... loading ...
جی سیون ممالک میں کینیڈا، فرانس، جرمنی، اٹلی، جاپان، برطانیہ اور امریکا شامل ہیں۔ یہ سات ممالک مل کر دنیا کی چالیس فی صد مجموعی قومی پیداوار کے حامل ہیں۔ اس تنظیم کے اہم مقاصد میں بظاہر دنیا بھر میں انسانی حقوق، جمہوریت، خوش حالی اور پائیدار ترقی کا فروغ شامل ہیں لیکن حقیقت میں جی سیون کمزور معاشی ممالک پر اپنی بالادستی کے لیئے قائم کیا گیا تھا اور اپنے قیام سے لے کر اَب تک جی سیون کے رکن ممالک نے اپنے مفادات کے تحفظ اور اپنی پالیسیوں کے فروغ کو ہی اولیت دی ہے۔ یا درہے کہ سات امیر ترین ممالک کا یہ اتحاد 2014 ء تک جی ایٹ کہلاتا تھااور روس بھی اِس تنظیم ایک فعال رکن تھا، لیکن پھر سابقہ یوکرینی علاقے کریمیا پر قبضے کے بعد روس کی رکنیت معطل کردی گئی، جس کے بعد سے یہ عالمی تنظیم ’’جی سیون‘‘ بن گئی ہے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کی شدید خواہش ہے کہ ایک بار پھر سے روس ’’جی سیون‘‘ اتحاد میں شمولیت اختیار کرلے ۔مگر پیوٹن اور جوبائیڈن کی حالیہ ملاقات کی ناکامی نے اس بات پر مہر تصدیق ثبت کردی ہے کہ گزشتہ چند برسوں میں عالمی سیاسی منظرنامے میں پیدا ہونے والی غیر معمولی تبدیلیوں کے بعد روس کا جی سیون میں شمولیت کے امکانات یکسر معدوم ہوچکے ہیں ۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ چین دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہونے کے باوجود ’’جی سیون‘‘ تنظیم کا رُکن نہیں ہے۔ چین کو اس اتحاد میں شمولیت سے روکنے کے لیے امریکہ اور دیگر امیر ممالک کی جانب سے دلیل یہ دی جاتی ہے کہ ’’چونکہ چین کی دولت اُس کی آباد ی کے حساب سے کم ہے ،اس لیے چین کو ترقی یافتہ ممالک کی فہرست اور ’’جی سیون‘‘ تنظیم میں شامل کرنا اتحاد کے بنیادی آئین کی صریح خلاف ورزی ہوگا‘‘۔ حالانکہ گزشتہ چند دہائیوں میں چین نے خود کو عالمی سطح پر ایک بڑے اور اہم کھلاڑی کے طور پر منوایا ہے اور اُس نے دیگر ممالک کے ساتھ مل کرجی سیون سے زیادہ موثر ،کثیرالجہتی عالمی اتحاد یعنی جی ٹوئنٹی جیسے ایک درجن سے زائد تجارتی اور عسکری اتحاد تشکیل دیے ہوئے ہیں۔
ویسے تو کم و بیش ہر سال ہی جی سیون ممالک اکھٹے ہوکر اتحاد کی کارکردگی اور مستقبل کے اہداف کے متعلق گفت و شنید اور اہم فیصلے کرتے ہیں ۔مگر کورونا وائرس کی عالمگیر وبا کے پیش نظر تنظیم کا حالیہ اجلاس دو برس کے بعد انعقاد پزیر ہوا تھا۔ واضح رہے کہ جی سیون تنظیم کا تازہ ترین اجلاس،اپنی گزشتہ نشستوں کی بہ نسبت اس لیے کچھ مختلف رہاکہ اس باراتحاد کے اراکین کا کثیر الجہتی ایجنڈا چین کے گرد ہی گھومتا دکھائی دیا اور ایسا معلوم ہورہا تھا کہ جیسے جی سیون کے رکن ممالک کا بنیادی ہدف چین کی بڑھتی ہوئی تجارتی اور عسکری قوت کا سدباب کرنے کے لیے نئی راہیں تلاش کرنا ہی تھا۔ شاید یہ ہی وجہ ہے کہ جی سیون ممالک کے سربراہ اجلاس میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے چین کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک متوازی منصوبے بیلڈ بیک بیٹر ورلڈ(بی تھری ڈبلیو) پر اتفاق کیا ہے۔ اس منصوبے کے تحت ترقی پذیر ملکوں میں چین کی سرمایہ کاری کا مقابلہ کرنے کیلئے جی سیون ممالک عالمی سطح پر سرمایہ کاری کریں گے۔ اس کے ساتھ ہی چین پر دباؤ بڑھانے کیلئے صدر جوبائیڈن نے امریکی انٹیلی جنس کو یہ تحقیقات کرنے کا حکم دیا ہے کہ کورونا جانور سے پھیلا یا چین کی کسی لیبارٹری میں تیار ہوا۔ اسی حوالے سے چین کو انسانی حقوق کے معاملے پر بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ اس سلسلے میں سنکیانگ اور ہانگ کانگ پر سوالات بھی اُٹھائے گئے۔ دوسری طرف غریب ممالک میں موسمیاتی تبدیلیوں اور اس سے پیدا شدہ چیلنجوں خصوصاً کاربن کے اخراج کو کم کرنے اور گلوبل وارمنگ سے نمٹنے کے لئے سالانہ ایک سو ارب ڈالر کے اخراجات پورا کرنے کا بھی عندیہ دیا گیا۔
جواب آں غزل کے طور پر چین نے جی سیون اراکین کو براہ راست مخاطب کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ’’ وہ دن گئے جب ’’چھوٹے‘‘ ممالک کے گروہ دنیا کی قسمت کا فیصلہ کیا کرتے تھے۔ کوئی ملک چھوٹا ہو یا بڑا، طاقتور ہو یا کمزور، امیر ہو یا غریب سب برابر ہیں۔ عالمی امور پر فیصلے تمام ممالک کی باہمی مشاورت سے ہونے چاہئیں‘‘۔ لندن میں چینی سفارت خانے کے ترجمان کی جانب سے جاری ہونے والے اِس بیان کو عالمی ذرائع ابلاغ میں چین کی جانب سے ’’آخری وارننگ ‘‘ کے طور پر لیا جارہاہے۔جبکہ بعض تجزیہ کاروں کا تو خیال ہے کہ جب کورونا وائرس کے باعث دنیا کے بے شمار ممالک خاص طور پر غریب اور ترقی پذیر ممالک کی اکثریت صحت ، غذا، روزگار جیسے اَن گنت مسائل کا شکار ہے ۔ ایسے میں دنیا کے امیر ترین ممالک کی جانب سے جی سیون کے اہم ترین اجلاس میں صرف چین کو للکارنا اور جواب میں چین کی جانب سے سخت ترین سفارتی لب لہجہ اپنانے سے کرہ ارض کے اَمن پر کسی نئی بڑی جنگ کے سائے منڈلانے لگے ہیں۔ اچھی طرح ذہن نشین رہے کہ بی تھری ڈبلیو منصوبہ سراسر امریکی حکام کے سیاسی ذہن کی پیداوار ہے ،کیونکہ امریکا اس منصوبہ کی مدد سے چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا مقابلہ کرنا چاہتا ہے تاکہ دنیا بھر میں چین کا بڑھتا اثر و رسوخ کم کیا جاسکے۔مگر کیا جی سیون اتحاد میں شامل دیگر ممالک بھی چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے خلاف بننے والے بی تھری ڈبلیو منصوبے کے آغاز اور کامیابی کے لیئے اتنے ہی پرجوش حامی ہیں جتنا کہ امریکا ہے؟ یہ ایک ایسا سوال ہے، جس کا جواب حاصل کیئے بغیربی تھری ڈبلیو منصوبہ کے مستقبل کے متعلق کوئی یقینی پیش گوئی نہیں کی جاسکتی۔
یا درہے کہ جی سیون تنظیم میں شامل بعض رکن ممالک مثلاً جاپان ، اٹلی اور جرمنی کے متعلق یہ اندیشے اور شبہات ظاہر کیے جارہے ہیں کہ یہ ممالک درپردہ چین کے ساتھ بھی مسلسل رابطے میں ہیں اور ان ممالک کی قیادت امریکا کے ’’سیاسی بہلاوے‘‘ میں آکر چین کے خلاف ایسے سنگین اقدامات اٹھانے کی قطعی حامی نہیں ہے، جن سے ان ممالک اور چین کے تعلقات میں ’’سفارتی ضعف‘‘ پیدا ہونے کا ذرہ برابر بھی احتمال ہو۔ یا یوں کہہ لیں کہ بی تھری ڈبلیو منصوبہ میں بھرپور شمولیت کے متعلق یہ ممالک یکسو ہی نہیں ہیں اور ابھی تک اس منصوبے کے قابل عمل ہونے کے بارے میں شدید تذبذب کا شکار ہیں ۔ کیونکہ اِن ممالک کی قیادت سمجھتی ہے کہ اگر کمزور ہوتا ہوا ،امریکا مزید کمزور ہوجاتاہے اور چین آئندہ چند برسوںمیں ایک نئی عالمی طاقت کے روپ میں سامنے آجاتاہے تو پھر اِن ممالک کے سیاسی، معاشی ،سفارتی اور دفاعی مفادات کا تحفظ کیسے اور کیونکر ممکن ہوگا ؟اس لیے یہ ممالک فی الحال امریکا کو بھی ناراض نہیں کرنا چاہتے لیکن دوسری جانب چین کے ساتھ اپنے تجارتی اور سفارتی تعلقات کو بھی نہ صرف برقرار ،رکھنا چاہتے ہیں بلکہ مزید مستحکم بھی کرنا چاہتے ہیں ۔اپنے اپنے مستقبل کے بارے میں یہ ہی وہ بے یقینی اور خوف ہے جس کی وجہ سے جاپان ، اٹلی اور جرمنی کے بارے میں دعوی کیا جارہا ہے کہ یہ ممالک بی تھری ڈبلیو منصوبہ میں انتہائی بے دلی سے شریک ہوئے ہیں اور ان کے بغیر امریکہ کا ترتیب دیا ہوا بی تھری ڈبلیو منصوبہ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا مقابلہ کرنے سے یکسر قاصر رہے گا۔
دوسری جانب امریکی صدر جو بائیڈن کی روسی ہم منصب، ولادی میر پیوٹن سے سوئٹزر لینڈ کے شہر جنیوا میں 5 گھنٹے تک جاری رہنے والی ملاقات کی ناکامی کو بھی بی تھری ڈبلیو منصوبہ کے ناکامی کے ساتھ بطور خاص نتھی کرتے ہوئے کہا جارہا ہے کہ روسی صدر ولادی میر پیوٹن اور جوبائیڈن کی ملاقات نتیجہ خیز نہ ہونے کی وجہ سے بی تھری ڈبلیو منصوبہ کا اپنی پیدائش سے قبل ہی اسقاط ہوگیا ہے۔ کیونکہ دونوں رہنمائوں کی جانب سے ملاقات کے بعد علیحدہ علیحدہ پریس کانفرنس میں ایک دوسرے پر سنگین الزامات لگائے گئے ہیں۔حیران کن طور پر دونوں رہنمائوں نے ایک دوسرے پر انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں اور سائبر حملوں سے متعلق الزامات بھی لگائے۔ صدر پیوٹن نے کہا کہ روس نے امریکا کو امریکی سرزمین سے ہونے والے 80مبینہ سائبر حملوں کے متعلق تفصیلی معلومات فراہم کی ہیں،مگر امریکا نے اب تک اس پر جواب نہیں دیا ہے۔ جبکہ دنیا بھر میں سائبر حملوں کی بڑی تعداد امریکی سرزمین سے ہوئی ہے، پیوٹن نے مزید کہا کہ امریکا نے ہمیں 10سائبر حملوں سے متعلق بتایا تھا اور ہم نے تمام کے جوابات دیے۔ امریکی صدر جوبائیڈن نے اپنے روسی ہم منصب کی جانب سے کیپٹل ہل حملے کے بعد حملہ آوروں کیخلاف کی گئی کارروائی کو انسانی حقوق سے جوڑنے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ حملہ آورں نے پارلیمنٹ میں گھس کر ایک پولیس افسر کو ہلاک کیا، ان کا موازنہ انسانی حقوق سے کرنا زیادتی ہے۔
نیز جو بائیڈن نے روس کو متنبہ کیاکہ وہ امریکی جمہوریت میں مداخلت نہیں چاہتے اور نہ ہی ایسی کوئی حرکت برداشت کی جائے گی۔ صدر پیوٹن کا کہنا تھا کہ جو بائیڈن ‘تجربہ کار سیاستدان ہیں اور وہ صدر ٹرمپ سے بہت مختلف ہیں۔ساتھ ہی ساتھ اُنہوں نے امریکا میں اسلحے کے باعث ہونے والی ہلاکتوں کے لیے امریکی حکومت کو ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے کہا کہ ’’ہمارے ملکوں میں جو کچھ بھی ہوتا ہے، اس کے ذمہ دار لیڈر خود ہوتے ہیں۔ آپ امریکا کی سڑکوں کو دیکھیں، روز لوگ مرتے ہیں۔لیکن امریکا کے عام افراد اس متعلق منہ بھی نہیں کھول پاتے کہ کہیں اُنہیں بھی جارج فلائیڈ کی طرح گولی نہ مار دی جائے۔حد تو یہ ہے کہ دنیا بھر میں سی آئی اے کے خفیہ عقوبت خانوں میں لوگوں پر تشدد کیا جاتا ہے۔ کیا ایسے انسانی حقوق کا تحفظ کیا جاتا ہے؟‘‘۔پیوٹن نے اپنی پریس کانفرنس میں یہ بھی بتایا کہ’’ دوران ملاقات جوبائیڈن نے انہیں ماضی میں قاتل قرار دینے کی وضاحت بھی کی اوروہ اس پر مطمئن ہیں‘‘۔دوسری طرف صدر جو بائیڈن نے پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ’’ وہ روس کے خلاف نہیں۔جہاں کہیں بھی اختلاف ہیں، وہاں میں چاہوں گا کہ صدر پیوٹن سمجھیں کہ میں جو کہتا ہوں وہ کیوں کہتا ہوں، اور جو کرتا ہوں وہ کیوں کرتا ہوں۔ میں نے صدر پیوٹن کو بتایا ہے کہ میرا ایجنڈا روس یا کسی اور کے خلاف نہیں بلکہ امریکی عوام کے حق میں ہے‘‘۔
جی سیون سربراہی اجلاس کے مشترکہ اعلامیے اور جوبائیڈن اور پیوٹن کے درمیان ہونے والی ملاقات کے ممکنہ نتائج و عواقب کو اگر باریک بینی سے تجزیہ کی کسوٹی پر پرکھا جائے تومنکشف ہوگا کہ امریکا اور اس کے اتحادی چین کا گھیراؤ کرنا تو چاہتے ہیں لیکن ساتھ ہی یہ سب ممالک چین کی اُبھرتی ہوئی معاشی طاقت سے خوف زدہ بھی ہیں ۔ علاوہ ازیں جی سیون ممالک کے لیئے سب سے زیادہ تشویش اور پریشانی کی بات یہ رہی کہ ولادیمر پیوٹن نے چین کے لہجے میں جو بائیڈن کو مخاطب کیا ۔یوں جان لیجئے کہ پیوٹن نے ڈھکے ،چھپے لفظوں میں امریکا اور اس کے اتحادیوں کو جو بھی ’’سفارتی دھمکیاں‘‘ دیں ،اُن سب میں چینی عزائم اور اہداف صاف جھلکتے دکھائی دے رہے تھے۔
٭٭٭٭٭٭٭