... loading ...
(مہمان کالم)
ایمی روزن فیلڈ
سوشل میڈیا کی شہ سرخیوں اور ماہرین صحت کی رائے سے پتا چلا ہے کہ کورونا کا ڈیلٹا نامی ایک اور ویرینٹ پھیل رہا ہے جو اب تک پائے جانے والے کورونا وائرس سے کہیں زیادہ مہلک ہے اور تیزی سے پھیلتا ہے۔ اس کی وجہ کو سمجھنا نہایت آسان ہے۔ کورونا کے نئے ویرینٹس سامنے ا? رہے ہیں اور کئی ممالک میں نئے کیسز کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے؛ تاہم ابھی تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ کیا یہ نئے ویرینٹس زیادہ خطرناک ہیں۔ وبائی امراض کے ماہرکے طور پر ہمیں اس امرکی تشویش ہے کہ ان ویرینٹس کو سمجھنے میں غلطی اور ان کا خطرناک ہونا کنفیوڑن اور پریشانی کا باعث بن سکتا ہے۔ چونکہ کورونا وائرس عالمی سطح پر پھیلا ہوا ہے اس لیے اس کا جینوم (کروموسوم کا ایک مکمل سیٹ ) کسی بھی وائرس کی طرح اپنی شکل تبدیل کر گیا۔ اس تبدیلی کے وائرس کی فٹنس، ری پروڈکشن اور پھیلائو پر بھی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ رونما ہونے والی کئی تبدیلیاں وائرس کو کمزور بھی کر سکتی ہیں، کئی مرتبہ کوئی فرق نہیں پڑتا اور بعض اوقات وائرس پہلے سے بھی طاقتور ہو جاتا ہے۔
وائرس جس قدر فٹ ہوتا جاتا ہے یہ کمزور وائرس کو شکست دے دیتا ہے اور ڈیلٹا ایسا پہلا ویرینٹ نہیں ہے جس نے اپنے سے پہلے ویرینٹ کو شکست دی ہے۔ ایسا ہی ایک الفا ویرینٹ بھی ہے جو سب سے پہلے برطانیا میں پھیلا تھا اور گیما ویرینٹ جو سب سے پہلے برازیل میں پھیلا تھا۔ کورونا وائرس میں یہ تبدیلیاں اتنی انوکھی نہیں ہیں۔ فلوکے ہر موسم میں وائرس کی فٹنس میں بہتری ا?تی ہے یہی وجہ ہے کہ بعض ویرینٹس دوسروں کے مقابلے میں زیادہ پھیلتے ہیں۔ چونکہ ایک ویرینٹ دوسرے ویرینٹ کی جگہ لے لیتا ہے اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہوتا کہ یہ زیادہ متعدی وائرس ہے یا جو لوگ اس سے متاثر ہوتے ہیں یہ ان کے لیے زیادہ مہلک ہوتا ہے۔ چونکہ پچھلے ڈیڑھ سال سے ایسا ہی ہوتا آیا ہے اس لیے کسی ویرینٹ کے مقابلے میں انسانی رویہ اس وبا کا لائحہ عمل تشکیل دینے میں زیادہ اہم کردار ادا کرتا ہے۔
ایک ویرینٹ اپنی فٹنس بڑھانے کے لیے کئی طریقوں سے اپنی شکل تبدیل کر سکتا ہے۔ چونکہ سب سے زیادہ توجہ وائرس کے نوکیلے پروٹین میں آنے والی تبدیلی پر ہوتی ہے جو کورونا وائرس کو انسانی خلیے پر حملہ آور ہونے کا موقع فراہم کرتی ہے، اس طرح ایک وائرس دوسرے پروٹین میں آنے والی تبدیلیوں کو بھی دیر تک برقرار رکھ سکتا ہے۔ یہ تبدیلی وائرس کو اپنے ہم شکل تیار کرنے یا ہمارے امیون سسٹم پر حملہ کرنے حتیٰ کہ وائرس کو ہمارے نتھنوں میں زیادہ دیر تک زندہ رہنے کا بھی موقع دیتی ہے۔ وائرس میں کسی تبدیلی کا جائزہ لینے کے لیے اچھی خاصی لیبارٹری ریسرچ کی ضرور ت ہوتی ہے۔ بعض اوقات اس تبدیلی کے ابتدائی نتائج غلط بھی ہو سکتے ہیں۔
جب پچھلے موسم سرما میں D614G کا پہلا ویرینٹ سامنے آیا تھا تو بعض سائنسدانوں کا خیال تھا کہ نوکیلے پروٹین میں آنے والی تبدیلیوں کی وجہ سے یہ وائرس زیادہ متعدی ہو گیا ہے مگر بعد میں ہونے والی ریسرچ سے پتا چلا کہ ایسا ہرگز نہیں تھا۔ جب ہر مرتبہ وائرس کے نوکیلے پروٹین میں جو نئی تبدیلی رونما ہوئی تو بہت سے ریسرچرز یہ سمجھنے لگے کہ یہ ویرینٹ زیادہ خطرناک اور تیزی سے پھیلنے کی صلاحیت رکھتا ہے لیکن یہ کہنا کہ ہر وائرس حیاتیاتی طور پر زیادہ پھیل سکتا ہے یا زیادہ شدید بیماری کا باعث بنتا ہے‘ ابھی تک ثابت نہیں ہو سکا۔ اب تک وائرس پھیلنے کے بارے میں اخذ کردہ نتائج کا دار و مدار اس بات پر ہے کہ وائرس کتنی تیزی سے پھیلا تھا۔ ایک وائر س زیادہ متعدی خواص کاحامل ہو سکتا ہے کیونکہ یہ زیادہ تر نئے انفیکشن کا باعث بن سکتا ہے۔ اب بھارت اور برطانیا میں سب سے زیادہ پایا جانے والا ویرینٹ ڈیلٹا ہے جو یہاں90 فیصد سے زیادہ نئے کیسز اور امریکا میں 20 فیصد سے زیادہ نئے انفیکشنز میں پایا گیا ہے؛ تاہم تمام ماہرین وبائی امراض اس بات سے اتفاق نہیں کرتے کہ اس طرح کے اندازوں کی مدد سے کسی ویرینٹ کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ یہ زیادہ تیزی سے پھیلتا ہے؛ البتہ یہ امر زیادہ واضح ہے کہ ڈیلٹا اب تک پایا جانے والا سب سے فٹ اور طاقتور وائرس ہو سکتا ہے۔
ہم کسی وائرس کے پھیلنے کی صلاحیت کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ وہ ایک انسان سے دوسرے انسان تک پھیلنے میں کتنا وقت لیتا ہے۔ اس طرح کی پیمائش کرنے کے لیے ہمیں انسانوں پر تجربات کرنے کی ضرورت ہو گی مگر اسے ایک غیر اخلاقی حرکت سمجھا جائے گا۔ لوگوں کی سرگرمیوں میں آنے والی تبدیلیوں سے بھی انفیکشن میں اضافے کا پتا چلتا ہے، مثلاً ان کا سفر کرنا، ماسک نہ پہننا یا احتیاطی سماجی فاصلہ رکھنا اور سب سے اہم بات یہ کہ وافر مقدار میں ویکسین کا دستیاب نہ ہونا۔ عوامی سطح پر ویرینٹس کے بارے میں ہونے والی بات چیت میں ان عوامل کو زیادہ پیش نظر نہیں رکھا جاتا۔ ضروری نہیں کہ بھارت، نائیجیریا اور دیگر ممالک میں نئے کیسز کا سامنے آنا کسی خاص ویرینٹ کی وجہ سے ہو بلکہ اس کی بڑی وجہ اس ویرینٹ کے پھیلائو کے لیے کیے گئے اقدامات کی خلا ف ورزی اور گنجان آبادی والے علاقوں میں صحت عامہ کا ناقص انفراسٹرکچر بھی ہو سکتا ہے۔ اگر لوگ ایسے حالا ت میں رہ رہے ہوں جہاں وہ آسانی سے کورونا وائرس کا شکار ہو سکتے ہیں تو اغلب امکان یہ ہو گا کہ وہ اس علاقے میں پائے جانے والے سب سے زیادہ فٹ ویرینٹ کے حملے کا شکار ہوں گے۔ اس وقت وہاں سب سے زیادہ ڈیلٹا ویرینٹ موجود ہے۔ہمیں سب سے زیادہ یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جو لوگ بھی اس ویرینٹ سے متاثر ہو رہے ہیں‘ یہ ضروری نہیں ہے کہ ان پر بیماری کا شدید حملہ ہو یا کورونا وائرس کی وجہ سے ان کی اموات بھی زیادہ ہوں۔ اس لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے ویکسین لگوائی جائے۔ اب تک جو بھی ویکسین بنائی گئی ہیں وہ ڈیلٹا ویرینٹ سمیت ہر وائرس کے خلاف بہت موثر ثابت ہو رہی ہیں اور ان کی وجہ سے شرح اموات میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔ ممکن ہے کہ کوئی ویکسین انفیکشن کو روکنے میں زیادہ موثر نہ ہوں مگر وہ ان کے پھیلائو اور صحت کے سنگین مسائل میں کافی حد تک کمی کر دیتی ہے۔ جو لوگ ویکسین نہیں لگواتے‘ انہیں انفیکشن اور وائرس کے کسی بھی ویرینٹ سے نقصان پہنچنے کا شدید رسک ہوتا ہے۔ جب اچانک کوئی وبا پھیلتی ہے تو لوگ اس طرح کے سوال کا فوری جواب مانگتے ہیں کہ وائرس میں تبدیلی آنے کا کیا مطلب ہوتا ہے۔ اس سوال کا جواب دینے کے لیے شاید ریسرچ میں کئی سال لگ جائیں۔ اب تک یہ تو کہا جا سکتا ہے کہ وائرس کی وجہ سے اس کیا انفیکشن کے پھیلائو کا ایک لامتناہی سلسلہ جاری ہے مگر آج موجود ویکسینز اس وبا کا خاتمہ ضرور کر سکتی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔