... loading ...
چند ہفتوں سے سندھ اور پنجاب میں پانی کے بحران پر محاز آرائی اور کشیدگی ہے یہ محازآرائی اور کشیدگی دو صوبوں تک محدود نہیں بلکہ وفاق کوبھی لپیٹ میں لے چکی ہے سندھ کو اعتراض ہے کہ اُسے 1991 میں طے پانے والے معاہدے کے مطابق پانی نہیں مل رہا اور اُس کے حصے کا پانی پنجاب چوری کر رہا ہے اِس حوالے سے سندھ اسمبلی قراردادبھی منظور ہوچکی ہے اور سیاسی قیادت نے پانی کے بحران پرغصے کے اظہار کے لیے 3 سے 15جون تک ضلعی سطح پراحتجاج مظاہروں کا اعلان کر دیا ہے حالانکہ سندھ کے آبی ماہرین نے پنجاب کے بیراجزپر بغیر بتائے اچانک چھاپے مارکر حقیقت جاننے کی کوشش کی لیکن اعداد وشمار میں کوئی ہیراپھیری ثابت نہیں ہوئی عثمان بزدار نے سندھ اورپنجاب کے بیراجوں پر غیر جانبدار مبصرین تعینات کرنے کی پیشکش کی ہے لیکن سندھ نے یہ پیشکش بھی مسترد کر دی جس کا مطلب ہے کہ سندھ کے تحفظات مکمل طور پر حقائق پر مبنی نہیں حقیقت یہ ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ ملک میں پانی کی کمی ہورہی ہے جس کا ادراک نہیں کیا جارہا بلکہ سیاسی مقاصد کے لیے نفرت پھیلا ئی جارہی ہے قیامِ پاکستان کے وقت ملک کے ہر شہری کے لیے پانچ ہزار کیوبک میٹھا پانی دستیاب تھا جو آج ایک ہزار کیوبک رہ گیا ہے جس میں ہماری بے احتیاطی اور غیر سنجیدگی کا بھی بڑا عمل دخل ہے اگر ہم نے بے احتیاطی اورغیر سنجیدگی ترک نہ کی تو اگلے چند برسوں میں فی کس مقدار مزید کم ہو کر سات سو پچاس کیوبک میٹر ہونے کا خدشہ ہے جس کے بعد پاکستان دنیا میں پانی کی شدیدترین کمی کے شکارممالک میں ہونے لگے گا جو ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے ۔
ڈیم بنانے میں سیاسی قیادت کوتاہیوں کی مرتکب ہوئی ہے ڈیموں میں ملکی ضروریات کا ایک ماہ کے لیے پانی ذخیرہ ہو سکتا ہے یہ صورتحال ہمارے لیے خطرے کا الارم ہے لیکن ہماری غیر سنجیدگی برقرار ہے کالاباغ ڈیم ایسا منصوبہ ہے جس کی فزیبلٹی رپورٹ 1984 سے تیارہے اِس ڈیم کی افادیت عالمی اِدارے تسلیم کرتے ہیں لیکن سیاسی قیادت محدود مفادات کے لیے رکاوٹ ہے غیر ذمہ داری کی حد ہے کہ تین صوبے مخالف قراردادیں پا س کر چکے ہیں حالانکہ ماہرین مستقبل میں پانی کے حوالے سے جنگوں کا خدشہ ظاہر کر چکے ہیں مگر ہمیں اِس کا احساس نہیں کالاباغ بننے کی صورت میں کے پی کے کو نو شہرہ ڈوبنے کا خطرہ ہے اور سندھ کا خیال ہے کہ اگر میٹھا پانی سمندر میں نہ پھینکا گیا تو سمندر کا نمکین پانی زرعی اراضی کو ناقابلِ کا شت بنادے گا یہ اعتراضات وہ لوگ کر رہے ہیں جن کا اِس شعبے سے دور کا بھی واسطہ نہیں ماہرین اور عام فرد کی سوچ یکساں نہیں ہو سکتی آج بھی اگر سیاسی قیادت ذمہ داری کا مظاہرہ کر ے تو کالا باغ ڈیم جیسے عوامی اور زرعی مفاد کے منصوبے پر فوری کام شروع ہو سکتا ہے کیونکہ ایک سے زائد عالمی اِدارے مالی تعاون پر آمادہ ہیں بس ہمیں علاقائی ،لسانی و نسلی تعصب سے بالاتر ہو کر فیصلہ کرنا ہے۔
دنیا میں پاکستان سب سے زیادہ پانی استعمال کرنے والے ممالک میں تیسرے نمبرپر ہے پانی کا یہ استعمال رقبے اور آبادی کے لحاظ سے بہت زیادہ ہے جو ہماری لاپرواہی کا اغماض ہے لیکن غیر سنجیدگی اور لاپرواہی یہاں تک ہی محدود نہیں بلکہ پانی استعمال کم اور ضائع زیادہ کرتے ہیں گندے پانی کی ری سائیکلنگ کی شرح محض آٹھ فیصد ہے بقیہ ندی ،نالوں سے ہوتا ہوادریائوں کے ذریعے سمندر میں پھینک دیا جاتا ہے جو آلودگی بڑھانے کا باعث ہے حالانکہ گندے پانی کو ری سائیکل کرنے کے بعددنیا میں کاشکاری کے لیے استعمال کیا جارہاہے ہماری لاپرواہی و غیر سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ گاڑیاں وغیرہ بھی صاف اور میٹھے پانی سے دھوتے ہیں علاوہ ازیںفراہمی آپ کے اکثر منصوبوں میں اِتنے نقائص ہوتے ہیں کہ بے جا پانی بہتا رہتا ہے لیکن غیر ضروری بہائو روکنے پر توجہ نہیں دی جاتی بارشوں کم ہونے اور دریائوں میںپہلے کی نسبت کم پانی آنے سے ملک میں پانی کا شارٹ فال اٹھارہ فیصد ہو گیاہے لیکن ہمیں پانی کی کمیابی سے زوال پذیرزرعت کا بھی احساس نہیں جسے کسی صورت لائقِ تحیسن نہیں کہا جا سکتا پانی قدرت کی عظیم نعمت ہے اور ہم قدرت کی نعمت کی بے قدری کر رہے ہیں پانی بغیرتو زندگی ممکن نہیںجس کا دنیا کو احساس ہے لیکن ہمیں نہیں۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان 1960میں طے پانے والے سندھ طاس معاہدے کے تحت مغربی دریائوںچناب ،سندھ اور جہلم کے اسی فیصد پانی پر پاکستان کا حق تسلیم کیا گیا جبکہ مشرقی دریائوں راوی۔ستلج اور بیا س کے پانی کا کنٹرول بھارتی ہاتھ میں دے دیا گیا لیکن ڈیم نہ بنانے اور پانی سمندر میں ضائع کرنے کا بہانہ بنا کر بھارت مشرقی دریائوں کا رُخ موڑنے کے ساتھ پاکستانی دریائوں پر بھی ڈیم بناکر پانی ذخیرہ کرنے لگا ہے لیکن ہم بددستور خوابِ خرگوش کے مزے لے رہے ہیں اگر خطرے کاجلد تدارک نہ کیا گیا تو بھارت کی آبی جارحیت سے بھوک ،پیاس اور افلاس ڈیرے ڈال سکتی ہے اب ہمیں یہ سوچنا ہے کہ کیا ہم بھوکا وپیاسا مرنا چاہتے ہیںیا آنے والی نسلوں کے لیے مضبوظ،خوشحال ملک دینا چھوڑنا چاہتے ہیںملک کے ڈیموں میں پانی کا ذخیرہ محض ایک ہفتے کا رہ گیا ہے لیکن کالاباغ ڈیم بنانے جیسا آسان کام کرنے کی بجائے سرپھٹول کا راستہ اپنا لیاگیا ہے اِس غیر سنجیدگی سے پانی کا بحران کم نہیں ہو سکتا۔
دنیا بھر میں زمین کی بجائے زمین پر موجود پانی کے استعمال کو ترجیح دی جاتی ہے اور اشدضرورت پر ہی زیرِ زمین پانی استعمال کیا جاتا ہے لیکن پاکستان میں زیرِ زمین پانی کے زخائر بے دردی سے استعمال کیے جارہے ہیں روزانہ لاکھوں ٹیوب ویل زیرِ زمین پانی نکالنے میں مصروف ہیں حالانکہ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان ہر سال 21 بلین ڈالر کا میٹھا پانی سمندربرد کرتا ہے جسے بچا کر پینے اور زرعی ضروریات کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے لیکن ملک میں پانی ذخیرہ کرنے کے ذرائع بہت محدود ہیں جن میں محض ایک ماہ کا پانی ہی ا سٹور کر سکتے ہیں اسی بناپر زیرِ زمین پانی کی گہرائی میں اضافہ ہورہا ہے جس سے سمندرکے کھارے پانی کا میٹھے پانی میں شامل ہونے کا خطرہ ہے کیونکہ سطح سمند ر سے زیادہ گہرائی میں جانے سے کھارا پانی میٹھے پانی میں شامل ہو سکتا ہے اگر برسات کے دنوں کا نصف پانی ہی محفوظ کر لیں تو نہ صرف ہر سال شہر ڈوبنے سے بچ سکتے ہیں بلکہ پینے اور زراعت کے لیے وافر پانی مل سکتا ہے لیکن تربیلا اور منگلہ ڈیم کے ڈیڈ لیول تک پہنچنے کے باوجودہمیںایک دوسرے کو رگیدنے سے فرصت نہیں ۔
تسلیم کہ ملک کو چاول جیسی اجناس کی بھی ضرورت ہے لیکن پانی کی کمیابی کے بعد ضروری ہو گیا ہے کہ ماہرین کوشش کریں کہ کم پانی میں پرورش پانے والی کپاس جیسی فصلوں پر توجہ دیں کیونکہ موسمی حالات کے مطابق معمولات میں تبدیلیاں ناگزیر ہیں وائے افسوس کہ ایسا نہیں ہو رہا مگر یا درکھیں پنجاب اور سندھ آج تو 1991 کے آبی معاہدے کے تحت پانی کی تقسیم چاہتے ہیں اگر کالاباغ جیسے بڑے آبی زخیرے کی تعمیر کو طویل مدت کے لیے مصلحتوں کے تحت التوا میں ڈالا جاتا ہے تو چھوٹے چھوٹے آبی زخائرکی بھی افادیت نہیں رہے گی پانی کے بحران کا تقاضا ہے کہ فی الفور غیر سنجیدگی اور لاپرواہی چھوڑ کر کالاباغ ڈیم کی تعمیر پر توجہ دی جائے تاکہ ملک کے باسیوں کو بھوک و پیاس کے عفریت سے بچایا جا سکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔