... loading ...
اگر کچھ عرصے کے لیے ہم اپنا منہ بند رکھ سکیں، شاہ محمود قریشی صاحب آپ سُن رہے ہیں!
یہ افغانستان ہے، اور اس کی کچھ سفاک حقیقتیں!
احمد شاہ ابدالی کا افغانستان جدید لفنگوں کے لیے نہیں۔تہذیب کے نام پر دھوکا دینے والے درندوں کا نہیں۔ بُشوں، اُباموں ، ٹرمپوں اور بائیڈنوں کا نہیں۔یہ حضرت علامہ اقبال کے خواب کا تسلسل ہے۔ یہ افغانوں کا ہے۔
پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اگر گوش ہوش رکھتے ہو، اور سنیں تو یہ وقت خاموشی کاہے، سکوت ِ حکیمانہ!کُہسار باقی ہے اور افغان بھی۔ فیصلہ افغان کریں گے، جن کا اعلان ہے کہ میدان بھی یہیں ہے اور گھوڑا بھی۔ وزیر خارجہ نے یہ کیا فرمادیا:طالبان کے افغانستان پر اسلحہ کے زور پر قبضے کے حامی نہیں”۔سوال یہ ہے کہ افغانستان پر موجودہ قبضہ کیسے ہوا؟ کیا امریکا کے بی ۔ 52 بمبار طیاروں نے اپنی ابتدائی 57 ہزار اڑانوں سے گلاب، موگرا اور موتیا کے پھول برسائے تھے؟کیا امریکا نے طالبان کی جائز حکومت کو اسلحہ کے زور اور دنیا کی تاریخ کی بھاری جنگی مشنری کے ساتھ نہیں ہٹایا؟ تب ہم تاریخ کے غلط موڑ پر کھڑے تھے۔ گھگیائے ہوئے، امریکا کی ہیبت سے دم بخود اور پرویز مشرف کی سرگرمیوں میں بیخود۔ یہ وقت تھا جب ہم مسئلے کا حل نہیں حصہ تھے۔ اب شاہ محمود قریشی ایسے لوگوں کی حاشیہ بردار نفسیات پر انحصار کیا گیا تو ایک مرتبہ پھر ہم تاریخ کے غلط موڑ پر مسئلے کا حصہ بن کرکھڑے ہوں گے۔ براہ کرم چپ رہیں۔
حاشیہ برداروں کی نفسیات ہی ایسی ہوتی ہے۔ ہم استعمار کے خمار سے باہر نکلنے کو تیار نہیں۔ ابھی امریکا کے چنگل سے پورے نکلے نہیں کہ خطے کے نئے مراکز ِ طاقت کے ساتھ فدویانہ انداز اپنا لیے۔ پاکستان کو ایک آزاد ملک کے طور پر اُبھرنا اور چمکنا ہے۔ افغانستان سے ہمارے تعلقات کی بنیاد استعماری سیاست کے ردوقبول کی بنیاد پر نہیں، بلکہ دو برادر ممالک کی حقیقی مساوات و مواخات کے اُصول پر قائم رہے گی۔ افغانستان کے باب میںپاکستان کا مسئلہ یہ ہے کہ عسکری ادارے ، سیاسی حکومت کے نمائندے اور وزارت خارجہ کے بابے تینوں ہی فیصلہ سازی کے عمل میں اکثر غلط ثابت ہوئے۔ ہماری کمزور سیاست نے ہماری طاقت کو کمزوری بنایا، ہماری ہاتھ کی رسیوں کو دوسروں کے ہاتھوں میں تھما دیا۔ہمارے دوستوں کو دشمنوں میں بدل دیا۔ پندار کا صنم کدہ پہلے بھی آباد نہیں تھا،مگر دل دوبارہ کوئے ملامت کے طواف کو بے چین ہے۔ وہی کا وہی زُنار پوش ۔ شاہ محمود قریشی صاحب احتیاط کریں۔
ذرا وزیر خارجہ کے الفاظ دُہرائیں: اسلام آباد کا پڑوسی کے بارے میں نقطہ نظر بدل گیا ہے اور وہ مستقبل کے ایسے انتظام کی حمایت کرے گا جو تمام افغانوں کے لیے قابل قبول ہے ۔ پاکستان میں طالبان کی کوئی پناہ گاہ نہیں۔طالبان کے افغانستان پر اسلحہ کے زور پر قبضہ کے حامی نہیں”۔کیا یہ کوئی درست اور قابل عمل موقف ہے؟وزیر خارجہ کو اگر زحمت نہ ہو تو فرمائیں کہ کیا جس موجودہ افغان حکومت کو ہم قبول کرتے ہیں، وہ تمام افغانوں کے لیے قابلِ قبول ہے ؟کیا ماضی میں حامد کرزئی اور اشرف غنی کی حکومت کے حوالے سے ہم نے یہ موقف کبھی اپنایا؟ امریکا بہادر ، جناب امریکا بہادر!!! وزیر خارجہ کو شاید اندازا بھی نہ ہو،وہ جب یہ فرما رہے تھے تو کابل کے صدارتی محل میں ایک ہلچل مچی ہوئی تھی۔ امریکا کے زیر سایہ نام نہاد انتخابی انتظامات سے افغانستان پر مسلط اشرف غنی اپنی پوری کابینہ کو اُدھیڑ رہے تھے۔ شاہ محمود قریشی کے الفاظ ابھی فضاء میں گونج ہی رہے تھے کہ کٹھ پتلی اشرف غنی نے اپنے فوجی سربراہ اور دواہم ترین وزراء تبدیل کردیے۔ سب سے پہلے جنرل یاسین ضیا کو تبدیل کرکے جنرل ولی محمد احمدزئی کو افغانستان کا نیا چیف آف آرمی اسٹاف تعینات کیا ۔ پھر افغان وزیر دفاع اسد اللہ خالد کو برطرف کرکے بسم اللہ خان محمدی کی بطور وزیر عبوری تقرری ہوئی ، ساتھ ہی حیات اللہ حیات کو گھر بھیج کر عبدالستار مرزا کوال کو وزیرداخلہ بناد یا گیا۔ اشرف غنی کو یہ فوری تبدیلیاں کیوں کرنی پڑیں؟ طالبان ، جناب والا طالبان!!امریکا بھاگ رہا ہے۔ طالبان نے نئی حکمت عملی کے تحت اشرف غنی کے ماتحت انتظام کی مشکیں کسنا شروع کردی ہیں۔ حالیہ ہفتوں میں افغانستان کے کل 34 میں سے 28 صوبوں میں طالبان کے ساتھ جاری لڑائی میں افغان سیکورٹی فورسز اپنے زیر قبضہ تمام علاقوں سے محروم ہوتے چلے گئے ہیں۔ یہ تصور ہی اشرف غنی کے لیے لرزہ خیز ہے۔ سوال یہ ہے کہ میدان طالبان کے ہاتھ میں ہے تو حکومت کسی اور کے ہاتھ میں کیسے رہ سکتی ہے؟
افغانستان میں کٹھ پتلی کبھی برقرار نہیں رہ سکے۔ تاریخ یہی ہے۔ برطانوی فوج نے 1839 کے ماہِ اپریل میں قندھار اور اگست میں کابل فتح کرلیا۔ افغانی ایسے ہی ہیں ۔ حکومت دینے میں دیر نہیں لگاتے مگر لینے میں دیر کرتے ہیں اور تب تک دشمن کو مارتے رہتے ہیں۔ برطانیا نے یہ سبق جلدی سیکھ لیا تھا، صرف پونے تین سال میں۔ اس لیے شاہ شجاع کی کٹھ پتلی حکومت سے ہاتھ بھی فوراً اُٹھا لیا ۔ یہ 1841ء کا ماہِ دسمبر تھا ! برطانیا نے شکست تسلیم کی اور افغانستان کے تب کے جائز حکمران امیر دوست محمد خان کے بیٹے اکبر خان سے معاہدہ کرکے اپنی جان چھڑا لی۔ سفارت کاری لومڑی کی چالاکی و مکاری کا نام ہے۔ مگر افغانستان میں یہ کام نہیں آتی۔ برطانوی سفارت کاری لومڑی کی مثیل ہے۔برطانوی معاہدے کے بعدافغانستان میں تاخیری حربے اختیار کررہے تھے۔ تب اکبر خان کھڑا ہوا اور انگریز ریزیڈنٹ کا سر اُتار دیا۔ ساڑھے سولہ ہزار برطانوی فوج پر مبنی قافلہ خوف سے لرزتا چوروں کی طرح کابل سے بھاگا۔ مگر دیر ہو چکی تھی، افغان معاہدے کی عدم پاسداری میں لومڑی کے چلن پر ناراض ہوگئے ۔ سب کے سب مارے گئے۔ برطانوی مقبوضات تک پہنچنے کے لیے صرف ایک فرد کو زندہ چھوڑا گیا ۔ تاکہ یاد رہے اور بطور سند کام آسکے۔افغانستان میں برطانیا کی تین جنگوں میں انجام کی تاریخ مختلف نہیں۔ برطانیوں کا ہی نہیں سوویٹ یونین کا بھی کوئی ”شاہ شجاع” یا ”بچہ سقہ ”یہاں نہیں چل سکا۔ نجیب اللہ کے انجام سے کون واقف نہیں؟پھر امریکا کے بھی کسی بچہ سقہ کی یہاں حفاظت کیسے ہو سکے گی؟
افغانوں کی سیاسی بصیرت کو ہر جنگ کے بعد معاہدوں سے باندھنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ جنگ میں شکست ِفاش کے بعد سفارت کاری کی لومڑی سے نتائج کو بدلنے کی روش طالبان کو اب غصہ دلاتی ہے۔ افغان ان حرکتوں سے خوب خوب واقف ہیں۔ ہمیں بھی محتاط ہی رہنا چاہئے۔ جنیوا معاہدہ(14 اپریل 1988)،معاہدہ پشاور (اپریل 1992)اور معاہدہ اسلام آباد (مارچ 1993) کے عواقب و نتائج کو دھیان میں رکھنا چاہئے۔جنرل ضیاء کے عہد میں بھی جنیوامعاہدہ کے آس پاس افغانوں کو اُس حل کی طرف لانے کی کوشش میں پاکستان بہت عجلت دکھا رہا تھا، جس حل کی جانب اب شاہ محمود قریشی اشارہ کررہے ہیں۔ تب غلام اسحق خان زیادہ جانتے تھے۔ افغانوں کے قومی مزاج کی تہہ داریوں سے آگاہ غلام اسحق خان نے جنرل ضیاء کو باور کرانے کی کوشش کی کہ افغانوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لیے آزاد چھوڑدیں۔ وہ جانتے تھے افغان خود پر کسی کو اثر انداز ہونے نہیں دینا چاہتے ۔ جنیوا معاہدہ پاکستان کے لیے بہت سی مصیبتیں لایا۔ افغانستان پر حل مسلط کرنے کی روش نے اسے نراجیت کے سوا کچھ نہیں دیا۔ طالبان اس بکھیڑے سے ہی برآمد ہوئے تھے۔ وہ جنگ کے بعد کے حالات کو زیادہ بہتر جانتے ہیں۔ اب بھی طالبان تاریخ کے فطری عمل سے گزررہے ہیں، وہ مستقبل کی سرگوشی سن سکتے ہیں۔ یاد رکھیں!افغان جنگجو ہی نہیں پیدائشی سیاست دان بھی ہوتا ہے۔ یہ وقت زیادہ بولنے کا نہیں بلکہ چپ رہنے کا ہے۔ افغانستان میں غیر معمولی تاریخ بنانے والی قوت حکومت جیسی معمولی چیز بھی بنا ہی لے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔