وجود

... loading ...

وجود

مسلم آبادی بڑھنے کا جھوٹا پروپیگنڈا

پیر 05 جولائی 2021 مسلم آبادی بڑھنے کا جھوٹا پروپیگنڈا

 

آسام کے بعد اب ملک کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش میں آبادی کنٹرول کرنے کے لیے قانون سازی کی باتیں ہورہی ہیں۔’بچے دوہی اچھے ‘نامی یہ مہم یوں تو پوری آبادی پر نافذ کرنے کی تیاری ہے ، لیکن جاننے والے بخوبی جانتے ہیںکہ ملک میں جب بھی بڑھتی آبادی کو کنٹرول کرنے کی بحث شروع ہوتی ہے تو اس کی تان ہمیشہ مسلمانوں پر آکر ٹوٹتی ہے ۔آسام اور اترپردیش میں اس بحث کو شروع کرنے کامقصد بھی یہی معلوم ہوتا ہے ، کیونکہ اس کی پشت پرآبادی کو قابو میں کرنے کا جذبہ نہیں بلکہ ہمیشہ کی طرح اس کی آڑ میں سیاست کی روٹیاں سینکنا اورمسلمانوں کو ہراساں کرنا ہے ۔
مختلف اوقات میں کیے گئے سروے یہ ثابت کرچکے ہیں کہ ملک میں مسلم آبادی کی شرح دیگر فرقوںکے مقابلے میںکم ہے ، لیکن پھر بھی ان پر ملک کی آبادی میں عدم توازن پیدا کرنے کا الزام لگایا جاتا ہے ۔مسلمانوں کے تعلق سے جو باتیں بار بار کہی جاتی ہیں ، ان میںپانچ سب سے زیادہ نمایاں ہیں۔ مسلمانوں پر سب سے بڑا الزام یہ ہے کہ وہ زیادہ بچے پیدا کرتے ہیں اور آبادی میں اضافہ کے لیے تنہاوہی ذمہ دار ہیں۔ دوسری بات یہ کہی جاتی ہے کہ مسلمانوں کی وجہ سے آبادی کا توازن بگڑ گیا ہے ۔تیسراالزام یہ ہے کہ مسلمان جان بوجھ کر اپنی آبادی بڑھارہے ہیںتاکہ آہستہ آہستہ ہندو اقلیت میں آجائیںاور مسلمان ملک کے اقتدار پر قابض ہوجائیں۔ چوتھا الزام یہ ہے کہ مسلمان ایک سے زیادہ شادیاں کرتے ہیںتاکہ آبادی کو بڑھا سکیں۔ اسی لیے یہ نعرہ لگایا جاتا ہے کہ’’ ہم پانچ ، ہمارے پچیس‘‘۔ پانچویں بات بہت زور وشور سے یہ کہی جاتی ہے کہ اسلام خاندانی منصوبہ بندی کا مخالف ہے ، اس لیے مسلمان اس پر عمل نہیں کرتے ۔
دراصل اس پروپیگنڈے سے فرقہ پرست اور مسلم دشمن طاقتوں کو آکسیجن ملتی ہے ،اس لیے اس کو ہوا دینا فرقہ پرستوں کو سب سے زیادہ راس آتاہے ۔ اس قسم کی باتیں اکثر الیکشن کے میدان میں بھی کی جاتی ہیں۔ ہمارے محبوب وزیراعظم نے کسی زمانے میں گجرات اسمبلی کی انتخابی مہم کے دوران ‘ ہم پانچ ، ہمارے پچیس ’ کا نعرہ مستانہ لگاکر ہندو ووٹوں کی صف بندی کرنے میں کامیابی حاصل کی تھی۔ بھولے بھالے ہندوؤں پر اس پروپیگنڈے کا اثر یوں ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف ان کی نفرت میںمزید اضافہ ہوجاتا ہے ۔ یہی دراصل فسطائی جماعتوں کا مقصد بھی ہے کہ مسلمانوں کے خلاف نفرت اور تشددکو ہوا دی جائے اور انھیں نرم چارہ بنایا جائے ۔ آزادی کے بعد سے مسلسل یہی ہورہا ہے اور کسی بھی حکومت نے اس کا توڑ کرنے کے لیے اصل اعداد وشمار عوام کی عدالت میں پیش نہیں کیے ۔
پچھلے دنوں سابق الیکشن کمشنر ڈاکٹر ایس وائی قریشی نے اس موضوع پر ایک کتاب لکھی ہے ۔’آبادی کا مفروضہ :اسلام ، خاندانی منصوبہ بندی اور ہندوستانی سیاست ‘کے عنوان سے انگریزی زبان میں شائع ہونے والی اس کتاب میں انھوں نے یہ نتیجہ اخذکیا ہے کہ ’’پیدائش کی شرح مسلمانوں میں زیادہ ہے ، لیکن اتنی نہیں جتنا کہ پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے ۔عام طور پر یہ تاثر پیدا کیا جاتا ہے کہ کسی ہندو خاندان میں دوبچے ہیں تو مسلم خاندان میں دس بچے جنم لیتے ہیں۔ڈاکٹر قریشی نے اپنی تحقیق میں لکھا ہے کہ کبھی بھی ہندوؤں اور مسلمانوں میں ایک بچے سے زیادہ کا فرق نہیں رہا۔ ان کا کہنا ہے کہ اب مسلمان کافی تیزی سے بلکہ ہندوؤں سے زیادہ خاندانی منصوبہ بندی کو اپنا رہے ہیں۔ یہ شرح گھٹ کر 0.48پرآچکی ہے ۔دوسری غلط فہمی یہ ہے کہ آبادی کا توازن بگڑ رہا ہے ۔ اس میں اس حدتک تو سچائی ہے کہ گزشتہ ساٹھ سال میں مسلم آبادی میں چار فیصد کا اضافہ ہوا ہے اور ہندوؤں میں کمی واقع ہوئی ہے ۔ یعنی ہندو 84 فیصد سے گھٹ کر79 فیصد رہ گئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ کمی صرف مسلمانوں میں نہیںبلکہ تمام قوموں میں تقسیم ہوگئی ہے ۔ مسلمان 9.8فیصد سے بڑھ کر14 فیصد ہوگئے ہیں۔ اس سے آبادی کا توازن بگڑنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ مسلمانوں کی آبادی ساٹھ سال میں صرف چار فیصد بڑھی ہے۔ اس اعتبار سے ان کے اکثریت بننے میں 600سال لگیں گے ۔
ان دنوں آسام کے نومنتخب وزیراعلیٰ ہیمنت بسوا سرماکے سر پربھی بڑھتی ہوئی مسلم آبادی کا بھوت سوار ہے ۔اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ان کے ہاتھوں میں ایک ایسی ریاست کی باگ ڈورآگئی ہے جہاں سب سے زیادہ یعنی 34 فیصد مسلم آبادی ہے ۔ آسام کے مسلمانوںکے خلاف مسلسل یہ پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے کہ ان میں سے بیشتر ’گھس بیٹھیے ‘ہیں جو پڑوسی ملک بنگلہ دیش سے یہاں آئے ہیں۔ نومنتخب وزیر اعلیٰ کی پہلی کوشش یہی ہے کہ وہ کسی طرح مسلمانوں کی آبادی کو‘ کنٹرول’ کرکے اپنے سیاسی آقاؤں کو خوش کردیں۔اسی لیے اپنی ریاست میں مسلمانوں کی آبادی کم کرنے کے لیے انھوں نے طرح طرح کی اسکیمیں وضع کرلی ہیں۔ سب سے بڑی اسکیم یہ ہے کہ دوسے زیادہ بچے پیدا کرنے والے اب سرکاری ملازمت سے محروم رہیں گے ۔دوسے زیادہ بچوں والے جو لوگ پہلے سے ملازم ہیں ان کے خلاف تادیبی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔اسی قسم کے ضابطے بی جے پی کے اقتدار والے دیگر صوبوں میں بھی نافذ کیے گئے ہیں۔ یعنی دوسے زیادہ بچوں والوں کولوکل باڈیز کے انتخابات کے لیے نااہل قرار دے دیا گیا ہے ۔اس قانون کو نافذ کرنے والے صوبوں میں گجرات، مدھیہ پردیش، ہماچل پردیش، اتراکھنڈ، کرناٹک اور ہریانہ شامل ہیں۔ بعض غیر بی جے پی اقتدار والے صوبوں مثلاً راجستھان ، مہاراشٹر، آندھرا پردیش، تلنگانہ اور اڑیسہ میں بھی اس کی پیروی کی جارہی ہے ۔اترپردیش بھی جلد ہی اس فہرست میں شامل ہونے والا ہے ۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ آسام میںدوبچوں کی پالیسی کا نفاذ تو مسٹر سرماکے پیش رو وزیراعلیٰ نے گزشتہ جنوری میں ہی کردیا تھا۔اب انھوں نے دو سے زیادہ بچے والوں کو تمام سرکاری مراعات سے محروم کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ان کا خاص نشانہ مسلمان ہیں۔آپ کو یاد ہوگا کہ انھوں نے پچھلے دنوں ‘ پناہ گزین مسلمانوں’ کو یہ مشورہ دیا تھا کہ وہ آبادی کو کنٹرول کرنے کے ‘ مہذب طریقے ’اختیار کریں۔دراصل موجودہ وزیراعلیٰ کی نگا ہ میں آسام کے مسلمان ‘پناہ گزین’ ہیں جو بنگلہ دیش سے نقل مکانی کرکے آسام میں آباد ہوئے ہیں۔آپ کو یہ بھی یاد ہوگا کہ انھوں نے اسمبلی الیکشن کی مہم میں واضح طور پر کہا تھا کہ ریاست کی 34فیصد مسلم آبادی بی جے پی کے ایجنڈے میں اس لیے شامل نہیں ہے کہ وہ بی جے پی کو ووٹ نہیں دیتی ۔سرما کا یہ بیان ان کی پارٹی کی حکمت عملی کا حصہ ضرور ہے اور ایسا انھوں نے الیکشن کے میدان میں کہا تھا ، لیکن اب جبکہ وہ سب کے ساتھ انصاف کرنے کا حلف اٹھاکر وزیراعلیٰ بنے ہیں تو انھیں دستور کی پابندی کرتے ہوئے ایسے اقدامات کرنے چاہیے جن کا فیض بلا تفریق مذہب وملت سب کو پہنچے ۔ لیکن یہ عجیب مذاق ہے کہ بی جے پی کے لیڈران آئین کی پاسداری کا حلف اٹھانے کے باوجود کھلم کھلا اس کی خلاف ورزی کرتے ہیں جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک آئین کی کوئی اہمیت نہیںہے ۔
گزشتہ دنوں ایک بیان میں وزیراعلیٰ ہیمنت بسوا سرمانے کہا تھا کہ’’ پناہ گزین مسلم فرقہ کومجموعی ترقی اور غربت کے خاتمہ اور آبادی کو کنٹرول کرنے کے لیے خاندانی منصوبہ بندی کی پالیسی اپنانی چاہئے ، کیونکہ ملک میں بڑھتی ہوئی آبادی خصوصاً اقلیتی برادریوں کے درمیان وسائل کی قلت پیدا ہورہی ہے ‘‘۔انھوں نے اقلیتی برادریوں کے ذمہ داروں پر زور دیا تھاکہ وہ ’’لوگوں کو آبادی پر قابو پانے پر توجہ دینے کی ترغیب دیں‘‘۔ وزیراعلیٰ نے یہاں تک کہا کہ ’’حکومت اقلیتی برادری کی خواتین کواس مسئلہ سے موثر انداز میں نمٹنے کے لیے تعلیم دینے کاہدف بنارہی ہے ‘‘۔اس بیان سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ آسام میں آبادی کو کنٹرول کرنے کی ساری کوششیں مسلمانوں تک محدود ہیں اور حکومت انھیں ہی ہدف بنانا چاہتی ہے ۔یہ دراصل حکمراں جماعت کی پالیسی اور ایجنڈے کا حصہ ہے اور اس کا مقصد مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے سواکچھ بھی نہیں ہے جبکہ زمینی سچائی اس کے برعکس ہے ۔2019-20 کے سرکاری اعداد شمار یہ ثابت کرتے ہیں کہ اگر آسام میں کسی فرقہ کی آبادی کی شرح میں کمی واقع ہوئی ہے تو وہ صرف مسلمان ہیں۔اس عرصہ کے دوران مسلمانوں کی آبادی میںصرف دواعشاریہ چارفیصد کا اضافہ ہوا ہے جبکہ2005-06 کے دوران اضافہ کی یہ شرح تین اعشاریہ چھ فیصد تھی یعنی سرکاری اعداد وشمار کے مطابق مسلمانوں کی آبادی میں ایک اعشاریہ دوفیصد کی کمی واقع ہوئی ہے جبکہ اس کے برعکس ہندو آبادی کی شرح میں اضافہ درج کیا گیاہے ۔جہاں تک ایک سے زیادہ شادیوں کا سوال ہے تو یہ بھی ایک مفروضہ سے زیادہ کچھ نہیں ہے ۔ ہندوستان کا جنسی تناسب گزشتہ 100سال سے جوں کا توں ہے اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے ۔ 2020کے اعداد وشمار کے مطابق 1000مردوں کے مقابلے میں 924عورتیں ہیں۔ ایسے میں دوسری بیوی ملنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر