... loading ...
بظاہرمغرب سے لیکر امریکا تک اظہار کی آزادی کے دعویدار ہیں لیکن کیا حقیقت میں ایسا ہے ؟ہاں میں جواب نہیں دیا جا سکتا البتہ اتنا کہہ سکتے ہیں کہ مغرب و امریکا کے نزدیک آزادی اظہار کا مطلب یہ ہے کہ اُن کے زرائع ابلاغ جو لکھیں یا سنائیں اُس پر آنکھیں بند کرکے اعتماد کیا جائے اور اگر دلیل پیش کرنے کی ضرورت محسوس ہو تو انھی کے ذرائع ابلاغ کے لکھے یا نشر کیے مواد کا حوالہ دیا جائے یہ اظہارِ رائے کی آزادی نہیں بلکہ دیکھنے، کہنے یا سُننے پر قدغن لگانا یا اظہارِ رائے کی آزادی سلب کر نا ہے جسے آزاد قومیں یا ممالک تسلیم نہیں کسر سکتے لیکن یہ انکار کمزور ہے اصل میں مغرب اور امریکا کا میڈیاصرف وہی کچھ دکھاتا ،سناتا یا شائع کرتا ہے جو اُن کے اہداف میں ہوتا ہے ایسا مواد مخفی رکھاجا تا ہے جواہداف سے متصادم ہو۔ یہ اظہار کی آزادی نہیں بدترین ابلاغی طرزِعمل ہے ۔
دنیا کے معروف میڈیا ہائوسز پر مغرب ،اسرائیل اور امریکا کا کنٹرول یا غلبہ ہے مغرب اور امریکا کیونکہ اسرائیل کے طرفدار اور پشتبان ہیںاِس لیے یہ تصور کر لینا کہ وہ سب سچ پیش کرتے ہیں غلط ہے اسرائیل اور فلسطین کی جنگ کو امریکی صدر دوممالک میں کشیدگی قرار دیں یا فلسطینی حملوں کاجواب دینا اسرائیل کا حق کہیں یہ سچ کی پردہ پوشی ہے جارح اور مظلوم میں فرق روا رکھنے کی ضرورت ہے مگر سلامتی کونسل کے حالیہ اجلاس کے دوران دیگر تمام اراکین کے برخلاف امریکا نے موقف اپنایا جب کسی طرح بات نہ بنی تو ویٹو کا سہارہ لے لیاکیا اِسے غیرجانبداری کہہ سکتے ہیں؟قطعی نہیں کوئی چغد ہی ہاں کرسکتا ہے گڑبڑ کی اصل وجہ یہ ہے کہ ترقیافتہ اورچندطاقتور ممالک دنیا کو اپنا مطیع وفرمانبردار بنانا چاہتے ہیں جس کے لیے اظہارِ رائے کی آزادی کا ڈھنڈورہ پیٹا جا رہاہے تمام بنی نوح وانسان کے قلب و زہں کو اپنی سوچ کے سانچے میں ڈھالنے کی ابلاغی جنگ کو مذہبی یا اظہارِ رائے کی آزادی کا لقب نہیں دے سکتے ۔
چین میں مذہبی و آزدی اظہارپر پابندیوں کو اکثر وپیشتر مغرب و امریکا ہدفِ تنقید بناتے ہیں روس کو بھی میڈیا کی آزادی کا درس دیا جاتا ہے لیکن حال ہی میں سلامتی کونسل میں مستقل ممبر کی نشست رکھنے والے فرانس نے اپنے ملک کی عوام کو فلسطین کے حق میں مزمتی اجتماع یا مظاہرہ کرنے سے روک دیاہے اور ایسا کرنے کی کوشش کرنے والوں کی پکڑ دھکڑ کرنے کے ساتھ اُنھیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے علاوہ ازیں مسلمانوں پر لباس و عبادت کے علاوہ رہن سہن پر بھی مختلف قسم کی پابندیاں لگائی ہیں یہ اقدامات اور پابندیاں مذہبی وااظہارِ رائے کی آزادی کے منافی ہیں اِ ن حالات میں دنیاکا مغرب و امریکا کے ہر کہے پر یقین کرنا دشوارہے انسان آزاد پیدا ہوا ہے کچھ قوانین اور قواعد درست مگربے جا اورتعصب پر مبنی پابندیاں جمہوری نہیں بلکہ مذہبی واظہارکی آزادی میں رخنہ اندازی کے مترادف ہیں دنیاکی ترقی کے ساتھ انسان کی آزادی کا محدود تر ہورہی ہے اور ابلاغی ہتھیارکے زریعے حکومتی سطح پر عوام سے آزادیاں چھیننے کا عمل بتدریج فزوں تر ہے بھارت میں مذہبی وآزادی اظہار پر کئی قسم کی پابندیاں ہیںیہاں نسلی و مذہبی تفریق زبان بندی کاباعث ہے مسلمان ،سکھ ،عیسائی اور دلت مصائب و آلام کی کھائی میں گرتے جا رہے ہیں پھربھی زرائع ابلاغ مخصوص سوچ کے مقیدہیں اوربہت کم لوگ کشمیریوں کی مشکلات پر لب کشائی کی ہمت کرتے ہیں ۔
مسلمانوں کی تعدادپونے دوارب کے لگ بھگ ہے لیکن عالمی میڈیا میں حصہ نہ ہونے کے برابر ہے قطری نشریاتی اِدارے الجزیرہ کی رسائی بھی محدود ہے مگر جتنی بھی ہے قدرے غیر جانبدار ہے یہ محدود رسائی بھی مغرب اور امریکا کوگوارہ نہیں بلکہ کانٹے کی طرح کھٹکتی ہے غزہ میں حملے کے دوران الجزیرہ اور ایسوسی ایٹڈ کے دفاتر کو تباہ کر تے ہوئے عار نہیں سمجھتاانٹرنیشنل آئوٹ لیٹس کے دفاتر کو اعلانیہ منہدم کرنااظہار کا گلہ گھونٹنے سے کم نہیں کیونکہ عمارت میںحماس نہیں میڈیا ہائوسسز کے دفاتر اور رہائشی فلیٹس تھے میڈیا ہائوسز پر حملے کی سوچ کے پسِ پردہ یہی مقصد قرین قیاس معلوم ہوتا ہے کہ حقیقت چھپائی جائے اور وہی تصویر دنیا کے روبرو پیش کی جائے جس سے حملے مجبوری محسوس ہوں یہ حملے اظہارِ رائے کی آزادی پر قدغن کے ساتھ بدترین مذہبی تعصب کا عکاس ہیں ستم طریفی یہ ہے کہ اسرائیل کے جھوٹ پر دنیا یقین بھی کر لیتی ہے وجہ عالمی میڈیا ہائوسز کا ہمنوا ہونا ہے لیکن طاقتور کی ہمنوائی اور کمزور پر چڑھائی کسی طور اظہارِرائے کی آزادی نہیں ممکن ہے میڈیا کی آزادی کے لیے بھی تحریکیں چلیں اِس سے قبل عالمی میڈیا ہائوسسزکو سوچناہو گا کہ مملکتوں کی ہدایات پر چلنا ہے یا حقیقت بیانی سے کام لینا ہے ۔
میڈیا کی مخصوص سوچ اور تعصب پر مبنی پالیسی کمزور ممالک کے لیے انتہائی خطرناک ہے یہ میڈیا ہی ہے جو حملے وتباہی کے لیے اُکساتا اور طاقتور ممالک کو جواز مہیا کرتا ہے افغانستان ،عراق اور لیبیا جیسے ممالک تاراج ہو چکے لیکن الزامات غلط ثابت ہونے پر متعصب ذرائع ابلاغ نے کبھی شرمندگی ظاہر نہیں کی بلکہ رائے عامہ بنانے کے عمل کو فخریہ اپنی طاقت قراردیتا ہے یہ طاقت ساکھ سے محرومی کے بعد برقراررہے گی یا نہیں؟ یہ سوال آج نہیں تو کل مگر جلد ہی گردش کرنے والا ہے دنیا کو مغرب اور امریکا کی بسائی بساط کا مہرہ بنانے کی مُہم جوئی ابھی تک ناکامی سے دوچارہے اُن کی اپنی عوام بھی یکطرفہ صورتحال پر نالاں ہے مگر صورتحال فی الحال اِس لیے قابو میںہے کہ جب مغرب اور امریکا کا میڈیا اپنے ملک کے مسائل اُجاگر کرتا ہے تب کچھ غیر جانبداراور عوام کا ہمنوا ہو جاتا ہے لیکن تیسری دنیا یا حریف ممالک کی بات ہوتو یہی غیر جانبداری اور عوامی ہمنوائی ہواہو جاتی اور میڈیا لگائی بجھائی کا کام کرنے اور عوام کو حکومتوں کے خلاف اُکسانے لگتاہے میانمار میں جمہوری صورتحال کبھی تسلی بخش نہیں رہی مگر فوجی حکومت آنے کے بعد مغرب ،امریکا اور جاپان کچھ زیادہ ہی لوٹ پوٹ ہو رہے ہیں وجہ جمہوریت کا خاتمہ نہیں مفادات کو پہنچنے والی زک ہے حالانکہ روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی ہوئی املاک تباہ کی گئیں لیکن عالمی میڈیا نے لب کشائی کرنے کی زحمت نہ کی اب چین کو واک وور ملتا دیکھ کر جمہوریت کی بحالی کا رونا رویا جارہا ہے جاپانی صحافی کیتا زومی یوکی حراست بھی گوارہ کر لیتا ہے لیکن چین اور فوجی حکومت پر تنقید کا موقع ضائع نہیں کیا جاتا یہ دوہرا معیار مذہبی و آزادی اظہار کی منزل دور کر نے کا موجب بن رہا ہے مسلم دنیا کی معاشی ودفاعی حوالے سے کمزوریاں عیاں حقیقت ہیں مگر ابلاغی ویپن نے بھی اُنھیں ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے آتشیں ہتھیارں کی تباہی اپنی جگہ ، کمیونیکیشن وار نے مظلوم مسلم دنیاکامقدمہ کمزور بنا یا ہے اگر مسلمان ابلاغی ہتھیار کا استعمال کریں تو دنیا کو حقیقت سے روشناس کیا جا سکتا ہے اب تو ابلاغ کے ذرائع میں کئی تبدیلیاں آچکی ہیں ہوش اور وژن سے کام لیا جائے تو سوشل میڈیا کا سہارہ لیکر عالمی میڈیا کی طرف سے تصویر کا صرف ایک رُخ دکھانے سے باز رکھنے کے ساتھ تجزیوں و تبصروں کو غیر جانبدار بنانے پر مجبور کیا جا سکتا ہے مگر ہوش اور وژن شرط ہے وگرنہ مذہبی اور آزادی اظہار کی باتیں کہنے کی حد تک ہیں مگر ابلاغی جنگ سے مغرب اور امریکا دنیا پر تسلط جمانے کی کوشش میں ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔