... loading ...
(مہمان کالم)
نینا برلے
بیسویں صدی کے اوائل میں یہ عام سی بات تھی کہ بچوں کو خود یا اپنے کسی فیملی ممبر کو متعدی امراض کی اذیت برداشت کرتے دیکھنا پڑتا تھا۔بچے شدید بیمار پڑ جاتے اور گھروں میں ہی دم توڑ دیتے۔ہمارے باپ داد ا یا ان کے والدین ان لوگوں میں سے تھے جو ان بیماریوں سے بچ نکلے مگر وہ اپنے بہن بھائیوں یا اپنے مرتے ہوئے بچوں کے یہ مناظر دیکھ اور ان کی دلدوزچیخیں ضرور سن چکے تھے۔اللہ کا شکرہے کہ ایسے اندوہناک مناظر اب ماضی کا حصہ بن چکے ہیں۔بیسویں صدی کے وسط کے بعد پیدا ہونے والی نسل ویکسین والی نسل کہلاتی ہے۔شاید وہ نہیں جانتی کی خناق کیا ہوتا ہے یا یہ کہ ویکسین کی ایجاد سے پہلے یہ بچپن میں موت کا سبب بننے والی سب سے خطرناک بیماری تھی۔یہ نسل تویہ بھی نہیں جانتی کہ والدین کس طرح بے بسی سے اپنے بچوں کو محض کھانسی کی وجہ سے موت کے منہ میں جاتے ہوئے دیکھتے تھے۔
مجھے ا س بات کا احساس کووڈ کے بارے میں اپنی کتاب لکھتے ہوئے ہوا۔جب میں نے کوو ڈپر امریکی رد عمل سے آگاہی کے لیے سیاست اور سائنس کا مطالعہ کیا تو مجھے یہ جاننے میں دلچسپی پید اہوگئی کہ ایک ملک کس طرح یہ بات فرامو ش کر بیٹھا کہ اسے کوو ڈسے کس قدر خطرہ ہے یا کس طرح وہ اس و یکسین کے بارے میں شک و شبے میں پڑ گیا جس نے ان گنت زندگیاں بچائی ہیں۔
مارچ کے آخر میں جب امریکا ایک نئی mRNAویکسین کی ایجاد کا جشن منا رہا تھاجو ہمارے خلیوں کوبتاتی ہے کہ وائرس کے خلاف مزاحمت پیدا کرنے والی پروٹین کس طرح پیدا کر نی ہے توہر چا رمیں سے ایک امریکی کا کہنا تھا کہ وہ کووڈ سے بچائو کے لیے ویکسین نہیں لگوائے گا۔بیسویں صدی میں ویکسین کی تیاری کی تاریخ میڈیکل سائنس کے نشیب وفراز سے بھری پڑی ہے جس میں بد اعتمادی بھی ہے اور ویکسین استعمال کے نتیجے میں ہونے والے سنگین واقعات اور ناکامیوں سے جنم لینے والی سازشی تھیوریز بھی ہیں۔نئی ویکسین کے ساتھ ہمیشہ رسک اور سائیڈ ایفیکٹس کی رپورٹس بھی جڑی ہوتی ہیں جن میں کئی خوفناک واقعات بھی شامل ہوتے ہیں کم از کم یہ کہا نیاں تو اکثر سننے کو ملتی ہیں کہ کس طرح ایک ایسی ویکسین لگانے سے سینکڑوں لوگ بیما ر پڑ گئے جو ان کے تحفظ کے لیے لگائی گئی تھی۔آج بھی ان بیماریوں کے خاتمے کے لیے ویکسین استعمال ہو رہی ہے جنہوں نے وبائی صورت میں امریکا میں تباہی مچا رکھی تھی۔آج کل امریکی بچوں کو ہیپاٹائٹس بی ‘خسرہ ‘خناق اور ٹیٹنس سمیت پندرہ قسم کی ویکسینز لگائی جاتی ہیں۔ 1900ء میں امریکا میں مردوں کی اوسط عمر 46اور عورتوں کی 48سال تھی۔2019ء میں امریکا میں پیدا ہونے والے بچے اوسطاً79سال تک زندہ رہنے کی امید رکھ سکتے ہیں۔
اس کامیابی کی وجہ سے آج انسانی آبادی تاریخ کی محفوظ ترین سطح پر زندگی گزار رہی ہے۔اسی تحفظ نے ہمیں مطمئن اور خطرات سے بے پروا کررکھاہے۔اگرچہ چالیس فیصد امریکی شہری موٹاپے کا شکار ہیں اور اکثریت موٹاپے سے متعلقہ بیماریوں میں مبتلا ہے یا نوزائیدگی میں شرح اموات جو کئی عشروں سے گر رہی تھی آج کئی ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں اوپر جا رہی ہے۔2009ء میں ریٹائرڈ امریکی فوجی افسروں کا خیال تھا کہ آدھے سے زیادہ امریکی نوجوان اس وجہ سے امریکی فوج میں نہیں جا سکتے کیونکہ ان کا وزن زیادہ ہے یا وہ کئی طرح کے صحت کے مسائل سے دوچار ہیں۔اوسط عمر میں مسلسل اضافے کے بعد حالیہ برسوں میں گراوٹ نظر آرہی ہے مگر2020ء کے موسم سرما میں جب کووڈ ہوائی او ر بحری جہازوں کے ذریعے چین سے امریکا ‘کیلی فورنیا اور بیرونی دنیا کو منتقل ہو رہا تھا تو اس وقت امریکا اس قدر مطمئن بیٹھا تھا کہ بہت سے ماہرین یہ سمجھ رہے تھے کہ امریکا کووڈ سے پاک ہو چکا ہے۔طرفہ تماشا یہ ہو ا کہ عین اسی وقت امریکی سماج کا ایک طبقہ سائنس اور ماہرین کی مخالفت پر اترا ہو ا تھا۔ دہائیوں سے کئی صنعتیں اور ان کے سیاسی حاشیہ بردار زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کے لیے کئی سائنسی حقائق کا انکار کر رہے تھے۔ مثلاًشوگر انڈسٹری کی موٹاپے کے حوالے سے جنگ جاری تھی ‘اسی طرح تمباکو انڈسٹری سموکنگ اور ماحولیاتی تبدیلی کو لاحق خطرات سے انکار کر رہی ہے۔
سازشی تھیوریزاور 2016ء کے الیکشن اور بعدکے سالوں میں الیکشن کے بارے میں جھوٹی خبروں کے پھیلائو کے الزامات نے ماہرین پر بے اعتمادی کو فروغ دیا۔’’امریکا کو دوبارہ عظیم بنائو‘‘ کے نعرے کا مفہوم یہ تھا کہ جو کچھ ہمارے باپ دادا کے لیے مفید تھا وہ ہمارے لیے بھی مفید ہے۔اس گروپ میں پرانی کامن سینس اور بڑھتی ہوئی نفرت اور تلخی نے پی ایچ ڈیزسے وابستہ احترام کی جگہ لے لی۔ میں سمجھتی ہوں کہ ویکسین لگانے سے گریز کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی جسے میں سرد جنگ کی بْری سائنس کہتی ہوں۔کھلے عام ایٹمی دھماکوں اور سی آئی اے کی طرف سے بے خبر افرادکے ذہنوں کو کنٹرول کرنے جیسے تجربات‘ نیواڈا کے صحرا میں خفیہ کارروائیوں اور میری لینڈ میں ایک فوجی اڈے پر خفیہ کیمیکل ہتھیاروں کی تیاریاں ‘یہ سب کچھ ہمیں یہ سمجھانے کے لیے کافی ہیں کہ امریکی عوام کی ایک بڑی تعداد سازشی تھیوریز اور حکام کی جانب سے بتائی گئی سٹوریز پر عدم اعتماد کیوں کرتی ہے۔
اب ہم اس متعدی بیماری کی بات کرتے ہیں جس نے نیو یارک سے ریو ڈی جنیرو تک اور لندن سے ممبئی تک پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔سائنس نے ہمیں جن باتوں کوفرامو ش کرنے کے قابل بنایا تھاکووڈ کی اذیت نے ہمیں انہی باتوں پر کمپرومائز کرنے پر مجبو رکر دیا ہے۔اس نے ہمیں اس حد تک پہنچا دیا ہے کہ آج دنیا بھر میں 163ملین شہری کووڈ سے بیمار ہیں اور 33لاکھ سے زائد انسان موت کے منہ میں جا چکے ہیں۔عین اسی وقت ہمیں ایک یادگار کامیابی بھی ملی کہ ہم انتہائی کم عرصے میں ویکسین کو تیار کرکے پوری دنیا میں پہنچانے کے قابل ہوگئے جس نے امریکا کے ساتھ ساتھ پوری دنیامیں کروڑوں انسانی زندگیاں بچائیں جس کے نتیجے میں آج ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ امریکا میں زندگی ایک مرتبہ پھر پرانی ڈگر پر چلنا شروع ہوگئی ہے۔میں اس حوالے سے بہت پرامید ہوں کہ ویکسین کی تیاری کے مشترکہ تجربے میں سے گزرکر ہما را اس کرشمے پر یقین اور اعتماد مزید بڑھ گیا جو میڈیکل سائنس کا مرہون منت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔