وجود

... loading ...

وجود

ہائیڈروگرافی کا عالمی دن

پیر 21 جون 2021 ہائیڈروگرافی کا عالمی دن

ہائیڈرو گرافی سمندروں کی بالائی و زیریں سطح،تہہ اور اس سے ملحق ساحلی علاقوں کی پیمائش اور خصوصیات کی تفصیل سے متعلق بحری علم ہے جس کے ذریعے سمندر کی گہرائی کے اعداد و شمار کو جمع کرکے سروے کیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں بحری نقشہ سازی کا عمل وجود میں آتا ہے۔ہائیڈرو گرافی کا یہ علم سمندروں سے منسلک تمام سرگرمیوں کو بنیاد فراہم کرتا ہے۔سمندری ماحولیاتی تبدیلی ایک متواتر عمل ہے جس میں آب و ہوا کی تبدیلی، مدوجزراور دیگر عوامل شامل ہوتے ہیں۔ ہائیڈرو گرافی کا علم ریاستوں کو ایسی تبدیلیوں کی نگرانی اور ان کے مطابق اقدامات کرنے میں مدد دیتا ہے، مثال کے طور پر ایک بحری نقشے پر دکھائی جانے والی 30 سینٹی میٹر کی اضافی گہرائی جہازوں کوکم از کم 2000 ٹن مزید سامان لے جانے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ سمندری ماحول کے بارے میں تازہ ترین معلومات کی فراہمی بہت سے معاشی فوائد کے حصول میں بھی مددگار ثابت ہو تی ہے۔ چاند اور مریخ کی سطح سے متعلق بنی نوع انسان کا علم بھی دراصل انسان کے سمندر کی سطح اور گہرائی سے متعلق بہترین علم اور تجزیے کا مرہونِ منت ہے۔
1921 میں بین الاقوامی ہائیڈرو گرافک بیورو کا قیام عالمی حکومتوں کے مابین محفوظ جہازرانی، تکنیکی معیار اور سمندری ماحول کے تحفظ جیسے امور پر مشاورت اورطریقہ کار وضع کرنے کی غرض سے عمل میں لایا گیا بعد ازاں 1970 میں اس کا نام تبدیل کرکے بین الاقوامی ہائیڈرو گرافک آرگنائزیشن (IHO)رکھ دیا گیا۔یہ تنظیم دنیا کے تمام سمندروں اور آبی گزرگاہوں کے سروے اور نقشہ سازی کے کام کو محفوظ جہازرانی اور سمندری ماحول کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے استعمال کرتی ہے۔ علاوہ ازیں یہ مختلف ممالک کے ہائیڈرو گرافک دفاتر کی سرگرمیوں کو باہم مربوط کرتے ہوئے سمندری نقشہ جات اور دستاویزات میں بین الاقوامی سطح پر ہم آہنگی اور یکسانیت کو فروغ دینے کے لئے معیار بھی طے کرتی ہے اور سروے کے بہترین طریقوں کا اجرا کرتے ہوئے ہائیڈروگرافک معلومات کو زیادہ سے زیادہ استعمال کرنے کے لئے رہنما اصول بھی ترتیب دیتی ہے۔
محفوظ جہازرانی کے لیے ہائیڈرو گرافی کے شعبے کی مسلمہ اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے 2005 سے ہر سال21 جون کو ہائیڈرو گرافی کا عالمی دن منایا جاتا ہے اور عالمی بحری امور میں ہائیڈرو گرافی کی خدمات سے متعلق ایک مخصوص موضوع بھی تجویز کیا جاتا ہے۔ اس بار اس سال کو”ہائیڈرو گرافی میں بین الاقوامی تعاون کے سو سال” سے منسوب کیا گیا ہے جس کا مقصد گزشتہ سو سالوں میں اس شعبے میں ہونے والی تحقیق،ترقی اور ٹیکنالوجی کی پیشرفت کا جائزہ لینے کے علاوہ محفوظ جہازرانی، معاشی ترقی، قومی سلامتی، دفاع، سائنسی تحقیق،آفات کی روک تھام، پڑوسی ممالک کے مابین بحری حد بندی،بندرگاہوں کی تعمیر اور ماحولیاتی تحفظ جیسے شعبوں میں ہائیڈروگرافی کی اہمیت اُجاگر کرنا ہے۔
پاکستان کی 90 فیصدسے زائد تجارت بلحاظِ حجم اور 70 فیصد بلحاظِ مالیت بحیرہ عرب کے ذریعے پایہ تکمیل تک پہنچتی ہے، اقوام متحدہ کے کنونشن برائے سمندری قوانین (UNCLOS) کے مطابق دیگر ساحلی ممالک کی طرح پاکستان بھی اپنی سمندری حدود میں ہائیڈروگرافک سروے اور بحری نقشہ جات کی تیاری کا ذمہ دار ہے۔ بحری جہازوں کو درست سمندری معلومات اور ڈیجیٹل بحری نقشے فراہم کرنے کے لئے پاکستان نیوی ہائیڈرو گرافک ڈیپارٹمنٹ بین الاقوامی ذمہ داریوں کو بخوبی نبھا تے ہوئے شمالی بحرِ ہند میں بحری جہازوں کے لئے محفوظ راستوں کی فراہمی کو یقینی بنا رہا ہے۔
قیامِ پاکستان کے وقت رئیر ایڈمرل جیمز ویلفرڈجیفرڈ رائل پاکستان بحریہ کے پہلے کمانڈران چیف مقرر ہوئے جو ایک ہائیڈروگرافر تھے سو انہوں نے اس شعبے کی اہمیت کا ادراک کرتے ہوئے پی این ایس ذوالفقار پر سروے سے متعلق ضروری آلات کی تنصیب کے بعد اسے سروے اور ہائیڈروگرافی سے متعلق تربیت کی ذمہ داریاں سونپ دیں۔ 1949 میں پاکستان ہائیڈروگرافک ڈیپارٹمنٹ کی بنیاد رکھی گئی اور 1957 میں پاکستان بین الاقوامی ہائیڈرو گرافک تنظیم کا ممبر بھی بن گیا۔ اس شعبے کی اہمیت اور ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے 1982 میں سروے کا جدید جاپانی جہاز بحر پیما اور 2019 میں ہائیڈروگرافی کے جدید ترین آلات سے لیس چینی ساختہ جہاز بحر مساح پاکستان کے بحری بیڑے میں شامل کر لیے گئے جو بحری پیمائش اور زیرِ آب تحقیق کے سربستہ راز افشائکرتے ہوئے تاریخ کے نئے باب رقم کر ر ہے ہیں۔ پاک بحریہ میں قائم نیویگیشن اینڈ ہائیڈروگرافک اسکول بین الاقوامی طرز پر ہائیڈروگرافی کے مروجہ علوم کی تربیت کے فرائض سر انجام دے رہا ہے۔بدلتے وقت کی ضروریات کے پیشِ نظر یہ شعبہ بہترین تربیت اورجدید آلات سے لیس اکیسویں صدی کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہے۔ جس میں سیٹلائٹ پوزیشننگ سسٹم،آواز اور لیزر رینجنگ کے اصولوں پر کام کرنے والے مختلف قسم کے گہرائی ماپنے کے جدیدآلات شامل ہیں۔
پاکستان نیوی ہائیڈرو گرافک ڈیپارٹمنٹ نے پاکستان کے سمندروں کا مکمل سروے اور نقشہ سازی کرتے ہوئے ساحلوں سے ملحق تمام قومی بندرگاہوں کے فعال کردار، بنیادی ڈھانچے کی ترقی، ساحلی اورسمندری حدود کے تعین میں اہم کردار ادا کیا ہے یہ ادارہ قومی،علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر ہر قسم کی سمندری سرگرمیوں میں بھی فعال کردار ادا کر رہا ہے۔یہ ادارہ 1976 سے گلوبل میری ٹائم ڈسٹرس اینڈ سیفٹی سسٹم کے تحت نیوی گیشنل ایریا 9 میں جو کہ بحرِ ہند میں بحیرہ عرب،خلیج فارس اور بحیرہ احمر کے علاقوں پر مشتمل ہے جہازرانوں کے لیے انتباہی پیغامات کی نشرو اشاعت کا قومی فریضہ بھی انجام دے رہا ہے۔
پاکستان ایک ذمہ دار ساحلی ریاست ہے جسے اللہ تعالیٰ نے تقریباً 1000 کلومیٹر طویل ساحلی پٹی کے ساتھ اس کے خصوصی اقتصادی زون میں قریباً240,000 مربع کلومیٹر کے سمندری رقبہ سے بھی نوازا ہے۔ پاکستان نیوی ہائیڈرو گرافک ڈیپارٹمنٹ نے 2015 میں دیگر متعلقہ قومی تنظیموں کے ساتھ مل کر50,000 مربع کلومیٹر پر مشتمل کانٹی نینٹل شیلف کا اضافی سمندری رقبہ اقوام متحدہ کے کمیشن کے ذریعے اپنی کئی دہائیوں پر محیط تحقیق،سروے اور کاوشوں کے بعد منظور کرانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ پاکستان نیوی کے ہائیڈرو گرافرز کا یہ کارنامہ پچھلے سو سالوں میں کسی ملک کے لیے ہائیڈروگرافک ادارے کی گراں قدر خدمات کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے جسے ہائیڈروگرافی کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
پاک بحریہ میں ہر سال ہائیڈرو گرافی کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے 21 جون کو مختلف سرگرمیوں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ مختلف تقاریب کے دوران سمندری امور سے وابستہ تما م اداروں میں ہائیڈرو گرافی کی اہمیت اور متعلقہ سرگرمیوں کے بارے میں شعور اُجاگر کرنے کی کوششوں پر زور دیا جاتا ہے۔پاک بحریہ اپنے پانیوں میں محفوظ جہاز رانی کو یقینی بنانے اور سمندری شعبہ ہائے زندگی میں پائیدار معاشی ترقی سے متعلق سرگرمیوں میں اپنی معاونت کو جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کرتی ہے جوبلاشبہ سمندری وسائل میں اضافے، تجارت کے فروغ اور قومی معیشت کی ترقی کے حصول کا ضامن ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر