... loading ...
آج ماضی کی باتیں بڑی سہانی لگتی ہیں پرانے دورکی یادیںعجب مزہ دیتی ہیں کراچی کی ایمپریس مارکیٹ بھی ایک عجوبہ ہے اس وکٹورین طرزِتعمیر کی ایک عظیم اور قدیم عمارت کا نقشہ بھی ایک بڑی مارکیٹ کی طرز پر ہی بنایا گیا تھا یہی سب سے بڑا مرکز تھا اس لیے خوب چہل پہل ہوتی تھی خواتین کے ساتھ بچے رنگ برنگے کپڑے پہن کر تتلیوںکی طرح ادھر سے ادھر بھاگتے پھرتے تو بڑااچھا لگتا کراچی کی اس وسیع و عریض عمارت کے کئی داخلی دروازے ہوتے تھے، تاہم مرکزی دروازہ سامنے فرئیر روڈ پر ہی کھلتا تھا۔ ایک وقت تھا اس کے چاروں اطراف کھلے میدان تھے جس سے منظر بڑا دیدنی ہوجاتا تھا عمارت میں بنائے گئے مختلف سیکشن میں جا بجا بڑے بڑے ہال اور ان میں چھوٹی بڑی دکانیں بنی ہوئی تھیں۔ اس بات کا خاص اہتمام کیا گیا تھا کہ اس حصے میں صرف ایک ہی نوعیت کی اشیاء دستیاب ہوں۔ اس طرح پرچون، سبزیوں، گوشت، مصالحوں حتی کہ کتابوں کی دکانوں کے سیکشن بھی ہوتے تھے۔اندر بنی ہوئی راہداریوں کے ذریعے ایک حصے سے دوسرے میں بآسانی جایا جا سکتا تھا۔ زندہ مرغیوں اور پرندوں کی بھی کئی دکانیں تھیں برائلر مرغی کا گوشت اور فارمی انڈوںکا تصور بھی نہیں تھا گھروںمیں دیسی مرغی کسی مہمان کی آمدپر ہی بڑے اہتمام سے پکائی جاتی تھی آج کی طرح لوگ گوشت خورنہیں تھے اب تو پیسے والے مٹن کی کئی کئی رانیں خریدکرلے جاتے ہیں اور غریبوںکو قصاب گھاس بھی نہیں ڈالتا پائو آدھ کلو گوشت خریدنے والوں کے حصہ میں ہڈیاں چھیچھڑے آتے ہیں تو وہ منہ دیکھتے ر ہ جاتے ہیں ماضی میں لوگ اپنے مہینے بھر کے راشن کے علاوہ اور بھی گھریلو استعمال کی اشیا ء ایمپریس مارکیٹ سے لے کر جاتے تھے۔
مارکیٹ کا ایک پورا ہال گوشت کے کاروبار کے لیے مخصوص کیاگیا تھا جہاں ہر قسم کا تازہ گوشت مل جاتا تھا۔ یہاں سارے ہی قصاب اپنے اڈے جمائے بیٹھے تھے۔ گوشت بہت سستا ہوا کرتا تھا جو ہر ایک کی پہنچ میں تھا۔ کبھی چھوٹا گوشت سوا روپے اور گائے کا دس آنے سیر آتا تھا۔ ہر کوئی اپنی ضرورت کے مطابق گوشت لے لیتا تھا۔ تب پائو بھر گوشت اور آدھ پائو قیمہ بنوانے والے خریداروں سے بھی قصاب عزت اور اخلاق سے بات کیا کرتے تھے۔ ریفریجریٹر اور فریزر کسی کے گھر میں نہیں ہوتے تھے، اس لیے لوگ صرف اتنا ہی گوشت لے جاتے جتنا کہ اس دن کی ضرورت ہوتی تھی۔ سالم یا آدھا بکرا کٹوا کر ساتھ لے جانے کا کسی نے سوچا بھی نہ تھا۔ ایک ڈیڑھ سیر گوشت خریدنے والا بڑا گاہک سمجھا جاتا تھا۔قیام پاکستان کے بعد کے اس عرصے میں ملحقہ سیکشن سے مرغیاں بھی مل جاتی تھیں۔ بہت اچھی دیسی مرغی آٹھ دس روپے میں مل جاتی تھی۔ یہ گاہک کو زندہ ہی تھما دی جاتی تھی، جس کا مطلب تھا کہ خود اپنے گھر میں ذبح کرو اور جیسے جی چاہے گوشت بنائو۔ لوگوںکو اچھی طرح یاد ہوگا کہ تب گھر کا کوئی بڑا ہی یہ کام کرتا تھا اور ساتھ بیٹھے ہوئے بچے اس کے پر نوچنے میں مدد کیا کرتے جب مرغی ذبح کی جاتی چھوٹے بچے اردگردجمع ہوکربڑے اشتیاق سے یہ منظر دیکھتے ۔ فارمی برائیلر مرغیاں اور چوزے ابھی ’’ایجاد ہی نہیں ہوئے تھے۔ پرچون کی اشیا اور راشن والا سیکشن سب سے بڑا تھا، جہاں بوریوں کے حساب سے آٹا، چاول، دالیں وغیرہ دستیاب تھیں اور تب کی قیمتیں سن کر آپ کے ہوش اڑ جائیں گے۔ آٹا آٹھ سے دس روپے من اور اچھا چاول بیس روپے من بآسانی دستیاب تھا۔ مٹی کے تیل کا ٹین دس بارہ کا مل جاتا تھا۔ چینی کی کچھ قلت تھی، وہ بازار میں کم کم ہی ملا کرتی تھی۔ اس کے لیے راشن ڈپو جانا پڑتا تھا جہاں راشن کارڈ پر گھر کے افراد کے اندراج کے مطابق سوا روپے سیر چینی مل جاتی تھی۔ غریب اور متوسط گھرانے کے زیادہ تر خاندان کھانے پکانے کے لیے سرسوں کا تیل ہی استعمال کرتے تھے اور خوش حال لوگوں کے لیے اندرون سندھ اور پنجاب سے کنستروں میں ہی دیسی گھی آیا کرتا تھا ۔ایمپریس مارکیٹ کے ایک کونے میں اسکول کی درسی کتابوں کی بھی آٹھ دس دکانیں تھیں جہاں نئی کتابوں کے ساتھ پرانی اور استعمال شدہ کتابیں بھی آدھی یا پون قیمت پر مل جاتی تھیں۔
ناگہانی صورت اور فوری رقم کے حصول کا یہ ایک بہترین ذریعہ بھی تھا، کیوں کہ دکاندار ہر وقت پرانی کتابیں اونے پونے داموں خریدنے کو تیار بیٹھے ہوتے۔ جب کوئی طالب علم اکیلا ہی اپنی کتابیں بیچنے آجاتا تودکاندار اس سے یہ سوال ضرور کرتے تھے کہ وہ کورس کی یہ کتابیں کیوں بیچ رہا ہے، اور یہ کہ آیا اس فروخت کا علم اس کے گھر والوں کو بھی ہے یا نہیں! طالب علم اپنی کتابوں کو خراب ہونے سے بچانے کے لیے مومی کاغذ کا غلاف چڑھائے رکھتے تھے اور بہت احتیاط سے استعمال کرتے تھے تاکہ ان کے اگلی کلاس میں جانے کی صورت میں وہ ساری کتابیں اپنے پیچھے آنے والے بہن بھائیوں کے کام آ جائیں یا پھر وہ انہیں اس مارکیٹ میں جا کر بیچ آتے۔ کتابوں کے علاوہ یہاں طالب علموں کے لیے متفرق سٹیشنری کی چیزیں اور سرکاری اسکولوں کے یونیفارم اور بوٹ وغیرہ بھی مل جاتے تھے۔گویا ایک ہی چھت تلے ہر شے موجود تھی۔ ایمپریس مارکیٹ میں ایک دو دکانیں پھول والوں کی بھی تھیں۔ کچھ خاص نسل کے یا درآمدی پھول نہیں بلکہ گیندے، گلاب اور موتیا وغیرہ ہی ہوتے تھے۔ کچھ پھولوں کے بنے ہوئے ہار اور گجرے شادی پر دولہا اور دلہن کو پہنانے کے لیے دستیاب تھے۔ اس کے علاوہ حج کے مقدس سفر سے واپس آنے والے حاجیوں کے لیے گلاب کے ہلکے پھلکے ہار بھی رکھے ہوتے تھے۔ سیروں کے حساب سے گلاب کی پنکھڑیاں بھی مل جاتی تھیں جو کسی سیاست دان یا دولہا دلہن پر نچھاور کرنے کے علاوہ قبروں پر بھی ڈالی جاتیں۔ذرا ہٹ کر ایک دکان میں گوٹے کناری سے بنے ہوئے ہار، جن پر جگہ جگہ مختلف مالیت کے کرنسی نوٹ ٹانکے ہوئے ہوتے تھے، ہر وقت تیار ملتے تھے۔ پنجاب، اندرون سندھ اور خیبرپختون خوا کے لوگ یہ ہار دولہا کو پہنایا کرتے تھے۔ شادی کے فورا بعد اس پر سے نوٹ نوچ لیے جاتے تھے اور ہار کی لاش کو گھر میں کسی کھونٹی پر ٹانگ دیا جاتا جہاں وہ مہینوں دولہا دلہن کو اپنے ملن کے خوب صورت لمحات کی یاد دلایا کرتا تھا۔ پھر ایک دن دونوں میں کوئی شدید جھڑپ ہوتی، جس کے بعد اس کو نوچ کر باہر کچرے میں پھینک دیا جاتا تھا۔ کسی عرس کے موقع پر بزرگوں کے مزاروں پر ڈالنے والی گوٹے کناری کی سنہری چادریں بھی یہیں مل جاتی تھیں۔سبزی، گوشت وغیرہ کی دکانوں پر عموما بزرگوں کا ہی آنا جانا ہوتا تھا جن کی بہو بیٹیاں یا بیویاں انہیں صبح صبح موٹے کپڑے کا بنا ہوا تھیلا اور مطلوبہ سامان کی ایک لسٹ تھما کر مارکیٹ روانہ کر دیتی تھیں۔ چونکہ روز کا آنا جانا تھا، نئی دوستیاں جنم لیتیں اور پھر شناسا چہرے مل جاتے تو وہیں کھڑے ہو کر ہلکی پھلکی گپ شپ لگ جاتی تھی آج تو شاپر بیگ نے تمام راز فاش کرکے رکھ دئیے ہیں اب تو پورے محلے کو پتہ چل جاتاہے کس نے کیا شاپنگ کی ہے پہلے دو کلو آٹا لانے والوںکا بھی بھرم قائم تھا۔ ایک اور مزے کی بات، زیادہ تر لوگ وہاں سائیکلوں پر ہی آتے تھے، ان کے لیے کوئی مناسب اسٹینڈ بھی نہ ہوتا تھا اس لیے لوگ بڑے آرام اور اعتماد سے سائیکل ٹھیک اسی مقام پر کھڑی کرتے تھے جہاں سے انہوں نے خریداری کرنا ہوتی تھی۔ سائیکلوں کی چوری بھی بہت کم ہوتی تھی، کوئی چورپکڑا جاتا تو وہیں کھڑے کھڑے چماٹوں اور گھونسوں سے اس کا حشر نشر کر دیا جاتا تھا۔ پھر بھی کبھی کبھار ایسے بزرگوں کو پیدل ہی گھر آنا پڑتا تھا۔ مارکیٹ سے باہر آتے تو سامنے قطاروں میں کھڑی درجنوں بسیں شہر کے مختلف علاقوں میں جانے کے لیے تیار کھڑی ہوتی تھیں۔ ان کے ہرکارے یا کنڈکٹر با آواز بلند اپنی منزل اور راستے کی نشان دہی کرکے مسافروںکو اپنی طرف بلاتے تھے۔ جیسے ہی کوئی مسافر گاڑی کے نزدیک جاتا وہ اسے دبوچ کر اوپر بس کے اندر دھکیل دیتے تھے۔ جن کو اندر جگہ نہ ملتی اور جانا بھی ضروری ہوتا تھا تو وہ وہیں دروازے کے پائدان پر آہنی سلاخوں کو پکڑ کر لٹک جاتے تھے۔ لمبے راستوں والے مسافر چھتوں پر بھی چڑھ جایا کرتے تھے اور یوں خطرناک حالات میں بھی اپنا سفر مکمل کر لیتے۔ کراچی کے اس سنہرے دورمیں سڑکوں پر اکثر نقرئی رنگت کی دو منزلہ بسیں بھی نظر آ جاتی تھیں۔ مسافر کی خواہش ہوتی تھی کہ اس کو بالائی منزل پر جگہ مل جائے تاکہ وہ کراچی کے خوب صورت نظاروں کو ذرا بلندی سے دیکھ سکے۔ ایسی ہی ایک بس منگھو پیر بھی جاتی تھی جس کی بالائی
منزل پر چھت نہیں ہوتی تھی۔ یہ بس دن میں دو ہی پھیرے کیا کرتی کیوں کہ ان دنوں وہاں کا سفر بڑا ہی طویل اور کٹھن ہوا کرتا تھا۔ اس کے سامنے اور آس پاس کے علاقے میںجگہ جگہ کھانے پینے کے خوانچے لگے ہوتے تھے جہاں بریانی کی ایک ننھی سی پلیٹ دوآنے میں اور بڑے سے پراٹھے سے کاٹا ہوا ٹکڑا ایک آنے میں مل جاتا تھا جو وہیں زمین پر بیٹھ کر چائے میں ڈبو ڈبو کر کھا لیا جاتا تھا۔ چائے شربت والوں کے علاوہ وہاں پھل فروش اور کچھ پرانے کپڑے اور جوتوں والے بھی اپنے ٹھیلے لیے کھڑے رہتے تھے۔ غالبا اس وقت کے کراچی شہر کا سب سے پر رونق علاقہ بھی یہی تھا یہاں خریداری کرنے والوںکا شمار امیر لوگوںمیں کیا جاتا تھا کیا عجب زمانہ تھا آنکھوںمیں شرم و حیا اور دل میں دوسروںکااحساس موجزن تھا یہ سوچتے سوچتے نہ جانے کتنے لوگ اپنے بچپن کویادکرکے خوش ہوتے ہیں کئی افسردہ ہوجاتے ہیں
یادوںکی محفلوںکو سجاکرشعور میں
لیتے ہیں زندگی کا نظارہ کبھی ،کبھی