... loading ...
کھال اور مال بچانے کی حکمتِ عملی صرف سیاستدانوں تک ہی محدودنہیں ہر شعبے کی اولیں ترجیح رہی ہے نظامِ انصاف پر بات کرتے ہوئے توہینِ عدالت لگنے کا خطرہ رہتا ہے تادیبی کاروائی کے خدشات کی بنا پر فوج اور پولیس کے خلاف بات کرتے ہوئے احتیاط کی جاتی ہے کسی بااختیار بابو کے خلاف لب کشائی سے بھی نقصان کا دھڑکا رہتا ہے اسی لے سیاستدانوں کو آسان ہدف جان کر تنقید وتبصرے کیے جاتے ہیں مگرتمام برائیاں اور خامیاں سیاستدانوں کے کھاتے میں شمار کرنا دانشمندی نہیں چاہے جو بھی شعبہ ہو انسان کو انسا ن ہی کہنااور سمجھنا بہتر ہے کسی کوڈر سے فرشتہ کہنا یا ثابت کرناغلط ہے ایساطرزِ عمل شخصیت پرستی کے زمرے میں آتا ہے حق گوئی نہیں کہہ سکتے یہ نہیں کہتے کہ تمام سیاستدان اچھے ہیں بلکہ دیگر شعبوں کی طرح سیاسی اکھاڑے میں شریک بہت سے لوگ ابن الوقت اور مفاد پرست بھی ہیں کہنے کا مقصد یہ ہے کہ دیگر شعبوں میں فرشتے نہیں وہ بھی انسان ہیں اُن میں بھی خامیاں وکوتاہیاں ہو سکتی ہیں ممکن ہے اُن میںبھی کچھ کھال اور مال بچانے کی حکمتِ عملی پر عمل پیرا ہوں ۔
جہانگیر ترین دھڑاخود کوہم خیال گروپ کہے یا تحریکِ انصاف نظریاتی کہلوائے سچ یہی ہے کہ کھال اور مال بچانے کی جدوجہد ہے حرص وہوس کی جنگ ہے حاکمِ وقت سے انھی کی جماعت کے کافی لوگ خفا ہیں اور حکومتی جماعت سے الگ نشستوں کے خواہاں ہیں مقصد دبائو ڈال کر کھال اور مال بچانے کی منزل حاصل کرنا ہے خفالوگ کامران ہوتے ہیں یا ناکامی مقدر بنتی ہے یہ تو وقت بتائے گا لیکن اِس میں شائبہ نہیں کہ حکمران جماعت شکست وریخت سے دوچار ہے جوں جوں الیکشن کی منزل قریب آرہی ہے خفا لوگوں کے بین بلند ہو رہے ہیں یہ لوگ جہانگیرترین کا کندھاملنے کو نعمت سمجھتے ہوئے اکٹھے ہوگئے ہیں لیکن یہ تصور کر لینا کہ حکومتی جماعت میں صرف یہی لوگ غلط اور باقی سب متقی پرہیز گار ہیں ایسا ہر گز نہیں جس کا جہاں دائو چل رہا ہے وہ اخلاق و اصول یا ایمانداری کو خاطر میں نہیںلاتا اگر خاطر میں لاتے تو پیٹرول ،چینی،ادویات اور آٹے کے بحران جنم نہ لیتے بحرانوں کی وجہ بااختیارلوگوں کی ناتجربے کاری کے ساتھ ذاتی اثاثوں میں اضافے کا جنون ہے جن کے پاس اختیار نہیں یا آمدن کے زرائع محدود ہیں وہ آہ و بکا میں مصروف ہیں یہ لوگ اپنی جماعت یا جہانگیر ترین کسی سے مخلص نہیں سب کے اپنے اہداف ہیں یہ آمدہ الیکشن سے قبل انتخابی مُہم کے لیے بکثرت وسائل کے طلبگار ہیں اگر حکومت خفالوگوں کے کھال و مال پر اُنگلی نہیں اُٹھاتی تو یہ ہم خیال یا تحریکِ انصاف نظریاتی گروپ تحلیل ہونے میں لمحہ بھر کی تاخیر نہیں کرے گا۔
حکومتی جماعت میں دھڑوں کی بھرمارہے جن کی ترجیحات الگ اور ایک دوسرے کی ضد ہیں جہانگیر ترین گروپ نے عمران خان سے ملاقات کے دوران انصاف ہونے کی یقین دہانیاں حاصل کیں لیکن خدشات اور حقائق کاجائزہ لینے کے لیے علی ظفر کوسونپی گئی ذمہ داری کے بارے واقفانِ حال کا کہنا ہے کہ سینٹر علی ظفر نے چینی بحران سے فائدہ اُٹھانے کے حوالے سے لگنے والے الزامات کی تصدیق کردی ہے جس پر کاروائی آگے بڑھانے کا گرین سگنل دیا جا چکاہے اسی بنا پر ہم خیال یا تحریکِ انصاف نظریاتی الگ نشستوں کا مطالبہ کردیا ویسے تو تحریکِ انصاف سے ہم خیال گروپ انصاف کا طلب گار ہے لیکن تحریکِ انصاف کے کئی دھڑے اب جہانگیر ترین کو منطقی انجام تک پہنچانا چاہتے ہیں اسی سوچ کے تحت ملتان جلسے کے دوران عمران خان کی موجودگی میں شاہ محمود قریشی تنقید نے نشتر چلا ئے کیونکہ گروپوں کی نظریں عمران خان کے بعد پیداہونے والے خلا کو پُر کرنے پر ہیں یہ مقصد جہانگیر ترین کو سیاسی اکھاڑے سے باہر کیے بنا پورا نہیںہو سکتا لیکن بیٹے سمیت نااہل ہونے کے بعد ترین کی جدوجہد اب سیاسی منصب کی بجائے کھال اور مال بچانے تک محدود ہو چکی ہے تبھی بجٹ سے قبل فیصلوں کا اعلان کیا گیا ہے مالیاتی بل کی منظوری میں ناکامی اقتدار سے محرومی پر منتج ہو سکتی ہے اسی لیے دبائو بڑھایاگیا ہے لیکن رفقا سے نرم اور حریفوں سے سخت سلوک کوبحرحل انصاف نہیں کہہ سکتے۔
تحریکِ انصاف میں یہ کوئی پہلی ٹوٹ پھوٹ نہیں الیکشن کمیشن کے روبروفارن فنڈنگ کیس بھی اِس جماعت کے بانی رُکن نے دائر کر رکھا ہے جو ابھی معرضِ التوا میں ہے لیکن فیصلہ ہوتا ہے تو حکومتی جماعت میں ہیجانی اور انتشار کی کیفیت بڑھ سکتی ہے علاوہ ازیں کراچی پریس کلب کے باہراسی جماعت کے بانی اراکین کئی ماہ تک احتجاجی کیمپ لگاکرناخوشی ظاہر کر چکے ہیں چاہے کھال اور مال بچانے کی حکمتِ عملی کے تحت ہی سہی جہانگیر ترین گروپ کا معرض وجود میں آنا اچھنبے کی بات نہیں بلکہ فہمیدہ حلقے تو اقتدار کے تین برس گزرنے پر ششدر ہیں جس جماعت کا سربراہ اپنے سوا کسی کو اہمیت نہ دے اورمشاورت کی بجائے خوشامدیوں پر مشتمل ایک انجمن ستائشِ باہمی بنا کر خوش رہے وہ جماعت ذیادہ دیر متحد نہیں رہ سکتی جہانگیرترین کے اِردگرد جمع ہونے والے بے قدری اور تنگ دستی کا شکار ہیںاور جہانگیر ترین کی کھال اور مال بچانے کی جدوجہد میں شامل ہوکر قدر جتانے اور تنگ دستی سے نجات حاصل کرنے کے متمنی ہیں مگر جدوجہد میں میں شامل کب تک ثابت قدم اور جہانگیر ترین کے کب ہمرکاب رہتے ہیں یقین سے کچھ کہنا محال ہے کیونکہ اکثر کا وفاقی اورپنجاب حکومت سے رابط ہے ذرائع کے مطابق اگلے ماہ پیش ہونے والے بجٹ میں حکومتی جماعت کے اراکین کو آسودہ حال کرنے کے لیے ترقیاتی فنڈز بڑھاتے ہوئے ممبر قومی اسمبلی کو پچاس جبکہ ممبر صوبائی اسمبلی کو پچیس کروڑ کی ترقیاتی رقوم جاری کرنے کا منصوبہ ہے جس کے تحت ترقیاتی منصوبے جمع کرانے کا عمل جاری ہے اب تو سردار عثمان بزدار بھی دوروں کے دوران ترقیاتی پیکج کااعلان کر نے لگے ہیں اِس لیے گروپ میں ٹوٹ پھوٹ ہونے یا بکھرنے کاعمل انہونی نہیں ہو گا۔
اقتدار کی نصف مدت گزارنے کے باوجود تحریکِ انصاف سابق حکمران جماعتوں پی پی اور پی ایم ایل این کی اجارہ داری ختم نہیں کر سکی اور نہ ہی ملک میں بڑے پیمانے پر کسی قسم کی تبدیلی لا سکی ہے ملکی مسائل کم ہونے کی بجائے بڑھے ہیں معیشت کی صورتحال دگرگوں ہے چو ر اور ڈاکوحکمرانوں کی بہ نسبت دیانتداروں کے دورِ اقتدار میں نہ صرف فی کس آمدن میں کمی واقع ہوئی ہے بلکہ غربت کی لکیر سے نیچے جانے والوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہواہے جس سے حکمران جماعت کی مقبولیت متاثر ہوئی ہے اور اراکین ِ اسمبلی اپنے مستقبل کے حوالے سے بے یقینی کا شکار ہیں تمام تر بدنامیوں کے ساتھ الیکٹ ایبلزکو قبول کرنے کا نتیجہ ہے کہ احتساب کا عمل محض سیاسی انتقام محسوس ہوتا ہے حکومتی امور میں شفافیت کا فقدان عیاں حقیقت ہے لیکن وزیرِ اعظم کئی کئی گھنٹوں پر محیط خطاب سے مطمئن کرنے کی کوشش کرتے ہیں ظاہر ہے باتوں سے مسائل حل نہیں ہوتے عملی طور پر بھی کچھ کام کرنا پڑتا ہے رفقا اور حریفوں سے پوچھ تاچھ میں روا رکھی جانے والی تفریق کو غیر جانبدار احتساب نہیں کہا جا سکتا اِس تناظر میں جہانگیر ترین کی کھال اور مال بچانے کی مُہم کامیاب ہو سکتی ہے کیونکہ اُن کا گروپ اگر بجٹ کی منظوری کے دوران غیر حاضر رہتا ہے یا مخالفت کرتا ہے تو حکومت اکثریت سے محروم ہو جائے گی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔