وجود

... loading ...

وجود

افرا۔تفریح۔۔

بدھ 26 مئی 2021 افرا۔تفریح۔۔

دوستو، افراتفری میں جو بھی کام کیا جائے ،وہ ’’افرا۔تفریح‘‘ بن جاتا ہے۔۔ یہ کالم بھی یوں سمجھ لیں کہ افراتفری میں لکھاجارہا ہے۔۔ کالم نگاروں کو اپنے اپنے کالم بھیجنے کے لیے ایک مخصوص ڈیڈلائن دی جاتی ہے، جس کے مطابق اگر کالم نویس نے دیئے گئے وقت تک کالم نہ بھیجا تو وہ شامل اشاعت نہیں کیا جاتا۔۔ اخبارات کی اپنی الگ دنیا ہوتی ہے۔۔ ہر کام اپنے ٹائم پر کیا جاتا ہے۔۔ اخبار جب پریس بھیجنا ہوتا ہے تو کسی کا انتظار نہیں کیا جاتا۔کوئی جتنا بڑا کالم نویس ہو،اسے ڈراپ کردیا جاتا ہے۔۔ ہمیں اپنے کالم کی ڈیڈلائن سے آدھا گھنٹا پہلے یاد آیا کہ آج کالم بھیجنا تھا،چنانچہ پھر افراتفری میں یہ ’’افرا۔تفریح‘‘ وجود میں آگئی۔۔ اوٹ پٹانگ باتیں حسب روایت پیش خدمت ہیں۔۔
ایک شاعر کسی مشاعرے میں بہت بور کررہا تھا، نوجوانوں نے تو باقاعدہ ہوٹنگ شروع کردی، لیکن شاعر کو احساس نہیں ہوا کہ اسے ہوٹ کیا جارہا، وہ یہ سمجھتا رہا کہ لوگ اس کے شعروں پر داد دے رہے ہیں، شاعر اور فنکار داد کا بھوکا ہوتا ہے۔۔ بس وہ ایک کے بعد دوسری غزل اپنی ڈائری کھول کر سناتے رہے۔۔ اچانک انہیں کچھ یاد آیاتو مائیک پر کہنے لگے کہ ۔۔ میں نے جب پہلی دفعہ نعت لکھی تو سرکار نے مجھے مدینے بلا لیا۔۔میں نے دوسری نعت لکھی سرکار نے دوسری دفعہ مدینے بلا لیا ۔۔۔تیسری نعت لکھی سرکار نے تیسری دفعہ مدینے بلا لیا۔۔حاضرین میں سے ایک نوجوان کھڑا ہوا اور برجستہ کہا۔۔ جناب کبھی حمد بھی ’’ٹرائی کرکے دیکھیں۔۔کل ہم چکن لینے بازار گئے تو پانچ سو اسی روپے کلو میں مرغی کا گوشت فروخت ہورہا تھا، یقین کریں شدت سے احساس ہوا کہ ۔۔میرا کپتان چیختا رہا،مرغیاں پال لو، مرغیاں پال لو۔۔ اگلے کی بات کا پوری قوم نے ڈٹ کر مذاق اڑایا تھا۔۔اب پچھتاوے کیا ہوت جب چڑیاچک گئیں کھیت۔۔ہمیں تو وہ وقت بھی بہت شدت سے یاد آتا ہے کہ جب پہلے فیل ہونے پر گھر والے شادی کر دیتے تھے۔۔اب حکومت بغیر امتحانات کے پاس کر رہی ہے۔۔اب جان بوجھ کر فیل ہونے والے کنواروں کا کیا بنے گا؟؟
ہمارے ایک دوست اکثر ہمیں جب بھی فون کرتے ہیں تو لازمی ایک طعنہ یہ دیتے ہیں کہ۔۔زندہ ہوں تو بات کر لیا کرو،مرنے کے بعد میں نے بات کرنا شروع کی تو تعویذ ڈھونڈتے پھرو گے۔۔اب یہ اور بات کہ وہ خود عیدین پر ہی فون کرتے ہیں اور پھر حسب روایت یہ طعنہ بھی مارتے ہیں۔۔باباجی فرماتے ہیں کہ ۔۔آپ کا کردار ہی آپ کو مرد بناتا ہے،باقی مونچھیں تو چوہے، بلی کی بھی ہوتی ہیں۔۔باباجی کی بات پر جتنا غور کریں گے آپ کا ’’ہاسا‘‘ بھی نکلے گا اور آپ کو ان کی باتیں سوچنے پر مجبور کردیں گی کہ۔۔یارباباجی نے کہاتو سچ ہی ہے۔۔ اور یہ بات بھی سوفیصد سچائی پر مبنی ہے کہ ۔۔پاکستان میں ایڈریس شروع کہیں سے بھی ہو، ختم ایک ہی جگہ پہ ہوتا ہے کہ ۔۔ وہاں جاکے کسی سے بھی پوچھ لینا۔۔!!!ایک دن ہم باباجی کے گھر ان کے ڈرائنگ روم میں بیٹھے تھے، محفل چل رہی تھی، ساتھ میں اشرف المشروبات، معظم الشربتات، امیر المٹھاسیات، یکساں فی السردیات والگرمیات والدھوپیات والبرسات۔۔’’چائے ‘‘ کے کپوں سے سوندھی سوندھی خوشبوئیں فضاؤں میں بکھر رہی تھیں۔۔ اچانک ہم نے باباجی سے سوال کردیا۔۔یہ تڑپ کسے کہتے ہیں؟؟۔۔باباجی نے ہمیں غور سے دیکھا۔۔اپنی نشست سے اٹھے۔۔کمرے کے کونے کی طرف بڑھے اور وائی فائی کا پاس ورڈ تبدیل کردیا،پھر ہماری طرف مڑے اور بولے۔۔پتر اب محسوس کر۔۔
ان دنوں اسرائیل ،فلسطین ایشو چل رہا ہے۔۔سوشل میڈیا پر ہر دوسرا بندہ جس کو اسرائیل کا راستہ تک معلوم نہیں نہ وہ کبھی اپنے محلے سے باہر نکلا ہے،اسرائیل پر حملے کے لیے پاک فوج کو برا کہہ رہا ہے۔۔ یہ وہ لوگ ہیں جو فرانس میں کی گئی گستاخیوں کی سزا پاکستان کے عوام (مسلمانوں) کو دیتے ہیں۔۔۔چلو اس پر نظر ڈالتے ہیں کہ اسرائیل پر حملہ کرنا ہے تو کیسے۔؟؟زمینی حقائق سامنے رکھ کر بات کرتے ہیں۔۔ پاکستان سے اسرائیل جانے کا راستہ پتا ہے آپ کو؟؟۔۔شرطیہ کہتے ہیں کہ نہیں پتہ ہوگا آپ کو۔۔اسرائیل تک پہنچنے کے چار ممکنہ راستے ہیں۔۔پہلا راستہ زمینی ہے۔ اس تیز رفتار ترین راستے میں ایران، عراق اور اردن آتے ہیں۔۔ اب آپ بتائیں کہ کون سا ملک آپ کو اپنی فوجیں گزارنے دے گا وہ بھی اسرائیل سے لڑنے کے لیے۔؟؟تو کیا ہم ان مسلمان ممالک سے بھی لڑنا شروع کر دیں؟؟۔۔دوسرا نزدیک ترین راستہ خلیج تک بحری سفر اور پھر سعودیہ سے ہوتے ہوئے اردن اور پھر اسرائیل۔۔یہاں بھی سعودی عرب اور اردن سے گزر کر جانا پڑے گا۔۔ جو ممکن نہیں۔۔تیسرا ممکنہ راستہ بحیرہ مردار سے ہوتے ہوئے اسرائیل کے شہر علت تک جاتا ہے۔۔ اس راستہ میں عمان، یمن، مصر، سعودی عرب اور دیگر مسلمان ممالک کی بحری سرحدوں سے گزرنا پڑتا ہے جو کہ ایک بار پھر ممکن نہیں۔۔۔چوتھا اور آخری راستہ سب سے لمبا اور سب سے آسان ہے جو کہ پورے خلیج سے گزر کر، براعظم افریقہ کے گرد گھوم کر، ہسپانیہ (جبل الطارق) کے پاس سے گزر کر پورے یورپ کے دل بحر اوقیانوس میں سے ہوتے ہوئے اسرائیل تک پہنچا جا سکتا ہے جو کہ کسی بھی لحاظ سے ممکن نہیں۔۔تو ایک آپشن اور بھی ہے کہ فضائی حملہ کیا جائے۔۔۔یہاں بھی بات ان لوگوں کی آ جاتی ہے جنہوں نے کبھی ایک پٹاخہ تک نہیں پھوڑا، اور کوئی لڑاکا طیارہ دور سے بھی نہیں دیکھا ہوتا لیکن سوشل میڈیا پر مشورے سنو تو لگتا ہے کہ ایروناٹیکل انجینئرنگ کے پوزیشن ہولڈر ہوں۔ جناب ہمارے جہازوں کی حد پرواز (اضافی ایندھن والے ٹینک لگا کر) اسرائیل تک پہنچنے کی ضرور ہے مگر وہاں پہنچنے پر ایندھن ختم ہو جائے گا تو اس کے بعد کیا ہوگا۔۔؟؟اور درمیان میں واقع کون سا ایسا اسلامی ملک ہے جو ہمیں طیارے اتارنے اور ایندھن بھرنے کی اجازت دے گا اور وہ بھی اسرائیل کے خلاف۔۔؟؟یاد رکھیں کہ درمیان میں وہ سارے ممالک واقع ہیں جہاں سے فرانس میں کی گئی گستاخی کے خلاف کوئی آواز تک نہیں ابھری۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔ ایک شخص کی موت طوائف کے کوٹھے پر ہوئی، دوسرے کی مسجد میں۔۔ آپ سے پوچھا جائے تو ان میں سے کون جنت میں جائے گا تو آپ کا فوری جواب ہوگا کہ جو مسجد میں مرا۔۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ پہلا وہاں اس لیے داخل ہوا کہ ان کو نصیحت کر سکے۔ اور دوسرا مسجد میں اس لیے داخل ہوا کہ جوتا چرا سکے۔اس لیے نہ تو ہم اور نہ ہی آپ فیصلہ کر سکتے ہیں کہ کون جنتی ہے اور کون جہنم میں جائے گا۔۔ لوگوں کے بارے میں ان کے ظاہر کو دیکھ کر فیصلہ نہ کریں۔کیونکہ دِلوں کے تمام رازوں کوصرف اللہ تعالیٰ جانتے ہے۔ ۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
دہلی اسمبلی انتخاب:انڈیا'اتحاد کی پہلی آزمائش وجود هفته 18 جنوری 2025
دہلی اسمبلی انتخاب:انڈیا'اتحاد کی پہلی آزمائش

جاگو،جاگو سحرہوئی! وجود هفته 18 جنوری 2025
جاگو،جاگو سحرہوئی!

گرین لینڈ:عالمی طاقتوں کی ریشہ دوانیوں کا اگلا میدان وجود هفته 18 جنوری 2025
گرین لینڈ:عالمی طاقتوں کی ریشہ دوانیوں کا اگلا میدان

ترقی کا پیمانہ وجود جمعه 17 جنوری 2025
ترقی کا پیمانہ

طالبان اور خطے کے ممالک: ایک نئی تزویراتی حقیقت وجود جمعه 17 جنوری 2025
طالبان اور خطے کے ممالک: ایک نئی تزویراتی حقیقت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر