... loading ...
امریکا ہار گیا، اُسے ہارنا ہی تھا۔ امریکا باز نہ آئے گا۔ متکبر طاقتیں ملیامیٹ ہونے سے پہلے کہاں باز آتی ہیں، امریکا بھی نہ آئے گا۔
افغانستان میں ایک نئی جنگ کا آغاز ہوگیا۔طالبان ظفریاب ہوئے۔ کابل اُن کے انتظار میں ہے ، مگر اُنہیں جلدی نہیں۔ عجلت میں اشرف غنی ہے۔ آنکھوں کے آگے کلینڈر رکھتے ہیں،ہاتھ پہ گھڑی باندھتے ہیں۔ اُن کے آقا بھی جنہیں دنیا کی سب سے بڑی طاقت ہونے کے زعم سمیت افغان سرزمین پر نشانِ عبرت بنادیا گیا۔ اب راہِ فرار اختیار کرتے ہوئے شکست کا داغ بھی دھونا چاہتا ہے۔ یہ طالبان ہیں، مردانِ کہستان! امریکا کی اس مچلتی ، پھیکی آرزو کو کیسے پورا ہونے دیںگے؟امریکا ایک دہائی قبل جان چکا تھا،افغانستان میں شکست اس کا مقدر ہے۔ تب امریکا کے طاقت ور اداروں کی راہداریوں میں ایک اصطلاح کی گونج سنائی دینے لگی۔ فتح نہیں تو فتح کا مغالطہ ! انگریزی میں جسے ”semblance of success” کہا گیا۔ امریکی فکری مراکز (تھنک ٹینک) اس پر سرکھپاتے تھے۔ ڈونلڈ ٹرمپ بعد میں طلوع ہوئے ، اباما انتظامیہ 2010ء میں ہی اس پر غور کرنے لگی تھی کہ افغانستان میں کامیابی کی تعریف کیا متعین کی جائے؟ تمام امریکی سربرآوردگان ناکام ہوئے۔ پھر فتح کا مغالطہ تخلیق کرنے کی مہم شروع ہوتی ہے۔ تب بھارت کے انگریزی اخبارات بھی چیخنے لگے کہ افغانستان میں فاتح بھی دو ہوں گے اور شکستہ بھی دو ممالک۔جون 2010 ء میں ”دی ہندو” چیخ رہا تھا کہ فاتح طالبان اور پاکستان ہوں گے۔ شکست خوردہ ممالک میں امریکا اور بھارت!جو بات نظر انداز کی جارہی ہے ، وہ یہ کہ یہ دونوں ممالک اب بھی باز نہ آئیں گے۔
آشکار ہے کہ افغانستان میں ایک نئی ہائبرڈ جنگ مسلط کی جارہی ہے۔ اس کی پولی پولی ڈھولکی پاکستان کی سرزمین پر سنائی دے رہی ہے۔ افغان سفیر کی بیٹی کے ساتھ جو کچھ ہوا، اور اس واقعے کی بنیاد پر جو کچھ کیا جارہا ہے، وہ اس ہائبرڈ جنگ کے دھیمے سروں کی ہی چھیڑ چھاڑ ہے۔ اس سے قبل داسو ڈیم کی تعمیر میں شریک چینی انجینئرز کی گاڑی پر حملہ بھی اسی جہت سے مرضی کے مطابق حالات کو ترتیب دینے کی ایک مہم جوئی محسوس ہوتی ہے۔ مگر ٹہریے! میدان جنگ تو ابھی بھی افغانستان ہے ،وہاں کیا ہورہا ہے؟برطانوی اخبار ڈیلی ٹیلیگراف نے رواں ماہ کے آغاز میں ایک پھلجڑی چھوڑی کہ” برطانیا افغانستان میں افغان فورسز کی تربیت کے لیے اپنی ایک ایلیٹ اسپیشل فورس کی تعیناتی پر غور کررہا ہے”۔ اس سے ذرا قبل امریکا نے یہ اعلان کیا تھا کہ وہ محدود تعداد میں اپنی فورسز کو افغانستان میں اپنے سفارتی مشن کے تحفظ کی خاطر ٹہرائے گا۔ طالبان نے پتنگ بازی کے اس مشغلے کو خشمگیں نگاہوں سے دیکھا۔ یہاں تک کہ امریکا نے بگرام ائیر بیس کو اس طرح چھوڑا کہ اپنی کٹھ پتلی حکومت کی معاون فورس کو بھی کانوں کان خبر نہ ہونے دی۔ برطانیا نے اس دوران میں اپنی جان چھڑاتے ہوئے یہ تک کہا کہ اگر طالبان حکومت میں آتے ہیں تو وہ اُن کے ساتھ بھی کام کرنے کو تیا رہیں۔ تاہم نیو یارک ٹائمز نے ڈیلی ٹیلی گراف کے ساتھ یہ اطلاع دی کہ امریکا نے فوجی انخلاء مکمل ہونے کے باوجود افغانستان میں متعین اپنے اعلیٰ امریکی کمانڈر جنرل آسٹن ایس ملر کو مزید کچھ وقت کے لیے وہاں تعینات رکھنے کی منظوری دی ہے۔ ان خبروں کے ٹیڑھ پن سے واضح ہے کہ امریکا افغانستان میں اُس روسی نمونے (ماڈل) کی پیروی کرنا چاہتا ہے جو اسد حکومت کو برقرار رکھنے کے لیے شام میں اختیار کیا گیا۔ روس نے شام میں ایک ہائبرڈ جنگ مسلط کررکھی ہے۔ روس کی اس میں بظاہر کامیابی امریکا کو للچاتی ہے۔ یہاں ہم سمجھ سکتے ہیں کہ جنرل آسٹن کو افغانستان میں مزید کچھ عرصے کے لیے کیوں ٹہرایا جارہا ہے۔ دراصل وہ طالبان کے خلاف امریکی فوجی مشن کی ہائبرڈ جنگ میں منتقلی کے عمل میں معاونت کریں گے۔گویا کھیل ابھی جاری ہے۔
کھیل ابھی جاری ہے، یہ ہمیں اس نقشے سے معلوم ہوتا ہے جو بنیادی طورپر ہمارے سامنے اپنی تمام جنگی حشر سامانیوں کے ساتھ موجود ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ پینٹاگون فضا سے حملہ آور ہونے کی اپنی صلاحیت کو مسلسل بڑھاتا رہتا ہے۔ امریکی جنگی طیارے اور مسلح ڈرون خلیج فارس میں موجود ہیں، جن کا بظاہر مصرف طالبان کے خلاف افغان فوجی کارروائیوں میں فضائی معاونت ہے۔اس سے بڑھ کر امریکا خطے میں اپنی صلاحیتوں کو مزید وسعت دے رہا ہے، یہاں تک کہ اپنے فوجی اثاثوں کی بھی تنظیمِ نو کررہا ہے۔اس کھیل کے خطرناک مرحلے میں وزیراعظم پاکستان کا اچانک دورۂ ازبکستان بھی آتا ہے۔ یہ کوئی خطے کے ممالک کی سفارتی کوشش نہیں تھی۔ بلکہ یہ دورہ بھی اُسی امریکی ہائبرڈ جنگ کا حصہ تھا۔ وزیراعظم عمران خان کے ”absolutely not” کا اپنا ایک مزہ ضرور ہے۔ مگر پاکستان کی اپنی ایک تاریخ اور حکمرانوں کی امریکا کے آگے سجدہ ریزی کی ایک نہایت مکروہ روایت بھی ہے۔ فوجی حکمران اور سربراہان بھی اس باب میں کچھ مختلف ثابت نہیں ہوئے۔ یہ پوری سیاسی اور عسکری اشرافیہ کسی دور کی ہو، کبھی بھی دھوکا دے سکتی ہے۔ بدقسمتی سے وزیراعظم عمران خان کے دورۂ ازبکستان سے ذرا پہلے ازبکستان اور تاجکستان کے وزرائے خارجہ واشنگٹن میں ”مشاورت” کے لیے ” مدعو”تھے۔ یہ” مشاورتی عمل” افغانستان میں طالبان کے خلاف ایک متبادل (بیک اپ) منصوبے کا حصہ تھا۔ امریکا ان دونوں ممالک میں اپنی کچھ افواج کے ساتھ موجودرہنا چاہتا ہے۔ اشارے یہ ہیں کہ ازبکستان تقریباً قائل ہو چکا ہے۔ اگرایسا ہوتا ہے تو اس کا واضح مطلب ہے کہ واشنگٹن وسط ایشیائی ممالک میں مناسب عسکری سہولیات کے ساتھ اڈے اور اپنی پہلے درجے کی فوج کو ڈرون، بمبار طیاروں اور انٹیلی جنس اثاثوں کو ہروقت فعال حالت میں رکھنے میں کامیاب ہوجائے گا۔ یہ سب کچھ طالبان کے خلاف ہوگا یا پھر اُن کے خلاف لڑنے کے نام پر ہوگا۔ آپ خطرے کی گھنٹی سن سکتے ہیں۔اس کھیل میں وزیراعظم عمران خان اپنے ”absolutely not” کے ساتھ ازبکستان کیا کرنے گئے تھے؟ اس کا جواب کچھ زیادہ مشکل نہیں۔ عمران خان کی شکل میں ملک کے اندر جو بھی بندوبست موجود ہے، وہ اپنے دعووں اور وعدوں کے بالکل برعکس اقدامات کرنے کی لامحدود صلاحیت رکھنے کے حوالے سے مشہور یا پھر بدنام ہے۔ مزید کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔
امریکی عزائم مخفی نہیں۔ امریکا طالبان کے خلاف شام کے نمونے پر کارروائیاں شروع کرانا چاہتا ہے۔ اس کے لیے مقامی افغان ملیشیا گروپوں کو تحریک دینے کا عمل شروع ہوگیا ہے جو پہلے ہی گزشتہ دو عشروں میں پینٹاگون اور سی آئی اے کے ساتھ کام کرتے رہے ہیں۔ پینٹاگون کے ساتھ ٹھکیداروں کی ایک لابی بھی منسلک ہے جو اس طویل جنگ کی اصل فائدہ اُٹھانے والی قوت رہی ہے۔ اس کی نہ ختم ہونے والی بھوک طالبان کے خلاف برسر پیکار مختلف ملیشاؤں کو متحرک کرنے میں معاونت کرے گی۔ امریکا اسی طرح سوچ رہا ہے۔ مکرر عرض ہے کہ اپنی نہایت ذلت آمیز شکست کے باوجود وہ ابھی تک باز نہیں آیا۔
دوسری طرف مردانِ کہستان طالبان ہیں۔ اُنہوں نے ایک جارحانہ سفارت کاری سے خطے کے ممالک کو یہ باور کرایا ہے کہ وہ اپنی سرزمین کسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ کیا طالبان وسط ایشیائی ریاستوں سے یہ نہیں چاہیں گے کہ وہ اپنی سرزمین افغانستان کے خلاف استعمال نہ ہونے دیں۔ ایسی صورت میں ازبکستان اور تاجکستان امریکی چھتری تلے سنگین غلطیوں کا ارتکاب کرتے ہیں تو یہ پورا خطہ خوف ناک جنگ کی لپیٹ میںآسکتا ہے جس کا ذمہ دار امریکا ہوگا۔افغان صدر اشرف غنی کے پھدکنے سے لگتا ہے کہ وہ امریکا کی اس ہائبرڈ جنگ میں کامیابی پر یقین رکھتے ہیں یا کم ازکم اس پر یقین رکھنے کے سوا کوئی دوسرا راستا نہیں پاتے۔ اس سب کے باوجود ایک دوسری حقیقت سب سے زیادہ توانا ہے کہ یہ شام نہیں افغانستان ہے، یہاں مزاحمت کی صبح کبھی ختم نہیں ہوتی۔ افغانستان میں مختلف جنگجو ملیشیائیں نوشتہ دیوار پڑھنے کی حیرت انگیز صلاحیت رکھتی ہیں۔ اگر 11 ستمبر کے بعد طالبان نے خود افغان فورسز میں ہی نقب لگادی،اور اشرف غنی کے دائیں بائیں لوگ طالبان کے آگے تسلیم کرنے لگے تو پھر امریکا کا یہ منصوبہ کس طرح موثر ہوگا، اس کا جواب کچھ دشوار نہیں۔ ابھی تو ہم ”absolutely not”کا مزہ لیتے ہوئے مشیر قومی سلامتی معید یوسف کی اس وضاحت سے لطف اندوز ہوتے ہیں کہ امریکا نے پاکستان سے فوجی اڈے مانگے نہیں بلکہ اس کا ماحول بنایا تھا۔ امریکا ہار گیا ہے،وہ اس ہائبرڈ جنگ سے بھی جلد ہاتھ کھینچ لے گا، طالبان کی مزاحمت سے یہ یقین مستحکم ہوتا ہے۔ مگر ہم خود کو بے وقوف بناتے ہوئے کب ہاریں گے، یہ معلوم نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔