... loading ...
آج شہرمیں بڑا رش تھا دوردرازسے لوگ کھنچتے چلے آرہے تھے آنے والے گھوڑوںاور ذاتی سواریوںپر آتے تو رونق میں مزید اضافہ ہوتاچلاجاتا اب کی بار کھانے پینے کی عارضی دُکانوں، ریڑھیوں اور خوانچہ فروشوںکی کثرت معمول سے زیادہ تھی لیکن پیدل تماشائی ہمیشہ بڑی تعداد میں یہاں جوق درجوق آتے یہ اس دورکے لوگوںکی تفریح کا واحد ذریعہ تھا یہی گاہک ان کی روزی کا وسیلہ تھے۔گورے،کالے،گندمی،سیاہ فام غلاموںکی تجارت کو دنیاکا سب سے قدیم پیشہ کہاجاسکتا ہے نوعمرلڑکوں اور نوجوان عورتوںکے گاہکوںکی افراط تھی کسی کو کوئی جنس پسند آجاتی تو پھر بڑھ چڑھ کر بولی لگانے سے بھی گریزنہیں ہوتا سیاہ فام غلام کام کاج اور تعمیراتی کاموں کے لیے خریدنے کا رواج تھانوعمرلڑکوں اور نوجوان عورتوںکی پذیرائی اور قیمت ان کے حسن کے مطابق لگائی جاتی تھی یہی صدیوں سے ہوتاچلاآرہاتھا سینکڑوں،ہزاروں لوگوںکامحور زمانہ ٔ قدیم سے غلاموںکی منڈیاں لگائی جاتی تھیں مصر،یونان،ایران،چین اور بھارت میں نہ جانے کب سے یہ قبیح کاروبارہورہا تھا آج کے جدید دور اور مہذب دنیاہونے کے باوجود یہ منڈیاں آج بھی کسی نہ کسی شکل میں موجودہیںجنس کی منڈیوں کا کاروبارسمٹا تو بازار آبادہوگئے اب شہرشہرملک ملک یہ بازار کسی نہ کسی اندازسے موجودہیں پابندی لگتی ہے تو فیشن زدہ چہروں نے جدید آبادیوںمیں کوٹھیوں،مساج گھر،گیسٹ ہائوس اور ہوٹلوںکارخ کرلیا ۔ کہا جاتاہے جسم فروشی دنیا کا سب سے قدیم کاروبارہے لیکن انداز، اسٹائل اور طریقہ ٔ کا بدل گیاہے پورنو گرافی بھی جنسی تسکین کاایک ذریعہ ہے اس کاروبارکو دنیابھرمیں سنٹیفک طریقے سے چلایا جارہاہے یہ اربوں کھربوں پر محیط کاروبارہے جس سے بہت سے شرفاء وابستہ ہیں۔آج ’’چائلڈپورنو گرافی‘‘ کو ایک مہذب معاشرے میں سب سے گھنائونا جرم کہاجاسکتاہے ،عیاش اور پرتشدد ذہن کے لوگوں نے اسے ایک مہنگا شوق اور کاروباربناڈالاہے ۔
شنیدہے کہ یورپین اور عرب ممالک اس کے بڑے مراکزہیں جہاں غیرقانونی طورپرچائلڈپورنو گرافی پر لوگ پوری دنیا سے ٹکٹ لے کر انجوائے کرتے ہیں پاکستان کے شہر قصورمیں زینب نامی بچی کے ساتھ گینگ ریپ کیا گیا اس وقت اس خدشہ کااظہارکیا گیا تھا کہ یہ بچی چائلڈپورنو گرافی کا شکارہوئی ہے ویسے میں قصورمیں اب تلک سینکڑوں بچوںکا جنسی تشدد ہوچکاہے ،کئی نوعمر بچے بچیوںکو جنسی زیادتی کا نشانہ بناکرقتل کردیاگیا لاہورمیں ایک جنسی جنونی جاوید اقبال نے 100سے زائد بچوںکو جنسی زیادتی کے بعد ان کی لاشوںکو تیزاب میں ڈال کرمدعا ہی غائب کرڈالا آج ضرورت اس بات کی ہے کہ آن لائن سائبر کرائم روکنے کے قانون میں کمزور یاں دورکرنا ہوںگی۔ پاکستان میں چائلڈ پورنوگرافی پر پہلا فیصلہ آیا ہے جس میں ملزم کو زیادہ زیادہ ممکن یعنی سات سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔پاکستان میں الیکٹرانک کرائم کی روک تھام کے قانون 2016 ء کے تحت دی جانے والی اس سزا کو تاریخی قرار دیا گیا لیکن سائبر کرائمز کی تفتیش کرنے والے اداروں کا ماننا ہے کہ اب بھی اس قانون میں ایسی کمزرویاں موجود ہیں جن سے جرم کرنے والے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ تیزی سے تبدیل ہوتی ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ سائبر کرائم پر قانون سازی کو مزید بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی یعنی ایف آئی اے کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر آصف اقبال نے ایک ایسے ہی ملزم سعادت امین کو گزشتہ برس سرگودھا سے گرفتار کیا اور وہی اس مقدمے کی تفتیش کرنے کے بعد اسے شواہد سمیت عدالت میں لے کر گئے۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس مقدمے میں ان کے پاس اس قدر ثبوت موجود تھے جو ملزم کو سزا دلوانے کے لیے کافی ثابت ہوئے۔ تاہم الیکٹرانک کرائمز کے حوالے سے اکٹھے کیے جانے والے ثبوت روایتی قوانین کے احاطے میں نہیں آتے۔’ہمارا چونکہ ڈیجیٹل ایویڈینس یا ثبوت ہوتا ہے تو بہت سے ایسی چیزیں ہیں جن کی تعریف قانون میں واضح طور پر دی ہونی چاہیے۔‘جیسے آئی ئی پی ایڈریس ایک ایسی چیز ہے جسے آپ بگاڑ نہیں سکتے یا تبدیل نہیں کر سکتے۔ یہ ہمارے پاس ایک بہت مستند ثبوت ہوتا ہے تاہم ہمارے لیے عدالت میں اس کی صداقت ثابت کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ لیکن یہ ایک سنجیدہ مسئلہ ہے اورہمیں ہر چیز واضح کرنی ہوگی چائلڈپورنو گرافی میں کسی بچے کی جنسی تشدد کو دکھایا جاتا ہے بصری عکاسیوں میں تصاویر ، ویڈیوز ، ڈیجیٹل یا کمپیوٹر سے تیار کردہ تصاویر شامل ہیں جو کسی اصل نابالغ سے الگ نہیں ہوسکتی ہیں۔ یہ تصاویر اور ویڈیوز جن میں ایک حقیقی جرم منظر نامے کی دستاویزات شامل ہوتی ہیں بچوںکے ذاتی استعمال یا کسی بھی اندازسے اسے مالی فائدہ یا جنسی تسکین کے لیے استعمال کرنا گھنائوناجرم ہے ۔ اس کو کاروباری انداز میں ، براہ راست آن لائن جنسی استحصال منظر عام پر آنے لگا ہے۔ ان مثالوں میں افراد ویڈیو اسٹریمنگ سروس کے ذریعہ کسی بچے کے ساتھ براہ راست بدسلوکی دیکھنے کے لیے ادائیگی کرتے ہیں۔ اس طرح کی زیادتی کا پتہ لگانا ناقابل یقین حد تک مشکل ہے ، کیونکہ اس کی اصل وقت کی نوعیت اور جرم کے بعد ڈیجیٹل شواہد کی کمی ہے۔
چائلڈپورنو گرافی اگرچہ بچوں کے ساتھ جنسی استحصال کا مواد (سی ایس اے ایم) ایک عالمی مسئلہ ہے ، لیکن امریکہ دنیا میں بچوں کے ساتھ بدسلوکی کرنے والے مواد کے سب سے بڑے پروڈیوسر اور صارفین میں سے ایک ہے۔ اس جرم سے نمٹنے کی فوری ضرورت کو پیش کرنے کے لیے بچوں سے جنسی زیادتی کے مواد کی اصل نوعیت اور پھیلائو کو سمجھنا ضروری ہے۔ ’چائلڈپورنو گرافی موضوع پر بچوں کے ساتھ ہونے والی زیادتی کی ایک انتہائی پْرتشدد ، خوفناک شکل ہے۔ اسی وجہ سے ، اس طرح کے بدسلوکی کا مقابلہ کرنے کے لیے کام کرنے والے افراد نے “بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کا مواد” (CSAM) کی اصطلاح استعمال کرنا شروع کردی ہے ، جو مواد کو زیادہ درست طریقے سے پہنچاتا ہے اور واضح طور پر اس مسئلے کے منبع سے منسلک ہوتا ہے۔ ایسے مطالعات موجود ہیں جو خطرے والے عوامل کی نشاندہی کرتے ہیں جو جنسی استحصال کے بے نقاب ہونے کے امکانات میں اضافہ کرسکتے ہیں ، لیکن جنسی استحصال کا نشانہ بننے والے افراد کی عمر اور پس منظر کوئی حد نہیں جانتے۔ آن لائن پایا بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی تصاویر اور ویڈیوز میں 0-18 سال کے لڑکے اور لڑکیاں دونوں شامل ہیں۔اکثر اوقات ، سی ایس اے ایم متاثرین کے ساتھ کسی کے ساتھ بدسلوکی کی جاتی ہے جس کے بارے میں وہ جانتے ہیں۔ ان مجرموں تک جن بچوں سے بدسلوکی کی جا رہی ہے ان تک ان کی قریبی رسائی ہے ، وہ جنسی رابطے کو معمول پر لانے اور رازداری کی ترغیب دینے کے لیے تیار حربے استعمال کرتے ہیں۔وہ لوگ جو بچوں کے استحصال میں تلاش کرتے ہیں یا اس میں حصہ لے رہے ہیں وہ انٹرنیٹ نیٹ ورکس اور فورمز پر رابطے کرسکتے ہیں تاکہ وہ بیچنے ، بانٹنے اور تجارتی سامان کو فروخت کرسکیں۔ انٹرنیٹ ٹکنالوجی کی متعدد شکلوں کے ذریعہ یہ تعامل
سہولیات فراہم کرتا ہے ، بشمول ویب سائٹ ، ای میل ، انسٹنٹ میسجنگ / آئی سی کیو ، انٹرنیٹ ریلے چیٹ (آئی آر سی) ، نیوز گروپس ، بلیٹن بورڈز ، پیر ٹو پیر پیر نیٹ ورکس ، انٹرنیٹ گیمنگ سائٹس ، سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس اور گمنام نیٹ ورکس،آن لائن پروگرام نے مجرموں کے مابین مواصلات کو بھی فروغ دیا ہے ، دونوں سے بچوں میں ان کی دلچسپی معمول پر آ گئی ہے اور بچوں کو استحصال کا شکار ہونے والے جسمانی اور نفسیاتی نقصانات سے بے نیاز کردیا گیا ہے۔ یہ آن لائن کمیونٹیز اکثر اوقات آزادانہ مفادات ، خواہشات ، اور بچوں سے بد سلوکی کرنے والے تجربات ، آزادانہ فیصلے اور پکڑے جانے کے خوف کے بغیر بانٹنے کے لیے جگہ فراہم کرتی ہیں۔اس لیے انتہائی ناگزیرہے کہ انٹرنیٹ سے بچوں پر جنسی استحصال کے مواد کو ختم کریں ہم اپنے اردگردکے ماحول پر کڑی نظررکھیں اور بچوں کے جنسی استحصال کو روکنے میں مدد کریں کیونکہ ایسے بچوںکی شخصیت مجروح ہوکررہ جاتی ہے اور وہ بڑے ہوکر پورے معاشرے سے انتقام لینے پر تل جاتے ہیں اس لیے دنیا بھرکی حکومتوںکو اس سلسلہ میں قوانین کو سخت اور موثربنانے کے لیے ٹھوس اقدامات کرناہوں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔