... loading ...
6 جون 2021 کے بدقسمت دن پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں بحریہ ٹاؤن کو مبینہ طور پر سندھی قوم پرست جماعتوں کی طرف سے بدترین دہشت گردی اور اشتعال انگیزی کا نشانہ بنایا گیا ۔مذکورہ واقعہ میں بحریہ ٹاؤن کی جانب سے مبینہ طور پر مقامی گوٹھوں کو مسمار کرنے کے خلاف سندھ کی قوم پرست جماعتوں، مزدور و کسان تنظیموں اور متاثرین کی جانب سے’ ’غیر قانونی قبضے چھڑوانے کے لیے‘ ‘ہونے والے نام نہاد احتجاج کے دوران شر پسند عناصرنے بحریہ ٹائون میں داخل ہو کر اربوں روپے کی قیمتی املاک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا، کئی گاڑیوں اور متعدد موٹر سا ئیکلوں کونذر آتش کردیا،نیزنفرت سے بپھرے ہوئے ہجوم نے رہائشی عمارتوں میں توڑ پھوڑ سمیت بحریہ ٹاؤن کے ماتھے کا جھومر یعنی اُس کے خوب صورت مرکزی دروازے کو بھی آگ لگا دی۔ جبکہ ریسٹورنٹس، دکانیں،دفاتر، شورومز میں توڑ پھوڑ کے ساتھ بحریہ ٹاؤن کے معصوم رہائشیوں کو زود و کوب کر کے بہیمانہ تشدد کا نشانہ بھی بنایا ۔
بحریہ ٹاؤن پر ہونے والے اِس بزدلانہ حملے نے کراچی کے باسیوں کو شدید عدم تحفظ ، خوف و ہراس اور پریشانی کے ساتھ ساتھ زبردست حیرانی میں بھی مبتلا کردیا ہے۔سب سے زیادہ حیرانی تو اس بات کی رہی کہ واقعے کے اگلے روز پاکستان کے درجن بھر قومی اخبارات اچھی طرح کھنگالنے کے باجود بھی سانحہ بحریہ ٹاؤن سے متعلق چھوٹی سی یک سطری خبر بھی ملاحظہ کے لیے دستیاب نہ ہو سکی۔ واحد ایک قومی اخبار روزنامہ جرات کراچی تھا ،جس نے سانحہ بحریہ ٹاؤن کی خبر کو صف اول پر شہ سرخی بنا کر شائع کیا۔ اِس ایک قومی اخبار کے علاوہ’’ آزادی صحافت ‘‘کے سرخیل کہلائے جانے والے تمام بڑے اخبارات نے’’پیشہ وارانہ اتفاق رائے ‘‘ سے بحریہ ٹاؤن کے حملے پر مکمل چپ سادھنے میں ہی عافیت جانی ۔ یقینا یہ ’’صحافتی معجزہ ‘‘ملک ریاض صاحب کے خصوصی ’’حسن انتظام ‘‘ کی بدولت ہی ممکن ہوا ہوگا۔ وگرنہ ہمارے قومی اخبارات ’’آزادی صحافت‘‘ کی آڑمیں قومی سلامتی اور ریاستی اداروں کے خلاف بھی ’’پلانٹڈ خبریں‘‘ شائع کرنے سے باز نہیں آتے ۔چہ جائیکہ وہ اتنا بڑی خبر کو چپ چاپ ہضم کرجاتے ۔
دوسری حیرانی اس بات پر رہی کہ بحریہ ٹاؤن کی قیمتی املاک پر شر پسندوں کے حملے کے وقت بحریہ ٹاؤن کی اپنی ’’فول پروف سیکورٹی ‘‘کہاں غائب ہوگئی تھی؟۔ یاد رہے کہ بحریہ ٹاؤن نے بارہا الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا پر مہنگے اشتہارات کے ذریعے عوام الناس کو یہ باور کروانے کی کوشش کی تھی کہ بحریہ ٹاؤن میں سیکورٹی کا نظام بے مثال ہے ۔ جبکہ اکثر افراد نے بحریہ ٹاؤن میں رہائش اور کاروبار کرنے کا فیصلہ بھی فقط اس لیے کیا تھا کہ وہ سمجھتے تھے کہ یہاں اُن کی جان و مال کسی اور مقام کی بہ نسبت زیادہ محفوظ ہوں گی۔ مگر افسوس جب پہلی بار ’’وقتِ آزمائش‘‘ آیا تو ملک کی سب سے مایہ ناز تعمیراتی کمپنی کا فول پروف سیکورٹی کا نظام کہیں دکھائی ہی نہ دیا۔ خدا نخواستہ ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ بحریہ ٹاؤن کے سیکورٹی عملہ کو مظاہرین کے خلاف بھرپور عسکری طاقت کا استعمال کرنا چاہئے تھا لیکن کم ازکم ہاتھوں ،ڈندوں کی مدد سے مٹھی بھر شر پسند مظاہر ین کے خلاف تھوڑی بہت مزاحمت تو انہیں کرنا ہی چاہئے تھی۔ خاص طورپر جس وقت بحریہ ٹاؤن کے رہائشی اور کاروباری افراد کو شرپسند عناصر زبردستی زود کوب کر رہے تھے ،یقینا اُس لمحہ بحریہ ٹاؤن کی ذاتی سیکورٹی کو تھوڑا بہت حرکت میں آنا ہی چاہئے تھا۔بہر کیف حالیہ واقعہ میں بحریہ ٹاؤن کی غیر معمولی ’’ تجارتی ساکھ ‘‘ کو دو ٹکے کا کرکے رکھ دیا ہے۔
دوسری جانب سانحہ بحریہ ٹاؤن کے ذریعے کراچی شہر کی معاشی ترقی پر بھی شب خون مارنے کی مذموم حرکت اور منظم کوشش کی گئی ہے ۔ کیونکہ گزشتہ چند برسوں میں دنیا بھر کے سامنے’’ محفوظ کراچی‘‘ کا غیر معمولی تاثر اُجاگر ہوا تھا اور یوں طویل مدت بعد کراچی شہر ایک بار پھر سے سرمایہ کاروں کے لیے منافع بخش سرمایہ کاری کا پرکشش ذریعہ بنتاجارہاتھا۔مگر یہ بات شاید کراچی شہر کی ترقی سے حسد کرنے والوں کو ایک آنکھ نہ بھائی اور انہوں نے بالآخر نہتے کراچی کا معاشی استحصال کرنے کا نیا راستہ تلاش کرکے ہی دم لیا۔ بعض حلقے جان بوجھ کر یہ اصرار کررہے ہیں کہ بحریہ ٹاؤن کو اپنی اشتعال انگیزی کا نشانہ بنانے والوں کا بنیادی مقصد صرف ’’ملک ریاض ‘‘ کو ہی سبق سکھانا تھا۔ کراچی کے باسیوں کو اُن کی بات ماننے میں ذرا تامل نہیں ہوتا اگر بحریہ ٹاؤن پر لشکر کشی کرنے والے پاکستان مخالف نعرے نہ لگاتے ،قانون نافذ کرنے والے ریاستی اداروں کو برا بھلا نہ کہتے اور بعض مبینہ اطلاعات کے مطابق لوگوں کے شناختی کارڈ چیک کر کے اُن کی دُکانیں اور کاروبار نذر آتش کرنے کا فیصلہ نہ کرتے ۔ یعنی تعصب کی نفرت میں پاگل ہونے والے ہجوم کا اتنا ہوش بہرحال تھا کہ کسکی دُکان جلانی ہے اور کس کی نہیں ؟۔
اچھی طرح ذہن نشین رہے کہ بحریہ ٹائون کراچی بارہا اپنا موقف دہرا چکا ہے کہ’’ بحریہ ٹائون کراچی نے کسی کی زمینوں پر ناحق قبضہ نہیں کیا اور کوئی اگر ایک انچ بھی اپنی ملکیت، زمینوں پر بحریہ ٹائون کا غیر قانونی کام یا قبضہ ثابت کر دے تو بحریہ ٹائون اسکا ذمہ دار ہوگا۔ کیونکہ بحریہ ٹائون نے پہلے بھی آزادانہ تحقیقات کا سامنا کیا ہے اور اب بھی کرنے کے لیے تیار ہے‘‘۔مگر بحریہ ٹاؤن کی حدود پر اعتراض کرنے والوں نے آج تک احتجاج اور مظاہروں کے علاوہ دیگر قانونی اور آئینی راستے اختیار کرنے کی کوشش ہی نہیں کی ۔ حیران کن بات یہ ہے دہشت گردی کے اس واقعہ میں شامل ہونے والے افراد کا تعلق بحریہ ٹائون یا آس پاس کے علاقوں سے ہر گز نہیں تھا۔ بلکہ یہ افراد خصوصاََ اندرون سندھ سے بسوں ،گاڑیوں میں بھر کر خصوصی طور پر لائے گئے تھے۔
ملک ریاض کی شخصیت سے ہم لاکھ اختلاف کریں مگر یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ بحریہ ٹائون کراچی جہاں بیرونِ ملک پاکستانیوں کی سرمایہ کاری کے ذریعہ پاکستان کے لیے کثیر زرِ مبادلہ لانے کا سبب بنا، وہیں یہ عظیم الشان منصوبہ سندھ کی عوام کے لیے روزگار اور اعلی درجے کی رہائشی سہولیات بھی مہیا کرنے میں کامیاب رہا۔اس وقت بھی بحریہ ٹائون کراچی میں بڑی تعداد میں سندھی گھرانے رہائش پذیر ہیںجو نہ صرف یہاں اپنے کاروبا ر قائم کر چکے ہیںبلکہ یہاں قائم دفاتر میں ملازمت کرکے اپنے گھروالوں کے لیے حلال رزق کا بندوبست بھی کررہے ہیں۔سانحہ بحریہ ٹاؤن اپنے پیچھے کئی سوالات کے جوابات ہنوز تشنہ چھوڑ گیا ہے۔مثال کے طور پر جب سندھ حکومت کو اس احتجاج کے بارے میں کئی روز سے علم تھا تو پھر کیوں مناسب حفاظتی انتظامات نہیں کئے گئے؟کیا بحریہ ٹائون کے کاروباری حلقوں اور رہائشیوں کے لیے انصاف کے دروازے بند رہیں گے؟ ۔کراچی کی عوام کے لیے بہترین کمیونٹی منصوبہ جات بنانے والوں کو بلیک میلنگ ، دھونس اور تشددکا عذاب کب تک بھگتنا ہوگا؟۔اور نہتا کراچی آخر کب تک یونہی تعصب زدہ فکر کے حامل مسلح شر پسند عناصر کا نشانہ بنتا رہے گا؟۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔