... loading ...
(مہمان کالم)
پی چدمبرم
اگر آپ یہ سوچتے ہیں کہ کووڈ 19 کی دوسری لہر ااپ کی زندگی کا بدترین بحران ہے اور اب تک آپ نے زندگی میں اس قسم کے بدترین بحران کا سامنا نہیں کیا ہے تو آپ غلط ہوسکتے ہیں۔ جو لوگ کووڈ 19 سے متاثر ہوئے‘ ان کے اور ان کے خاندان کے لیے کووڈ کا تجربہ بہت تلخ رہا ہے۔ خواہ وہ گھر پر ہی خود کو الگ تھلگ کیے ہوئے ہوں یا کووڈ کیئر سنٹرز (مراکز نگہداشت) میں قرنطینہ کے کربناک دور سے گزرے ہوں، کورونا سے متاثر ہونے کے بعد وارڈز میں رہے ہوں یا آئی سی یو میں آکسیجن یا پھر وینٹی لیٹر پر انہیں رکھا گیا ہو، غرض ہر متاثرہ شخص موت کے خوف کے ساتھ جیتا رہا ہے، اسے ہر پل موت کا خوف ستاتا رہا اور موت کی دہشت اس پر چھائی رہی۔ ہمارے ملک میں کورونا سے مرنے والوں کی تعداد ماہِ مئی میں (اموات کی جملہ شرح) 2 فیصد تک پہنچ گئی تھی اور ہر متاثرہ شخص کی زبان پر یہی دعا تھی کہ وہ ہلاک ہونے والوں میں شامل نہ ہو۔
کورونا وائرس کی عالمی وبا سے متاثرہ دنیا میں جینے کا تجربہ ان لوگوں کے لیے بھی بڑا بدترین رہا جو کورونا کے مہلک وائرس سے متاثر نہیں ہوئے کیونکہ ہر روز انہیں اپنے کسی عزیز، اہلِ خاندان ، دوست یا کسی شناسا کے بارے میں کوئی بری خبر ملتی تب ان کے ذہنوں میں یہی بات آتی کہ آیا میری باری بھی آنے والی ہے ؟اور آئے گی تو کب آئے گی؟ یہ خوف و خدشہ ہر کسی کا تعاقب کرتا رہا۔ ڈاکٹروں، نرسوں، نیم طبی عملے اور ہسپتال میں خدمات انجام دینے والوں کے ساتھ مریضوں کی تیمارداری کرنے والوں کے لیے بطورِ خاص یہ بہت خراب اور تلخ تجربہ رہا۔ ان میں سے کئی خدمات انجام دیتے اور لوگوں کی مدد کرتے ہوئے اپنی زندگیوں سے محروم ہوگئے اور اپنے خاندانوں کے لیے رنج و الم اور غیریقینی کیفیت کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ چھوڑ گئے۔دوسری جانب کووڈ 19 کا تجربہ وزیراعظم، مرکزی وزیر صحت اور دیگر وزرائ اور اعلیٰ عہدیداروں (بیوروکریسی) کے لیے بھی انتہائی تلخ رہا۔
اس وقت یقینی طور پر بدترین حالات ہیں اور آگے بھی یہی کچھ بلکہ اس سے بھی زیادہ بدترین دکھائی دے رہا ہے؛ تاہم مستقبل کے بارے میں ایک چیز ضرور ہے اور وہ یہ ہے کہ مستقبل یقینی نہیں۔ یہ ہمارے ملک کے عوام کی معاشی یا مالی حالت سے متعلق ہے۔ یہ جتنا خراب اور بدترین ہوسکتا ہے‘ خدشہ ہے کہ اس سے کہیں زیادہ بدترین ہوگا۔ عدم مساوات کے رجحان میں اضافہ ہوجائے گا۔ عوام کی اکثریت غریب ہوگی۔ قرضوں کے دلدل میں دھنسی ہوگی اور ناخوش رہے گی۔ معاشی تفاوت کے نتیجہ میں عدم مساوات بڑھتی جائے گی۔ ہمارے ملک کے قومی دفتر برائے اعداد و شمار نے حالیہ تین برسوں کے لیے مستقل قیمتوں کا جو تخمینہ لگایا ہے۔ وہ اس طرح ہے۔ سال 2018-19ء کے لیے 14003316 کروڑ روپے، سال 2019-20ء کے لیے 14569268 کروڑ روپے اور سال 2020-21ء کے لیے 13408882 کروڑ روپے۔ قومی دفتر برائے اعداد و شمار کے مطابق سال 2019-20ء میں مجموعی قومی پیداوار(جی ڈی پی) کا نمو صرف 4فیصد ہوا (کورونا وبا سے پچھلے سال میں) لیکن سال 2020-21ء میں یہ 8 فیصد گرگیا۔ (عالمی وبا کے پہلے سال) ہم اب عالمی وبا کے دوسرے سال میں ہیں اور ایک دن میں کورونا کے 4 لاکھ 14 ہزار 280 کیسز کا مشاہدہ بھی کرچکے ہیں اور ساتھ ہی ایک دن میں سب سے زیادہ 45 سو سے زائد اموات کا مشاہدہ بھی کیا ہے۔ جہاں تک موجودہ حالات میں کورونا کے فعال کیسز کا سوال ہے، فی الوقت ان کی تعداد 24 لاکھ سے زائد ہے۔ اب آگے بڑھتے ہیں۔
سال 2021-22ء میں آیا قومی مجموعی پیداوار کا نمو گرتا ہے یا بڑھتا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو اس ضمن میں اب تک جو اندازے لگائے گئے ہیں، وہ حوصلہ افزا نہیں ہیں، سوائے ان اندازوں کے جو حکومت نے لگائے ہیں۔ کئی لوگ اب بھی مثبت نمو کے تخمینہ لگا رہے ہیں۔ بعض ماہرین اقتصادیات کو ان تخمینوں پر شک ہے اور انہیں امید نہیں کہ قومی مجموعی پیداوار میں نمو درج کیا جائے گا۔ سب سے اچھی چیز جو ہم کرسکتے ہیں، وہ یہ ہے کہ ہم سال 2021-22ء میں مجموعی قومی پیدوار کے نمو کو منفی کے بجائے صفر نمو فرض کرسکتے ہیں اور امید کرسکتے ہیں کہ اس سے جو نتیجہ یا پیداوار یا نمو ہوگا، وہ بہتر ہوگا۔تعداد کے لحاظ سے قومی مجموعی پیداوار صورتحال پر بہتر روشنی ڈالے گی۔ مثال کے طور پر سال 2019-20ء میں ہم ایک عام اندازے کے لحاظ سے 2.8 لاکھ کروڑ روپے مالیتی امکانی پیداوار سے محروم ہوئے۔ اس طرح کورونا کی عالمی وبا کے پہلے سال 2020-21ء میں ہمیں 11 لاکھ کروڑ روپے مالیتی پیداوار سے ہاتھ دھونا پڑے۔ صفر نمو کو فرض کرتے ہوئے مستقل قیمتوں پر قومی مجموعی پیداوار سال 2021-22ء میں 134 لاکھ کروڑ رہے گا۔ چونکہ بھارت ایک ابھرتی معیشت ہے اور ہم نے جس امکانی نمو کو فرض کرلیا ہے، وہ 5 فیصد ہے، ایسے میں 6.7 لاکھ کروڑ روپے مالیتی پیداوار کا قومی نقصان ہوگا اور اسے بھی جی ڈی پی میں جوڑ لیا جانا چاہئے۔ اس طرح یہ اعداد و شمار تین برسوں میں پیداوار کا مجموعی طور پر 20 لاکھ کروڑ کے نقصان کو ظاہر کرتے ہیں۔ تین برسوں میں پیداوار میں اس قدر زیادہ نقصان کا مطلب روزگار، آمدنی، تنخواہوں، بچتوں، سرمایہ کاری، تعلیم، نگہداشت صحت اور دیگر شعبوں میں ناقابل یقین نقصان ہے۔CMIE نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ 26 مئی 2021ء کو ملک میں بیروزگاری کی شرح 11.17 فیصد رہی جس میں شہری علاقوں میں 13.52 فیصد اور دیہی علاقوں میں 10.12 فیصد شرح رہی۔ سال 2020-21ء میں ایک کروڑ تنخواہ دار ملازمین اپنی نوکریوں سے محروم ہوئے۔ یہ رجحان کورونا کی دوسری لہر نے دیہی علاقوں تک بھی پھیلا دیا۔ اس سے چھوٹے شہر اور مواضعات بہت زیادہ متاثر ہوئے ہیں اور اب تک جو ڈیٹا منظر عام پر آیا ہے اس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ روزگار سے محرومی کے نتیجے میں شہری علاقوں سے دیہی علاقوں میں بڑے پیمانے پر نقل مکانی کی گئی اور زرعی شعبے کی نوکریوں میں 90 لاکھ کا اضافہ ہوا۔ زرعی شعبہ ایک ایسا شعبہ ہے جہاں پہلے سے ہی بہت زیادہ ورکرز ہیں، ایسے میں اس شعبہ میں باقاعدہ نوکریاں نہیں ہوسکتیں۔ اس کے علاوہ جب محنت کشوں کی شراکت کی شرح کم ہوتی ہے تو روزگار سے محرومی کی شرح میں اضافہ ہوجاتا ہے۔
جیسا کہ سطورِبالا میں تحریر کیا کہ روزگار یا نوکریوں سے محرومی کا مطلب آمدنی، تنخواہوں سے محرومی ہوتا ہے۔ آر بی آئی نے مئی 2021ء میں جو بلیٹن جاری کیا وہ خوداختیاری مصارف میں تخفیف کی بات کرتا ہے۔ یہ رجحان ہر مارکٹ میں دیکھا جارہا ہے۔ مہیش ویاس مینیجنگ ڈائریکٹر CMIE کا کہنا ہے کہ گزشتہ 13 ماہ کے دوران 90 فیصد خاندانوں نے اپنی آمدنی میں کمی کا مشاہدہ کیا ہے۔ عظیم پریم جی یونیورسٹی کی ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ لوگ قرض لینے اوراپنے اثاثے فروخت کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ یہاں تک کہ ان لوگوں نے اپنی غذائی اشیا میں بھی کمی کردی۔ ایک اور رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ غریب خاندانوں نے اپنی آمدنی سے کہیں زیادہ قرض حاصل کیا ہے۔ عظیم پریم جی یونیورسٹی نے مئی 2021ء کو ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ مزید 23 کروڑ لوگ خط ِ غربت سے نیچے چلے گئے۔ 23 کروڑ لوگوں کا خط ِ غربت کے نیچے جانا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ 2005ء اور 2015ء کے درمیان جن 27 کروڑ لوگوں کو خطِ غربت سے نکالا گیا تھا‘ اب ایسا لگ رہا ہے کہ یہ رجحان دوبارہ واپسی کی طرف جارہا ہے۔ بہرحال ملک میں اب ایسی صورتحال ہے جس پر ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ سال 2021-22ء میں ایک بڑی آفت بھارت کی منتظر ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔