... loading ...
اب کی بار عید پرمسلمانوں کی پرنم آنکھیں،دل زخمی اور سینے فگار تھے وادی ٔکشمیر،افغانستان،میانمار،عراق،شام،لبنان اور کئی مسلمان ممالک میں ہونے والے مسلم کش حالات کیا کم تھے کہ عید الفطر سے پہلے افغانستان اور فلسطین کے مسلمانوںپر قیامت ٹوٹ پڑی افغانستان میں توایک سال پہلے بھی ایک مدرسہ پر اس وقت میزائل حملہ کیا گیا جب وہاں فارغ التحصیل ہونے والے حفاظ ِ قرآن کے لیے تقریب ِ دستارِ فضیلت کاانعقادکیا گیا تھا اس حملے میں70سے زائد حفاظ ِ قرآن شہید کردئیے گئے عید سے پہلے کابل میں ایک سکول کے باہر ہونے والے بم دھماکے کے نتیجے میں جاں بحق افراد کی تعداد 68 سے تجاوز کرگئی ، جاں بحق اور 150زخمی ہونے والوں میں زیادہ تر کم عمر طالبات شامل ہیں جبکہ اسرائیلی فوج نے غزہ کی پٹی پر وحشیانہ بمباری و گولہ باری کرکے درجنوں فلسطینی شہید کردئیے‘ جن میں زیادہ تر بچے تھے یہ مسلم نسل کشی کی بدترین مثالیں ہیں۔ ا سرائیل کی جانب سے مشرقی بیت المقدس پر قبضے کا سالانہ جشن ’’یوم یروشلم‘‘ منایا جاتاہے اس فتح کا جشن ہرسال فلسطین کی شہری آبادی پرٹینکوں اور میزائلوں سے حملے کرکے منایا جاتا ہے ۔ اسرائیل نے 1967ء عرب اسرائیل جنگ کے ذریعے مشرقی بیت المقدس اور اولڈ سٹی پر قبضہ کر لیا تھا حالانکہ یہاں مسلمانوں،یہودیوں اور مسیحیوں کے لیے مقدس مقامات ہیں اس سال فلسطینی شہریوںکے مابین جھڑ پوں کے دوران ا سرائیلی پولیس نے نہتے فلسطینوں پر ا سٹین گرنیڈ استعمال کیے انتہا پسند صیہونیوں نے مسلمانوںکے قبلہ اول مسجد اقصیٰ کے احاطے میں آگ لگادی اسرائیلی ٹینکوں نے غزہ پٹی کے علاقے بیت حانون میں رہائشی علاقوں کو نشانہ بنایا۔ متعدد گولے مشرقی علاقے میں گھروں ، چلتی گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں پر گرے۔ اب کی بار بھی صیہونیوںنے اپنی روایت برقرار رکھتے ہوئے بیت المقدس کو لہولہان کردیا اسرائیلی وزیراعظم گولڈا مئیر اکثرکہا کرتی تھیں کہ ان کی زندگی کا سب سے برا اور سب سے خوشگوار دن وہ تھا جب انہوں نے مسجد اقصی کو آگ میں جلتے دیکھا۔ اس کی وجہ پوچھی گئی تو کہنے لگیں “جس روز ہم نے مسجد اقصیٰ کو پہلی بار آگ لگائی میں ساری رات اس خوف سے سو نہ سکی کہ کہیں عالم اسلام ہم پر حملہ آور نہ ہو جائے۔ اگر ایسا ہوا تو اسرائیل کا وجود مٹ جائے گا۔ ساری رات آنکھوں میں گزر گئی ، جب اگلے روز سورج چڑھا اور مسلمانوں کے رد عمل کو دیکھا تو میں مطمئن تھی کہ اب اسرائیل حدود عرب میں محفوظ ہے اور اسے کوئی خطرہ لاحق نہیں ۔
حالات کی ستم ظریفی یہ ہے کہ نہ جانے کب سے مسجد اقصی دہائی دے رہی ہے کہ مسلمانوںکیا بھول گئے ہو کہ میں وہ مسجد ہوں جس کی سر زمین کو خالق ارض و سماء نے بابرکت قرار دیا ہے ( سورۃ الا سراء 1) میں یاد دلاتی ہوںمیں وہ مسجد ہوں جس کو دنیا کی افضل ترین قوم نے اپنا قبلہ اول بنایا ہے ( بخاری و مسلم ) ۔کیا یہبھی فراموش کردیا کہ میں روئے زمین کی وہ واحدمسجد ہوں جہاں سے حضور پاک ﷺ کو معراج کرایا گیا تھا( مسلم ) جان لو!میں ہی وہ مسجد ہوں جہاں پر ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیائے کرام نے خاتم النبین محمد ﷺ کی اقتداء میں نماز ادا فرمائی تھی(مسندا حمد صحیح ) ۔کیامسلمان یہ بھی نہیں جانتے میں وہ مسجد ہوں جس میں ایک نماز ادا کرنے سے دو سو پچاس نمازیوں کا ثواب ملتا ہے۔۔۔( حاکم بیہقی صحیح ) میں وہ مسجد ہوں جس میں دجال کا داخلہ ممنوع ہے۔( احمد صحیح ) میں وہ مسجد ہوں جسے دنیا کی دوسری بڑی مسجدہونے کا شرف حاصل ہے ( بخاری مسلم ) میں وہ مسجد ہوں جس کا شماران تین مساجد میں ہوتا ہے جس کی طرف بغرض عبادت کوچ کرنا جائز ہے ( بخاری مسلم ) میں وہ مسجد ہوں کہ جو کوئی بھی اس میں نماز پڑھنے کے ارادہ سے آیاہو اس سے گناہ ایسے دھل جاتے ہیں گویا اسے آج ہی اس کی ماں نے اسے جنم دیا ہو۔( ابن ماجہ صحیح ) ۔یادرکھو میں ہی وہ مسجد ہوں جس کی سرزمین پر حضرت عیسی علیہ السلام اتریں گے اور وہیں پر دجال کو قتل کریں گے ( ترمذی صحیح ) ۔مسلمانوں اتنابھی بھلادیاکہ میں وہ مسجد ہوں جس کی سرزمین بروز قیامت ارض محشر ہوگی ( احمد ابوداؤد صحیح ) آج مجھے نسل پرست صہیونیوں نے اپنا یرغمال بنا رکھا ہے آئے دن میرے تقدس کو پامال کیا جارہا ہے میری آبادکاری کے رستے میں روڑے اٹکائے جاتے ہیں بلکہ مجھے مسمار کرنے کی منظم پالیسی بنا لی گئی ہے۔ ۔میرے دامن میں مسلسل سرنگیں کھودی جا رہی ہیں تاکہ میں بے بس ہوکر دم توڑ دوں اور میری جگہ ہیکل سلیمانی نام کا شیطانی بت نصیب کر دیا جائے۔۔ مسلم حکمرانوں سے دلبرداشتہ آج دنیا بھرکے مسلمان دعاکررہے ہیںکہ یا اللہ فلسطین میں ہمارے بھائیوں اور بہنوں کی حفاظت فرما اور دشمنوں کے مقابلے میں انہیں طاقت عطا فرما یا اللہ ہمارا قبلہ اول مسجد الاقصیٰ کی حفاظت فرما۔امین یا رب العالمین ۔ ہم غورکریں اپنے بچوں کو بتائیں اس کا چرچا کریں کہ ہم مسلمانوںکے لیے بیت المقدس او ر فلسطین کیوں ضروری ہیں؟ خوب جان لینا چاہے کہ ہم فلسطین سے اس لیے محبت کرتے ہیں کہ 01 یہ فلسطین انبیاء علیھم السلام کا مسکن اور سر زمین رہی ہے۔ 02: حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فلسطین کی طرف ہجرت فرمائی۔
03: اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت لوط علیہ السلام کو اس عذاب سے نجات دی جو ان کی قوم کی بے راہروی کے نتیجہ میں اسی جگہ نازل ہوا تھا۔ 04: حضرت داؤود علیہ السلام نے اسی سرزمین پر سکونت رکھی اور یہیں اپنا ایک عالیشان محراب بھی تعمیر کروایا تھا۔ 05: حضرت سلیمان علیہ السلام اسی ملک میں بیٹھ کر ساری دنیا پر حکومت فرمایا کرتے تھے۔ 06: چیونٹی کا وہ مشہور قصہ جس میں ایک چیونٹی نے اپنی باقی ساتھیوں سے کہا تھا “اے چیونٹیو، اپنے بلوں میں گھس جاؤ” یہیں اس ملک میں واقع عسقلان شہر کی ایک وادی میں پیش آیا تھا جس کا نام بعد میں “وادی النمل – چیونٹیوں کی وادی” رکھ دیا گیا۔ 07: حضرت زکریا علیہ السلام کا محراب بھی اسی شہر میں ہے۔ 08: حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اسی ملک کے بارے میں اپنے ساتھیوں سے کہا تھا کہ اس مقدس شہر میں داخل ہو جاؤ۔ انہوں نے اس شہر ِمقدس کو شرک سے پاک ہونے اور انبیاء علیھم السلام کا مسکن ہونے کی وجہ سے مقدم سمجھا۔09: اس شہر میں کئی معجزات وقوع پذیر ہوئے جن میں ایک پاکباز کنواری خاتون بی بی حضرت مریم کے بطن سے حضرت عیسٰی علیہ السلام کی ولادت مبارکہ بھی ہے۔ جس کی گواہی خود عیسیٰ علیہ السلام نے دی تھی یہ سارا واقعہ قرآن حکیم میں تفصیل سے موجود ہے۔ 10: حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو جب اْن کی قوم نے قتل کرنے کے لیے انہیں صلیب پر مصلوب کرنا چاہا تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے انہیں اسی شہر سے آسمان پر اْٹھا لیا تھا۔ 11: ولادت کے بعد جب عورت اپنی جسمانی کمزوری کی انتہا ء پر ہوتی ہے ایسی حالت میں بی بی مریم کا کھجور کے تنے کو ہلا دینا بھی ایک معجزہ الٰہی ہے۔ 12: اسی شہر کے ہی مقام باب لْد پر حضرت عیسٰی علیہ السلام مسیح دجال کو قتل کریں گے۔13: اسی شہر سے ہی یاجوج ماجوج کا زمین میں قتال اور فساد کا کام شروع ہوگا.۔14: اس شہر میں وقوع پذیر ہونے والے قصوں میں سے ایک قصہ طالوت اور جالوت کا بھی ہے۔ 15: فلسطین کو نماز کی فرضیت کے بعد مسلمانوں کا قبلہ اول ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ ہجرت کے بعد حضرت جبرائیل علیہ السلام دوران نماز ہی حکم ربی سے آقا علیہ السلام کو مسجد اقصیٰ (فلسطین) سے بیت اللہ کعبہ مشرفہ (مکہ مکرمہ) کی طرف رخ کرا گئے تھے۔ جس مسجد میں یہ واقعہ پیش آیا وہ مسجد آج بھی مسجد قبلتین کہلاتی ہے۔ 16: حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم معراج کی رات آسمان پر لے جانے سے پہلے مکہ مکرمہ سے یہاں بیت المقدس (فلسطین) تشریف لائے گئے۔ 17: سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلم کی اقتداء میں انبیاء علیھم السلام نے یہاں نماز ادا فرمائی۔ اس طرح فلسطین ایک بار پھر سارے انبیاء کرام کا مسکن بن گیا۔ 18: سیدنا ابو ذرؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺسے عرض کیا کہ زمین پر سب سے پہلی مسجد کونسی بنائی گئی؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ مسجد الحرام(یعنی خانہ کعبہ)۔ میں نے عرض کیا کہ پھر کونسی؟ (مسجد بنائی گئی تو) آپ ﷺنے فرمایا کہ مسجد الاقصیٰ (یعنی بیت المقدس)۔ میں نے پھر عرض کیا کہ ان دونوں کے درمیان کتنا فاصلہ تھا؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ چالیس برس کا اور تو جہاں بھی نماز کا وقت پالے ، وہیں نماز ادا کر لے پس وہ مسجد ہی ہے۔ 19: وصال حبیبنا صل اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو ارتداد کے فتنہ اور دیگر کئی مشاکل سے نمٹنے کے لیے عسکری اور افرادی قوت کی اشد ضرورت کے باوجود بھی ارض شام (فلسطین) کی طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تیار کردہ لشکر بھیجنا بھی ایک ناقابل فراموش حقیقت ہے۔ 20: اسلام کے سنہری دور فاروقی میں دنیا بھر کی فتوحات کو چھوڑ کر محض فلسطین کی فتح کے لیے خود سیدنا عمرؓ ِ فاروق کا چل کر جانا اور یہاں پر جا کر نماز ادا کرنا اس شہر کی عظمت کو اجاگر کرتا ہے۔ 21: دوسری بار بعینہ معراج کی رات بروز جمعہ 27 رجب 583 ہجری کو سلطان صلاح ؒالدین ایوبی کے ہاتھوں اس شہر کا دوبارہ فتح ہونا بھی ایک نشانی ہے۔ 22: بیت المقدس کا نام قدس قران سے پہلے تک ہوا کرتا تھا، قرآن نازل ہوا تو اس کا نام مسجد اقصیٰ رکھ گیا۔ قدس اس شہر کی اس تقدیس کی وجہ سے ہے جو اسے دوسرے شہروں سے ممتاز کرتی ہے۔ اس شہر کے حصول اور اسے رومیوں کے جبر و استبداد سے بچانے کے لیے 5000 سے زیادہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے جام شہادت نوش کیا۔ اور شہادت کا باب آج تک بند نہیں ہوا، سلسلہ ابھی تک چل رہا ہے۔ یہ شہر اس طرح شہیدوں کا شہر ہے۔ 23: مسجد اقصیٰ اور بلاد شام کی اہمیت بالکل حرمین الشریفین جیسی ہی ہے۔ جب قران پاک کی یہ آیت (والتین والزیتون وطور سینین وہذا البلد الیمین) نازل ہوئی ّ تو ابن عباس کہتے ہیں کہ ہم نے بلاد شام کو “التین” انجیر سے، بلاد فلسطین کو “الزیتون” زیتون سے اور الطور سینین کو مصر کے پہاڑ کوہ طور جس پر جا کر حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ پاک سے کلام کیا کرتے تھے سے استدلال کیا۔ 24 اور قران پاک کی آیت مبارک سے یہ استدلال لیا گیا کہ امت محمد ﷺ حقیقت میں اس مقدس سر زمین کی وارث ہے۔ 25: فلسطین کی عظمت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے یہاں پر پڑھی جانے والی ہر نماز کا اجر250 گنا بڑھا کر دیا جاتا ہے۔
اس حقیقت سے انکارنہیں کیا جاسکتا کہ عالم ِ اسلام کے اتحاد و اتفاق اور زبردست عسکری قوت کے بغیر صہونیوںکے ریشہ دوانیوں اور ظلم وبربریت کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا قوم کو قبلہ ٔ اول کی آزادی کے لیے کسی سلطان صلاح ؒالدین ایوبی کاانتظارہے۔غزہ میں جب بھی کوئی بم پھٹتاہے ،کوئی مسلمان لہولہان کردیا جاتاہے،کوئی شہید ہوتا تویا یہودی ظلم وبربریت کی نئی داستانیں رقم کرتے ہیں میں تصورکی آنکھ سے دیکھتاہوں غزہ کے مسلمانوںکے گھر دھواں دھواں ہیں، یہودی ٹینکوں سمیت شہری آبادی میں گھس آئے ہیںمیزائل داغے جارہے ہیں، جگہ جگہ بم دھماکوںکا شورہے اور جدید اسلحہ سے گولیاںبرسائی جارہی ہے الغرض چاروں سمت وحشت ناچ رہی ہے،ننھے بچوں،جوان عورتوںکی چیخیں ماحول پر غالب ہیں ،مسلمانوںکے جنازوں پربھی فائرنگ کردی جاتی ہے،مسلمانوں کی بے بسی ،مسلم حکمرانوںکی بے حسی،عالمی طاقتوںکے ضمیراور انسانی حقوق کے علمبردار لمبی تان کرسورہے ہیں ایسے میں مجھے مسجد ِ اقصیٰ کے درو دیوار سے سسکیوں کی آواز صاف سنائی دے رہی ہیں جس نے دل و دماغ کو جھنجوڑ کررکھ دیاہے کیا آپ کو بھی یہ سسکیاں سنائی دے رہی ہیں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔