی نتائج ماننے سے انکار کردیا جس پر ملک بھر مظاہرے شروع ہوگئے پھر یہ احتجاجی تحریک ۔۔تحریک ِ نظام ِ مصطفیٰ میں تبدیل ہوتی چلی گئی حالانکہ مسئلے کا واحد حل یہ تھا کہ عام انتخابات دوبارہ کروا دئیے جاتے تو بہتر تھا لیکن بھٹو نے اپنے مشیروں کے مشورہ سے اس احتجاجی تحریک کو ریاستی طاقت سے دبانے کی کوشش کی یہی ان کی زندگی کی سب سے بڑی غلطی ثابت ہوئی۔ قومی اتحاد کے ایک رہنماپروفیسر غفور نے ا پنی ایک کتاب میں واضح لکھا ہے “تیسرا مارشل لاء ایسے دبے پاؤں ملک پر مسلط ہوا کہ اس کے قدموں کی چاپ بھی سنائی نہیں دی” لیکن کئی سیاسی مبصرین ان کی یہ بات تسلیم نہیں کرتے کیونکہ یہی لوگ حالات کو اس نہج پر لے آئے تھے کہ جو وہ چاہتے تھے جنرل ضیاء الحق نے وہی کیا بہرحال5 جولائی1977ء پاکستان کی جمہوری تاریخ کا سیاہ دن تھا جب جنرل ضیاء الحق نے مارشل لا نافذ کیا، ملکی تاریخ کے اس سیاہ دور کی تلخ یادیں بھلائے نہیں بھولتیں، قوم4دہائیوں بعد بھی اس کے منفی اثرات سے جان نہیں چھڑا سکی۔90 میں روز میں انتخابات کے وعدے کے ساتھ شروع ہونے والا یہ سیاہ دور گیارہ سال جاری رہا ۔
سب سے بڑا ظلم یہ ہوا کہ اس مارشل لاء نے قوم کو تقسیم کرکے رکھ دیاپاکستان کی جمہوریت اور جمہوری سسٹم کو جنرل ضیاء الحق نے جتنا نقصان پہنچایا اس کا خمیازہ آج بھی جمہوری حکومتیں بھگت رہی ہیں کیونکہ انتہاپسندی، کلاشنکوف کلچر ،ڈرگز ،دہشت گردی اور فرقہ واریت،برادری ازم اور لسانیت نے پاکستان کی شناخت کو خاصا نقصان پہچایا ضیاء الحق دور میں شخصی آزادیاں سلب کرلی گئیں اس کے خلاف آواز اٹھانے والوں کو کوڑے مارے گئے ، جیلوں میں بند کیا گیا ،ملٹری کورٹس قائم کی گئیں ، ڈکٹیٹر کی سب سے بڑی غلطی پاکستان کو روس افغان جنگ میں دھکیلنا تھا۔ضیاء الحق کی انتہا پسندانہ پالیسیوں کی وجہ سے ملک میں شدت پسندی کو فروغ ملا لیکن اسلامی نظریات کے فروغ، پاکستان کو دفاعی طور پر مضبوط بنانا،روزگار کے مواقع،اوورسیزپاکستانیوںکے لیے آسانیاں،مہنگائی کا خاتمہ،ملک بھرمیں بے انتہاترقیاتی کام ہونا ان کے دورکی نمایاں خصوصیات تھیں جنرل ضیاء الحق کے بعد جنرل پرویزمشرف نے ایک اور مارشل لاء لگاکر اس وقت کے وزیر ِ اعظم میاںنوازشریف کو گرفتارکرلیاپھر ایک معاہدے کے تحت انہیں10سال کے لیے سعودی عرب جلاوطن کردیا آج عسکری قیادت نے ماضی کی غلطیوںکا کفارہ ادا کرنے کے لیے اپنا رویہ بہت حد تک تبدیل کرلیا ہے بد قسمتی یہ ہے کہ اگر نہیں سیکھا تو ہمارے سیاستدانوں نے ماضی سے کچھ نہیں سیکھا وہ اپنی پرانی غلطیاں دہراتے چلے آرہے ہیں اس وقت تمام چوٹی کے سیاستدان کرپشن کے الزامات میں نیب کے نرغے میں ہیں ۔ خوش قسمتی یہ ہے کہ اس بار فوج ملک کے اندر سیاسی استحکام اور جمہوریت کی بالادستی کے لیے کمیٹڈ ہے حالانکہ سیاستدانوں نے کوئی ایسی کسر نہیں چھوڑی جس میں فوج کو مداخلت کے لیے جواز فراہم نہ کیا گیا ہو اب فوج نے ہر محاذ پر جمہوریت کے فروغ کے لیے کردار ادا کی کرنے کا فیصلہ کررکھا ہے خداکرکے اب وطن ِ عزیز میں کبھی مارشل لاء لگانے کی نوبت نہ آئے کیونکہ کمزور سے کمزور اور بری سے بری جمہوریت مارشل لاء سے ہزار گنا بہترہوتی ہے اس لیے سیاستدانوں کو بھی سبق سیکھنا چاہیے اور ملک میں حقیقی جمہوریت او رآئین و قانون کی حکمرانی کے لیے اپنا کردار ادا کرتے رہنا چاہیے اس کے لیے وہ سب سے پہلے اینی سیاسی جماعتوںکو شخصی غلامی سے چھرانے کے لیے اقدامات کریں تو نہ صرف ملک و قوم بلکہ ان کے لیے بھی بہترہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔