... loading ...
اسرائیل اور حماس کی جانب سے غزہ میں جنگ بند ی کے اعلان کاسرِ دست یہ ہی ایک فائدہ نظر آتا ہے کہ بے گناہ اور مظلوم فلسطینیوں کا ناحق خون جس ارزانی و فراوانی کے ساتھ بہہ رہا تھا ، اُس’’ خونی بہاؤ ‘‘ کی شدت میں کچھ کمی واقع ہوجائے گی ۔لیکن مسئلہ فلسطین بدستور اپنی جگہ پر برقرار رہے گا اور کچھ بعید نہیں کہ اسرائیل جنگ بندی کے دوران بھی معصوم فلسطینیوں کو وقفہ وقفہ سے اپنی بہیمانہ حربی کارروائیوں کا نشانہ بنانا جاری رکھے۔یاد رہے کہ عارضی جنگ بندی کے اِس قلیل دورانیہ میں فلسطینیوں کوطبی اور مالی اعانت کی زیادہ ضرورت ہوگی۔ لہٰذا ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ غزہ میں جنگ بندی کے اعلان پر ہم دنیا بھر میں فلسطینیوں کی فتح کا نقارہ پیٹنے پر اکتفا کرنے کے بجائے اُنہیں زیادہ سے زیادہ عملی امداد بہم پہنچانے کی کوشش کریں۔
جہاں تک حماس کا تعلق ہے کہ اُس نے غزہ میں جنگ بندی کے اگلے دن کو ’’یوم فتح ‘‘ کے طور پر کیوں منایا ؟اگر فلسطینیوں کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو اسرائیل کے خلاف اُن کا یہ جشن ِ فتح منانا عین قرین قیاس تھا۔کیونکہ اسرائیل کے ساتھ ہونے والی حالیہ جنگی جھڑپوں میں حماس نے اسرائیل کو شکست کا مزہ بھلے ہی نہ چکھایا ہو لیکن تاریخ میں پہلی بار ،اسرائیل کے اربابِ اختیار کو اپنی حربی کارروائیوں سے پریشان اور حیران ضرور کردیا ہے۔ خاص طور پر اربوں ڈالر مالیت کا جدید ترین میزائل ڈیفنس سسٹم ’’ آئرن ڈوم ‘‘ کی موجودگی میں حماس کے میزائلوں کا اسرائیل کے اہم ترین شہروں کی گلیوں اور بازاروں تک رسائی حاصل کرنا یقیناً اسرائیلی حکام کی عسکری برتری اور انہیں میسر جدید ٹیکنالوجی کی افادیت پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔
نیز، اسرائیل کے خلاف حماس کے موثر میزائل حملوں سے اِس تاثر کو بھی زبردست تقویت ملتی ہے کہ اَب کی بار حماس، اسرائیل کے خلاف میدان جنگ میں تنہا ہر گز نہیں تھی ۔بلکہ اسرائیلی میڈیا کی جانب سے بھی یہ امکان ظاہر کیا گیا ہے کہ’’ حماس کو اپنی پشت پر ایران کے علاوہ بھی ایک بہت ہی طاقت ور عسکری صلاحیت رکھنے والے مسلمان ملک کی خفیہ عسکری امداد و اعانت ضرور حاصل رہی ہوگی۔‘‘ کیونکہ اسرائیل نے جس عسکری طاقت اور بدنیتی کے ساتھ یروشلم کو فتح کرنے کے لیے اپنے جارحانہ قدم بڑھائے تھے ، اُسے دیکھ کر تو دنیا بھر کے عسکری ماہرین نے ابتداء میں یہ ہی نتیجہ اخذ کر لیا تھا کہ’’ اسرائیل نے فلسطینیوں کے خلاف اپنی فیصلہ کن جنگ چھیڑ دی ہے اور اس مرتبہ یہودی ،ارضِ فلسطین سے اُس کے حقیقی وارثوں کے بے دخل کر کے ہی دم لیں گے۔‘‘ مگر سب ماہرین کے اندازے اور یروشلم پراسرائیل کے قبضے کا برس ہا برس پرانا خواب صرف اِس لیے بری طرح سے چکنا چور ہوگیا کہ اسرائیل کو ایک محاذ پر ہی نہیں بلکہ کئی دیگر محاذ پر بھی بدترین ہزیمت کا منہ دیکھنا پڑا۔
مثال کے طورپرجدید میزائل شکن نظام ’’آئرن ڈوم ‘‘کی موجودگی میں اسرائیلی شہروں پر میزائلوں کی برسات متشدد یہودیوں کے لیے ایک ایسا خوف ناک سرپرائز ثابت ہوا ،جس کی انہوں نے ہرگز کبھی توقع نہیں کی تھی ۔ وہ تو اپنی دانست میں یہ خیال کیے بیٹھے تھے کہ حماس کے پٹاخے جیسے خود ساختہ میزائل ڈوم ڈیفنس سسٹم کی موجودگی میں اُن کے گھر،بازار اور گلیوں تک پہنچنے کی سرے سے اہلیت ہی نہیں رکھتے ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ جس وقت حماس کے جانب سے داغے گئے میزائل اسرائیلی سرزمین سے مس ہوئے ہیں ۔ وہاں بسنے والے یہودی جو کہ بازاروں میں خریداری ،گلیوں میں ہلہ گلہ اور ہوٹلوں میں لذت کام و دہن میں انتہائی اطمینان اور سکون سے مصروف تھے ۔آناً فاناً افراتفریح میں ایسے اپنے اپنے گھروں کی جانب بھاگے ہیں، جیسے گیڈروں کا کوئی غول شیر کو اپنے سامنے دیکھ کر دُم دبا کر محفوظ پناہ گاہ کی طرف بھاگتا ہے ۔ مغربی میڈیا میں شائع ہونے والی بعض خبروں میں عینی شاہدین نے تصدیق کی ہے کہ’’حماس کے میزائل کا نشانہ بننے کے بعد تل ابیب میں قیامت صغری کا منظر تھا۔‘‘بظاہر حالیہ معرکہ میں فلسطینیوں کو بہت زیادہ جانی اور مالی صدمات برداشت کرنے پڑے اور جوابی حملوں میں حماس کے میزائل اسرائیل میں زیادہ جانی و مالی نقصان نہیں پہنچا سکے، لیکن ہر یہودی کے دل و دماغ میں خوف و ہراس ،اتنا پیدا کردیا کہ موت کو انہوں نے اپنی آنکھوں کے سامنے رقص کرتے ہوئے دیکھ لیا۔ دراصل یہودیوں کے بارے میں عام مشہور ہے کہ یہ دنیا میں بسنے والی اقوام میں سب سے زیادہ بزدل قوم ہے۔
حیران کن با ت یہ ہے کہ اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کے ساتھ روا رکھی جانے والی بربریت پر مغربی اور یورپی ممالک میں بھی اسرائیل مخالف زبردست احتجاجی مظاہرے دیکھنے میں آئے ۔کئی مغربی ممالک میں ہونے والے اسرائیل مخالف احتجاجی مظاہرے ،مسلمان ملکوں میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں سے بھی کئی گنا بڑے تھے۔ جبکہ سوشل میڈیا پربھی صارفین کی جانب سے اسرائیل کو بھرپور تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور ٹوئٹر پر اسٹینڈ ودھ غزہ جیسے ہیش ٹیگ دنیا بھر میں مسلسل ٹاپ ٹرینڈ کرتے رہے۔ اگرچہ فیس بک اور ٹوئٹر انتظامیہ کی جانب سے فلسطینیوں کے حق میں پوسٹیں اور ٹرینڈ چلانے والے صارفین کا بدترین ’’بلیک آؤٹ ‘‘ بھی کیا گیا اور لاکھوں فیس بک صارفین کی اکاؤنٹ اسرائیل مخالف پوسٹیں شائع کرنے کی پاداش میں معطل بھی کردیے گئے ۔ لیکن دوسری جانب دنیا بھر کے سوشل میڈیا صارفین نے فیس بک کے اس جانب دارانہ پالیسی کے خلاف اپنے سخت ردعمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے ، احتجاجاً فیس بک کا منظم انداز میں بائیکاٹ کیا ۔ جس کی وجہ سے تاریخ میں پہلی بار فیس بک اپلی کیشن کی ریٹنگ گوگل پلے اسٹور پر 6 درجے سے گر کر 2.5 درجے پرپہنچ گئی ۔ یاد رہے کہ ریٹنگ میںتاریخ کی بدترین گرواٹ آنے سے فیس بک انتظامیہ کو چند دنوں میں اشتہارات اور حصص کی مد میں زبردست مالی خسارہ کا سامنا کرنا پڑا۔
دوسری جانب سفارتی محاذ کا ذکر کیا جائے تو یہاں بھی پاکستان کی مؤثر ترین سفارت کاری نے اسرائیل کے سفارت کاروں کو مسلسل پریشان کیے رکھا ۔ گو کہ سلامتی کونسل میں اسرائیل کے خلاف پیش کی جانے والی قرار داد کو امریکا نے اپنی ویٹو پاور استعمال کرکے منظور ہونے سے روک لیا ۔لیکن پاکستان، چین ،ترکی ،ایران اور دیگر عرب ممالک کا اسرائیل کے خلاف سفارتی دباؤ اس قدر شدید تھا کہ بالآخر تنگ آکر امریکی حکام بھی اعلانیہ طور پر یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ ’’اسرائیل کی کارروائیوں کا دفاع کرنے کی امریکا کے لیے بھی ایک آخر ی حد موجود ہے۔جسے عبور کرنا اسرائیل اور امریکا کے لیے سخت ضرر کا باعث بن سکتاہے۔‘‘امریکا کی سفارتی پریشانی سے صاف عیاں ہے کہ اس بار سفارتی محاذ پر اس کے لیے اسرائیلی کارروائیاں کا دفاع کرنا سخت مشکل رہا ہے اور پہلی بار مغربی ممالک اسرائیل کی کارروائیاں کا دفاع کرتے ہوئے شدید پریشانی میں مبتلا نظر آرہے ہیں۔
قابل تحسین بات یہ ہے کہ فلسطینیوں کے حق میں ہونے والی عالمی سفارت کی قیادت پاکستان کے پاس رہی ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ معروف امریکی نیوز چینل سی این این نے مسئلہ فلسطین پر گفتگو کے لیے پاکستانی وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کو دعوت دی ۔ وگرنہ ترکی ،ایران ،انڈونیشیا وغیرہ جیسے بہت سے ممالک کے وزیر خارجہ اس مسئلہ پر سیر حاصل گفتگو کرنے کے لیے دستیاب تھے۔ اچھی با ت یہ ہے کہ شاہ محمود قریشی نے بھی ’’ڈیپ پاکٹس ‘‘ جسے آپ اُردو زبان میں ’’لفافہ صحافت‘‘ بھی کہہ سکتے ہیں کی اصطلاح کو عالمی ذرائع ابلاغ اور اسرائیل کے تعلقات کی تفہیم کے لیے استعمال کر کے ’’سفارتی بے باکی‘‘ کے باب میں ایک نئی تاریخ رقم کردی۔جبکہ ’’ڈیپ پاکٹس ‘‘ کی اصطلاح نے یہودیوں اور یہودی نواز میڈیا میں بھی صفِ ماتم بچھادی ہے ۔جس کی ایک جھلک پروگرام کی میزبان کی’’ بیاناگولو ڈریگا‘‘ کی بے ربط گفتگو اور چہرے کی اُڑی ہوئی ہوائیوں سے بخوبی لگایا جاسکتاہے ۔علاوہ ازیں اسرائیل کے خلاف کہے جانے والے ’’ڈیپ پاکٹس ‘‘ کے ایک جملہ نے متشدد یہودیوں کو صحیح معنوں میں زبردستی جلتے توے پر بٹھا دیا ہے۔
دراصل دنیا بھر میں چین کے مقابلے میں امریکا کے روز بروز کمزور ہونے سے اسرائیل کی سفارتی ساکھ میں شدید ضعف واقع ہوا ہے۔کیونکہ اسرائیل کے بعد سب سے زیادہ یہودی جس ملک میں بستے ہیں ،اُس سرزمین کا نام امریکا ہی ہے۔نیز امریکامیں بیٹھے ہوئے یہودی ہی اسرائیلی مفادات کا تحفظ یقینی بناتے ہیں۔ اس لیے اکثر تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ ’’ ناجائز اسرائیلی ریاست کا تمام تر استحکام امریکی من مانیوں کی ہی مرہونِ منت ہے اور جس دن امریکا کے عالمگیر اقتدار کا سورج غروب ہوگا۔وہی ساعت اسرائیل کے لیے ’’یوم ِ قیامت ‘‘ثابت ہوگی۔علاوہ ازیں اسرائیل کو شکست فاش دینے کا سب سے مستحسن ’’طریقہ جنگ ‘‘ وہی ہے ۔جو اَب کی بار پاکستان ، ترکی ،ایران، سعودی عرب اور انڈونیشیا نے باہم مل کر چین اور روس کی سفارتی امداد سے اسرائیل کے خلاف اختیار کیا تھا ۔ اِس ’’طریقہ جنگ ‘‘ کو حماس کی عسکری و مالی امداد میں اضافہ کرکے اسرائیل کے خلاف مزید موثر بھی بنایا جاسکتاہے۔
خونِ شہیدانِ فلسطین سے عیاں ہے
اسرائیل مورچہ جیتا ہے ، جنگ ہارا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔