... loading ...
(گزشتہ سے پیوستہ)
پس پردہ محرکات یہ تھے حجاج بن یوسف اموی اقتدار کو اس مقدس سرزمین میں مستحکم کر نے کی ذمہ داری دی گئی تھی اس نے ہر اس شخص کو قتل کروا ڈالا جو اموی خلیفہ کے خلاف زبان کھولنے کی جسارت کرسکتا تھا اس کے بے پناہ مظالم اور نفسیاتی دہشت نے عوام کے حوصلے پست کر دئیے اور اکثریت نے حکومت کو تسلیم کرلیا مکہ فتح کرنے کے بعد اب مدینہ منورہ کی باری تھی وہاں سینکڑوں ہزاروں صحابہ کرام اجمعین کے اہل خانہ اور تابعین کی ایک کثیر تعداد مقیم تھی۔ حجاج بن یوسف نے اہل مدینہ کو جمع کرکے ایک زوردار تقریر کے دوران انہیں عبد الملک بن مروان کی بیعت کرکے ان کی حکومت کو ن تسلیم کرنے پر آمادہ کرنا چاہا لیکن اہلیان ِمدینہ پراسرار طور خاموش بیٹھے رہے اور کسی نے مخالفت کی نہ حمایت اس صورت ِ حال سے حجاج بن یوسف بہت پریشان ہوا حجاج بن یوسف نے غصے میں آگ بگولہ ہوکرکہا میںآپ لوگوںکو سوچنے کے لیے تین دنوںکی مہلت دیتاہوں تاکہ تم فیصلہ کرلو پھراس نے اپنے حامیوںکی مدد سے مخالفین کی فہرستیں بنالیں اور ہر اس شخص کو چن چن کر موت کے گھات اتاردیا جو حکومت کا مخالف ہوسکتاتھا یا جس سے مزاحمت کی توقع کی جاسکتی تھی اس طرح تین دن کی مہلت کے باوجود قتل و غارت کا سلسلہ شروع کر دیا بیشتر نے اپنی جان،مال اور آبرو بچانے کے لیے عبد الملک بن مروان کی بیعت کر لی۔ حجاج بن یوسف نے معززین کو یکے بعد دیگرے طلب کرناشروع کردیا جس نے حکومت کو تسلیم کرلیا اس کی جان بخش دی اور جس جس نے اموی حکومت پر تنقید کی اس کی گردن اڑا دی کئی ماہ تک ظلم و بربریت بازار گرم رہا اور نبی ٔ رحمت ﷺ کے شہر میںبے گناہوں کا خون بہتارہا۔ بالآخر یہ قیامت اس وقت ٹل گئی جب حجاج بن یوسف کو عراق کا گورنر بناکر وہاں بھیج دیا گیا عراق میں بھی اس نے ظلم کی کئی مثالیں قائم کیں اس کے کئی سال بعد اس نے ایک عظیم تابعی اور زاہد و پارسا شخصیت حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ایک معمولی بات پرقتل کردیا یہ قتل اس کی زندگی کا آخری قتل ثابت ہوا ۔ حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ ایک دن مسجد میںممبر پر بیٹھے تھے انہوں نے کئی لوگوں کی موجودگی میں کہا “حجاج ایک ظالم شخص ہے”کسی مخبرنے حجاج بن یوسف کو خبرکردی یہ سن کر وہ آپے سے باہرہوگیا اور فوری انہیں دربار میں طلب کر کے پوچھا
’’ تم نے میرے بارے میں کیا کہا ہے؟
آپ نے بڑی جرأت سے فرمایا وہی جو تم نے سناہے
’’ پھر بھی میں تمہاری زبان سے سننا پسند کروں گا حجاج بن یوسف نے کہا
’’میں نے کہا تھاحضرت سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ کہا حجا ج ایک ظالم شخص ہے۔ یہ سن کر حجاج بن یوسف کا رنگ غصے سے سرخ ہو گیا کبھی کسی نے اس کے ساتھ اس انداز میں بات کرنے کی جرأت نہیں کی تھی اس نے حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ کے قتل کے احکامات جاری کر دئیے۔ جب جلاد آپ کو قتل کے لیے دربار سے باہر لے کر جانے لگے توحضرت سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ مسکرا دئیے۔ حجاج بن یوسف کو اس کی یہ حرکت انتہائی ناگوار گزری ا س نے پوچھا قتل کا حکم سن کرکیوں مسکرائے ہو ؟
حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا میںتیری بیوقوفی پر مسکرایا ہوں کہ اللہ تجھے ڈھیل دے رہا ہے اور تم سمجھ نہیں رہے۔
یہ سن کر حجاج بن یوسف نے جلادوںکو حکم دیا اسے میرے سامنے ذبح کر دو، جب جلادوں نے ان کے گلے پر خنجر رکھا تو حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ نے اپنا منہ قبلہ کی طرف کرلیا اور بلند آوازمیں کہا اے اللہ میرا چہرہ تیری طرف ہے میں تیری رضا پر راضی ہوں یقینا حجاج نہ موت کا مالک ہے نہ زندگی کا۔ حجاج بن یوسف نے یہ سن کرحکم دیا اسکا منہ قبلہ کی طرف سے پھیر دو۔ حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ پھر مسکرائے اور کہا اے اللہ میںجس طرف بھی اپنارخ کروں تو تو ہر جگہ موجود ہے مشرق ہویا مغرب ہر طرف تیری حکمرانی ہے۔ میری التجاہے کہ میرا قتل اسکا آخری ظلم ثابت ہو میں تمہارے نام پر قربان ہورہاہوں میرے پروردگار میر ی قربانی منظور فرما آمین
حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ کی زبان سے یہ جملے ادا ہوئے اس کے ساتھ ہی آپ کا سر تن سے جدا کردیا گیاحضرت سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ کے جسم سے اتنا خون نکلا کہ یوں لگ رہاتھا جیسے دربار میں خون کی ندیاں بہہ رہی ہوں یہ دیکھ کر وہاں موجود ایک شخص نے اپنا منہ آسمان کی طرف کیا اور زور سے بولا لگتاہے قربانی قبول ہوگئی ہے۔
رات کو حجاج بن یوسف سونے کے لیے بسترپر لیٹا تو باربارسعید بن جبیرکا چہرہ نگاہوں کے سامنے گردش کرنے لگا اس کے چہرے پر عجب آسودگی تھی پھروہ بڑی مشکل سے سویا پھر کچھ ہی دیر بعد اسے ایک خوفناک خواب دکھائی دیا اس نے دیکھا سعید بن جبیر محل کے ایک ستون کے ساتھ جکڑا ہوا ہے کچھ ہی دیر بعدسعید بن جبیر ایک قدر آور شخص کی شکل اختیارکرگیا اس نے زور لگایا تو ستون ریت کی دیوار کی طرح زمین پر آگیاوہیں سے سعید بن جبیر نے حجاج کو پکڑنے کے لیے بازو بڑھایا بازو دراز ہوتا چلا گیایکایک وہ ایک ہولناک چیخ مارکر اٹھ بیٹھا اس کا پورا جسم سردی کے باوجود پسینے میں شرابور تھا اسے چاروں طرف سعید بن جبیر دکھائی دینے لگا پھر سوتے جاگتے ہر وقت اس کے خوابوں اور خیالوں میں سعید بن جبیر دکھائی دینے لگا کبھی وہ جلادوںکے ہمراہ مسکراتا نظرآتا کبھی فرش اور دیواروں پر خون ہی خون دکھاتی دیتا لگتا تھا سعید بن جبیر کے قتل کے بعد حجاج بن یوسف پر وحشت طاری ہو گئی تھی ، وہ نفسیاتی مریض بن گیا تھا، حجاج بن بوسف جب بھی سوتا حضرت سعیدؓ بن جبیر اس کے خواب میں آکر اسکا دامن پکڑ کر سوال کرتے کہ اے حجاج تو نے مجھے کیوں ناحق قتل کیا؟، میں نے تمہاراکیا بگاڑا تھا؟ حجاج کی گھگی بندھ جاتی وہ آنکھوںپر ہاتھ رکھ لیتا کبھی دونوں ہاتھوںسے سرکو تھام پر زور زور سے جھٹکا دینے لگتا اسی دوران حجاج بن یوسف کو ایک پراسرا ر بیماری لگ گئی طبیبوں نے اس بیماری کو زمہریری کانام دیا اس مرض میں سخت سردی کلیجے سے اٹھ کر سارے جسم پر چھا جاتی پھر اس کو اتنی سردی لگتی کہ وہ کانپتا شروع کردیتا آگ سے بھری ایک درجن سے زائدآگ کی انگیٹھیاں گول دائرے میں اس کے پاس چاروں اطراف اس قدر قریب رکھ دی جاتی تھیں کہ اسکی کھال جل جاتی مگر اسے مطلق احساس تک نہ ہوتا لیکن اس کی سردی کم نہ ہوتی، حکیموں طبیبوں نے تشخیص کی کہ حجاج بن بوسف کو پیٹ میں سرطان لاحق ہوگیاہے ،ایک طبیب نے گوشت کا ٹکڑا لیا اور اسے دھاگے کے ساتھ باندھ کر حجاج کے حلق میں اتار دیا تھوڑی دیر بعد دھاگے کو کھینچا تو اس گوشت کے ٹکڑے کے ساتھ بہت عجیب و غریب نسل کے کیڑے چمٹے ہوئے تھے اور گوشت کے ٹکڑے سے اس قدر شدید بدبو آرہی تھی وہاں کھڑے ہونا محال تھا بدبو چہار جانب دور دور تک پھیل گئی درباریوں کے ساتھ ساتھ طبیب بھی بھا گ کھڑا ہوا ، حجاج اسے پکڑنے کے لیے اٹھا لیکن اوندھے منہ گرپڑا اس عالم میں عاجزی سے کہا تم بھی چلے گئے تو علاج کون کرے گا؟
طبیب بولا تمہارا علاج کوئی نہیں کرسکتا کیونکہ یہ پراسرار بیماری زمینی نہیں آسمانی ہے بس استغفارپڑھو، اللہ سے پناہ مانگوں شاید تمہیں اس مرض سے نجات مل جائے۔ حجاج بن یوسف جب حکیموں طبیبوںاور تدبیروں سے مایوس ہو گیا تو اس نے حضرت حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ کو بلوایا کر ان سے دعا کی درخواست کی۔آپ حجاج بن یوسف کی حالت ِزار دیکھ کر رو پڑے اور فرمایا میں نے تجھے بار ہا ظلم کرنے سے منع کیا مگر تو باز نہ آیا تونے اختیارات کے نشے میں اللہ کے نیک بندوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ سے بھی گریز نہ کیا مخلوق ِ خدا کو ناحق ستایا اب کچھ نہیں ہوسکتا اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگا کرو یہ نصیحت کرکے وہ چلے گئے ۔جب حجاج بن یوسف نے یہ محسوس کیا کہ اب اس کے بچنے کی کوئی امید نہیں تو اس نے قریبی عزیزوں کو بلایا جو کئی بار بلانے کے باوجود آنے سے گریز کرتے رہے کچھ آئے تو کراہت کے ساتھ حجاج سے کافی دور کھڑے تماشائیوںکی طرح اس کی بے بسی دیکھتے رہے بے اختیارحجاج بن یوسف کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اسے رہ رہ کر وہ وقت یاد آنے لگاجب اس کے ایک اشارے سے لوگوںکی قسمت کا فیصلہ ہوجایا کرتا تھا بڑے بڑے سردار مجھے ملنے کے لیے گھنٹوں انتظار کرتے وہ سوچنے لگا وقت بھی کتنا ظالم ہے کسی کو معاف نہیں کرتا میں لاچار اور بے بس بستر پرپڑا ہوا ہوں یقینا یہ میری شامت ِ اعمال ہے میں آج عبرت کی مثال بناہواہوں میں نے جتنا ظلم کیا ،جتنے گناہ کئے،جتنا بے گناہوںکو ستایا یہ اسی کا صلہ ہے حجاج بن یوسف کو رشتہ داروں نے دور سے پوچھا ہمیں کیوں بلایاہے؟۔ اس نے بے بسی سے سر کو جھٹکا اور انتہائی رقت آمیزلہجے میں کہنے لگا جب میں مر جاؤں تو میراجنازہ رات کو پڑھانا چپکے سے تدفین کردینا اور صبح کو میری قبر کا نشان بھی مٹا دینا کیونکہ اندیشہ ہے لوگ مرنے کے بعد قبر میں بھی میری لاش کو سکون نہیں رہنے دیںگے اس نے رشتہ داروں کے سامنے ہاتھ جوڑ دئیے کہ میری اس وصیت پر ضرور عمل کرنا رشتہ داروںنے وعدہ کرلیا کہ ہم ایسا ہی کریں گے۔ اگلے روز دوپہرکا عالم تھا کہ اچانک حجاج بن یوسف کے پیٹ میں شدید درد اٹھا وہ چارپائی پر ہی لوٹ پوٹ ہوگیاوہ پیٹ پکڑ کر بری طرح چیخ رہاتھا اسی دوران اس کا پیٹ پھٹ گیا اور گوشت کے لوتھڑے دور دور تک بکھرتے چلے گئے جن سے سخت بدبو آرہی تھی جس کی وجہ سے صفائی کرنے والے اس کی لاش کے پاس جانے سے کتراتے تھے وہ کئی گھنٹے یونہی بے گوروکفن پڑا رہا پھر کچھ لوگوںنے ہمت کرکے اس کی لاش کو چادر میں باندھ دیا اوراسے چادر میں ہی غسل دے کر خاموشی سے دفن کردیا گیا شنیدہے حضرت سعیدؓ بن جبیرکے قتل کے 41ویں روز دنیا کا ظالم ترین شخص اپنے درد ناک انجام کوجا پہنچا جو عبرت ناک بھی ہے اور اذیت ناک بھی ۔ جو اس کا مظہر ہے کہ سدا بادشاہی صرف اللہ کی ہے بااختیار سے بے اختیار ہونے میں دیر نہیں لگتی ہر وقت قادرِ مطلق سے ڈرتے رہنا چاہیے۔ (ختم شد)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔