وجود

... loading ...

وجود

چین: شرح آبادی میں کمی اور پالیسی میں تبدیلی

اتوار 06 جون 2021 چین: شرح آبادی میں کمی اور پالیسی میں تبدیلی

(مہمان کالم)

ویوین وینگ

جب چین نے شادی شدہ جوڑوں کو تین بچے پیدا کرنے کی جازت دی تو سرکاری نیوز میڈیا نے اسے ایک عظیم تبدیلی قرار دیا جو ترقی کا باعث بنے گی مگر پورے ملک میں اس اعلان پر ناراضی کا اظہار کیا گیا۔ خواتین نے اس تشویش کا اظہار کیا کہ اس سے آجر خواتین کو امتیازی سلوک کا نشانہ بناتے ہوئے چھٹی دینے سے گریز کریں گے۔ نوجوان طبقے کا کہنا ہے کہ ہم بمشکل اپنی ضروریات پوری کر رہے ہیں‘ بچوں کی پرورش کیسے کریں گے؟ ورکنگ کلاس والدین کہتے ہیںکہ زیادہ بچوں کا مالی بوجھ ناقابل برداشت ہو جائے گا۔ سیچوآن صوبے کے ایک کارکن ہو ڈائیفانگ کہتے ہیں کہ ’’یقینا میں ایسا نہیں چاہوں گا‘‘۔ 35 سالہ ہو جو پہلے ہی بمشکل گزارہ کر رہا ہے۔ اس کی ماں بیمار پڑ گئی تو اس کے لیے اپنے دو بچوں کو پالنا مشکل ہو گیا تھا۔ ’’یوں لگتا ہے کہ ہم اپنے آپ کو زندہ رکھے ہوئے ہیں‘‘۔
اس سرکاری اعلان کے بعد ایک عام چینی شہری کو عرصے سے درپیش اہم مسئلہ یاد آ گیا کہ چین میں زیادہ بچے پالنے کے لیے کوئی سیفٹی نیٹ یا قانونی تحفظ حاصل نہیں ہے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر صارفین نے بڑھتے ہوئے تعلیمی اخراجات، مہنگے گھروں اور طویل ملازمتی اوقات کی شکایت کی ہے۔ انہوں نے شکوہ کیا کہ چین میں چائلڈ کیئر سروس دستیاب نہیں ہے‘ اس لیے نوجوان والدین کو اپنے بچوں کی پرورش کے لیے اپنے بوڑھے والدین کی مدد لینا پڑتی ہے۔ سرکاری نیوز ایجنسی Xinhua نے پالیسی میں تبدیلی کے بارے میں لکھا ہے ’’سب سے پہلے ضروری ہے کہ میٹرنٹی کے حقوق اور ملازمت پر خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک کے مسئلے کا کوئی حل تلاش کیا جائے اور پھر ان کی بچوں کے بارے میں حوصلہ افزائی کی جائے‘‘۔ ایک اور تبصرے میں کہا گیا ہے ’’ایسی باتیں نہ کرو، کیا بچے پالنے میں ہماری مدد کی جائے گی؟ کیا ہمیں کوئی گھر دو گے؟‘‘۔ حال ہی میں ایک سروے کیا گیا تھا جس میں چینی عوام سے پوچھا گیا تھا ’’کیا آپ تین بچوں کی پالیسی کے لیے تیار ہیں؟‘‘ تو بہت کم لوگوں نے جواب دیا کہ ہاں! ہم تیار ہیں۔22 ہزار لوگوں نے اس پول میں حصہ لیا، 20 ہزار کا کہنا تھا کہ میں بالکل بھی تیار نہیں ہوں تو پول کے نتائج کو فوری طور پر ڈیلیٹ کر دیا گیا۔ اپنے اعلان میں حکومت نے کہا تھا کہ بچوں کی تعلیم اور دیکھ بھال میں حکومت مدد فراہم کرے گی مگر اس کی کوئی تفصیل نہیں دی گئی۔ چینی حکومت عرصے سے وعدے کر رہی ہے کہ خاندان کو متاثرکرنے والی پالیسیوں پر نظر ثانی کی جائے گی مگر اس پر بہت سست روی سے کام ہو رہا ہے۔ پاپولیشن سٹڈیز کے پروفیسر لو ہانگ کہتے ہیں کہ پچھلے پانچ سال میں صرف یہ ہوا ہے کہ میٹرنٹی لیو 160 دن کر دی گئی ہے مگر یہ بھی کم ہے۔ ابھی تک کچھ بھی اچھا نہیں ہوا۔ بچوں کے اخراجات بہت زیادہ ہیں اس لیے والدین بڑی فیملی افورڈ ہی نہیں کر سکتے۔
مسٹر ہو کی والدہ ان کے دونوں بچے پالتی رہیں جبکہ ہو ڈائیفانگ جنوبی چین کی فیکٹریوں میں بہتر ملازمت کی تلاش میں پھرتے رہے۔ مگر جب ماںکی صحت خراب ہو گئی تو یہ ممکن نہ رہا۔ مسٹر ہو اور ان کی بیوی اب سیچوان میں واقع اپنے گائوں میں چلے گئے ہیں اور انہوں نے وہاں ایک فوڈ شاپ کھول لی ہے۔ اب انہیں اپنی ماں کے میڈیکل اخراجات بھی برداشت کرنا پڑتے ہیں کیونکہ ان کی انشورنس مکمل ہیلتھ کوریج نہیں دیتی۔ انہیں اپنے بچوں کو بھی معیاری تعلیم دلانا ہے۔ ان کا کہنا ہے ’’میں نہیں چاہتا کہ میرے بچے بھی میری طرح ہر وقت کام کرتے رہیںیا میرے بچے کسی فیکٹری میں کام کریں‘ اس لیے میرے اوپر بہت زیادہ دبائو ہے‘‘۔
جس دن حکومت نے تین بچوں کی اجازت دینے کا اعلان کیا اسی دن بیجنگ میں ایک ٹیکنالوجی کمپنی کی منیجر لی لی سے ان کے باس کی ملاقات ہوئی۔ 35 سالہ لی کے ہاںدوسرے بچے کی پیدائش ہونے والی ہے۔ باس نے لی سے پوچھا کہ وہ کتنا عرصہ چھٹی پر رہیں گی؟ لی نے انہیں یقین دہانی کرائی کہ وہ صرف تین یا چا رمہینے کی چھٹی پر جائیں گی۔ چین میں حاملہ خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ جب مالکان کو ان خواتین کے چھٹی پر جانے کی اطلاع ملتی ہے تو اکثر اوقات ایسی خواتین کو ملازمت سے برطرف کر دیا جاتا ہے یا ان کی تنزلی کر دی جاتی ہے۔ کئی خواتین نے اطلاع دی ہے کہ ملازمت دینے سے پہلے ان سے یہ یقین دہانی لی جاتی ہے کہ وہ اپنی ملازمت کے دوران چھٹی پر نہیں جائیں گی۔ لی نے بتایا کہ ایک عورت ہونے کے ناتے آپ اپنی ملازمت پر ہمیشہ ایک کمزور پوزیشن پر ہوتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ مجھے اپنے باس کی پریشانی کی وجہ سے ان کے ساتھ بھی ہمدردی ہے۔ وہ جانتی ہیں کہ ایک منیجر کے طور پر میری کمپنی سے غیر حاضری پر مشکل تو پیش آئے گی۔ لی نے ا س بات کا بھی اعتراف کیا کہ جب میں کسی امیدوار کا انٹرویو کرتی ہوں تو میں بھی یہ جاننا چاہتی ہوں کہ نئی ملازمہ جلد بچے کی پیدائش کے لیے چھٹی پر تو نہیں جانا چاہتی؛ تاہم مسز لی کا کہنا تھا کہ اس کے باوجود میں اسے خواتین کے ساتھ ناانصافی سمجھتی ہوں۔ وہ کہتی ہیں کہ حکومت کو چاہئے کہ وہ ملازمائوں کو چھٹی کے معاوضے کی ادائیگی کرے جیسا کہ دنیاکے دیگر ممالک میں کیا جاتا ہے۔ وہاںتو باپ کو بھی بچے کی پیدائش کے دوران چھٹی دی جاتی ہے تاکہ ماں بننے کے عمل کے خواتین خود کو اکیلا نہ سمجھیں۔
مسئلے کی حقیقت کو سمجھتے ہوئے سوموار کو حکومت نے اعلان کیا ہے کہ وہ ملازمت کے دوران خواتین کے حقوق اور مفادات کا جائز اور قانونی تحفظ کرے گی۔ کچھ خواتین نے اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ حکومت پہلے ہی 2019ء میں اس با ت پر پابندی لگا چکی ہے کہ کسی خاتون سے اس کی ازدواجی حیثیت اور بچوں کی پیدائش کے بارے میں سوال نہیں کیا جائے گا؛ تاہم اصل مسئلہ اس قانون پر پوری طرح عملدرآمد نہ ہونے کا ہے۔ حکومت بچوں کی شرح پیدائش میں اضافے کی نیت سے پہلے ہی خواتین کی حوصلہ افزائی کر چکی ہے کہ وہ اپنے روایتی نسوانی کردار کی طرف آئیں۔ چین کے ایک نسوانی تحریک کے پْرجوش ایکٹیوسٹ لوپن کہتے ہیں کہ ’’حکومت صرف باتیں کرنے میں بڑی ماہر ہے۔ اب تک اس نے جو کچھ کیا ہے وہ بے معنی ہے‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر