... loading ...
(مہمان کالم)
نکولس کرسٹوف
صدر جو بائیڈن نے امریکا اور اس کے عوام کے لیے بھاری سرمایہ کاری کے لیے جو تجویز پیش کی ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ یہ صدر فرینکلن روز ویلٹ کی نیو ڈیل کی وضاحت کی بازگشت ہے۔ صدر روزویلٹ نے 1943ء میں کہا تھا کہ ’’1932ء میں ایک مریض بہت زیادہ بیمار تھا‘ اس کا نام امریکا تھا۔ وہ سنگین داخلی بدنظمی کا شکار تھا، اور انہوں نے ایک ڈاکٹر کو بلا بھیجا‘‘۔ امریکیوں کو اپنے ملک امریکا کی دو طرح کی طاقت کے بارے میں کوئی شک نہیں ہونا چاہئے۔ اول، اس کی ٹیکنالوجی، یونیورسٹیز، اس کا کاروباری جذبہ، دوم اس کی مرکزی کمزوریاں۔ جب دوسرے ممالک کے ساتھ موازنہ کیا جائے تو ہم نے پچاس سال تک اپنے عوام پر ان ممالک سے کم سرمایہ کاری کی ہے۔
1970ء میں امریکا ہائی سکول اور کالج کی حاضری میں دنیا کا لیڈر تھا، متوقع اوسط عمر سب سے زیادہ تھی، اس کی مڈل کلاس بہت مضبوط تھی۔ یہ سب کچھ روزویلٹ کی وجہ سے حاصل ہوا تھا۔ نیو ڈیل میں کئی نقائص تھے۔ اس میں سیاہ فام اور مقامی امریکیوں کے بارے میں کچھ نہیں تھا مگر پھر بھی یہ انقلابی رنگ رکھتا تھا۔ میرے اپنے آبائی شہر یام ہل میں نیو ڈیل مواقع کی فراہمی کا انجن تھا۔ چند ہی کسانوں نے اپنے جنریٹرز قریبی ندیوں پر لگا رکھے تھے مگر روز ویلٹ کا دیہات میں بجلی لانے کا منصوبہ سب کو گرڈ ا سٹیشن تک لے آیا اور کارکردگی میں اضافہ ہو گیا۔ ملازمتوں نے سماجی ڈھانچے کو تحفظ فراہم کیا۔ جی آئی بل آف رائٹس نے مقامی خاندانوں کو تعلیم اور گھروں کی ملکیت بخشی۔ روز ویلٹ کی پبلک ورکس ایڈمنسٹریشن نے 1935ء میں یام ہل میں ایک ہائی ا سکول کی تعمیر کے لیے 27 ہزار 415 ڈالر فراہم کیے تھے جو آج کے مطابق53 لاکھ ڈالرز بنتے ہیں۔ اس طرح نوے افراد کو مزدوری مل گئی اور انہوں نے یہاں ایک ہائی ا سکول بنا دیا جہاں میں بھی زیر تعلیم رہا اور یہ آج بھی چل رہا ہے۔ مختصر یہ کہ نیو ڈیل کے تحت میرے شہر کی ترقی اور پیداواری استعداد میں سرمایہ کاری کی گئی جس کا غیر معمولی صلہ بھی ملا۔ انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری کا یہ سلسلہ ڈیموکریٹک اور ریپبلکن پارٹیز کے دور میں جاری رہا جب بین الریاستی شاہراہوں اور کمیونٹی کالجوں اور یونیورسٹیوں میں بھرپور سرمایہ کاری ہوئی۔ ان دونوں نے امریکا کو مضبوط تر اور پہلے سے بہتر ملک بنایا؛ تاہم 1970ء کے عشرے میں امریکا ایک غلط سمت میں مڑ گیا۔
ہم نے تعلیم اور صحت میں سرمایہ کاری کو سست رفتار کر دیا اور ایک سخت گیر بیانیہ اپنا لیا کہ لوگ چاہتے ہیں کہ انہیں بوٹ سٹریپس سے پکڑ کر اوپر اٹھایا جائے۔ ہم نے لیبر یونینز کی حوصلہ شکنی کی، عدم مساوات کو فروغ دیا، ورکنگ کلاس کو کمزور کیا۔ اس طرح امریکا انتشار کا شکار ہو گیا۔ دسمبر 2020ء میں افراطِ زر کو ایڈجسٹ کرنے کے بعد عام امریکی ورکر کا معاوضہ 860 ڈالر تھا جو دسمبر 1972ء میں ورکرکو ملنے والے معاوضے کے مقابلے میں کم تھا جو آج کے معاوضے کے مطابق 902 ڈالر بنتا ہے۔ انسانی اصطلاح میں اس کے کیا معنی ہے؟ میں ان ایک چوتھائی لوگوں کے بارے میں لکھ چکا ہوں جو میرے ساتھ ا سکول کی بس نمبر 6 پر آتے تھے اور وہ منشیات کی وجہ سے مر چکے ہیں یا انتہائی مایوسی کے عالم میں خودکشی کر چکے ہیں۔ اس تعداد کو بھی اَپ ڈیٹ کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اب یہ تعداد ایک تہائی تک جا پہنچی ہے۔ میرے کئی دوستوں اور ان کے بچوں کو قید میں ڈالنے کے لیے ٹیکس دہندگان کی بڑی رقوم خرچ کی جا چکی ہے۔ صدر جو بائیڈن نے بچوں، فیملیز اور انفراسٹرکچر پر کچھ اس طرح کی سرمایہ کاری کرنے کی تجویز دی ہے جو موثر بھی ہو اور انسانیت سے بھی بھرپور ہو اور اس میں سے روزویلٹ کے اندازِ فکر کی بازگشت بھی سنائی دیتی ہو۔ جوبائیڈن کے پروگرام میں اہم تسلسل یہ ہے کہ وہ بچوں کے الائونس کو استعمال کرکے بچوں کی غربت کو نصف حد تک کم کرناچاہتے ہیں۔ ان کے پروگرام کی خرابی یہ ہے کہ وہ اسے مستقل جاری رکھنے کے بجائے 2025ء میں ختم کرنا چاہتے ہیں۔ کانگرس کو اس مسئلے کا کوئی حل نکالنا چاہئے۔ آج امریکا میں سرمایہ کاری کرنے پر سب سے زیادہ منافع پرائیوٹ ایکویٹی پر نہیں ملتا بلکہ تما م نسلوں کے پسماندہ بچوں پر ان کے بچپن میں سرمایہ کاری سے ملتا ہے۔ روزویلٹ نے جنگ عظیم دوم کے دوران ایک ڈے کیئر پروگرام شروع کیا تھا تاکہ والدین زمانہ جنگ کی معیشت میں کام کرنے کی تحریک میں شامل ہو سکیں۔ یہ پروگرام زبردست کامیابی سے ہمکنار ہوا تھا جس کے تحت پانچ لاکھ سے زائد بچوں کی دیکھ بھال کی گئی تھی مگر جنگ ختم ہونے کے بعد اسے بھی جاری نہ رکھا جا سکا۔ جو بائیڈن کی ڈے کیئر بنانے کی تجویز ان بچوں کے لیے لائف لائن ثابت ہو سکتی ہے جن پر پوری توجہ نہیں دی جا سکی۔ زمانہ جنگ کے ماڈل سے ہٹ کر ہمارے پاس امریکا میں ایک اور ماڈل بھی ہے۔ ہماری فوج بھی ایک زبردست قسم کا ڈے کیئر سسٹم چلاتی ہے جو فوجیوں کو اپنے فرائض کی ادائیگی میں بہت مددگار ثابت ہوتا ہے۔ پھرجو بائیڈن نے براڈ بینڈ میں سرمایہ کاری کی تجویز دی ہے جسے آج کے دور میں دیہات میں بجلی کی سہولت کی فراہمی کہا جا سکتا ہے۔ اسی طرح مفت کمیونٹی کالج بھی نوجوانوں کو ٹیکنیکل مہارت حاصل کرنے اور زیادہ پیسہ کمانے میں مدد دے سکتا ہے جو ورکنگ کلاس فیملیز کو مزید استحکام بخشے گا۔ کچھ امریکیوں کو جو بائیڈن کے پروگرام پر اٹھنے والی لاگت پر تشویش ہے اور ان کی یہ تشویش بے جا نہیں؛ تاہم یاد رہے کہ یہ اخراجات نہیں بلکہ سرمایہ کاری ہے۔ چین کے ساتھ ہماری مسابقت کا انحصار ہمارے ملٹری بجٹ، ہمارے جاسوسی سیٹلائٹس یا انٹلیکچوئل پراپرٹی رائٹس پر نہیں بلکہ اس امر پر ہو گا کہ ہمارے سکولوں اور کالجوں سے کتنے بچے گریجویشن کرکے نکلتے ہیں۔ جب ملک کے زیادہ تر شہری ناکامی سے دوچار ہو رہے ہوں تو ایسے ملک کبھی ترقی نہیں کر سکتے۔ جتنے امریکی شہری کالج ڈگریاں رکھتے ہیں اتنی تعداد میں ہی وہ اپنا مجرمانہ ریکارڈ بھی رکھتے ہیں۔ واشنگٹن میں پیدا ہونے والے بچے کی اوسط عمر 78 سال جبکہ بیجنگ میں پیدا ہونے والے بچے کی اوسط عمر 82 سال ہوتی ہے۔ ریاست مسسپی (Mississippi) کی د س کائونٹیز میں پیدا ہونے والے بچوں کی اوسط عمریں بنگلہ دیش میں پیدا ہونے والے بچوں سے بھی کم ہوتی ہیں۔ وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنی سنگین داخلی بیماری کا اعتراف کریں اور کسی ڈاکٹر کو علاج کے لیے بلائیں۔ 1930ء کی دہائی کی طرح آج کے دور میں سوال یہ نہیں ہے کہ کیا ہم اپنے عوام پر بھاری سرمایہ کاری کر سکتے ہیں یا نہیں؟ شاید ہم سرمایہ کاری نہ کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔