... loading ...
(مہمان کالم)
جیفری گیٹل مین
اس ہفتے درجنوں لاشیں دریائے گنگا کے کنارے تیرتی ہوئی ملیں۔ غالب گمان یہی ہے کہ ان افراد کی موت کووڈ کی وجہ سے ہوئی تھی۔ بھارت کی جنوبی ریاستوں نے ایک دوسرے کو آکسیجن کی فراہمی بند کرنے کی دھمکی دی ہے۔ وہ اسے اپنی ضرورت کے لیے بچا کر رکھنا چاہتی ہیں کیونکہ ان کے ہسپتالوں میں کورونا مریضوں کی تعداد بڑھنے لگی ہے۔ آندھرا پردیش کے ایک ہسپتال میں ایک مریض کی آکسیجن اچانک بند ہو گئی تو اس کے مشتعل عزیزو اقارب نے آئی سی یو پر حملہ کرکے اسے روند ڈالا۔پچھلے ہفتے تک مایوسی کی جو لہر نئی دہلی میں پھیلی ہوئی تھی‘ اب پورے ملک میں پھیلنا شروع ہو گئی ہے۔ کم وسائل کی حامل ریاستیں اور دیہات اس سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ ان ریاستوں میں کووڈ پازیٹو کیسز کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد سے شاید ان علاقوں کی صحیح منظر کشی نہ ہو سکے جو بیماری اور اموات سے زیادہ متاثرہو ئے ہیں۔
ایسا لگتا ہے کہ بحران اب نئے دور میں داخل ہورہا ہے۔دلی اور ممبئی میں کیسز کم ہونا شروع ہو گئے ہیں مگر اب کئی دوسرے علاقوں میں کورونا کی وبا پھوٹ پڑی ہے۔ ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ بھارت میں ایک نئے ویرینٹ B.1.167 کا پتا چلا ہے جو ایک خطرے کی گھنٹی ہے۔ بھارتی میڈیا روزانہ رنج و الم کی نئی تصویر پیش کر رہا ہے۔ منگل کے دن لوگوں کی اپنے کسی عزیز کی موت پر سینہ کوبی کرتے ہوئے کی تصویر شائع ہوئی تھی۔ چھوٹی ریاستوں میں آکسیجن کی کمی کی وجہ سے اموات ایک تشویش ناک بات تھی۔ اگر نئی دہلی‘ جہاں بیسیوں ہسپتال ہیں‘ کووڈ کی اس نئی لہر کے بعد ہونے والی تباہی برداشت نہیں کر سکا تو چھوٹے اور دیہی علاقوں کا کیا حال ہو گا۔ اب اس سوال کا جواب مل رہا ہے۔سوموار کے روز آندھرا پردیش کے جنرل ہسپتال میں آکسیجن کی کمی ہو گئی‘ جس کے نتیجے میں 60 سے زائد مریضوں کی جان خطرے میں پڑ گئی تھی۔ ڈاکٹرز دیوانہ وار ان کے لیے آکسیجن کی دہائی دے رہے تھے مگر آکسیجن نہ مل سکی؛ چنانچہ ان میں سے گیارہ مریضوں کی موت واقع ہو گئی۔ ان کے لواحقین مشتعل ہو گئے اور انہوں نے آئی سی یو پر حملہ کر دیا۔ میزیں الٹ دیں اور طبی آلات توڑ دیے۔ میڈیا میں دکھایا گیا کہ کہ کس طرح خواتین غم سے نڈھال اپنے سر پکڑ کر کھڑی تھیں۔ ڈاکٹرز اور نرسوں نے پولیس کے آنے سے پہلے بھاگ کر اپنی جانیں بچائیں۔
بھارت کے کم از کم بیس ہسپتالوں میں اس وقت آکسیجن کی شدید کمی کا سامنا ہے۔ بھارتی میڈیا کے مطابق اب تک محض آکسیجن کی کمی کی وجہ سے دو سو سے زائد مریض موت کے منہ میں جا چکے ہیں۔ ساتھ ہی قومی ویکسین مہم بھی کمزور پڑتی نظر ا? رہی ہے۔ گزشتہ چند ہفتوں سے روزانہ دو ملین افراد کو ویکسین لگائی جا رہی ہے جبکہ کچھ دنوں کے لیے روزانہ تین ملین افراد کو بھی ویکسین لگائی گئی تھی۔ بہت سے لوگوں کو ویکسین لگوانے کی تاریخ نہیں مل رہی۔ کئی مقامات پر ویکسین کی قلت ہو گئی ہے۔ان تمام باتوں کی وجہ سے گزشتہ سات سال کے دوران بھارت کے سب سے بااختیار وزیراعظم نریندر مودی کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے وقت سے بہت پہلے کووڈ پر قابو پانے کا اعلان کر دیا تھا؛ چنانچہ لوگ لاپروائی کا مظاہرہ کرنے لگے۔ نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی اب تک بھارت کی سب سے طاقتور سیاسی جماعت رہی ہے مگر شدید عوامی تنقید کی وجہ سے اس کی مقبولیت کی دیوار میں دراڑیں آنا شروع ہو گئی ہیں۔ اتر پردیش میں مودی کی جماعت کی حکومت ہے، یہاں کے کئی ارکان اسمبلی نے ریاستی حکومت کے کووڈ پر ردعمل کو شدید تنقید کا نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے۔ لوکینڈرا پرتاپ سنگھ کہتے ہیں ’’کووڈ میں کوئی وقفہ نہیں آیا اور ہم بے بسی سے اپنے لوگوں کو مرتے ہوئے دیکھ رہے ہیں‘‘۔قومی سطح پر بھی دیکھیں تو اس کے باوجود کہ دو بڑے شہروں کی صورت حال میں کافی بہتری ا? گئی ہے‘ ایک گھنائونی تصویر نظر آرہی ہے۔ منگل کے دن نئی دہلی میں بارہ ہزار سے زائد کیسز رپورٹ ہوئے۔ یہ تعداد 30 اپریل کی تعداد سے نصف ہے۔ شہر میں کورونا کیسز کی مثبت شرح میں کافی کمی ہو رہی ہے جو چند ہفتے پہلے 36 فیصد تھی‘ اب کم ہوکر 19 فیصد ہو گئی ہے۔
ممبئی بھارت کا سب سے بڑا تجارتی مرکز ہے‘ وہاں بھی یہی صورتحال ہے اور لوگوں کو یقین نہیں آ رہا کہ کیا واقعی اتنی بدترین وبا گزر چکی ہے۔ ممبئی کے مثبت کیسز کی شرح 25 فیصد سے کم ہو کر اب صرف 7 فیصد رہ گئی ہے۔ دہلی کے جن ہسپتالوں نے لائف سیونگ سپلائیز کی قلت کی وجہ سے اپنے گیٹ بندکر دیے تھے اور لوگوں کو سڑکوں پر مرنے کے لیے چھوڑ دیا تھا‘ اب دوبارہ مریض لینا شرو ع ہو گئے ہیں مگرجو لوگ بیمار ہو گئے تھے‘ ابھی تک سنگین حالات میں پھنسے ہوئے ہیں۔اس وقت سب سے متاثرہ ریاستوں میں بھارت کی جنوبی ریاست کرناٹک ہے جہاں بھارت کا ٹیکنالوجی حب بنگلور بھی واقع ہے۔ ایک آکسیجن ایکسپریس ٹرین منگل کو یہاں پہنچی۔ اس ریاست کو ابھی مزید آکسیجن کی ضرورت ہے۔ اس ہفتے جنوبی ریاستیں اس بات پر متفق ہوئی تھیں کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ آکسیجن شیئر کریں گی مگر کچھ نے دوبارہ تعاون کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ کیرالا نے آکسیجن بھیجنے سے انکار کر دیا ہے کیونکہ اب اس کی اپنی ضرورت بہت بڑھ گئی ہے۔ تامل ناڈو بھی یہی بات کر رہا ہے کہ وہ اپنے غریب ہمسائے آندھرا پردیش کی کوئی مدد نہیں کر سکتا جہاں سوموار کی رات گیارہ مریض آکسیجن کی کمی کی وجہ سے مر گئے تھے۔ کیرالا کے ایک ہیلتھ اکانوموسٹ ریجو موہن کہتے ہیں کہ میں اس بات کا تصو رکرنے سے بھی قاصر ہوں کہ بھارت کے دیہات میں اس وقت کتنی تباہی مچی ہو گی۔ یہاں اپریل میں مثبت کیسز کی شرح 8 فیصد تھی مگر منگل کے دن یہ شرح بڑھ کر 27 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ یہ دیہی علاقے زیادہ کووڈ ٹیسٹ بھی نہیں کر رہے اور خدشہ ہے کہ بہت سے لوگ علاج کی سہولت نہ ملنے کی وجہ سے مر رہے ہوں گے۔
بھارتی ریاست بہار کے ایک گائوں میں تو بہت زیادہ تباہی ہوئی۔ اس کے ایک گائوں چوسہ کے مکین یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ درجنوں افراد کی لاشیں دریائے گنگا میں تیرتی ہوئی آرہی ہیں۔ کوئی نہیں جانتا کہ یہ لوگ کون تھے اور ان کی لاشیں یہاں کیسے پہنچیں؟ سوموار کی شام گائوں کے لوگ ان لاشوں کے گرد جمع ہو گئے جنہوں نے بہت زیادہ شوخ رنگ کے کپڑے پہن رکھے تھے اور ان کی لاشیں پانی میں تیر رہی تھیں۔ بھارتی میڈیا ان بے خانماں لوگوں کی تصاویر دکھا رہا ہے۔چوسہ کے ڈاکٹر سری واستو کہتے ہیں کہ میں نے کبھی اتنی بڑی تعداد میں لاشیں نہیں دیکھی تھیں۔ میں نے لوگوں کو بہت سی لاشیں لاتے لے جاتے دیکھا ہے۔ یقینا ابھی اور لو گ بھی مر رہے ہیں۔ شمشان گھاٹوں میں لاشیں جلانے کا ریٹ دو ہزار روپے سے بڑھ کر پندرہ ہزار روپے تک ہو چکا ہے۔ پورے بھار ت میں یہی کچھ ہو رہا ہے۔ کوو ڈ کی وجہ سے مرنے والوں کی لاشیں شمشان گھاٹوں میں جمع ہیں اور ا?خری رسومات ادا کر نے والے کارکن اب دس گنا زیادہ معاوضہ مانگ رہے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔