... loading ...
رنگ صحراء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رانا خالد قمر
وہ بھی کیا زمانہ تھا جب مرد اپنے جثے۔ چال چلن اور مردانہ وجاہت سے پہچانا جاتا تھا اس کی گفتگو اس کی آنکھ کی شرم و حیا اسے اور بھی خوبصورت بنا دیتی تھی۔ مرد اپنی زباں سے نہیں پھرتا ان دنوں حقیقت ہوا کرتی تھی آج کی طرح صرف محاورہ نہیں۔ گئے وقتوں کے تو ڈاکو بھی اس قدر “شریف” ہوا کرتے تھے کہ غیر عورت کو آنکھ بھر کر دیکھنے کو گناہ سمجھتے تھے۔ اپنے علاقے میں ڈکیتی کا تصور تک نہیں تھا بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ اگر کسی دوسرے ڈاکو کو پتہ چل جاتا کہ یہ فلاں ڈاکو کا علاقہ ہے وہ اس علاقے میں کوئی واردات کیے بغیر نکل جاتا یہ تھی اس دور کی مردانگی جو اس دور کے مرد کے قول فعل اور چال ڈھال سے ٹپکتی تھی اس دور میں مرد واقعی مرد ہوا کرتے تھے ،وہ آج کے “مرد نما” نمونوں کی طرح شہر کی دیواروں پر “مرد کبھی بوڑھا نہیں ہوتا” جیسے اشتہاروں سے اپنی “مردانگی” ثابت نہیں کرتے تھے۔ آج کے “مرد” تو اپنی مردانگی”ثابت” کرنے کے لیے کسی بھی “حد” تک گر سکتے ہیں ،وہ خواہ مسجد ہو یا مدرسہ۔ ا سکول ہو یا ٹیوشن سینٹر بازار ہو یا چوک چوراہا۔ محلہ ہو یا گھر آج کے “مرد” اپنی مردانگی “ہاتھ” میں لیے گھوم رہے ہیں ان سے نہ کوئی بچہ محفوظ ہے نہ بچی یہاں تک کہ وہ کسی بھی عمر کی عورت کو بھی “بخشنے” کو تیار نہیں۔ مرد آج اس حد تک کیوں “گر” گیا اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔سب سے پہلی اور بنیادی وجہ تو ماں کی گود اور گھر کا ماحول ہے۔جہاں سے جیسی تربیت ہوگی ویسا ہی مرد بن کر نکلے گا۔ ماں کی تربیت اور گھر کا ماحول اسے بابا فرید گنج شکر بھی بنا سکتا ہے اور سو بچوں کا قاتل جاوید اقبال بھی۔ دوسرا مرحلہ بچپن سے لڑکپن کے دوستوں کی صحبت مرد کو بنانے اور بگاڑنے اہم کردار ادا کرتا ہے بہت مشہور کہاوت ہے انسان اپنی صحبت سے پہچانا جاتا ہے یہ صرف کہاوت نہیں حقیقت ہے۔ باب العلم حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول ہے کہ اچھا دوست بھی اللہ کی نعمت ہے آج کے والدین بھی اپنے بچوں کے دوستوں پر نظر رکھنے کی بجائے بچوں کو اس کام میں “خود مختار” کر دیتے ہیں اور پھر ساری عمر پچھتاتے رہتے ہیں۔ ملک میں بڑھتے ہوئے نشے کے رجحان اور جنسی بے راہ روی کے علاوہ تشدد کا عنصر در اصل والدین کی لا پرواہی کا نتیجہ ہے۔ ظاہر ہے جس گود میں بچے کی تربیت ہونی ہے وہ ماں تو خود ٹی وی ڈرامے اور سوشل میڈیا پر “مصروف” ہے اس نیکیا تربیت کرنی ہے۔ بچہ ہو یا بچی اس کی تربیت سے صحبت تک نظر رکھنا یہ خالصتاً والدین کی زمہ داری ہے۔ آج ذرا اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں کہ کیا ہم اپنی یہ ذمہ داری با احسن نبھا رہے ہیں مجھے یقین ہے کہ ہم میں سے اکثریت اس کا جواب نفی میں دے گی۔ آج جب ہم اپنے بچوں کی تربیت میں ناکام ہیں تو پھر ہم اچھے معاشرے کی توقع کیسے رکھ سکتے ہیں۔ والدین تو اپنے بچوں کے نفع اور نقصان کے زمہ دار ہیں اور وہ اپنے اسی عمل سے اس کی جزا اور سزا پا رہے ہیں۔ سوچنے کی بات ہے کہ کیا بہتر معاشرے کی تشکیل صرف والدین کی ذمہ داری ہے۔ میرا جواب نہیں میں ہے والدین ایک حد تک یقیناً قصور وار ہیں لیکن اصل قصور وار ہماری ریاست اور حکومت ہے جس نے اچھے معاشرے کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کرنا ہے ریاست پاکستان بھی اور اس ملک پر حکومت کرنے والے حکمران بھی برابر کے “مجرم” ہیں۔ ملک میں کلاشنکوف سے ہیروئن کلچر تک اور ہیروئن سے ممی ڈیڈی کلچر یہ سب کیا ہے۔ اگر اسے ایک جملے میں سمیٹوں تو ہماری شامت اعمال۔۔۔ جی ہاں۔۔۔ جیسے عوام ویسے حکمران۔۔۔۔ آپ کو یاد ہوگا کبھی کہا جاتا تھا مرد اپنی زباں سے نہیں پھرتا آج اللہ نے ہم پر ایسا حکمران مسلط کیا ہے جو زبان سے پھرنے پر ناز کرتا ہے اور فخریہ انداز میں اسے اپنی خوبی قرار دیتا ہے۔ اب ایسے حکمرانوں سے ہم آنے والی نسل کے لیے اچھی خوارک اور اچھے ماحول کی توقع کیسے رکھ سکتے ہیں۔ کیا یہ حکمران ہمیں خالص اور پاک و صاف ماحول دیں گے ؟ ہمارے معاشرے کے بگاڑ میں سبھی حکمران”ایک صفحے” پر ہیں۔ ہمارے بہت سینئر اور صاحب کردار و باوقار صحافی شاہد ملک نے گزشتہ دنوں بی بی سی ریڈیو پر اپنے نشر ہونے والے اپنے بولتے کالم کے چند جملے شئیر کیے جو ہمارے معاشرے کی بگاڑ کا احاطہ کرتے ہیں وہ لکھتے ہیں
دو نمبر اور دو نمبری کی اصطلاحات تو اب عام ہوئی ہیں مگر اِن کی شروعات اْسی وقت ہو گئی تھی جب دودھ اور مکھن والے اصلی دیسی گھی کے مقابلے میں کم قیمت بناسپتی یا ولایتی گھی اول اول بازار میں آیا۔ وزن پانچ پونڈ، رنگ ہلکا پیلا اور ووٹ پکے کرنے کے لیے کھجور کے اسلامی درخت والا انتخابی نشان۔
ایوب خان کے مارشل لا کے دنوں میں ہمارے گھر پہلا ڈبہ لائے تھے ابا کے کزن چاچا جی یعقوب۔ ڈبہ دیکھتے ہی امی اور پھوپھو ممتاز کا پہلا تاثر شدید خوف کا تھا، ویسا خوف جو توہین کے احساس سے پیدا ہوتا ہے۔ ذرا وقفہ دے کر کچھ نیم خفیہ سے اشارے ہوئے۔ پھر ایک کا منہ دوسری کے کان کے پاس گیا اورڈری ڈری سی آواز سنائی دی: “ٹھیک ہے بھابھی جی، کوئی چیز تل کر دیکھتے ہیں۔”
اْس سہ پہر پاکستان کے ایٹمی دھماکوں کی طرح کامیابی سے سموسے تل لینے پر دونوں خواتین کی حیرت اْس مریض کی سی تھی جو ریڈیائی شعاعوں کے علاج سے مکمل مایوس ہو جانے کے بعد حکیم لطیف جگرانوی کی ایک پڑیا سے صحت یاب ہو جائے۔
دو سال گزرے ہوں گے کہ ہمارے گھر میں بناسپتی گھی کے پراٹھے بھی تلے جانے لگے۔ اِس دوران لال آٹے والی میکسی پاک گندم، شیور اور برائلر انڈے مرغی، فارمی سبزیاں اورپھل اِس حد تک عام ہوئے کہ میری دادی کو مصنوعی پن کے اِس برملا اظہار پر کہنا پڑا: “آہو، ہْن تیبندے وی فارمی ہوگئے نیں۔”
شاہد ملک صاحب کی دادی کو اللہ پاک جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے وہ جاتے جاتے ہمارے اس معاشرے اور ہمارے حکمرانوں کے منہ پر تمانچہ رسید کر گئیں کہ جن ماؤں نے وہ مرد پیدا کرنے تھے جن کی وجہ سے عورتیں خود محفوظ خیال کرتیں وہ مائیں خود ڈراموں میں مگن ہوکر اپنی نسل برباد کر بیٹھیں اور جو حکمران کتا پیاس سے مرنے پر خود کو زمہ دار سمجھتے تھے آج اس منصب پر وہ حکمران براجمان ہے جسے اپنے یو ٹرن پر فخر ہے اب ایسے حکمرانوں سے بہتر معاشرے کی تشکیل کی امید دیوانے کا خواب ہی ہو سکتی ہے۔ قارئین کرام۔ میں نے اپنے کالم کا آغاز مرد اور مردانگی سے کیا تھا میں واپس اسی جگہ آتا ہوں۔ میں ایک مرد ہونے کی حیثیت سے معاشرے کے بگاڑ کا زمہ دار بڑی حد تک مرد کو ہی سمجھتا ہوں ہمارے حکمران بھی مجموعی طور پر مرد ہی ہیں اگر مرد چاہیں تو یہ معاشرہ بھی جنت بن سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔