... loading ...
کبھی عیدکا تہوار ہوا کرتا تھا،عزیز و اقارب سے میل ملاقات کا، دوست احباب کے ساتھ گرم جوشی سے بار بار گلے ملنے ور چھوٹے ،بڑے بچوں سے عیدی کے نام پر کج بحثی اور چہلیں کرنے کا ،یا نت نئے ملبوسات زیب تن کرکے دوسروں کو اپنی سج دھج دکھانے اور بازاروں میں گھومنے پھرنے اور انواع و اقسام کے پکوان و مشروب کھانے پینے کا۔ مگر یہ سب شوخ و شنگ باتیں عید کے تہوار میں اُس وقت تک ہی روا تھیں ، جب ابھی کورونا وائرس نے ہلالِ عید کی خوشیوں کو نہیں گہنایا تھا۔بدقسمتی سے یہ عید الفطر توبغیر چاند رات کے ہی ہمارے صحنوں میں اُتر آئی تھی یا یوں کہہ لیںکہ اِس عید کی چاند رات کی رونقیں کچھ حکومت ِ وقت کی ’’انتظامی بدنیتی ‘‘اور کچھ کورونا وائرس کی’’وبائی بد نظری‘‘ کی نذر ہوگئیں ۔جبکہ جو تھوڑی بہت کسر باقی بچی تھی وہ رویت ہلال کمیٹی اور سابقہ وزیر سائنس فواد چودھری کی آپسی معاندانہ چپقلس نے پوری کردی ۔یعنی اِس ہلال عید کی رویت کا اعلان اتنا غیر متوقع اور اچانک تھا کہ پورا ملک ہی حیران ہونے کے بجائے پریشان ہوگیا۔ بہرحال جس طرح چائے بغیر چینی کے حلق سے اُتارنا ،ہر کس و ناکس کے لیے آسان کام نہیں ہے بلکہ اُسی طرح بغیر چاند رات کی پھیکی عید کو منانا بھی ہمارے لیے ایک بڑی ہی جاں گسل مشقت رہی اور وہ بھی مسلسل تین دن تک۔ویسے تو 80 فیصد پاکستانیوں کو وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے نئے کپڑے اور نئے جوتے خریدنے کا موقع ہی نہیں دیا لیکن جن 20 فیصد خوش قسمت افراد نے لاک ڈاؤن کی آپادھاپی میں کمال بے خوفی سے کورونا ایس او پی کی دھجیاں اُڑاتے ہوئے اپنی عید کی ضروری شاپنگ کامیابی کے ساتھ مکمل کرلی تھی ،عیدکی صبح اَب وہ بھی ہونقوں کی طرح سوچ رہے تھے کہ نئے کپڑے بدل کر جائیں کہاں اور بال بنائیں کس کے لیے ۔
نیز اصل ظلم تو اِس عید پر اُن آفت کے پرکالوں کے ساتھ ہوا ہے ،جو اپنے دوست احباب سے گلے ملنے کے لیے عیدکی نماز پڑھنے کا پورا سال بڑی بے صبری سے انتظار کرتے ہیں ۔مثال کے طور پر ہمارے ایک دوست ہیں عارف بھائی، جنہیں پیار سے بھی سب عارف بھائی ہی کہتے ہیں ۔چونکہ وہ تن ساز اور ماہر فٹبالر ہیں، شاید اسی لیے موصوف جمعہ کی نماز کے بعد بھی وفورِ محبت میں جس سے ایک بار مصافحہ کرلیں ،اُس کی ہڈی پسلی ایک برابر کرکے ہی دم لیتے ہیں اور جب اُن کا کوئی عزیزاز جان دوست اپنی فطری بدقسمتی کے باعث عید کی نماز کے بعد اُن کے مقابل آجائے تو عارف بھائی مذکورہ بالا اظہارِ محبت کم ازکم تین بار فرماتے ہیں ۔کیونکہ اُن کے نزدیک رسمِ عید تین بار گلے ملنے سے ہی ادا ہوتی ہے، اب چاہے اُن کے تین کا ہندسہ عبور کرنے کے چکر میں سامنے والا کا تیاپانچہ ہی کیوں نہ ہوجائے ،اِن باریکیوں سے عارف بھائی کو ذرہ برابر بھی کوئی غرض وغیرہ نہیں ہوتی۔ بہر کیف یہ مسلسل دوسری پھیکی عید تھی جب نماز عید کے بعد گلے ملنے کے لیے اُنہیں سامنے والے نمازی کی جانب سے رضامندی کے’’سبز اشارے ‘‘کا انتظار کرنا پڑرہا تھا ۔ لیکن جو سادہ لوح بھی، ہماری طرح، اپنی ازلی سستی کے باعث عارف بھائی کو بروقت مصافحہ نہ کرنے کا واضح اشارہ دینے سے قاصر رہے،پھر وہ نماز عید کے بعد ہلنے ،جلنے سے بھی یکسر قاصر ہی ہوگئے۔ ہمیں شک ہے کہ ضیا ضمیر نے بھی عارف بھائی سے عید ملنے کے بعد ہی یہ شعر کہا ہوگا کہ
اتنی شدت سے گلے مجھ کو لگایا ہوا ہے
ایسا لگتاہے ، وقت آخری آیا ہوا ہے
لاک ڈاؤن کی برکت سے اِس وبائی عید کو اگر آپ کوئی اچھا سا نام دینا چاہیں تو ، عیدالفطر کے اس پرمسرت تہوار کو مکمل طور پر ایک ’’گھریلو عید ‘‘ بھی قرار دے سکتے ہیں ۔ کیونکہ اِس عید کے تینوں روز ،72 گھنٹے یا4320 منٹ میری طرح، آپ سب کو بھی اپنے اپنے گھرتک ہی محدود رہنا پڑا ہوگا۔ یاد رہے کہ تما م تفریحی و سیاحتی مقامات یعنی پارکس ،سینماہال ،ریسٹورنٹس وغیرہ ملک بھر میں مکمل طور پر بند تھے۔حد تو یہ ہے کہ شام 7 بجے کے بعد اشیائے ضروریہ کی دُکانیں بندکراوانے کے لیے بھی خصوصی حکومتی بندوبست فرمایا گیا تھا ۔جبکہ ویران بازاروں اور سنسان گلیوں میں بلااشد ضرورت کسی فرد واحد یا جمع الجمع کو مجمع لگانے یا مٹر گشت کرنے کی بھی ہرگز اجازت نہیں تھی اور مذکورہ حکومتی پابندیوں میں سے کسی ایک کی بھی خلاف ورزی کی صورت میں جرمانہ اور سزا سے کئی منچلوں کی پھیکی عید ’ ’کڑوی عید ‘‘ میں بھی بدلنے کی اطلاعات موصول ہوتی رہیں۔لہٰذا ہم نے تو لاک ڈاؤن عید پر مستحسن طرز عمل یہ ہی سمجھا کہ جس قدر ممکن ہو سکے اپنے گھر میں اپنی گھر والی کے پلو سے بندھ کر ہی رہیں اور جیسے ہی عید کی خوشیوں میں جان جانے کا ڈر ،اور مار کھانے کا اندیشہ دور ہوا ، تو فوراً ہی بیگم سے انتہائی مودبانہ انداز میں درخواست کردی کہ’’ اے نیک بخت! پورے سال میں تم نے کھانے پکانے کے جتنے پروگرام مختلف ٹی وی چینلز اور یو ٹیوب پر ملاحظہ کیے ہیں ، اُن کے مطابق لذت و کام و دہن مہیا فرما کر اس پھیکی عید کو منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے سہی ،اگر ’ ’نمکین عید ‘‘ میں بدل کر اپنے شوہر نامدار کو ممنون و مشکور فرمادو تو کیا ہی بات ہے‘‘۔یاد رہے کہ بیگم کی بارگاہ سے مذکورہ درخواست رد ہوجانے کے بعد ہماری بھی حالت ، اس بے چارے شاعر کی طرح ہوگئی تھی۔جس نے کہا تھا کہ
ملا بھی ہم کوتو بے وقت، اس طرح کھانا
کہ چاول ا ینٹھ گئے ،اور نان سوکھ گیا
علاوہ ازیں اپنی درخواست ردہونے کے بعد ہم نے ’’ لاک ڈاؤن عید‘‘ پر بیگم کی تسخیر، گھر میں سکون اور چین کو برقرار رکھنے کے لیے ایک سریع التاثیر خصوصی’’ازدواجی وظیفہ ‘‘بھی کیا ۔جسے مفاد عامہ کے پیش نظر ذیل میں درج کیا جارہاہے۔ تم بہت خوبصورت لگ رہی ہو( 11 بار)، تم کام بھی کتنا زیادہ کرتی ہو( 7 بار)،تم بہت پتلی ہوگئی ہو( 11 بار)،تم کام کر کر کے تھک جاتی ہوگی( 7 بار)،صرف میرے لیے اپنا خیال رکھا کرو( 7 بار)، تمہارے لیے ایک کام والی رکھوا دوں( 3 بار)،تمہاری امی کب آ رہی ہیں؟ جیسے ہی لاک ڈاؤن ختم ہوجائے تو ان کو فوراً بلا لینا( 2بار سے زیادہ نہیں پڑھنا) ۔ اس سحر انگیز وظیفہ کو عید کے تینوں روز ،پوری محبت اور لگاؤ کے ساتھ روزانہ مختلف اوقات میں کم ازکم 11 مرتبہ اپنی اہلیہ کے سامنے باآواز بلند پڑھنے سے نہ صرف عید سکون سے گزری ، بلکہ بیگم کے دل و دماغ میں ہماری جھوٹی محبت کا نشہ بھی چھایارہا۔ لیکن اگر خدانخواستہ اگلے برس کی’’گھریلو عید ‘‘ہماری لکھی گئی عرضداشت اور کیے گئے ازدواجی وظیفہ کی ادائیگی کے باوجود بھی ہمارے کسی قاری کی اچھی نہ گزرے تو اس کا دوش کالم نگار کو دینے کے بجائے حکومت وقت کو ہی دیجئے گا کہ جس کی ناقص انتظامی پالیسیاں ہر عید پر شوہروں کو کورونا وائرس سے بچانے کی خاطر لاک ڈاؤن لگا کرشیرنی جیسی بیگم کے ہمراہ عید کے تین دن گھر میں قید ہونے پر مجبور کر دیتی ہیں۔
بروزِ عید بھی روزے کے جیسی حالت تھی
امیرِ شہر سے لیکن سوال تھوڑی ہے
٭٭٭٭٭٭٭