وجود

... loading ...

وجود

حادثے اور غیر ذ مہ داریاں

بدھ 09 جون 2021 حادثے اور غیر ذ مہ داریاں

قیامِ پاکستان سے ہی مختلف قسم کے حادثے ہماری تاریخ کا حصہ ہیں لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ آج تک کسی حادثے کی وجوہات کا تعین کرنے کی کوشش ہی نہیں ہوئی اسی وجہ سے کسی زمہ دار کو سزا نہیں مل سکی یہ غیر زمہ داری اور لاپرواہی کی انتہا ہے اور تلخ سچ یہ ہے کہ اسی غیر زمہ داری کی بنا پر حادثے ہماری تاریخ کا حصہ بن گئے ہیں اور قیمتی جانیں ضائع ہو رہی ہیں اگر کسی ایک حادثے کی غیر جانبدارانہ انکوائری کرائی جاتی اور زمہ داروں کو کیفرِ کردار تک پہنچایا جاتا توآج موجودہ صورتحال نہ ہوتی اور فرائض سے غفلت کا سلسلہ موقوف ہو چکا ہوتا لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہر اِدارے میں غیر سنجیدگی اور غیر زمہ داری رائج ہے اسی بنا پر ریلوے ،پی آئی اے ، پوسٹ آفس ،پی ٹی وی ، ریڈیو،پاکستان اسٹیل ملزسمیت اکثر وفاقی اِدارے تباہ اور خسارے میں جا رہے ہیں پھربھی ذمہ داران اپنے طرزِ عمل میں تبدیلی لانے کو تیار نہیں ۔
گھوٹکی میں ڈہرکی کے قریب کراچی جانے والی ملت ایکسپریس کی کچھ بو گیاں خستہ لائین ہونے کی وجہ سے دوسرے ٹریک پر جاگریں اور دوسرے ٹریک پر آنے والی سرسید ایکسپریس اِ ن بو گیوں سے جا ٹکرائی دونوں ٹرینوں کی آٹھ بو گیاں ایک دوسرے میں دھنس جانے سے اموات میں اضافہ ہوا۔ اِس حادثے میں پچاس سے زائد مسافر جاں بحق اور سو سے زائد زخمی ہو ئے ہیں یہ بات صدفیصد درست ہے کہ حادثے کا ذیادہ موجب خستہ حال ٹریک ہے جس جلد بہتر بنانا اشد ضروری ہے علاوہ ازیں ملت ایکسپریس کے ڈرائیو رنے گاڑی چلانے سے قبل بوگی نمبر د س کے ہُک کی خرابی کی نشاندہی کرتے ہوئے درست کرنے کا مطالبہ بھی کیا مگر محکمہ ریلوے ایسے مطالبات کو درخوراعتنا نہیں سمجھتا بلکہ سب کی کوشش ہوتی ہے کہ ٹرین کو روانہ کریں اب محکمے کی کوشش ہے کہ حادثے کی ذمہ داری ڈرائیور پر ڈال کر معاملے کو رفع دفع کر دیا جائے لیکن ڈرائیور ز کا موقف ہے کہ تحقیقات میں ثابت ہوجائے گا کہ ہم سوئے ہوئے نہیں تھے بلکہ حادثے کی وجوہات اور ہیں مگر مٹی پائو پالیسی سے ذمہ داران کا تعین نہیں ہو رہا جب زمہ دارکا تعین ہی نہیں ہو رہا تو کسی کو سزاخاک ملنی ہے ۔
پاکستان ہی نہیں دنیا بھر میںحادثات کے دوران جانی و مالی نقصان ہوتا ہے مگر دنیا میں حادثات کی صفاف شفاف انکوائری ہوتی ہے اور پھر جوذمہ دار ہوتا ہے اُسے اپنے کیے کی سزا بھی ملتی ہے دنیا میںاکثر حادثات کے بعد وزرا مستعفی ہوجاتے ہیں حالانکہ اُن کاعملی طورپر حادثے میں کوئی کردار نہیں ہوتا مگر پاکستان کا دنیا سے الگ ہی طریقہ کار ہے وزراء کے مستعفی ہونے کی کوئی تومثال ہی نہیں اور جہاں فردوس عاشق اعوان جیسے اطلاعات کے صوبائی معاون خصوصی ہوں وہاں سچ تلاش کرنا ناممکن ہوتا ہے جب فردوس عاشق اعوان فرمائیں کہ اللہ کا شکر ہے رواں برس کا پہلا حادثہ ہے تو کسی اور کو کیا الزام دیا جاسکتا ہے جن کی زہنی سطح اتنی پست ہووہاںانسانی جان کی قدروقیمت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ڈہرکی کے قریب قیامت خیز مناظر کے باوجود وزیرِ ریلوے ہیلی کاپڑ میں تشریف لاتے ہیں اور چشمہ لگاکر معائنہ کرتے ہیں جیسے کوئی حادثہ نہ ہواہوبلکہ تماشہ ہو رہا ہو حالانکہ اگر کچھ کرنا نہیں توکسی کا مذاق اُڑانے کی بجائے حفاظتی نظام میں نقائص کی نشاندہی اور حادثے کی تحقیقات کا حکم ہی صادر کر دیتے تو بہتر تھا ۔
ملک میںریل کاطویل سفر اِس وجہ سے عوام کا پسندیدہ ہے کہ یہ آرام دہ ہونے کے ساتھ کم خرچ ہے مگرہونا تو یہ چاہیے کہ ٹرین کو روانہ کرنے سے قبل انجن ،بوگیوں کی بریکیں چیک کی جائیں پانی وبجلی کے نظام کے ساتھ ایک دوسرے سے جوڑنے کے لیے ہُک وغیرہ کی جانچ کی جائے آگ بجھانے کے آلات کی موجودگی اور درستگی کو یقینی بنایا جائے افسوس کہ نقائص کی نشاندہی اور اُنھیں دور کرنے پر توجہ دینے سے پہلو تہی کی جاتی ہے جس کی وجہ سے راستے میں ٹرینوں کا خراب ہونا معمول بن کررہ گیا ہے اور آج حالت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ ٹرین پر سفر کرنا لوگ موت کو دعوت دینے کے مترادف سمجھتے ہیں یہی عوامی سوچ خسارے کی بڑی وجہ ہے اِس میں کوئی شائبہ نہیں کہ پاکستان میں ٹرین حادثات کی تین بڑی وجوہات ہیں اول۔یہ کہ ریلوے لائن آزکاررفتہ ہے جو ٹرینوں کی تیز رفتاری کی متحمل نہیں دوم۔انجنوں اور بوگیوں کی حالت بھی تسلی بخش نہیں جو زرا سی رفتار بڑھنے سے ہی غیر متوازن ہو جاتی ہیں سوم۔عملہ تربیت یافتہ نہیں بلکہ سُست ہے اور یہ غیر تربیت یافتہ عملہ ہنگامی حالات میں فیصلہ کرنے کی قوت سے عاری ہے اوربروقت سگنل دینے میں سُستی کا مظاہرہ کرتا ہے حکومت نے اگر فوری توجہ نہ دی تو خرابی مزید بڑھ جائے گے جو عوامی بداعتمادی میں اضافے کا باعث بن سکتی ہے۔
افسوس کہ ریلوے کا وسیع نظام آج بھی سو سال پُرانے طریقہ کار کے مطابق چلایا جا رہا ہے حالانکہ دنیا میں ایسا نہیں ریل کا نظام بہتر بنانے کے لیے سی پیک کے تحت کچھ نئے منصوبے شروع ہوئے ہیں لیکن یہ محدود نوعیت کے ہیں جن سے مکمل بہتری نہیں آسکتی ضرورت اِس امر کی ہے کہ لوگوں کو باتوں سے بہلانے کی بجائے نقائص دور کرنے کی طرف توجہ دی جائے تبھی خسارے میں جانے والے ریل کے نظام پر عوامی اعتماد بحال ہو سکتا ہے موجودہ حکومت کے تین سالہ دور میں آٹھ بڑے حادثات ہوئے ہیں لیکن حکومت نے وجوہات تلاش کرنے کی بجائے بس اِتنا نوٹس لیا ہے کہ شیخ رشید کو ہٹا کر اعظم سواتی کو وزارت سونپ دی ہے یہ مجرمانہ غفلت ہے صاف پتہ چلتا ہے کہ یہ تبدیلی بھی سیاسی مجبوری کی مرہونِ منت ہے وگرنہ آٹھ کی بجائے ذیادہ حادثات بھی ہو جاتے تو حکومت کو پرواہ نہ ہوتی ۔
ریلوے کی تاریخ پر طائرانہ نگاہ ڈالیں تو یہ حادثات سے بھری دکھائی دیتی ہے جن میں ہزاروں بچے ،بوڑھے ،جوان اور خواتین بے موت مارے گئے مگر ذمہ داران ٹس سے مس نہیں ہوئے بلکہ حادثے کے بعد مرنے اور زخمی ہونے والوں کی مالی مدد کرنا ہی ذمہ داری سمجھ لی گئی ہے 1953میں ہونے والے ٹرین حادثے میں دوسو افراد جاں بحق ہوئے 1969میں لیاقت پور حادثے میں اسی افراد مارے گئے 13جولائی 2005میں گھوٹکی کے قریب تین ٹرینیں آپس میں ٹکرا گئیں جس کے دوران سواسو سے زائد افراد لقمہ اجل بنے جبکہ زخمی و اپاہج ہونے والوں کی تعداد تین سو سے تجاوز کر گئی گزشتہ تین برس کے دوران مسلسل ٹرین حادثے ہورہے ہیں مگر کوئی بھی زمہ داری لینے کو تیار نہیں ستم ظریفی تو یہ ہے کہ حادثوں کا زمہ دار بھی سابق حکمرانوں کو ٹھہرایا جا رہا ہے یہ غیر ذمہ داری اور لاپرواہی کی انتہا اور مجرمانہ غفلت ہے ذمہ دار کا تعین نہ کرنااور سزادینے کی بجائے مرنے والوں کے لواحقین کو چند لاکھ تھما ناانصاف نہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
خرم پرویز کی حراست کے تین سال وجود منگل 26 نومبر 2024
خرم پرویز کی حراست کے تین سال

نامعلوم چور وجود منگل 26 نومبر 2024
نامعلوم چور

احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟ وجود پیر 25 نومبر 2024
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟

کشمیری غربت کا شکار وجود پیر 25 نومبر 2024
کشمیری غربت کا شکار

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر