... loading ...
چونکہ تجسس انسانی فطرت کا بنیادی جز ہے ،اس لیے بلاوجہ ایک دوسرے کی ٹوہ لینا یا جاسوسی کرنے کے عمل کو انسان کی فطرت ثانیہ بھی کہا جاسکتا ہے۔ شاید یہ ہی وہ بنیادی وجہ ہے کہ ہم اکثر و بیشتر صرف اپنے حریف اور دشمن کی جاسوسی سے ہی حظ نہیں اُٹھاتے بلکہ بعض اوقات تو اپنے عزیز از جان دوست اور رشتہ داروں کی جاسوسی کرنے سے بھی خود کو روک نہیں پاتے۔ انفرادی زندگی میں کسی بھی شخص کی جانب سے اپنے اردگرد رہنے والے افراد کی حد سے زیادہ اور غیر ضروری جاسوسی کی عادت بلاشبہ ایک قبیح فعل ہے ،جس کا عمومی نتیجہ تعلقات کی شکست وریخت کی صورت میں ہی برآمد ہوتاہے۔ مگر دوسری جانب اجتماعی زندگی میں جاسوسی کے بیش بہا فوائد سے انکار بھی نہیں کیا جاسکتا، خاص طور پر حالت ِ جنگ میں متوقع نتائج کو زیر و زبر کرنے میں جاسوسی کو کلیدی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔اس لیے ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ جس روز انسان نے روئے زمین پراپنے اقتدار ،سیاسی طاقت اور وسائل کو دوام بخشنے کے لیے پہلی بار جنگ کا آغاز کیا تھا،عین اُسی روز جاسوسی کا منظم ادارہ بھی معرض وجود میں آگیا تھا۔
کوئی مانے یا نہ مانے مگر سچ یہ ہی ہے کہ جنگ اور جاسوسی لازم و ملزوم ہیں اورتاریخ کے مطالعے سے بھی یہ ہی معلوم ہوتاہے کہ جنگ کی فاتح زیادہ تر وہ ہی اقوام رہی ہیں ، جنہوں نے جنگ سے قبل اور جنگ کے دوران جاسوسی کی تیکنیک کا موثر انداز میںاستعمال کیا ہو۔ لہٰذا آج کے جدید دور میں یہ خبر کو ئی معنی نہیں رکھتی کہ’’ فلاں ملک اپنے فلاں ، فلاں حریف ممالک کی جاسوسی میں ملوث ہے‘‘۔کیونکہ سیدھی سے بات ہے کہ اگر ایک ملک اپنے حریف ملک کی جاسوسی کررہا ہے تو یقینا دوسرا ملک بھی کسی نہ کسی مقام پر اُس ملک کے خلاف جاسوسی میں مصروف ہوگا۔پھر یہاں عام آدمی کے ذہن میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ساری دنیا ہی اپنی اپنی خفیہ ایجنسیوں کے ذریعے ایک دوسرے کی جاسوسی میں مصروف ہیں تو جاسوسی کے اس عالمی گورکھ دھندے میں ’’پیگاسس‘‘ اسپائی وئیر کی مدد سے ہونے والی جاسوسی پر زمین و آسمان کے قلابے کیوں ملائے جارہے ہیں؟یعنی جب دیگر ذرائع کو جاسوسی کے لیے بروئے کار لانے پر کسی کو اعتراض نہیں تو ’’پیگاسس‘‘ اسپائی وئیر سافٹ وئیر کو جاسوسی کے لیے استعمال کرنے پر دنیا بھر میں اتنا شور کیوںبرپا ہے؟کیا دیگر ذرائع سے جاسوسی کرنے اور ’’پیگاسس ‘‘(Pegasus) اسپائی وئیر کی مدد سے جاسوسی کا نظام تشکیل دینے میں کوئی ایسا بنیادی فرق ہے ،جسے جاسوسی کے عالمی مسلمہ اُصولوں کے خلاف قرار دیا جاسکے؟
اِس اہم ترین سوال کا جواب حاصل کرنا اس لیے بھی بہت ضروری ہے تاکہ عوام الناس جان سکیں کہ اسرائیلی ٹیک کمپنی نے حکومتی آشیر باد سے کس طرح سے ’’پیگاسس‘‘ اسپائی وئیر کی مدد سے اقوام عالم کی جانب سے غیر اعلانیہ طور تسلیم شدہ جاسوسی کے عالمی چارٹر کی صریح خلاف ورزی کا ارتکاب کیا ہے۔ واضح رہے کہ اسرائیل کا سب سے پہلاجرم تو یہ ہے کہ اُس نے ’’پیگاسس ‘‘اسپائی وئیر کو اپنی من پسند حکومتوں کو فروخت کرکے جاسوسی کے اِس نظام سے پیسا کمانے کی کوشش کی ۔ حالانکہ ’’پیگاسس‘‘اسپائی وئیر کی تخلیق اور تقسیم کرتے وقت اسرائیلی کمپنی کی جانب سے یہ یقین دہانی کروائی گئی تھی کہ مذکورہ سافٹ وئیر کوصرف دہشت گردی کے انسداد اور دہشت گردوں کے خلاف ہی استعمال کی جائے گا ۔مگرایمنسٹی انٹرنیشنل اور فرانسیسی میڈیا نے میڈیا کمپنیوں کے ایک گروپ کے ساتھ مل کر تقریباً 50 ہزار موبائل فون نمبرز پر مشتمل فہرست کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد تحقیقاتی رپورٹ میں انکشاف کیا کہ ’’پیگاسس ‘‘ کو بطور خاص ایسے چنیدہ افراد کے خلاف استعمال کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی ،جن کا نہ تو دہشت گردی سے دور دور تک کوئی واسطہ تھا اور نہ ہی اِن میں سے کسی فرد کو دہشت گرد قرار دیا جا سکتا تھا۔
یاد رہے کہ اسرائیلی جاسوسی سافٹ ویئر کے حوالے سے تحقیقات کے لیے واشنگٹن پوسٹ، دی گارجین، لی مونڈ و دیگر خبر رساں اداروں نے باہم اشتراک کیا تھا۔دی پوسٹ نے اپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ بھارت کی جانب سے ایک ہزار سے زائد فون نمبرز کی نگرانی کی گئی تھی،جن میں سے سیکڑوں کا تعلق پاکستان سے ہے، ان میں وزیر اعظم پاکستان عمران خان کی جانب سے استعمال کیا گیا ایک نمبر بھی شامل ہے جبکہ دی پوسٹ میں واضح نہیں کیا گیا کہ عمران خان کے موبائل نمبر کی نگرانی کامیاب ہوسکی تھی یا نہیں۔نیز بھارتی خبر رساں ویب سائٹ دی وائرز کی رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ بھارت میں 300 نمبرز کی نگرانی کی گئی جن میں حکومتی وزرا، اپوزیشن کے سیاستدان، صحافی اور انسانی حقوق کے رضاکار شامل ہیں۔رپورٹ کے مندرجات کے مطابق نگرانی کیے جانے والے افراد میں 40 سے زائد صحافیوں کا تعلق بھارت کے بڑے خبر رساں اداروں، جیسے ہندوستان ٹائمز، دی ہندو اور دی انڈین ایکسپریس سے ہے، اس کے علاوہ نگرانی کی فہرست میں دی وائرز کے دو بانی ایڈیٹرز بھی شامل ہیں۔
برطانوی اخبار ’’دی گارجین‘‘ کے مطابق اسرائیلی فرم نے (Pegasus) نامی سافٹ ویئرز کے ذریعے ہیکنگ کا کام سر انجام دیا۔مذکورہ سافٹ ویئر موبائل فونز کو ہیک کرنے کے لیے وائرس کی طرح کام کرتا ہے اور اسرائیلی فرم نے اس پر اتنی تحقیق سے کام کیا کہ اب یہ سافٹ ویئر خود بخود موبائل فون میں داخل ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ ابتدائی طور پر مذکورہ سافٹ ویئر وائرس کی شکل میں بھیجا جاتا تھا مگر اب یہ سافٹ ویئر خود ہی موبائل کے آپریٹنگ سسٹم کی خرابیوں کو غنیمت جان کر موبائل میں داخل ہوجاتا ہے۔رپورٹ کے مطابق ’’پیگاسس ‘‘سافٹ ویئر کسی بھی آئی او ایس اور اینڈرائڈ فون کے آپریٹنگ سسٹم میں تھوڑی سی بھی خرابی ہونے کی وجہ سے بھی موبائل میں داخل ہو سکتا ہے اور صارف یا آپریٹنگ سسٹم چلانے والی کمپنی کو کسی چیز کا احساس دلائے بغیر موبائل کے ہرطرح کے ڈیٹا تک رسائی حاصل کر لیتا ہے۔موبائل میں داخل ہونے کے بعد مذکورہ سافٹ ویئر تصاویر، ویڈیوز، فون نمبرز، ای میل اور اسپیکر سمیت ہر طرح کے ڈیٹا تک رسائی حاصل کرکے اسی کی کاپی ادارے کو بھیج دیتاہے۔سب سے تشویش ناک بات یہ ہے کہ ابھی تک اس بات کی تصدیق نہیں ہوسکی کہ ’’پیگاسس‘‘ استعمال کرنے والی حکومتوں نے اپنے مخالفین کی جاسوسی کے لیے اس اسپائی وئیر کا استعمال ترک کردیا ہے یا ہنوز جاری ہے؟زیادہ تر ماہرین کا خیال ہے کہ ’’پیگاسس‘‘ سافٹ وئیر بدستور جاسوسی کے لیے استعمال کیا جارہاہے۔
حیران کن بات یہ ہے کہ ’’پیگاسس ‘‘ کا سب سے زیادہ منظم انداز میں استعمال اسرائیل اور بھارت نے اپنے مخالفین کی جاسوسی کے لیے کیا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے اِن دونوں ممالک کے خلاف ابھی تک اقوام متحدہ یا کسی دیگر بین الاقوامی ادارے نے تادیبی کارروائی کا عندیہ ظاہر نہیں کیا ۔حالانکہ مذکورہ بالا ممالک نے جس طرح سے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے عام افراد کی جاسوسی کی ہے۔ اقوام متحدہ کے چارٹر اور خود ’’پیگاسس‘‘ اسپائی وئیر بنانے والی کمپنی کے اپنے قواعد کے مطابق انسانی حقو ق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ بظاہر عالمی ذرائع ابلاغ میں ’’پیگاسس‘‘ اسپائی وئیر کے مذموم انداز میں استعمال پر شور ،شرابا تو بہت کیا جارہاہے لیکن ’’جاسوسی ‘‘ کے عالمی اسکینڈل میں ملوث ہونے والے ممالک کے خلاف ایسے اقدامات اُٹھانے سے اجتناب برتا جارہا ہے ، جن سے مستقبل میں جاسوسی کے ہتھیار کو غلط اور غیر ضروری استعمال کی حوصلہ شکنی ہوسکے۔ اکثر تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ اگر انسانی حقوق کے تحفظ کے ضامن عالمی اداروں نے جان بوجھ کر اسرائیل اور بھارت کے خلاف سخت تادیبی کارروائی سے پہلو تہی کرنے کی کوشش کی تو مستقبل میں جاسوسی کا عفریت اس حد تک بے لگام ہوجائے گا کہ بعدازاں روئے زمین پر بسنے والے کوئی بھی فرد جاسوسی سے محفوظ نہ رہ سکے گا۔
واضح رہے کہ ’’پیگاسس ‘‘ اسکینڈل کے افشاء ہونے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ لفظ انسانی حقوق صرف لکھنے اور بولنے کی حد تک محدود ہوکر رہ گیا ہے ، جبکہ حقیقت میں انسانی حقوق دنیا بھر میں کہیں موجود ہی نہیں ہیں ۔ اس لیے وہ ممالک ،تنظیمیں یا افراد جو صبح و شام پاکستان جیسے ممالک کو انسانی حقوق کی پامالی پر کوستے رہتے ہیں ۔انہیں ’’پیگاسس ‘‘ اسکینڈل کے منظر عام پر آنے کے بعد چلو بھر پانی میں شرم سے ڈوب مرنا چاہئے ۔ حیران کن بات تو یہ ہے کہ گزشتہ چند برسوں میں دنیا بھر میں انسانی حقو ق کی پامالی کی جتنی مذموم کوشش ہوئی ،وہ سب کی سب اُن ممالک کی جانب سے کئی گئی ہیں ۔جو ممالک اپنے آپ کو انسانی حقوق کے سب سے بڑا علم بردار سمجھتے ہیں ۔ دراصل انسانی حقوق کی اصطلاح تیسری دنیا کے غریب اور کمزور ممالک کا استحصال کرنے کے لیے تخلیق کی گئی ہے۔جبکہ ترقی یافتہ ممالک اپنی سرحدوں کے دفاع اور تحفظ کے نام پر جتنی چاہے انسانی حقوق کو اپنے قدموں تلے پامال کریں ،اُن سے کوئی پوچھنے والا نہیں ۔اس لیے یقین سے کہا جاسکتاہے کہ ’’پیگاسس ‘‘ اسکینڈل سے نہ صرف اسرائیل ، برطانیہ ،بھارت اور امریکا صاف بچ نکلیں گے بلکہ اُن ٹیکنالوجی کمپنیوں کو بھی کٹہرے میں نہیں لایا جاسکے گا،جنہوں نے ڈالر کمانے کی خاطر ’’پیگاسس ‘‘اسپائی وئیر سافٹ وئیر کی مدد سے لاکھوں افراد کی جاسوسی کے جرم کا ارتکاب کیا۔
٭٭٭٭٭٭٭