... loading ...
برسوں پہلے امریکا بہادر کی گود میں بیٹھ کر بھارت نے پاکستان کو دنیا بھر میں تنہا کرنے کا ایک خواب دیکھا تھااور اس خواب کی تعبیر حاصل کرنے کے لیے اسباب کی دنیا میں جتنے بھی اچھے ،برے، کھوٹے ،کھرے، جائز اور ناجائز اقدامات کیے جاسکتے تھے ، وہ سب کرنے میں بھارتی حکام نے اپنی طرف سے کوئی کسر نہ چھوڑی ۔مگر آخر میں نتیجہ کیا نکلا کہ و ہی دھاک کے تین پات ۔یعنی بھارت کا دیرینہ خواب اپنی جگہ پر اَب بھی بدستور موجود ہے لیکن تعبیر ندارد ۔سچی بات تو یہ ہے کہ بھارت کو اپنے پاکستان مخالف اس ’’مذموم خواب‘‘ کی تعبیر کبھی حاصل ہو بھی نہیں سکتی تھی ،کیونکہ جس امریکا کی گود میں بیٹھ کر بھارت نے پاکستان کو عالمی تنہائی کے بلیک ہول میں دھکیلنے کے’’مذموم سپنے‘‘ اپنی آنکھوں میں سجائے تھے۔ اُس امریکا کے اپنے بھی تو بے شمار خواب تھے۔ مزے کی بات تو یہ ہے کہ جس منافقانہ رویے کی امریکی سیاست سے اُمید کی جاسکتی تھی ۔عین وہی کچھ ہوا ، اور امریکا نے اپنے خوابوں کو پورا کرنے کے لیے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھارت کے سپنے افغانستان میںقربان ہونے کے لیے کچرے کی مانند ایک طرف پھینک دیے ۔
مسئلہ یہ نہیں ہے کہ افغانستان میں بھارت کی جانب سے تعمیر کی جانے والی سڑکوں ، پلو ں ،افغان پارلیمنٹ ، خفیہ ایجنسی را کا ہیڈ کواٹر اور ڈیم کے باعث اربوں ڈالر کا کتنا کثیر سرمایہ ڈوب گیا ۔بھارتی قیادت کا اصل دردِ سر تو یہ ہے کہ آس ،پڑوس کے ممالک اور دنیا بھر میں اُس کی عسکری حکمت عملی اور منصوبہ بندی کرنے کی صلاحیت کی جس بدترین طریقہ سے بھد اُڑی ہے۔ اُس کے بعد تو بھارت کی عالمی ساکھ دو کوڑی کی بھی نہیں رہی ۔ جبکہ بھارت کے مقابلے میں پاکستان، تاشقند میں دنیا ئے سیاست کے بڑے بڑے بزرجمہروں کی قیادت کرتے ہوئے دکھائی دے رہا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ عالمی ذرائع ابلاغ میں نمایاں سہ سرخیوں میں جگہ بنانے والی خبر کے مطابق ’’تاشقند کانفرنس میں وزیراعظم عمران خان نے فرداً فرداً تمام سربراہانِ مملکت اور وزرائے خارجہ سے ہاتھ ملایا لیکن بھارت کے وزیر خارجہ جے شنکر سے مصافحہ نہیں کیا جبکہ شنکر کے ساتھ کھڑے روسی وزیر خارجہ سے غیررسمی گفتگو بھی کی‘‘۔ ذلت کے اس مقام پر ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر بھارت کی ’’عالمی بے عزتی ‘‘ کا درست ادراک کرتے ہوئے فوری طور پر احتجاجاً اسٹیج سے اُتر جاتے یا پھر تاشقند کانفرنس کا ہی بائیکاٹ کردیتے ۔ویسے بھی اس کانفرنس میں بھارت کے لیے رکھا ہی کیا تھا ،سوائے رسوائی ،ہزیمت اور بدنامی کے۔ مگر شاید بھارت افغانستان میں اچانک سے اُلٹ جانے والی ’’سیاسی بازی ‘‘کو اپنے حق میں دوبارہ سے پلٹنے کے لیے آخری حد تک جانا چاہتاہے۔
حالانکہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو سوچنا چاہیے کہ افغانستان میں گزشتہ 20 برسوں میں امریکا اور 42 ممالک کی نیٹو افواج کی موجودگی کے باوجود بھی اگر افغانستان میں سے اپنے لیے کچھ خاص حاصل نہیں کرسکا ہے تو اَب امریکی اور نیٹو افواج کے مکمل انخلاء کے بعد سوائے عبرت کے بھارت کو اور کیا حاصل ہوسکتاہے۔ حالیہ تاشقند کانفرنس میں بھارت کی حیثیت وہی رہی ہے ، جو ہمارے محاورے میں ’’بیگانے کی شادی میں عبداللہ دیوانہ‘‘ کی ہوتی ہے۔ شاید عبداللہ دیوانہ سے بھی کہیں زیادہ ترس اور قابلِ رحم ۔ کیونکہ عبداللہ دیوانہ تو بیچارہ ،فقط غیر کی شادی میں خوشی خوشی ناچتا تھا اور بس ۔ مگر یہاں بھارت تو طالبان کے جشن میں بھنگ ڈالنے کے لیے اشرف غنی اور دیگر افراد کے کان بھرنے اور لگائی بجھائی میں مصروف ہے۔ جس کا اثراُس وقت نظر بھی آیا جب،
افغان صدر اشرف غنی نے پاکستان پر الزام لگاتے ہوئے کہا کہ ’’پاکستان نے افغانستان میں حالات خراب کروانے کے لیے 10 ہزار جنگجوؤں کو بھیجا ہے اور طالبان کو پاک فضائیہ امداد فراہم کررہی ہے‘‘۔مگر اشرف غنی کے اس بیان سے کسی کے کانوں پر جوں تک بھی نہ رینگی۔یاد رہے کہ افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کے انخلاء کے بعد اشرف غنی کی حیثیت دنیا بھر میں اَب، رہ بھی کیا گئی ہے ،اور کون سا بدنصیب ملک ہے سوائے بھارت کے جو اشرف غنی کے ارشاد عالیہ کو توجہ کے ساتھ سننا چاہتاہے۔ بے چارہ اشرف غنی جس کو اُس کے آقا و مولا یعنی امریکا نے طالبان کے ساتھ اپنے مذاکرات کی بھنک بھی نہ لگنے دی ، ایسے راندہ درگاہ شخص کو بھلے دنیا کے دیگر ممالک کیوں منہ لگانے یا سر چڑھانے لگے۔
وزیراعظم عمران خان نے تاشقند میں ’’سینٹرل اینڈ سائوتھ ایشیا 2021:ریجنل کنیکٹیوٹی: چیلنجز اینڈ اپرچونیٹیز‘‘ کے موضوع پر ہونے والی کانفرنس میں افغان صدر اشرف غنی کو دوٹوک جواب دیتے ہوئے واضح کیا ہے کہ’’ افغانستان کی صورت حال کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرانا شدید ناانصافی ہے، طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کیلئے پاکستان سے زیادہ کسی نے کردار ادا نہیں کیا،ہم پر لگایا گیا الزام بے بنیاد ہے۔کیونکہ افغانستان میں امن کیلئے سب سے زیادہ پاکستان نے قربانیاں دیں، پاکستان پر الزامات لگائے جانے سے مجھے مایوسی ہوئی۔جب افغانستان میں ڈیڑھ لاکھ نیٹو اور امریکی افواج موجود تھیں اس وقت طالبان سے مذاکرات کیوں نہیں کیے گئے ۔طالبان کو بات چیت کی دعوت غیر ملکی افواج کے انخلاسے قبل دی جانی چاہیے تھی۔اَب جب کہ طالبان کو افغانستان میں فتح نظر آ رہی ہے تو وہ اب پاکستان کی بات کیوں سنیں گے؟ سمجھوتا کیوں کریں گے؟اسلحے کے زورپر کوئی مسئلہ حل نہیں ہوتا‘‘۔وزیراعظم پاکستان کا یہ جواب آں غزل صرف افغان صدر اشرف غنی کے ہی حسب حال نہیں تھا بلکہ بین السطور بھارت کے لیے بھی ایک تنبیہ تھی کہ اَب اُن کی پکائی جانے والی دال گلنے کی نہیں ۔ جبکہ بھارت کو’’سفارتی چرکا‘‘ لگانے کے لیے عمران خان نے لگے ہاتھوں کشمیر اور کشمیریوں کے حق خودارادیت کا تذکرہ بھی چھیڑ دیا ،تاکہ بوقت ضرورت بھارتی وزیرخارجہ جے شنکر کے لیے سند رہے کہ جہاں بھی بھارت زبردستی کی چھیڑ چھاڑ کرنے کی کوشش کرے گا ،وہاں سے اُسے اُٹھاکر کشمیر میں لے جاکر ہی چھوڑا جائے گا۔
واضح رہے تاشقند میں منعقد ہونے والی ’’سینٹرل اینڈ سائوتھ ایشیا 2021:ریجنل کنیکٹیوٹی: چیلنجز اینڈ اپرچونیٹیز‘‘ کے موضوع پر ہونے والی کانفرنس افغانستان اور پاکستان کے مستقبل کے لیے کئی حوالے سے اہم تھی ۔کیونکہ ازبکستان وسط ایشیائی ریاستوں کے جنوب میں اور افغانستان کے شمالی علاقے سے متصل مملکت ہے اس کی باقی سرحدیں تاجکستان، کرغزستان، قازقستان اور ترکمانستان سے ملتی ہیں یہ سارا خطہ چین، روس، ایران اور ترکی کے ممالک میں گھرا ہوا ہے جو تجارتی نقطہ نگاہ سے تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ وسط ایشیائی ریاستیں1920ء کی دہائی سے 1991ء تک سوویت یونین کے قبضے میں رہیں جس کے بعد انہوں نے آزادی حاصل کی۔ قیامِ پاکستان کے بعد ان ریاستوں کے ہمارے ساتھ سفارتی، تجارتی، ثقافتی، سیاسی تعلقات تیزی سے آگے بڑھے۔ ازبکستان اور پاکستان کے درمیان تواتر کے ساتھ وفود کے تبادلوں کے نتیجے میں جو سب سے بڑی پیش رفت سامنے آئی وہ تین ماہ قبل ازبک وزیر خارجہ کے دورہ پاکستان کے موقع پر وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے ازبکستان کو پاکستانی بندرگاہوں تک رسائی میں سہولت فراہم کرنے کی پیشکش کی گئی تھی، جس کے تحت تاشقند کو مزار شریف کے ذریعے پشاور سے ریلوے لائن کے ذریعے ملانے کا منصوبہ ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کے دو روزہ حالیہ دورہ ازبکستان میں اسے مرکزیت حاصل رہی۔
علاوہ ازیں وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان کی ازبک صدر شوکت مریوف کے ساتھ دو طرفہ تجارت اور اقتصادی امور پر تفصیلی بات چیت بھی ہوئی اور اس تاریخی موقع پرپاکستان اور ازبکستان کے درمیان مفاہمت کی کئی یادداشتوں پر دستخط بھی ہوئے۔نیز دونوں رہنماؤں کی مشترکہ پریس کانفرنس میں وزیر اعظم عمران خان کا مرکزی نقطہ ازبکستان کو پاکستان کے ذریعے بڑی مارکیٹ تک رسائی دینے سے متعلق تھا۔ تاشقند میں منعقد ہونے والے ازبک پاکستانی بین الحکومتی کمیشن برائے تجارت، معاشی اور سائنسی و تکنیکی تعاون (آئی جی سی) کے چھٹے اجلاس کے حوالے سے جاری بیان میں دونوں ملکوں نے زراعت، انفارمیشن ٹیکنالوجی، تعلیم اور معدنی شعبوں میں مشترکہ ورکنگ گروپ تشکیل دینے پر نیز اس بات پر بھی اتفاق کیاکہ ٹرانس افغان راہداری جو ازبکستان اور پاکستان کو ملاتی ہے دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کرے گی۔مزید برآں ٹیکسٹائل انڈسٹری، زرعی مشینری کی تیاری، پھل سبزیوں کی پروسیسنگ اور پیکیجنگ کے شعبے میں مشترکہ پروگرام، مواصلات، افرادی قوت، سیاحت، ہائوسنگ، شہروں کے درمیان اشتراک، موسمیات، ثقافت اور نوجوانوں کے امور ایسے شعبے ہیںجن پر دونوں ممالک ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنے سے ان شعبوں میں نئی راہیں کھلیں گی۔ اس پروگرام کے فروغ کیلئے تاشقند اور اسلام آباد میں ازبک پاکستان اسپیشلائزڈ نمائشوںکے انعقاد کا بھی فیصلہ کیا گیا جس سے دونوں ملکوں کی برآمدی اشیا، ادویہ سازی، ٹیکسٹائل، چمڑے، تعمیراتی سامان، ٹرانسپورٹ اور لاجسٹک سروسز کیلئے بڑی کمپنیوںکو ترغیب ملے گی۔
بلاشبہ کامل اُمید رکھی جاسکتی ہے کہ وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان کے حالیہ دورہ ازبکستان میں طے پانے والے مذکورہ بالا تمام امور مستقبل کے تناظرمیں پاکستان کیلئے انتہائی اہمیت اور دوررس نتائج کے حامل ثابت ہوں گے۔ مزیدبرآں وطن عزیز کو قدرتی گیس کے جس بحران کا سامنا ہے، اس سلسلے میں روس کے ساتھ چار کھرب روپے مالیت کی اسٹیم گیس پائپ لائن کی تعمیر کے معاہدہ کا باضابطہ طور پر طے پاجانا بھی حکومت ِ پاکستان کی ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔لیکن وسطی ایشیائی ریاستوں ، روس اور چین کے سی پیک منصوبوں کی کامیابی کا تمام تر انحصار افغانستان میں امن و استحکام سے وابستہ ہے ۔ بظاہر پاکستان نے اپنی موثر سفارتی حکمت عملی اور سیاسی دور اندیشی سے بھارت کو افغانستان سے اپنا مال و اسباب چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور کردیا ہے۔لیکن یہاں پر بھارت کی بھرپور کوشش ہوگی اگر وہ افغانستان میں اپنے قدم نہیںجماپایا تو افغانستان میں انارکی اور خانہ جنگی کے وسیع مواقع پیدا کرکے پاکستان کو افغانستان سے مستفید نہ ہونے دیا جائے۔ لیکن اس نازک مقام پر پاکستان کی اولین کوشش اور ترجیح یہ ہونی چاہئے کہ وہ امریکا کی مرعوبیت سے نکل کر روس اور چین کی مدد و اعانت سے افغانستان میں جلد ازجلد دیرپا امن و استحکام کو یقینی بنائے ۔
٭٭٭٭٭٭٭