وجود

... loading ...

وجود

کیاوبائوں سے مقابلہ ممکن ہے؟

هفته 22 مئی 2021 کیاوبائوں سے مقابلہ ممکن ہے؟

جب سے کورونا وائرس کا عذاب آیاہے اس سے پوری دنیا متاثرہوئی ہے حالات کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ کورونا وائرس نے اس سال مسلمانوں کی ایک بنیادی عبادت حج کے انعقاد پر سوالیہ نشان کھڑا کر دیا ہے۔ سعودی حکومت نے مسلم ممالک سے کہا ہے کہ کورونا وائرس کی تیزی سے پھیلتی وبا کے پیش نظر ادائیگی حج کے لیے معاہدوں سے فی الحال گریز کرے۔ تاریخی طور پر ماضی میں بھی حج کے انعقاد میں رکاوٹیں کھڑی ہوتی رہی ہیں۔ تاریخی حوالوں سے پتہ چلتا ہے کہ کئی بار بیماریاں پھیلنے، مکہ مکرمہ پر چڑھائی اور عازمین حج پر رہزنوں کے حملوں کے باعث حج متاثر ہوتا رہا ہے۔ 1000 ھ میں حج بڑھتے ہوئے سفری اخراجات اور دوسرے مسائل کی وجہ سے نہ منعقد ہو سکا۔ تاریخ سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ 1831 میں انڈیا کی طاعون کی وبا ء پھیلنے سے دو تہائی عازمین حج جاں بحق ہو گئے جن کی تعداد ہزاروں میں بتائی جاتی ہے جس کے باعث حج کی ادائیگی متاثر ہوئی چونکہ ان دنوں بہتر سفری سہولیات نہ ہونے کے برابر تھیں زیادہ ترلوگ بحری جہازوںکے ذریعے حج کا فریضہ انجام دیاکرتے تھے بیشتر مذہبی ا سکالرز اور علماء اس حدیث کا بھی حوالہ دیتے ہیں جس کا مفہوم ہے کہ اگر کسی علاقے میں طاعون کی وبا ء پھیلے تو وہاں مسلمانوں کو جانے سے گریز کرنا چاہیے اور چونکہ اس سال کورونا وائرس کی وباء پوری دنیا میں پھیلی ہوئی ہے سعودی عرب میں ان دنوں رات کا کرفیو نافذ ہے ،اس کے تناظر میں فی الحال سعودی حکومت فیصلہ نہیں کرپارہی کہ اس سال حج کا فریضہ انجام دیا جائے یا نہیں کیونکہ اس علاقے میں یہ وباء پھیلی ہے وہاں سے دوسرے علاقوں میں مسلمان کو سفر نہیں کرنا چاہیے۔ سعودی عرب میں کووڈ 19 وائرس سے 119 افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔ سعودی حکومت نے بیت اللہ شریف میں عبادت اور طواف کو محدود بھی کیا ہے۔ یہ فیصلہ کورونا وائرس کی وجہ سے ہوا ہے۔ سعودی عرب میں کورونا وائرس کے کیس بڑھتے جا رہے ہیں۔ توقع کی جا رہی ہے کہ اللہ رب العزت کے کرم سے حج کے ایام سے کہیں پہلے یہ وبا ء ختم ہو جائے گی اور حج کا انعقاد ممکن ہو گا لیکن اس کے انعقاد پر ابھی تک سوالیہ نشان موجود ہے ۔
اس صدی کے سب سے خوفناک عذاب کے نتیجہ میں دنیا بھر میں نوول کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد 12لاکھ کے قریب اور ہلاکتیں65,000 1,سے زائد ہوگئی ہیں اس وقت امریکا دنیا میں سب سے زیادہ مریضوں والا ملک بن گیا جہاں ہلاکتیں 40ہزار سے تجاوز کرگئیں ،اٹلی اور اسپین میں متاثرہ افراد کی تعداد ایک ایک لاکھ سے تجاوزکرچکی ہے، جاپان کے شہری علاقوں میں کیس بڑھنے لگے دنیا بھر میں سب سے زیادہ مریض امریکا میں ہیں، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے خبردار کیا کہ اگلے 2ہفتے بہت دردناک ہیں ،امریکا کو اس حقیقت کی تیاری کرنے چاہیئے خدشہ ہے1لاکھ امریکی شہری نوول کوروناوائرس کی وجہ سے ہلاک ہوجائیں گے۔ ۔ تاریخی اعتبار سے یہ وبائیں دنیا میں پہلی بار نہیں آئیں گزشتہ 50 برسوں میں کئی انفیکشن ارتقا ء پا کر جانوروں سے انسانوں تک تیزی سے پھیلے ہیں۔ ہر انفیکشن کی علامات مختلف ہوتی ہیں انسان ہمیشہ سے ہی جانوروں کی وجہ سے بیمار پڑتے رہے ہیں۔ درحقیقت زیادہ تر نئے انفیکشن جنگلی حیات سے ہی آتے ہیں۔ حال ہی میں یہ پایا گیا کہ سانس کی شدید تکلیف پیدا کرنے والا وائرس سارس مْشک بلاؤ کے ذریعے چمگادڑوں سے انسانوں تک آیا جبکہ چمگادڑوں نے ہی ہمیں ایبولا وائرس دیا اس بیماری کی علامات میںسانس لینے میں دشواری ہے جس سے انسان کے پھیپھڑے شدید متاثرہوتے ہیں مریض احتیاطی تدابیرسے صحتیاب ہوجاتاہے ایک اور وائرس جس کا نام زیکاہے جس میں بیماری کی علامات میں جوڑوں کا درد اور جلد دار خارش شامل ہیں اس میں مریض تیزی سے صحت یاب ہوسکتاہے کیونکہ انفیکشن کے بعد مرنے کے امکانات صرف 20% ہیں بروقت علاج سے مرض پرقابوپایاجاسکتاہے اس خطرناک وائرس جس کا نام ایبولاہے اسے دہشت کی علامت بھی کہاجاسکتاہے اس میںکمزوری اور بخاربیماری کی نمایاں علامات ہیں ،یہ کورونا سے بھی خطرناک وائرس ہے جس میں موت کا امکان 90 % ہے ۔
ایک اور وائرس جسے ماہرین نے ماربرگ بخار کا نام دیاہے اس میں بیماری کی علامات ہاضمہ اور معدہ کی پریشانیوں کے سبب 10 دن بعد موت واقع ہوجاتی ہے کیونکہ انفیکشن کے بعد مرنے کا امکان : 88 % ہے۔ بیماری کی علامات : ذہنی الجھنوں کے بعد نفسیاتی طورپر انسان کی موت واقع ہوجاتی ہے نپاہ نامی وائرس کاانفیکشن ہونے کے بعد مرنے کے امکانات 75% بیان کئے جاتے ہیں اس وائرس سے انسان کااعصابی نظام بری طرح متاثرہوجانے سے انسان ٹوٹ پھوٹ کر رہ جاتاہے۔ایک اور وائرس جسے کریمین کانگو بخار کانام دیاگیاہے اس کی بیماری کی علامات میں منہ اور ناک سے ٹکراؤ اور خون کااخراج تیزی سے ہوتاہے اس انفیکشن کے بعد مرنے کے امکانات : 40% ہیںڈاکٹروںنے ایسے مریضوںکو بلڈپریشر نارمل رکھنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ایک اور بیماری انفلوئنزا ہے یہ بڑی عام سی بیماری ہے عموماً موسم کی تبدیلی کے باعث ہرسال محدود مدت کے لیے آتی ہے یہ بھی وائرس کے نتیجہ میں پھیلتی ہے انسانوں کے علاوہ بندر واحدجانور ہے جسے نزلہ،زکام ہوتا ہے اس مرض میں ،چھینکیں، جلن اور گلے میں سوزش ہوتی ہے اس سے مرنے والوںکی تعداد%13 ہے لیکن بوڑھے، بیمار اور لاپرواہ اس عالمی وباء کوروناوائرس سے شدید متاثرہوتے ہیں ان میں قوتِ مدافعت نہ ہونے کے سبب موت کے بہت چانسزہیں کیونکہ اس بیماری کی علامات میں سانس کی نالی میں انفیکشن،شدید بخار اور نمونیہ ہوجاتاہے یہ خطرناک اس لیے ہے کہ یہ چھوت کی بیماری ہے بڑی آسانی سے ایک سے دوسرے شخص میں منتقل ہوجاتی ہے یہ قابل ِ علاج ہے احتیاطی تدابیراختیارکرکے اس سے چھٹکارا ممکن ہے اس وائرس میں انفیکشن کے بعد صحت مندافراد کے مرنے کے امکانات صرف 3% ہیں لیکن بچوں،بوڑھوں اور بیماروں پر یہ حملہ آورہوجائے تو ان کی جان بھی جا سکتی ہے کیونکہ کورونا وائرس سے مرنے کی بڑی وجہ انسان کا خوف زدہ ہونا ہے۔ اور دوسری وجہ ایلوپیتھک میڈیسن سے علاج ہے کیونکہ ایمیونٹی کے کم ہوتے ہی بیماری جسم پر حاوی ہو جاتی ہے اگر ایمیونٹی یعنی قوت مدافعت طاقتور ہے تو انسان پر کوئی بھی بیماری حملہ آور نہیں ہو سکتی اور اگر قوت مدافعت بڑھانی ہے تو فروٹ اور کچی سبزیاں کھائیں اور کوکونٹ کا پانی پئیں اور کولڈ ڈرنک، فاسٹ فوڈ ،جنک فوڈ پراسیس، فوڈ پیکڈ فوڈ اور سگریٹ بالکل چھوڑ دیں اگر صحت مند انسان بھی خوف زدہ ہو جائے تو وہ مر جائے گا جیسا کہ پرانا مقولہ ہے کہ ڈر موت کا بھائی ہے۔ اس مرض کا واحد علاج احتیاط ہے چونکہ اس نے عالمی وباء کی شکل ا ختیارکرلی ہے اس لیے زیادہ خوفناک ہوگئی ہے ویسے بھی مشہورمقولہ ہے احتیاط علاج سے بہترہے ہم سب کو احتیاط کی ضرورت ہے دوسروںکے ساتھ ہاتھ ملانے،گلے لگانے سے گریزکیاجائے،ہجوم والے مقامات پرجانے سے پرہیزکریں،ماسک کااستعمال کریں،وقتاً فوقتاً 20-20 سکینڈ اچھے طرح ہاتھ دھونے سے وائرس سے بچاجاسکتاہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر