... loading ...
ایک سوال کئی بار ذہن میں تو اٹھتا رہا لیکن اس کا تشفی جواب آج تک نہیں مل سکا کہ آخرامریکا نے6اگست 1945 ء کو جاپان کے شہر ہیروشیما پر ایٹمی حملہ کیوں کیا؟ ہیرو شیما میں خوفناک تباہی کے باوجود پھر تین دن بعد ناگاساکی پر ایٹمی حملہ کیوںکیا گیا ہیروشیما اور ناگا ساکی پر حملوں کے نتیجے میں ایک لاکھ چالیس ہزار (1,40,000) افراد موت کے منہ میں چلے گئے یہ بھی افواہیں گرم تھیں کہ اب امریکا ٹوکیو کوبھی ایٹمی حملہ کردے گا تاکہ وہ ہرصورت دنیاپرواضح کردکھائے کہ وہی دوسری عالمی جنگ کا ہیروہے امریکا کا یہ طرزِ عمل آج تک برقرارہے افغانستان، شام، عراق میں خوفناک لشکرکشی اور قتل و غارت اس کی واضح مثالیں ہیں بہرحال جاپان پر ایٹمی حملوںکو دوسری عالمگیرجنگ کا سب سے خوفناک المیہ کہاجاسکتاہے اس کے دو ہفتے بعد جاپان نے ہتھیار پھینک دئیے۔ غورطلب بات یہ ہے کہ جب جاپان کو ایٹمی دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا تو ایڈولف ہٹلر اس دنیا سے رخصت ہو چکا تھا کیونکہ ہٹلر کی موت کی تاریخ 30اپریل 1945 بتائی جاتی ہے۔ اس کے چار ماہ بعد امریکا نے جاپان پر ایٹمی حملے کیے۔ مشہور ہے کہ ایڈولف ہٹلر نے پہلے سایانائڈ (Cyanide)کا کیپسول کھایا اور پھر خود کو گولی مار کرزندگی کا خاتمہ کرلیا اس کی تقلیدمیں اس کی بیوی ایوابران نے بھی اپنے ساتھ یہی کچھ کیا حالانکہ ایوابران سے ہٹلر نے موت سے صرف 48گھنٹے پہلے شادی کی تھی پھر میاںبیوی کی یکے بعددیگرے خودکشی کا کیا جواز تھا اس کا معمہ شاید کبھی حل نہ ہوسکے ۔
جن لوگوں نے ان حالات کا تجزیہ کیا کہ آخر امریکا کو جاپان پر ایٹمی حملوں کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اس کی ایک وجہ تو یہ ہوسکتی ہے کہ امریکا اس جنگ کو جلد ختم کرنے کا خواہاں تھا کیونکہ اس کے فوجیوں کا نقصان ہو رہا تھا لیکن اس سے بھی بڑی وجہ یہ تھی کہ امریکا کو خوف لاحق تھا کہ کہیں وہ جنگ ہارنہ جائے نہ صرف ناگاساکی اورہیروشیما پر ایٹم بم گرانے سے دنیا بھرمیں دہشت مچ گئی لوگوںکے دلوںمیں امریکا کا خوف بیٹھ گیا بلکہ ان حملوں سے جنگ کا خاتمہ ہوگیا جس سے امریکی سپاہیوں کی جانیں بچ گئیں اور باقب مانندہ جاپانی سپاہیوں اور شہریوں کی جانیں بھی محفوظ ہو گئیں امریکا کو ان حملوں کا ایک فائدہ یہ بھی ہوا کہ جاپان ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہو گیا اور ان حملوں سے قبل یہ تاثر پھیل رہا تھا کہ جاپان ہتھیار پھینکنے کے لیے تیار نہیں۔ ان ایٹمی حملوں کا ایک اور بڑا سبب یہ تھا کہ امریکا پرل ہاربر (امریکا کا بحری اڈہ) پر جاپانی حملوں کا انتقام لینے پر تلا ہوا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ پرل ہاربر پر جاپانی حملے کے بعد ہی امریکا دوسری جنگ عظیم میں شامل ہوا۔جاپان نے جنگ کے دوران جس بربریت کا مظاہرہ کیا تھا امریکا یہ حساب بھی برابر کرنا چاہتا تھا۔ہیروشیما پر حملے کا انتخاب اس لیے کیا گیا کہ ہیروشیما پر جاپان نے کوئی فضائی حملہ نہیں کیا تھا۔ اس لیے یہ فیصلہ کیا گیا کہ ایٹم بم کے اثرات کا جائزہ لینے کے لیے یہ شہر مناسب ہے۔ہیروشیما اس زمانے میں جاپان کا ایک اہم فوجی اڈہ بھی تھا۔ امریکی صدر ٹرومین نے فیصلہ کیا تھا کہ جاپان کے شہر پر ایٹمی حملوں سے کوئی خاطر خواہ تاثر پیدا نہیں ہوگا۔ اصل مقصد یہ تھا کہ جاپان کی جنگ لڑنے کی صلاحیت کو ختم کر دیا جائے۔ اس وقت ہیروشیما کی آبادی تین لاکھ اٹھارہ ہزار (3,18,000) تھی اور جاپان کا ساتواں بڑا شہر تھا۔ اس کی فوجی اہمیت کا یہ عالم تھا کہ یہاں فوجی اسلحہ سپلائی کرنے کا ایک بڑا ڈپو تھا۔ یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ ہیروشیما پر ایٹمی حملوں سے 70,000افراد ہلاک ہو گئے جبکہ ناگاساکی پر حملوں سے 40,000افراد لقمہ اجل بنے۔ بعد میں زخموں کی تاب نہ لا کر مزید ہزاروں افراد موت کی وادی میں اتر گئے۔ تابکاری کے اثرات نے کئی بیماریاں پھیلا دیں جن میں سرطان کا مرض بھی شامل تھا۔ مجموعی طور پر 2 لاکھ افراد اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔
اب اس بات پر بھی غور ضروری ہے کہ ہیروشیما کے بعد ناگاساکی کو کیوں ایٹمی حملوں کا نشانہ بنایا گیا؟ ناگاساکی اس وقت وہ شہر تھا جہاں بحری جہاز بنائے جاتے تھے۔ اس صنعت کے قیام کا مقصد ہی تباہی پھیلانا تھا۔ اس شہر کے اردگرد پہاڑیوں کی موجودگی نے تباہی کو کم کرنے میں مدد کی۔ یہاں جاں بحق ہونیوالوں کی تعداد 60 ہزار سے 80ہزار بتائی جاتی ہے۔ یہاں یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ امریکا نے جرمنی پر ایٹم بم کیوں نہیں برسائے؟ اس کا سبب یہ بتایا جاتا ہے کہ اس وقت تک ایٹم بم پوری طرح تیار ہی نہیں ہوا تھا جب جرمنی نے سرکاری طور پر ہتھیار پھینک دئیے۔ جرمنی نے 7مئی 1945 کو اتحادی طاقتوں کے سامنے ہتھیار پھینکے تھے۔امریکا نے ہیروشیما اور ناگاساکی پر پھینکے جانے والے بموںکو چھوٹا لڑکا (Little Boy) اور موٹا آدمی (Fat man) قرار دیا تھا۔ ابھی تک اس بات پر اتفاق نہیں ہو سکا کہ کیا ایٹمی حملوں کا فیصلہ ایک سنجیدہ خیال تھا۔ ایٹم بم کا پہلا کامیاب تجربہ 16جولائی 1945 کو نیو میکسیکو میں کیا جا چکا تھا۔ 1945 میں کریمیا میں ہونے والی کانفرنس میں برطانیا کے وزیراعظم ونسٹن چرچل امریکا کے صدر روز ویلٹ اور سابق سوویت یونین کے وزیراعظم جوزف سٹالن شریک ہوئے مشہور جنرل گروز نے جنگ کے اختتام پر ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ تمام کمانڈروں کا اس بات پر اتفاق تھا کہ جرمنی میں جنگ کا خاتمہ ہو چکا ہے اورایٹم بم پھینکنے کے لیے جاپان کو ہی نشانہ بنانا چاہئے۔ اس بات پر تمام اتحادیوں کا متفقہ فیصلہ تھا کہ ایٹم بم پھینکنے کے لیے جرمنی پر ایٹمی حملہ کوئی پائیدار آپشن (Viable Option) نہیں تھا۔
اب ایک بڑے اہم سوال کی طرف آتے ہیں۔ا مریکا نے جاپان کے دارالحکومت ٹوکیو پر کیوں حملہ نہیں کیا؟ اس کی وجوہات بڑی ٹھوس ہیں۔ ویسے تو کئی جاپانی اور جرمنی کے رہنمائوں نے امریکا پر الزام عائد کیا کہ جاپان تو ایٹم بم حملوں سے پہلے ہی ہتھیار پھینکنے کا سوچ رہا تھا لیکن امریکا نے ’’مذموم مقاصد کے لیے ہیروشیما اور ناگاساکی پر حملے کیے۔ بہرحال یہ بحث تو اب تک جاری ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ٹوکیو پر ایٹمی حملہ نہ کرنے کا فیصلہ اس لیے کیا گیا کہ یہاں جاپانی شہنشاہ کا گھر تھا۔ ٹوکیو پر ایٹم بم پھینکنے کا ارادہ اس وقت تبدیل کیا گیا جب یہ بات سامنے آئی کہ ایسا کرنا فوجی اہمیت کے حوالے سے مناسب نہ تھا۔ اگر جاپان پر ایٹمی حملہ کرنا ضروری تھا تو پھر جنوب سے حملہ کیا جائے اور ٹوکیو جنوب میں نہیں تھا۔ نیگاٹا کے علاوہ تمام اہداف جنوب میں واقع تھے۔ آخر میں کیوٹو پر بم گرانے کا منصوبہ بھی ترک کر دیا گیا اور اس کی جگہ ناگاساکی کا انتخاب کیا گیا جہاں دوسرا ایٹم بم گرایا گیا۔امریکی جنگی ماہرین کے مطابق اگر ایٹم بم ایسے شہر پر گرایا جائے جہاں پہلے ہی بہت بمباری کی جا چکی ہو (جیسے کہ ٹوکیو) تو اس سے یہ تعین کرنا مشکل ہوگا کہ یہ کتنا طاقتور بم تھا کیونکہ فضائی حملوں سے پہلے ہی بہت نقصان ہو چکا تھا جاپان کے بہت سے چھوٹے شہروں پر اس لیے ایٹمی حملوں سے گریز کیا گیا کیونکہ فوجی لحاظ سے ان کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔ ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹمی حملوں کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ یہ فوجی لحاظ سے بڑے اہم شہر تھے۔ ٹوکیو پر حملے نہ کرنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ یہاں جاپان کے شہنشاہ کی رہائشگاہ تھی۔ اس کے علاوہ جاپان کے بڑے فوجی افسروں کا ٹھکانہ بھی یہی تھا۔ اب اگر آپ ہتھیار پھینکنے کے لیے جاپان سے مذاکرات کرنا چاہتے ہیں تو پھر ان فوجی افسروں کو ہلاک کرنا ہرگز دانشمندی نہ ہو گی ہیروشیما اور ناگاساکی کی فوجی اہمیت اوپر بیان کی جا چکی ہے۔ ایٹم بم پھینکنے کے لیے ان شہروں کا انتخاب کیاگیا جہاں پہلے دوسرے بم نہیں پھینکے گئے۔ بمباری سے ٹوکیو کئی بار جل چکا تھا۔ اس لیے اسے لسٹ سے نکال دیا گیا اور پھر جاپان کے شہنشاہ کو ہلاک کرنا بھی مقصود نہیں تھا۔اب ذرا اس نظرئیے پر غور کیجئے جو کچھ سیاسی ماہرین نے پیش کیا۔ ان کے موقف کے مطابق جاپان ایک شرط پر ہتھیار پھینکنے پر آمادہ تھا اور اس شرط کا تعلق جاپانی شہنشاہ سے تھا۔ وہ آبرو مندانہ طریقے سے ہتھیار پھینکنا چاہتے تھے۔ اس مقصد کے لیے وہ سابق سوویت یونین کو سفارتی طور پر امریکا کیخلاف استعمال کرنے کے آرزومند تھے تاکہ انکی سودے بازی (Bargaining) کی پوزیشن بہتر ہو جائے۔ اس کے برعکس امریکا چاہتا تھا کہ
جاپان غیر مشروط طور پر ہتھیار پھینکے لیکن وہ جانتا تھا کہ جاپان 2 شرائط پر ہتھیار پھینکنے پر راضی ہوگا،یہ کہ جاپان کے شہنشاہ کو اقتدار میں رکھا جائے اور اس پر مقدمہ نہ چلایا جائے اور دوسرا یہ کہ سابق سوویت یونین کو ان جاپانی علاقوں پر حملوں سے روکا جائے جو براعظم کے حوالے سے جاپان کا حصہ ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکا کے بہت سے جرنیل ایٹمی حملوں کے خلاف تھے کیونکہ ان کے خیال میں فوجی لحاظ سے اس کی صحیح معنوں میں کوئی حیثیت نہیں ہوگی۔ کچھ ماہ پہلے روسی جاپان پر ایٹمی حملوں کے حق میں تھے۔ آخری بات یہ تھی کہ ان حصوں کو ٹارگٹ کیا جائے جنہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا اور وہ فوجی اہمیت کے حامل بھی ہوں اور ہیروشیما اور ناگاساکی کا انتخاب اسی لیے کیا گیا جبکہ ٹوکیو کو انہی وجوہات کی بنا پر ’’بخش دیا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔