وجود

... loading ...

وجود

کچے کے ڈاکو ، پکے کے ڈاکو

پیر 31 مئی 2021 کچے کے ڈاکو ، پکے کے ڈاکو

آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے دو بڑے صوبوں سندھ اور پنجاب میں بیک وقت کچے کے علاقے میں ڈاکوؤں کے خلاف قانون نافذ کرنے والے اداروں کا بھرپور آپریشن جاری ہے۔ لیکن سندھ اور پنجاب میں ڈاکوؤں کے خلاف ہونے والے آپریشن کی نوعیت اور ساخت میں بنیادی فرق یہ ہے کہ پنجاب میں کیے جانے والے آپریشن میں پولیس کے علاوہ رینجر اور پاک فوج کے دستے بھی شریک ہیں ،جبکہ صوبہ سندھ میں کچے کے علاقے میں کیے جانے والا آپریشن مکمل طور پر سندھ پولیس ہی انجام دے رہی ہے ۔حالانکہ وفاقی وزیرداخلہ شیخ رشید ، اچانک وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان کی خصوصی ہدایت پر ہنگامی دورے پر سندھ تشریف لائے اور انہوں نے وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ سے ملاقات کرنے کے بعد صوبہ سندھ میں ڈاکوؤں کے خلاف جاری آپریشن میں رینجرز اور پاک فوج کو شامل کرنے کی پیشکش بھی کردی تھی۔
مگر وزیراعلیٰ نے شکریہ کے ساتھ اُن کی پیشکش کو یہ کہہ کر قبول کرنے سے انکار کردیا ہے کہ ’’سندھ میں ڈاکو راج ختم کرنے کے لیئے سندھ پولیس کافی ہے‘‘۔ یادر ہے کہ وفاقی حکومت نے سندھ اور پنجاب میں ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن کرنے کا مشکل فیصلہ، کچے کے علاقوں میں ڈاکوؤں کی بڑھتی ہوئی مجرمانہ کارروائیوں خاص طور پر سوشل میڈیا پر ڈاکوؤں کی جانب سے چند مغویوں کے قتل اور اُن پر کیے جانے والے انسانیت سوز تشدد کی ویڈیوز شائع ہونے کے بعدکیا گیا ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ سندھ اور پنجاب میں کچے کے علاقے میں ڈاکو راج قائم کرنے والے ڈاکوؤں نے مغویوںکے قتل اور اُن پر بہیمانہ تشدد کی ویڈیوزکم و بیش ایک ہی وقت میں جاری کیں۔اسے واقعاتی حسن اتفاق کہا یا پھر ڈاکوؤں کا مضبوط بین الصوبائی رابطہ۔سرِ دست اِس بابت یقین سے کچھ بھی کہنا مشکل ہوگا۔
بہرکیف ایک بات ضرورمکمل شرح الصدر اور پورے یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ وفاقی حکومت کی تائید اور پنجاب حکومت کی سرپرستی میں ’’لادی گینگ‘‘ کے خلاف شروع ہونے والا عسکری آپریشن ملک بھر میں ڈاکو راج کے خاتمہ کا نقطہ آغاز ثابت ہوگا۔ تحریک انصاف کی حکومت سے یہ حسنِ ظن قائم رکھنے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ گزشتوں دنوں جس انداز میں وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان نے ملک بھر سے ڈاکوؤں کی محفوظ پناہ گاہیں ختم کرنے کے لیے اپنے عزم کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ اُس کے بعد پہلی بار عوام کے اذہان میں یہ خوش کن اُمید بیدار ہوئی ہے کہ شاید ملک بھر میں کچے کے علاقوں میں ڈاکوؤں کے خلاف شروع ہونے والی عسکر ی کارروائیاں کسی سیاسی دباؤ، انتظامی مصلحت کی وجہ سے درمیان میں بغیر کوئی وجہ بتائے اچانک سے روکی نہیں جائیں گی۔ یاد رہے کہ کچے کے علاقوں میں حکمرانی کرنے والے ڈاکوؤں کی اصل طاقت ہتھیار نہیں بلکہ پتھارے دار ہیں ۔جنہیں سادہ الفاظ میں آپ جاگیردار ، چوہدری اور بڑے زمین دار بھی کہہ سکتے ہیں ۔یہ ہی عام اور غریب افراد کو ڈاکو بناتے ہیں اور بعدا زاں یہ ہی اُنہیں پالتے اور تحفظ دیتے ہیں ۔ نیز بوقتِ ضرورت اپنے مخالفین کو اغواء اور قتل کروانے جیسے مذموم کام بھی ان ڈاکوؤں سے ہی کرواتے ہیں ۔ چونکہ ان ہی جاگیر داروں اور چوہدریوں کی اکثریت پاکستانی سیاست کے ماتھے کا جھومر ہے ۔ لہٰذا کسی بھی حکمران کے لیئے کچے کے علاقے میں ڈاکوؤں کے خلاف حقیقی عسکری آپریشن کرنا سہل نہیں ہوتا اور اگر کوئی حکمران عوامی دباؤ میں آکر یا پھر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے مشورہ پر ڈاکو راج کے خلاف آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کا فیصلہ کر بھی لے تو اُسے طاقت ور جاگیر دار اور چوہدری درمیان میں ہی رکوادیتے ہیں ۔ کم ازکم آج کی تاریخ تک تو ایسا ہی ہوتا آیا ہے۔
واضح رہے کہ صوبہ سندھ میں کچے کے علاقے میں ڈاکوؤں کے خلاف قانون نافذ کرنے والے اداروں کا کیا جانے والا یہ کوئی پہلا یا دوسرا ،آپریشن نہیں ہے ۔بلکہ ماضی میں بھی کئی مرتبہ مختلف وفاقی حکومتوں نے سندھ سے ڈاکوراج ختم کرنے کے لیئے بڑے پیمانے پر عسکری آپریشن کیے تھے ۔ خاص طورسابق وزیراعظم نواز شریف اور سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے دورِ اقتدار میں سندھ میں کچے کے علاقے میں ہونے والے دونوں آپریشن نتائج کے اعتبار سے اَب تک کے سب سے کامیاب اور موثر آپریشن قرار دیئے جاسکتے ہیں ۔کیونکہ مذکورہ بالا دونوں آپریشن کی فقید المثال کامیابی سے صوبہ سندھ میں حقیقی معنوں میں ڈاکوراج کو شدید دھچکا اور نقصان پہنچا تھا ۔مگر بدقسمتی سے گزشتہ ایک دہائی سے کچے کے علاقے میں ڈاکو ؤں کے خلاف کسی بھی حکومت کی جانب سے کوئی بڑی کاروائی دیکھنے میں نہیں آئی ۔ جس کی وجہ سے کچے کے علاقوں میں ایک بار پھر سے مختلف ڈکیت گروہوں کو منظم ہوکر اپنا اثرو نفوذ اور نیٹ ورک قائم کرنے کا سنہری موقع میسر آگیا۔
اگر ابھی بھی ڈاکو روایتی عقل مندی سے کام لیتے رہتے اور مختلف سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر اپنی مجرمانہ کاروائیوں کی ویڈیوز پوسٹ کر کے’’ٹک ٹاک اسٹار ‘‘ یا ’’یوٹیوبر‘‘ بننے کی بے وقوفی نہیں کرتے تو غالب امکان یہ تھا کہ اِ ن کی ڈاکہ زنی کا، کاروبار ’’مجرمانہ خاموشی ‘‘کے ساتھ زوز افزوں جاری رہتا اور سادہ لوح عوام کی اکثریت اِن کا آسان شکار بن کر اپنی جان و مال سے محروم ہوتی رہتی۔ مگرآخر ڈاکو بھی تو ہم جیسے انسان ہی ہوتے ہیں ۔انہوں نے بھی ایک دن سوچا ہوگا جب صدر سے لے کر وزیراعظم تک ،وزیراعلی سے لے کر وزیر تک ، ملازم سے لے کر تاجر تک ، اور بچے سے لے کر بوڑھے تک جب سب ہی پاکستانی اپنے ’’کارنامے‘‘سوشل میڈیا کی زینت بنا رہے ۔ تب ترنگ میں آکر انہوں نے بھی اپنی’’نادیدہ کاروائیاں‘‘ وائرل کرنے کے لیئے سوشل میڈیا پر پوسٹ کردیںاور یوں عوامی دباؤ کے باعث پنجاب اور سندھ حکومت کو کچے کے علاقے میں آپریشن کرنے کا مشکل فیصلہ کرنا پڑ گیا۔
مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کچے کے علاقے میں ڈاکوؤں کے خلاف شروع ہونے والا ملک گیر آپریشن اس مرتبہ متوقع نتائج دے پائے گا؟ اور وطن عزیز سے ڈاکوؤں کے ’’مجرمانہ اقتدار ‘‘ کا مکمل طور پر خاتمہ ممکن ہوسکے گا؟۔پاکستانی عوام کو اِن مشکل ترین سوالا ت کے مثبت جوابات اُس وقت ہی مل سکتے ہیں ، جب کچے کے علاقوں میں آباد ڈاکوؤں کے اصل پشت پناہ یعنی پکے کے ڈاکوؤں کے خلاف بھی بلاکسی تفریق اور امتیاز کے قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے۔ یاد رہے کہ یہ کام کچھ اتنا مشکل بھی نہیں ہے ۔بس! سندھ پولیس بالخصوص دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اتنا سا کام کرنا ہے کہ چند ڈاکوؤں کو وہ زندہ گرفتارکرلیں ،باقی تو وہ پھر خود ہی اُگل دیں گے کہ اُن کے لگامیں کن طاقت ور لوگوں کے ہاتھ میں ہیں ۔ یعنی کچے کے ڈاکوؤں کی جان جن طوطوں میں ہے ،وہ پکے کے ڈاکو ہیں ۔ اگر پکے کے ڈاکو محفوظ رہیں گے تو پھر کچے کے ڈاکوؤں کا اقتدار سلامت رہے گا۔
٭٭٭٭٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
خرم پرویز کی حراست کے تین سال وجود منگل 26 نومبر 2024
خرم پرویز کی حراست کے تین سال

نامعلوم چور وجود منگل 26 نومبر 2024
نامعلوم چور

احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟ وجود پیر 25 نومبر 2024
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟

کشمیری غربت کا شکار وجود پیر 25 نومبر 2024
کشمیری غربت کا شکار

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر