... loading ...
(مہمان کالم)
ویوین وینگ
جب چین نے شادی شدہ جوڑوں کو تین بچے پیدا کرنے کی جازت دی تو سرکاری نیوز میڈیا نے اسے ایک عظیم تبدیلی قرار دیا جو ترقی کا باعث بنے گی مگر پورے ملک میں اس اعلان پر ناراضی کا اظہار کیا گیا۔ خواتین نے اس تشویش کا اظہار کیا کہ اس سے آجر خواتین کو امتیازی سلوک کا نشانہ بناتے ہوئے چھٹی دینے سے گریز کریں گے۔ نوجوان طبقے کا کہنا ہے کہ ہم بمشکل اپنی ضروریات پوری کر رہے ہیں‘ بچوں کی پرورش کیسے کریں گے؟ ورکنگ کلاس والدین کہتے ہیںکہ زیادہ بچوں کا مالی بوجھ ناقابل برداشت ہو جائے گا۔ سیچوآن صوبے کے ایک کارکن ہو ڈائیفانگ کہتے ہیں کہ ’’یقینا میں ایسا نہیں چاہوں گا‘‘۔ 35 سالہ ہو جو پہلے ہی بمشکل گزارہ کر رہا ہے۔ اس کی ماں بیمار پڑ گئی تو اس کے لیے اپنے دو بچوں کو پالنا مشکل ہو گیا تھا۔ ’’یوں لگتا ہے کہ ہم اپنے آپ کو زندہ رکھے ہوئے ہیں‘‘۔
اس سرکاری اعلان کے بعد ایک عام چینی شہری کو عرصے سے درپیش اہم مسئلہ یاد آ گیا کہ چین میں زیادہ بچے پالنے کے لیے کوئی سیفٹی نیٹ یا قانونی تحفظ حاصل نہیں ہے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر صارفین نے بڑھتے ہوئے تعلیمی اخراجات، مہنگے گھروں اور طویل ملازمتی اوقات کی شکایت کی ہے۔ انہوں نے شکوہ کیا کہ چین میں چائلڈ کیئر سروس دستیاب نہیں ہے‘ اس لیے نوجوان والدین کو اپنے بچوں کی پرورش کے لیے اپنے بوڑھے والدین کی مدد لینا پڑتی ہے۔ سرکاری نیوز ایجنسی Xinhua نے پالیسی میں تبدیلی کے بارے میں لکھا ہے ’’سب سے پہلے ضروری ہے کہ میٹرنٹی کے حقوق اور ملازمت پر خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک کے مسئلے کا کوئی حل تلاش کیا جائے اور پھر ان کی بچوں کے بارے میں حوصلہ افزائی کی جائے‘‘۔ ایک اور تبصرے میں کہا گیا ہے ’’ایسی باتیں نہ کرو، کیا بچے پالنے میں ہماری مدد کی جائے گی؟ کیا ہمیں کوئی گھر دو گے؟‘‘۔ حال ہی میں ایک سروے کیا گیا تھا جس میں چینی عوام سے پوچھا گیا تھا ’’کیا آپ تین بچوں کی پالیسی کے لیے تیار ہیں؟‘‘ تو بہت کم لوگوں نے جواب دیا کہ ہاں! ہم تیار ہیں۔22 ہزار لوگوں نے اس پول میں حصہ لیا، 20 ہزار کا کہنا تھا کہ میں بالکل بھی تیار نہیں ہوں تو پول کے نتائج کو فوری طور پر ڈیلیٹ کر دیا گیا۔ اپنے اعلان میں حکومت نے کہا تھا کہ بچوں کی تعلیم اور دیکھ بھال میں حکومت مدد فراہم کرے گی مگر اس کی کوئی تفصیل نہیں دی گئی۔ چینی حکومت عرصے سے وعدے کر رہی ہے کہ خاندان کو متاثرکرنے والی پالیسیوں پر نظر ثانی کی جائے گی مگر اس پر بہت سست روی سے کام ہو رہا ہے۔ پاپولیشن سٹڈیز کے پروفیسر لو ہانگ کہتے ہیں کہ پچھلے پانچ سال میں صرف یہ ہوا ہے کہ میٹرنٹی لیو 160 دن کر دی گئی ہے مگر یہ بھی کم ہے۔ ابھی تک کچھ بھی اچھا نہیں ہوا۔ بچوں کے اخراجات بہت زیادہ ہیں اس لیے والدین بڑی فیملی افورڈ ہی نہیں کر سکتے۔
مسٹر ہو کی والدہ ان کے دونوں بچے پالتی رہیں جبکہ ہو ڈائیفانگ جنوبی چین کی فیکٹریوں میں بہتر ملازمت کی تلاش میں پھرتے رہے۔ مگر جب ماںکی صحت خراب ہو گئی تو یہ ممکن نہ رہا۔ مسٹر ہو اور ان کی بیوی اب سیچوان میں واقع اپنے گائوں میں چلے گئے ہیں اور انہوں نے وہاں ایک فوڈ شاپ کھول لی ہے۔ اب انہیں اپنی ماں کے میڈیکل اخراجات بھی برداشت کرنا پڑتے ہیں کیونکہ ان کی انشورنس مکمل ہیلتھ کوریج نہیں دیتی۔ انہیں اپنے بچوں کو بھی معیاری تعلیم دلانا ہے۔ ان کا کہنا ہے ’’میں نہیں چاہتا کہ میرے بچے بھی میری طرح ہر وقت کام کرتے رہیںیا میرے بچے کسی فیکٹری میں کام کریں‘ اس لیے میرے اوپر بہت زیادہ دبائو ہے‘‘۔
جس دن حکومت نے تین بچوں کی اجازت دینے کا اعلان کیا اسی دن بیجنگ میں ایک ٹیکنالوجی کمپنی کی منیجر لی لی سے ان کے باس کی ملاقات ہوئی۔ 35 سالہ لی کے ہاںدوسرے بچے کی پیدائش ہونے والی ہے۔ باس نے لی سے پوچھا کہ وہ کتنا عرصہ چھٹی پر رہیں گی؟ لی نے انہیں یقین دہانی کرائی کہ وہ صرف تین یا چا رمہینے کی چھٹی پر جائیں گی۔ چین میں حاملہ خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ جب مالکان کو ان خواتین کے چھٹی پر جانے کی اطلاع ملتی ہے تو اکثر اوقات ایسی خواتین کو ملازمت سے برطرف کر دیا جاتا ہے یا ان کی تنزلی کر دی جاتی ہے۔ کئی خواتین نے اطلاع دی ہے کہ ملازمت دینے سے پہلے ان سے یہ یقین دہانی لی جاتی ہے کہ وہ اپنی ملازمت کے دوران چھٹی پر نہیں جائیں گی۔ لی نے بتایا کہ ایک عورت ہونے کے ناتے آپ اپنی ملازمت پر ہمیشہ ایک کمزور پوزیشن پر ہوتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ مجھے اپنے باس کی پریشانی کی وجہ سے ان کے ساتھ بھی ہمدردی ہے۔ وہ جانتی ہیں کہ ایک منیجر کے طور پر میری کمپنی سے غیر حاضری پر مشکل تو پیش آئے گی۔ لی نے ا س بات کا بھی اعتراف کیا کہ جب میں کسی امیدوار کا انٹرویو کرتی ہوں تو میں بھی یہ جاننا چاہتی ہوں کہ نئی ملازمہ جلد بچے کی پیدائش کے لیے چھٹی پر تو نہیں جانا چاہتی؛ تاہم مسز لی کا کہنا تھا کہ اس کے باوجود میں اسے خواتین کے ساتھ ناانصافی سمجھتی ہوں۔ وہ کہتی ہیں کہ حکومت کو چاہئے کہ وہ ملازمائوں کو چھٹی کے معاوضے کی ادائیگی کرے جیسا کہ دنیاکے دیگر ممالک میں کیا جاتا ہے۔ وہاںتو باپ کو بھی بچے کی پیدائش کے دوران چھٹی دی جاتی ہے تاکہ ماں بننے کے عمل کے خواتین خود کو اکیلا نہ سمجھیں۔
مسئلے کی حقیقت کو سمجھتے ہوئے سوموار کو حکومت نے اعلان کیا ہے کہ وہ ملازمت کے دوران خواتین کے حقوق اور مفادات کا جائز اور قانونی تحفظ کرے گی۔ کچھ خواتین نے اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ حکومت پہلے ہی 2019ء میں اس با ت پر پابندی لگا چکی ہے کہ کسی خاتون سے اس کی ازدواجی حیثیت اور بچوں کی پیدائش کے بارے میں سوال نہیں کیا جائے گا؛ تاہم اصل مسئلہ اس قانون پر پوری طرح عملدرآمد نہ ہونے کا ہے۔ حکومت بچوں کی شرح پیدائش میں اضافے کی نیت سے پہلے ہی خواتین کی حوصلہ افزائی کر چکی ہے کہ وہ اپنے روایتی نسوانی کردار کی طرف آئیں۔ چین کے ایک نسوانی تحریک کے پْرجوش ایکٹیوسٹ لوپن کہتے ہیں کہ ’’حکومت صرف باتیں کرنے میں بڑی ماہر ہے۔ اب تک اس نے جو کچھ کیا ہے وہ بے معنی ہے‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔