... loading ...
وہ اتنا حسین تھا کہ حسن ِ یوسف کا پرتو دکھائی دیتاتھا ہرکوئی اس کی مردانہ وجاہت سے متاثرتھا اتنے حسین و جمیل نوجوان کو عرب کی عورتیں دروازوں کے پیچھے چھپ چھپ کر دیکھتیں اور آہیں بھرا کرتی تھیں اس کے تذکرے پورے عرب میں تھے ۔ دحیہ قلبی اپنے قبیلے کا سردار ،سخت گیر لیکن معاملہ فہم جو کہہ دیا اس پر ڈٹ جانا اس کی فطرت میں شامل تھاایک دن دحیہ قلبی کہیں جارہے تھے کہ سرورِ کونین تاجدارِ مدینہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نظر مبارک اس پر پڑگئی۔ آپ ﷺ نے بھی اسے دیکھا تو پھر دیکھتے ہی رہ گئے اپنے اصحاب ؓ سے دریافت کیا یہ حسین نوجوان کون ہے ؟
’’دحیہ قلبی ہے اس کا نام اصحاب ؓنے جواب دیا، اپنے قبیلے کا سردار ہے۔۔ نبی ٔ آخرالزماں ﷺ سوچ میں پڑ گئے دل میں خیال آیا کہ یہ مسلمان کیوں نہیں ہوا؟
آپ ﷺنے رات کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا مانگی؛ یا اللہ تونے دحیہ قلبی کو اتنا خوبصورت نوجوان بنایا ہے اس کے دل میں بھی اسلام کی محبت ڈال دے، اتنے حسین نوجوان کو دوزخ کی آگ سے بچا لے۔ رات کو آپ نے دعا فرمائی خدا کا کرنا یہ ہوا کہ صبح دحیہ قلبی ہادی ٔ برحق صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو گئے۔ نبی پاک ﷺ انہیں دیکھ کر مسکرائے اور خندہ پیشانی سے خوش آمدید کہا دحیہ قلبی نے کہا نہ جانے کیا بات ہے رات سے مضطرب ہوں آپ سے ملنے کا بہت اشتیاق ہوا تو حاضر ہوگیااے اللہ کے رسول ﷺ ! مجھے بتائیں آپ کیا احکام لے کر آئے ہیں؟
’’میں اللہ کا آخری رسول ہوں اور اللہ واحد ہے آپﷺ نے فرمایا اللہ کا کوئی شریک نہیں پھر آپ ﷺ نے اسے توحید و رسالت کے بارے میں بنیادی نکات سمجھائے حضرت دحیہ نے ڈرتے ڈرتے کہا؛ اللہ کے نبی میں مسلمان تو ہو جاؤں لیکن ایک گناہ کا مجھے ہر وقت خوف لاحق رہتاہے ۔۔ وہ بھرائی ہوئی آنکھوں سے بتارہاتھا ایک ایسا گناہ جس کی معافی اور تلافی ممکن ہی نہیں میں مسلمان ہوبھی جائوں مجھے لگتاہے آپ کا اللہ مجھے کبھی معاف نہیں کرے گا۔
نبی ٔ رحمت ﷺنے تبسم فرمایا؛ اے دحیہ بتا سہی تونے کون سا گناہ کیا ہے جس کی معافی اور تلافی نہیں؟ دحیہ قلبی نے کہا؛ یا رسول اللہ ﷺمیں اپنے قبیلے کا سربراہ ہوں۔ اور ہمارے ہاں بیٹیوں کی پیدائش پر انہیں زندہ دفن کردیاجاتا ہے کیونکہ ہمارے قبیلے میں یہی مروج ہے میں کیونکہ قبیلے کا سردار ہوں اس لیے اب تلک میں نے70 گھرانوں کی بیٹیوں کو زندہ دفن کرچکاہوں اسی لیے میرا خیال ہے آپ کا رب مجھے کبھی معاف نہیں کرے گا۔ ابھی یہ باتیں ہوہی رہیں تھیں کہ حضرت جبریل امین علیہ السلام نے بارگاہ ِ رسالت ﷺ میں حاضر ہوکرکہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خالق ِ کون و مکاں آپ کو سلام کہتا ہے اور فرماتا ہے کہ دحیہ قلبی کو کہیں اب تک جو ہو گیا سو ہو گیا اس کے بعد ایسا گناہ کبھی نہ کرنا مسلمان ہو جائوتو ہم اسے معاف کر دیں گے۔ آپ ﷺ نے دحیہ قلبی کو یہ نوید سنائی تو وہ زور زور سے رونے لگا اتنا رویا کہ اس کی ہچکیاں بندھ گئیں
آپ ﷺ نے فرمایا دحیہ قلبی اب کیا ہوا ؟ کیوں روئے جارہے ہو ؟ اللہ تعالیٰ نے تو تمہارا یہ گناہ معاف کردیا ہے تمہیں تو خوش ہونا چاہیے۔ دحیہ قلبی نے پہلو بدلا دور کہیں خلائوں میں گھورتے ہوئے کہا؛ یا رسول اللہ، میرا ایک گناہ اور بھی ہے جو ناقابل ِ معافی ہے اس گناہ نے تو میرا سکھ چین چھین لیاہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا دحیہ بتائو وہ گناہ کون ساہے؟ بتاؤ ؟ جس نے تمہیں آج بھی مضطرب کررکھاہے۔ دحیہ قلبی نے اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے بتایا یا رسول اللہ10سال پہلے میری بیوی امید سے تھی اسی دوران تفاق سے مجھے کسی ضروری کام کی غرض سے دوسرے ملک جانا پڑگیا۔ میں نے جاتے ہوئے اپنی اہلیہ کو انتہائی سختی سے کہا کہ بیٹا ہوا تو اس کی پرورش کرنا اگر بیٹی ہوئی تو اسے زندہ دفن کر دینا۔ یہی کہتے ہوئے دحیہ قلبی کی روتے روتے چیخیں نکل گئیں۔ میں کچھ عرصہ بعد واپس گھر آیا تو دروازے پر دستک دی تو اتنے میں ایک چھوٹی سی پیاری سی بچی نے دروازہ کھولا اور پوچھا آپ کون ہیں؟
میں نے کہا: پہلے تم بتائو کون ہو؟ تو وہ بچی اٹھلاکربولی؛ میں اس گھر کے مالک کی بیٹی ہوں۔ آپ کون ہیں؟ دحیہ قلبی کہنے لگے؛ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم، میرے منہ سے نکل گیا: اگر تم اس گھر کے مالک کی بیٹی ہو تو میں اس گھر کا مالک ہوں۔ یہ سنتے ہی چھوٹی سی بچی میری ٹانگوں سے لپٹ گئی اورزور زور سے کہنے لگی؛ بابا بابا بابا بابا آپ کہاں چلے گئے تھے؟ میں نے تو آپ کو پہلی بار دیکھا ہے میں نہ جانے کب سے آپ کا انتظار کر رہی ہوں۔ میں نے غصے سے اسے دھکا دیا وہ لڑھک کر دور جاگری اور حیرت سے مجھے تکنے لگی اب وہ چپ ہوگئی جیسے اس کے الفاظ سینے میں ہی گھٹ کردم توڑگئے ہوں میں نے انتہائی طیش سے بیوی سے پوچھا؛ یہ بچی کون ہے؟ بیوی رونے لگ گئی اور کہنے لگی؛ دحیہ! یہ تمہاری بیٹی ہے دیکھو کتنی خوب صورت ہے مجھے اس پر ترس آگیا اسی لیے میں اسے زندہ درگور نہیں کیا ہم اس کی پرورش کریں گے پھر تم بھی نانا بنوگے وہ اپنی دھن میں کہے جارہی تھی لیکن میرا یہ عالم تھا جیسے کسی نے بڑے مجمع میں میرے کپڑے اتاردئیے ہوں۔ میں نے کہا اس کے ساتھ بھی وہی سلوک ہوگا جو اب تلک درجنوں بچیوں کے ساتھ ہوچکا ہے میری بیوی نے میرے آگے ہاتھ جوڑ دئیے لیکن یا رسول اللہ! مجھے ذرا ترس نہ آیا۔ میں نے سوچا میں اپنے قبیلے کا سردار ہوں اس قبیلے کی یہی رسم ہے اگر اپنی بیٹی کو دفن نہ کیا تو لوگ کہیں گے ہماری بیٹیوں کو زندہ درگورکرتا رہا اور اپنی بیٹی سے پیار کرتا ہے۔ یہ کہتے ہوئے دحیہ قلبی پھر زارو قطار رونے لگ گیا۔ اس نے کہا یا رسول اللہ ﷺوہ بچی بہت خوبصورت، بہت حسین،بہت پیاری تھی ۔ میں جب بھی اسے دیکھتا میرا دل دھڑکنا شروع کردیتا ایک دن مجھے اس پر خوب پیار آیا میرا دل کر رہا تھا اسے سینے سے لگا کر خوب پیارکروں ۔ پھر سوچتا تھا کہیں لوگ بعد میں یہ باتیں نہ کہیں کہ اپنی بیٹی کی باری آئی تو اسے زندہ دفن کیوں نہیں کیا؟ اس سے اگلے روز میں نے بیوی سے کہا اسے اچھے کپڑے پہنائو اس نے بیٹی کو تیار کردیا اس کی آنکھوں میں آنسو تھے میں گھر سے جانے لگاتو بیوی نے میرے پاؤں پکڑ کرکہا دحیہ اسے نہ مارنا یہ میرے جگر کا ٹکرا ہے دحیہ یہ تمہاری بیٹی ہے تمہارے آگے میں ہاتھ جوڑتی ہوں اس کی زندگی بخش دے معصوم بچی حیرت سے ہماری باتیں سن رہی تھی ماں تو آخر ماں ہوتی ہے وہ دروازے پر تن کر کھڑی ہوگئی میں نے بیوی کو پیچھے دھکا دیا اور بیٹی کو لے کر چل پڑا راستے میں وہ توتلی زبان میں باتیں کرتی جارہی تھی کبھی وہ کہتی بابا مجھے نانی کے گھر لے کر جا رہے ہو؟ کبھی کہتی لگتاہے ہم کسی میلے میں جارہے ہیں پھر اس نے ایک جگہ رک کر پوچھابابا کیا آپ مجھے کھلونے لے کر دینے جا رہے ہو؟ بابا ہم کہاں جا رہے ہیں؟ دحیہ قلبی روتے جاتے ہیں اور واقعہ سناتے جا رہے ہیں اس وقت بارگاہ ِ رسالت ﷺ میں جتنے بھی اصحاب ؓتھے سب کی آنکھیں پرنم تھیں
دحیہ قلبی نے کہا یا رسول اللہ ! میرے پاس اس کی کسی بات کا جواب نہیں تھا وہ پوچھتی جا رہی ہے میں چپ تھا جیسے کوئی بات نہ کرنے کی قسم کھارکھی ہو۔اس نے پھرپوچھا بابا کدھر جارہے ہیں؟ وہ کبھی
میرے ٹانگوں سے لپٹ لپٹ جاتی کبھی میرا ہاتھ پکڑ لیتی ایک مقام پر جا کر میں نے اسے بٹھا دیا اور خود اس کی قبر کھودنے لگ گیا وہ اچانک آئی اور اس نے بڑی محبت سے میرا منہ چوم لیا، پھر وہ کبھی اپنے ننھے منے بازو میری گردن میں ڈال دیتی وہ مسلسل پوچھ رہی تھی میں کیا کررہاہوں لیکن میں کچھ نہیں بولا میں بدستور خاموش تھا لیکن میرے سینے میں ایک طوفان مچل رہاتھا بیٹی کی محبت غالب آنے لگتی تو میں زور زور سے کھدائی کرنے لگ جاتا۔
نبی ٔ رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دحیہ قلبی کی زبانی واقعہ سننے کے دوران رونے لگ گئے وہ بار بار اپنے دونوں ہاتھوں کو دبارہے تھے جیسے وہ بہت زیادہ مضطرب ہوں۔ دحیہ قلبی نے بتایا میری بیٹی نے جب دیکھا کہ میرا باپ دھوپ میں سخت کام کر رہا ہے، تو اٹھ کر میر ے پاس آگئی اس نے اپنے گلے میںمو جود چھوٹے سے دوپٹہ کو اتار کر میرے چہرے سے ریت صاف کرتے ہوئے کہنے لگی بابا اتنی تیز دھوپ میں کیوں کام کر رہے ہیں؟ چھاؤں میں آ جائیں۔ بابا یہ جگہ کیوں کھود رہے ہیں اس جگہ؟ بابا گرمی ہے چھاؤں میں آ جائیں۔ اور ساتھ ساتھ میرا پسینہ اور مٹی صاف کرتی جا رہی ہے اس کے باوجود لیکن مجھے ترس نہ آیا۔ آخر جب میں قبر کھود لی تو میں نے اپنی بیٹی کو اس میں دھکا دے دیا۔ وہ قبر میں گر گئی اور میں جلدی جلدی اس پرریت ڈالنے لگ گیا اب بچی کو سارا معاملہ سمجھ میں آگیا تھااس نے قبر سے نکلنے کی کوشش کی لیکن وہ کامیاب نہ ہوسکی وہ ریت میں سے روتی ہوئی اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھ میرے سامنے جوڑ کر کہنے لگی؛ بابا میں کبھی کھلونے نہیں مانگو گی۔ بابا میں نانی کے گھر بھی نہیں جائوں گی۔ بابا اگر آپ مجھ سے نفرت کرتے ہیں میں کبھی آپ کے سامنے نہیں آئوں گی بابا مجھے ایسے نہ ماریں،مجھے زندہ دفن نہ کریں لیکن یا رسول اللہ صلی اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھ پر وحشت طاری تھی میں اپنے قبیلے میں سرخرو ہونا چاہتا تھامیں اس پر ریت ڈالتا گیا۔ مجھے اس کی باتیں سن کر بھی کوئی ترس نہیں آیا۔ جب وہ مکمل طورپر دفن ہوگئی صرف اس کا سر مٹی سے باہر رہ گیا تھا اس نے مزاحمت ترک کردی۔پھر وہ انتہائی کربناک آواز میں آسمان کی طرف منہ کرکے چیخی اے خدا میں نے سنا ہے تیرا ایک نبی آئے گا جو بیٹیوں کو عزت دے گا۔ انہیں زندہ درگور ہونے سے بچائے گا۔ اے اللہ وہ نبی بھیج دے میرے جیسی نہ جانے کتنی بیٹیاں مر رہی ہیں یہ کہتے ہوئے اس کی آنکھوں سے نہ جانے کتنے آنسو نکلے جو قبرکی مٹی میں جذب ہوگئے پھر میں نے اسے ریت میں دفنا کر مٹی کو برابر کردیا ۔دحیہ قلبی اپنی آپ بیتی سناتے ہوئے بے انتہا رو رہے تھے۔ یہ واقعہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اتنا روئے کہ آپﷺ کی داڑھی مبارک آنسوؤں سے تر ہو گئی ریش مبارک سے آنسو ٹپکنے لگے لگتا تھا شاید آپ ﷺ زندگی میں اتنا کبھی نہیں روئے ہوں گے ۔آپ سرکار ﷺ نے فرمایا؛ دحیہ ذرا پھر سے اپنی بیٹی کا واقعہ سناؤ۔ اس بیٹی کا واقعہ جو مجھ محمد ﷺکے انتظار میں زندہ دفن کردی گئی رحمت ِ عالم ﷺنے تواتر سے تین مرتبہ یہ واقعہ سنا اور اتنا روئے کہ آپ کو دیکھ کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم رونے لگ گئے اور کہنے لگے؛ اے دحیہ تونے تو ہمارے آقا کو رلادیا؟ ایسا تو کبھی نہیں ہوا ہم سے نبی ٔ اکرم ﷺ کا رونا برداشت نہیں ہو رہا۔ آپ ﷺ نے دحیہ قلبی سے تین بار واقعہ سنا تو حضرت دحیہ قلبی کی رو رو کر حالت خراب ہوگئی وہ واقعہ اس انداز سے سنارہے تھے جیسے ابھی کل ہی کی بات ہو ماحول پر رقت طاری تھی آہوں ،سسکیوں اور ہچکیوں کی آوازیں ہر سوچ ،ہر خیال پر غالب آگئیں اسی اثناء میں حضرت جبرائیل علیہ اسلام ایک بار پھر بارگاہ ِ رسالت ﷺ میں حاضر ہوئے او راللہ کے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اللہ کا سلام پہچاکر کہاکہ اے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم! دحیہ کو کہہ دیجئے وہ اْس وقت کی بات تھی جب اس کا سینہ اللہ اور آپ ﷺ کے نور سے منور نہیں ہوا تھا۔ اب وہ بارگاہ ِ رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں حاضر ہے تو اللہ نے دحیہ کا یہ گناہ بھی معاف کر دیا ہے۔ یہ سن کر دحیہ قلبی نے نبی ٔ اکرم ﷺ کے چہرہ انور کی طرف دیکھ کر بڑے رقت آمیز لہجے میں کہامجھے اللہ نے معاف کردیا۔۔۔ اتنے بڑے گناہ کے باوجود اللہ نے آپ ﷺکے صدقے مجھے معاف کردیا میں نے تو عملاً دیکھ لیا میری معافی دلیل بن گئی کہ آپ ﷺ رحمت اللعالمین ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔