... loading ...
افغان جہاد کے نتیجے میں سوویت یونین کا انہدام عبرت ناک تاریخ بن گیا ہے۔ اس کے طفیل وسطی ایشیا کے مسلمان ممالک آزاد ہوئے۔ مشرقی یورپ کی کمیونسٹ حکومتیں گر گئیں۔ اُن ممالک نے بھی سُکھ کا سانس لیا جو 1955ء سے وارسا پیکٹ کے تحت سوویت یونین کے ساتھ بندھے ہوئے تھے۔ مشرقی اور مغربی جرمنی کے درمیان حائل دیوارِ برلن کا دھڑن تختہ ہوا۔ جرمن، قومی و جغرافیائی وحدت میں جڑ گئے۔ تب جرمنی کے جاسوسی ادارے کے سربراہ نے دیوارِ برلن کا ایک ٹکڑا پاکستانی ہم منصب کو یادگاری تختی میں سجا کر دیا، جس پر تحریر تھا کہ ’’یہ تحفہ اُن کے لیے جنہوں نے پہلی ضرب لگائی‘‘۔ درحقیقت ’’دیوارِ برلن‘‘کے ٹکڑے کی تختی آزاد افغانستان کی حکومت کو دی جانی چاہیے تھی، اور ملا محمد عمر مجاہد کی قیادت میں ہی افغانستان آزاد و خودمختار تھا، یا اس کی حق دار افغانستان کی حزبِ اسلامی تھی، جس نے1960ء کی دہائی میں ماسکو کی ریشہ دوانیوں اور افغانستان میں مارکس ازم اور لینن ازم کے خلاف فکری و نظریاتی تحریک کا آغاز کردیا تھا۔ پاکستان، ایران، عرب ممالک اور وہ، جو سرخ ریچھ یعنی روس کے غلبے سے خوف زدہ تھے، افغان مجاہدین کے مرہونِ احسان ہیں۔ افغان عوام ہی اشتراکی نظریات اور فوجی مہم جوئی کے آگے پہاڑ بن کر کھڑے ہوگئے تھے۔ ان کی جدوجہد نے امریکہ کو سوویت روس پر وار کا موقع دیا۔ افغانستان پر حملہ دراصل روس کی بڑی اور آخری حماقت ثابت ہوئی۔ دنیا کو کھلے بندوں اس حقیقت کا اعتراف اور افغانوں کا احسان مان لینا چاہیے۔
افغانستان کے ایک نوجوان صحافی ’انجینئر نظر محمد مطمئن‘ جو متعدد کتابوں کے مصنف ہیں اور دنیا کے کئی ممالک کا دورہ کرچکے ہیں، اور طالبان کے دنیا کے مختلف ممالک کے دوروں، مذاکرات اور کانفرنسوں کا نہایت قریب سے مشاہدہ کرچکے ہیں، لمحہ بہ لمحہ احوال کو کتابی شکل دے چکے ہیں، پولینڈ حکومت کی دعوت پر وہاں گئے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ نومبر2017ء میں کابل کے وزیر اکبر خان علاقے میں واقع پولینڈ کے سفارت خانہ میں افغانستان کی صورت حال پر گفتگو اور حالات پر تجزیے کے لیے مدعو تھے۔ ان کی ملاقات پولینڈ کے وزیر دفاع کے مشیر، پولینڈ نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے سربراہ جنرل بوگو سلاو پیجک (Gen. Boguslaw pacek) سے ہوئی۔ پولینڈ کے افغانستان میں سابق سفیر’لانگ‘بھی موجود تھے۔ ان کے سامنے معروضی حقائق رکھے تو جنرل سیخ پا ہوگئے۔ وہ ناٹو مخالف کوئی بات سُننا برداشت نہ کرتے تھے، یہاں تک کہ اپنی کرسی سے اٹھ کھڑے ہوئے اور چلاّ کر کہا کہ آپ کی گفتگو مجھ پر گراں گزرتی ہیں۔ تاہم پھر توجہ سے سنتے رہے، اور پھر انہیں (انجینئر نظر محمد مطمئن کو) ایک طرف لے جاکر کہا کہ افغان پولینڈ کے بھی ہیرو ہیں، جنہوں نے ایک بار پولینڈ کو روس سے آزادی دلائی ہے اور اب کی بار امریکہ سے بھی آزاد کرائیں گے۔‘‘
پولینڈ وارسا پیکٹ میں شامل تھا۔ سوویت یونین کے انہدام کے بعد دسمبر1991ء میں یہ اتحاد ختم ہوا۔ اس کے بعد پولینڈ ناٹو کا حصہ بنا۔
گویا ایک دنیا پر افغان عوام کا احسان ہے۔ مگر دنیا ہے کہ ایک بار پھر ان کے اقتدارِ اعلیٰ اور آزادی کے خلاف جارحیت کا ارتکاب کرچکی ہے۔ افغانستان کے ساتھ 14اپریل1988ء کو ہونے والے جنیوا معاہدے کے ذریعے بھی دھوکا ہوا۔ جہاں ہونا یہ چاہیے تھا کہ افغان جہادی تنظیموں اور ماسکو کے درمیان سمجھوتا ہوتا، مگر اسلام آباد نے فریب کاری کرکے ڈاکٹر نجیب کے ساتھ معاہدے پر دستخط کردیے۔ اس دوران روسی اور امریکی نمائندے بھی موجود تھے۔ کہا گیا کہ پاکستان نے افغان جہادی تنظیموں کی نمائندگی پر دستخط کیے ہیں، حالاں کہ مختلف تنظیموں خاص کر انجینئر گلبدین حکمت یار نے پاکستان کو نمائندگی دینے کے اختیار کی تردید کردی تھی۔ چناں چہ روسی فوجیں ذمے داری پوری کیے بغیر نکل گئیں۔ میخائل گوربا چوف کی حکومت نے کابل حکومت کی ہر طرح کی مدد جاری رکھی۔ اس کے علی الرغم افغان تنہا چھوڑ دیے گئے۔ یوں افغانستان میں عدم مرکزیت پیدا ہوگئی، ملک ایک نئی جنگ و آزمائش میں مبتلا ہوا۔ حکمت یار کے آگے پاکستان، ایران، امریکہ اور روس نے بند باندھ دیا۔ ادھر جبل السراج اتحاد نے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے خصوصی نمائندے بینن سیوان کے امن پلان کو سبوتاژ کردیا۔ جبل السراج اجلاس میں شوریٰ نظار کے سربراہ انجینئر احمد شاہ مسعود اور افغان پرچم پارٹی کے فارسی بولنے والے رہنمائوں اور سابق جنرلوں نے فیصلہ کیا کہ ڈاکٹر نجیب کی حکومت گراکر اقتدار ہاتھ میں لے لیا جائے۔ اور ایسا ہی ہوا۔ حالاں کہ گلبدین حکمت یار اور دوسرے پشتون جہادی رہنما اور ڈاکٹر نجیب بین سیوان کے امن اور انتقالِ اقتدار کے پلان پر متفق تھے۔ شوریٰ نظار اور پرچمی رہنمائوں نے ڈاکٹر نجیب کو ملک سے باہر جانے نہ دیا۔ وہ کابل ایئرپورٹ سے اقوام متحدہ کے دفتر جاکر پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔ بینن سیوان اسلام آباد سے کابل پہنچے مگر مسعود، دوستم اور پرچمی رہنمائوں نے انہیں جہاز سے اترنے نہ دیا، حتیٰ کہ پرچم پارٹی کے سلیمان لائق بھی ڈاکٹر نجیب کی حوالگی کا مطالبہ کررہے تھے۔ یہ شخص بلند پایہ شاعر اور ادیب تھا۔ اس کے اشعار، غزلیں نوجوانوں کی زبان پر ہوتیں۔ اس نے پہلے روسیوں اور بعد ازاں امریکیوں کی مدح سرائی میں مدتِ حیات پوری کرلی۔ سلیمان لائق نے بینن سیوان سے کہا تھا کہ اس ’’شیاد‘‘کو ہمارے حوالے کردیں فیصلہ ہم کریں گے کہ آیا نجیب کو جانے دیا جائے یا نہیں۔ بینن سیوان کہتے ہیں کہ انہوں نے سلیمان لائق سے کہا کہ آئینے میں اپنا چہرہ دیکھا ہے؟ کچھ دن پہلے تو ڈاکٹر نجیب سے متعلق کہا کرتے تھے کہ میرا بیٹا ہے، اور آج اسے برے نام سے یاد کرتے ہو۔ گویا ڈاکٹر نجیب کے وزیر خارجہ عبدالوکیل اور سلیمان لائق بھی شمال کے سرکردہ لوگوں اور جماعتوں کے ساتھ مل کر تخریب کا حصہ بنے۔
طالبان نے بھی کبھی اپنی حکومت کے قیام کی بات نہیں کی ہے۔ استنبول کانفرنس میں بھی اس بنا پر شریک نہ ہوئے کہ ان کا مطالبہ تھا کہ پہلے ان کے قیدیوں کو آزاد کیا جائے اور رہنمائوں کو بلیک لسٹ سے نکالا جائے۔ وہ بین الافغان مذاکرات کے ذریعے آئندہ کی صورت گری کا مؤقف رکھتے ہیں، امریکہ کے ساتھ دوحہ میں ہونے والے معاہدے پر عمل درآمد چاہتے ہیں۔ اب حالات 1980ء اور 1990ء کی دہائی والے ہرگز نہیں ہیں۔ کوئی اگر پھر سے افغانستان کی تقسیم یا جنگ کا ارادہ رکھتا ہے تو یہ اس کی خام خیالی ہوگی۔ افغان طالبان اور حزبِ اسلامی نہ ملک پر غیر ملکی قبضے اور فوجی مستقر کی اجازت دیںگے، نہ ملکی وحدت کے خلاف کسی سازش کو پنپنے دیںگے۔ انہوں نے جنیوا کے برعکس اپنے مستقبل کے فیصلوں کا اختیار اپنے پاس رکھا ہے۔ اس کی مثال 29 فروری2019ء کو امریکہ کے ساتھ ہونے والا دوحہ معاہدہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔