... loading ...
کبھی غورکریںتوعقل تسلیم کرنے سے انکارکردیتی ہے کہ دنیا میں ایسے عظیم مسلمان حکمران بھی ہو گزرے ہیں جو دامن نچوڑ دیں تو فرشتے اس پانی سے وضوکرنے کے لیے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی خاطر آپس میں الجھ پڑیں اسلام کے ابتدائی دور میں فارس(ایران) کی حیثیت ایک سپرپاور کی سی تھی وہاںسے ایک حکومتی وفد امیرالمومنین سے ملاقات کے لیے دارالحکومت مدینہ شریف آیا انہوںنے دریافت کیا آپ کے امیر سے کہاں ملا جا سکتاہے لوگوںنے بتایا کہ وہ مسجد نبوی ﷺ میں ہوںگے وفد وہاں چلا گیا لیکن اتفاق سے آپ وہاں موجودنہیں تھے وفدنے ایک صحابی ؓ سے پوچھا آپ کے خلیفہ کہاں ہیں؟۔ اس نے بتایا کہ فلاں جگہ امیرالمومنین آرام کررہے ہیں وفد مطلوبہ مقام پر پہنچاتو حیرت زدہ رہ گیا ۔ خلیفۃ المسلمین سیدنا عمر ِفاروق ؓ ایک درخت کے نیچے سرکے سرہائے اینٹ رکھ کر سورہے ہیں انہوںنے آپس میں کہا ان کو اپنی جان کا کوئی خوف نہیں ہمارے حکمران تو سیکورٹی کے سخت حصار میں رہتے ہوئے بھی ڈرتے ہیں ہم لڑائی میں ان لوگوںسے کبھی نہیں جیت سکتے ۔ غور کریں آج ہمارے حکمران پروٹوکول کے محتاج ہیں ان کی حفاظت پر ہزاروں اہلکار معمورہیں حکمر انوں کی آمدپر سڑکیں بازار بندکردئیے جاتے ہیںپھر بھی انہیں اپنی جان کا خوف لاحق ہے ا۔ نبی ٔ اکرم ﷺ نے اپنی زندگی میں جن 10 افراد کو جنت کی بشارت دی ان میں حضرت ابو عبیدہ بن الجراح ؓ بھی شامل ہیں اس سے ان کی فضیلت و مرتبہ کا اندازہ لگایا جا سکتاہے انہی حضرت ابو عبیدہ بن الجراح ؓ کو دوسرے خلیفۃ المسلمین حضرت عمر ِفاروق ؓ نے اپنے دور حکومت میں دمشق(موجودہ ملک شام) کا گورنر مقرر کیا تھا ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق ؓ نے شام کا دورہ کیا تو گورنر حضرت ابو عبیدہ بن الجراح ؓ نے ان کا شہرکے آخری کنارے استقبال کیا وہ ہستی جس کی ہیبت سے دنیا بھر کے کفارپر دہشت طاری تھی ان کے پروٹوکول کے لیے کوئی انتظام نہ تھا خلیفہ گھوڑے سے اترے گورنران کے منتظر تھے دونوں گرم جوشی سے بغلگیرہوئے دونوں باتیں کرتے ایک ساتھ لے کر شہر میں داخل ہوئے۔ خلیفۃ المسلمین سیدنا عمر ِفاروق ؓنے حضرت ابو عبیدہ بن الجراح ؓ سے کہا میں سب سے پہلے آپ کے گھر جانا چاہتاہوں انہوںنے نفی میں سرہلاکر کہا میں آپ ہمارے فوجی انتظامات کا جائزہ لے لیں اور اس کی بہتری کے لیے مشورہ دیں حضرت عمر ِفاروق ؓ نے کہا میں تو سب سے پہلے آپ کے گھرجانا چاہتاہوں۔ حضرت ابو عبیدہ بن الجراح ؓ کا انکار اورسیدنا عمر ِفاروقؓ کا اصرار بڑھتا چلا گیا گورنرنے التجاکی آپ میرے گھر نہ جائیں وہاں حسرتوں کے سوا کچھ نہیں ۔ سیدنا عمر ِفاروق ؓنے مسکراکر کہا میں تو آپ کے گھر جاکر کچھ دیر آرام کرنا چاہتاہوں۔ناچار اس نے کہنا مانتے ہوئے گھوڑوںکا رخ اپنے گھر (گورنرہائوس)کی جانب موڑدیا۔ تھوڑی دیر بعد وہ اپنی منزل پر پہنچ گئے وہاں جاکر خلیفہ کی حیرت سے چیخ نکلتے نکلتے رہ گئی حضرت عمرفاروق ؓ کی آنکھوںمیں آنسو بھر آئے انہوں نے بے ساختہ حضرت ابو عبیدہ بن الجراح ؓ کی طرف دیکھا اور بے تابی سے انہیں گلے لگا کر رونے لگ گئے ان کے گھر (اس وقت کے گورنرہائوس) میں ایک بوریا ایک لوٹا ایک مشکیزہ ،چند برتن اور کچھ کپڑوں کے سوا کچھ نہ تھا۔خلیفہ نے اس وقت جو الفاظ بولے وہ تاریخ بن گئے انہوںنے کہا تھا وقت نے ابو عبیدہ بن الجراح ؓ کے سوا سب کو بدل ڈالا کاش دوسرے بھی ان سے کچھ سیکھ سکیں۔
اس وقت پاکستان کے چاروں صوبوں کے گورنرہائوس ایکڑوں اراضی پر پھیلے ہوئے ہیں جو عام آدمی کی رسائی سے باہرہے یہ اشرافیہ کی حکمرانی کی بدترین مثال ہے بدقسمتی سے ہرحکمران نے ایوان ِ صدر، وزیر ِ اعلی ہائوس، وزیر ِ اعظم ہائوس اور گورنرہائوس جیسی عمارت کو ہیبت ناک بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا لاہورمیں واقع گورنرہائوس چندسال پہلے شملہ پہاڑی کی طرف بیت المال کے دفاترمیں آسانی سے داخلہ ممکن تھا اور گیٹ تک جگہ اوپن تھی اب سڑک سے ہی اسے نو گوز ایریا بنادیا گیا ہے اب تو وہاں چڑیا بھی پر نہیں مار سکتی عام آدمی تو حکمرانوں کے محلات، بڑی بڑی سرکاری عمارات کے اندر کسی درخت کو بھی نہیں دیکھ سکتا برصغیر میںانگریزوں نے بڑے بڑے ڈپٹی کمشنر ہائوس بناکر انہیں عوام کی دسترس سے باہرکردیا عوام اپنے مسائل کے لیے پریشان پھرتے ہیں لیکن بڑے افسروںکی تربیت اس انداز سے کی گئی ہے کہ انہیں عام آدمی سے کوئی سروکارنہیں اس اشرافیہ کے اس طرزِ عمل نے عوا م کوذلیل کرکے رکھ دیاہے اس تذلیل پر حکمران خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیںپھر بھی کہا جا تاہے کہ بھارت،پاکستان اوربنگلہ دیش میں جمہوریت ہے لعنت ہے ایسی جمہوریت پر۔سلطان صلاح الدین ایوبیؒ کو کون نہیں جانتا آج بھی دنیا بھر کے عیسائی ان سے شدید نفرت کرتے ہیں اسلام کے عظیم جرنیل،فاتح ِ بیت لمقدس، فلسطین،شام، مصر، اردن اور لبنان کا جب وصال ہوا تو ان کی تدفین کے لیے قرض لے کر انتظام کیا گیا جب سلطان صلاح الدین ایوبیؒ کے اثاثوں کا حساب کتاب لگایا گیا تو ایک گھوڑا، ایک تلوار، ایک زرہ بکتر،ایک دینار اور36درہم کے سوا کچھ نہ تھا اور وہاں پر موجود شخصیات کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اسلامی تاریخ کا یہ عظیم حکمران شدید خواہش کے باوجود حج کے لیے نہ جا سکا کہ ان کے پاس وسائل ہی نہ تھے ایک مرتبہ ایک سردارنے حج کے لیے زاد ِ راہ دینے کی پیش کش کی لیکن سلطان صلاح الدین ایوبیؒ نے کہا میں اپنے ذاتی وسائل سے حج کرنا چاہتاہوں۔۔اس کے برعکس۔ آج کے حکمرانوں نے پورے ملک کو اپنی جاگیر شمجھ رکھاہے غیرملکی دوروںکے دوران جہازبھربھرکر اپنے عزیزواقارب اور سیاسی ہم نوائوں اور صحافیوںکو لے جانا معمول ہے حکمرانوں کے خاندان کے خاندان سرکاری خرچے پر عمرہ کرنے جاتے ہیں زکوٰۃ کے پیسوں سے وزیروں، مشیروںاور بیوروکریسی نے مہنگے ہسپتالوں میں علاج کرونا فیشن بنالیاہے اورکوئی پوچھنے والانہیں۔ خوشامدی لوگوں کو مختلف قومی اداروں کا چیئر مین بنانا بھی حکمرانوں کااندازِ سیاست ہے غریب ملکوں کی معیشت پر اتناظلم کرتے ہوئے ان کو ذرا خداکا خوف نہیں آتا ایسے حکمرانوںپر تو مال ِ مفت دل بے رحم کا مقولہ صادق آتاہے یہ اپنے عظیم اسلاف کی درخشندہ روایات سے بھی کچھ نہیں سیکھنا چاہتے ہمارے حکمرانوں کو حضرت عمرؒبن عبدالعزیز کی وہ مثال یاد نہیں کیا جب رات کے وقت وہ کوئی سرکاری کام کررہے تھے ایک شخص ان سے اپنے کسی ذاتی کام کی غرض سے ملنے چلا آیا انہوںنے اسے انتظارکرنے کہ کہا پھر جب اسے بلایا توجلتی شمع(فانوس) گل کردیا اس شخص نے حیرت سے دریافت کیا آپ نے شمع کیوں بجھا دی؟۔ حضرت عمرؒبن عبدالعزیز کا جواب تاریخ بن گیا انہوںنے کہا ذاتی کام کے لیے سرکاری وسائل استعمال کرنا میںگناہ سمجھتاہوں ہمارے حکمران دوسرے خلیفہ حضرت عمرؓ ِفاروق کا قول بھی بھول گئے انہوںنے کہا تھا دجلہ کے کنارے کتا بھی بھوکا مرجائے تو قیامت کے روز عمر اللہ کے حضور جوابدہ ہوگا دنیا بھرکے آئین،قانون اور منشور اٹھاکردیکھ لیجئے انسانیت کے لیے اس سے بڑھ کر کوئی نہیں سوچ سکتا۔بلاشبہ کبھی غورکریںتوعقل تسلیم کرنے سے انکارکردیتی ہے کہ دنیا میں ایسے عظیم مسلمان حکمران بھی ہو گذرے ہیں جو دامن نچوڑ دیں تو فرشتے اس پانی سے وضوکرنے کے لیے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی خاطر آپس میں الجھ پڑیں ۔ وہ اتنے عظیم حکمران تھے اور آج ہمارے حکمرانوں پرکیا تبصرہ کریں بس جانے ہی دیں زیادہ باتیں کرنے سے دل دکھتاہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔