... loading ...
کورونا وائرس کی دہشت، منہ زور مہنگائی سے عوام کی باں باں اورحالات کی ٹن شن ختم کرنے کے لیے صرف اتنی التجاہے کہ کبھی لطیفے سن لیا کریں یا موقع ملے تو پڑھنے میں بھی کوئی حرج نہیں مزاج خوشگوارہوجائے تو زندگی کی تلخیاں کم محسوس ہوتی ہیں چلیے چھوڑئے حالات کا رونا دھونا بس سیاست سے بالا تر ہوکر زعفرانی باتوں کا مزا لیجئے
٭ ان دنوں پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کے دورہ ٔاسلام آبادکا پڑا چرچاہے جو انہوں نے پروٹوکول کے بغیرکیا اس تناظرمیں وزیرِ اعظم نے مقامی گوشت مارکیٹ کا دورہ کیا خلاف ِ توقع انتہائی صاف و شفاف مارکیٹ دیکھ کر ان کا دل خوش ہوگیا۔ چہل قدمی کرتے ہوئے وزیراعظم ایک قصائی کی دکان میں چلے گئے قصائی نے پژے پرتپاک اندازمیں وزیراعظم کا خیرمقدم کیا آپ نے دکان میں موجود صاف و شفاف گوشت دیکھ کر بہت تعریف کی اتنا اچھا گوشت دیکھ کر تو میرے منہ میں پانی بھر آیا ہے یقینا تمہاری دکان میں گوشت تو خوب بکتا ہو گا-
قصائی: گوشت تو واقعی اچھا ہے جناب بکرے کا گوشت ہے میں بکریاں یا بھیڑوںکا گوشت پسند نہیں کرتا لیکن جناب آج ابھی تک صبح سے ایک کلو بھی فروخت نہیں ہوا-
وزیراعظم نے حیرت سے پوچھا اتنا اچھا پانی کے بغیر گوشت فروخت نہ ہونے کی کیا وجہ ہے؟
قصائی: کیونکہ آپ کے آنے کے سبب خریداروں کو مارکیٹ آنے ہی نہیں دیا گیا –
وزیراعظم: اوہو پھر تو میں چار کلو خرید لوں گا فکرنہ کرو پیسے نقد دوں گا۔
قصائی: جناب ِ وزیراعظم سوری ۔۔اس کے باوجودمیں آپ کو گوشت نہیں دے سکتا –
وزیراعظم: کیوں؟ بھئی کیوں کیا میرے پیسے پیسے نہیں ہیں۔
قصائی: کیونکہ آپ کی حفاظت کے لیے ہم سے انتظامیہ نے چھریاں لے لی گئی ہیں میں کیسے کاٹوںگا۔
وزیراعظم: تو تم مجھے کاٹے بغیر یہ ران پیس دے سکتے ہو
قصائی گھبرا کر: نہیں جناب نہیں میں آپ کو گوشت نہیں بیچ سکتا –
وزیراعظم: غصے سے کیوں؟ جب میں پیسے دے رہاہوں تو تم گوشت کیوںنہیں پیچ رہے؟
قصائی: کیونکہ میں قصائی نہیں ایک سیکیورٹی ادارے کا آفیسر ہوں،
وزیراعظم نیغصے سے لال پیلا کر کہا: جاؤ فوری طور پر اپنے سینئر آفیسر کو بلا کر لاؤ
قصائی: سوری سر وہ نہیں آسکیں گے
وزیراعظم: وہ کیوں نہیں آسکتا؟ وزیر ِ اعظم کے دورہ کے باوجود اسے چھٹی کرنے کی جرأت کیسے ہوئی؟
قصائی: سراس نے چھٹی نہیں کی کیونکہ وہ سامنے والی دوکان پر مچھلی فروش بن کر کھڑے ہیں۔۔
ملک “country”دی خیر اے ٹینشن تے مک گئی ناں کہ عمران خان وزیراعظم بنے گا تے کی ہووے گا۔۔۔۔ جو ہورہاہے جس کے سامنے ہے لوگ تو یہی کہتے پھرتے ہیں
رْل تے گئے ہاں پر چس بڑی آئی اے!!!
٭ کورونا سے پہلے بھارتی وزارت ِ اطلاعات نے فیصلہ کیا کہ مودی سرکار کے اقدامات کی2منٹ کی ایک ڈاکومینٹری رپورٹ تمام سینماگھروں میں فلم سے پہلے دکھائی جائے اس دوران تمام تماشائی مودی جی کے احترام میں کھڑے رہیں گے چنانچہ ڈاکومینٹری بڑی شان کے ساتھ سینماگھروں میں میں دکھائے جانے لگی کسی چاپلوس نے بھارتی وزیرِ اعظم کو کہا آپ کی بڑی پاپولڑٹی ہے جتنا آپ کو بہت چاہتی ہے یہی وجہ ہے کہ آپ کی فوٹو جب بھی سینما ا سکرین پر آتی ہے لوگ احترام سے کھڑے ہوجاتے ہیں نریندرمودی بہت خوش ہوئے انہوںنے بھیس بدل کر خود سینماگھر جانے کا فیصلہ کیا جب ڈاکومینٹری دکھائی جانے لگی تو پورا ہال کھڑا ہوگیا لیکن مودی جی بیٹھے رہے اتنی دیر میں ایک شخص سیٹیں پھلانگتاہوا آیا اس نے مودی کو کندھے سے جھنجوڑتے ہوئے کہا پاگل آدمی کھڑا ہوجا تونے اندر تو جانا ہی ہے کیوںہمارا سینما بند کرواناہے۔
٭اک سردار کے ہمسائے کی بھینس کے سینگ بڑے بڑے تھے سردار جب بھی اسکے پاس سے گزرتا تو کھڑا ہو کے سوچنے لگتا
کہ میریاں لتاں ایناں سنگا وچ پھس گئیاں تے کی ہووے گا؟! (میری ٹانگیں اس کی سینگ میں پھنس گئیںتو کیا ہوگا)
آخر اک دن خود ہی اسکے سینگوں میں اپنی ٹانگیں پھنسا دیں
بھینس نے اسے گھما کے نیچے دے مارا تو سردار کی دونوں ٹانگیں ٹوٹ گئیں
بھینس کا مالک اسپتال افسوس کرنے گیا کہ میری بھینس نے آپ کو مارا اور ٹانگیں ٹوٹ گئیں
سردار بولا چھڈو جی لتاں دی خیر اے ٹینشن تے مک گئی ناں کہ لتاں پھسیاں تے کی ہووے گا (چھوڑو جی میری ٹانگوںکی خیرہے یہ ٹین شن تو ختم ہوئی کہ میری ٹانگیں اس کی سینگ میں پھنس گئیںتو کیا ہوگا)
٭پطرس بخاری کو کالج کا چوکیدار گالیاں دیتا تھا لیکن وہ جواب نہیں دیتے تھے, ایک دن ساتھی پروفیسرز نے کہا کہ چوکیدار کہتا ہے کہ پطرس میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتا, پطرس نے کہا کہ وہ ٹھیک کہہ رہا ہے اس کے پاس نہ دولت ہے, نہ شہرت اور نہ ہی عزت ۔۔ میں اسکا کیا بگاڑ سکتا ہوں؟
٭ ایک دہی بھلے , فروٹ چاٹ کی دکان پر چاٹ کی اقسام بمعہ قیمت , فہرست آویزاں تھی جس پر لکھا تھا
1. سادہ چاٹ … 50 روپے
2. اسپیشل چاٹ … 60 روپے
3. ایکسٹرا اسپیشل چاٹ … 70 روپے
4. ڈبل ایکسٹرا اسپیشل چاٹ … 80 روپے
5. سنڈے اسپیشل چاٹ … 100 روپے
میں نے سوچا روزانہ یہ مختلف قسم کی چاٹ کا ذائقہ چکھنا چاہیے
تین , چار دن میں احساس ہوا کہ ذائقہ تو ایک ہی ہے کوئی فرق نہیں ہے
دکاندار سے پوچھا کہ بھائی یہ کیا ماجرا ہے تو وہ بولا
سادہ چاٹ ایسے ہی جوٹھی پلیٹ میں ڈال کردی جاتی ہے
اسپیشل چاٹ , ہم, چمچہ دھو کر دیتے ہیں
ایکسٹرا اسپیشل چاٹ ,, چمچہ اور پلیٹ دونوںدھو کر دی جاتی ہے
ڈبل ایکسٹرا اسپیشل چاٹ ,, ان سب چیزوں کے ساتھ ساتھ میں اپنے ہاتھ بھی دھو کے دیتا ہوں
میں نے پوچھا بھائی یہ سنڈے اسپیشل چاٹ میں کیا ہوتا ہے
تو وہ بولا سنڈے یعنی اتوار کو میں خود نہا کر آتا ہوں ۔
٭اردو کے مشہور افسانہ نگار سعادت حسن منٹو پاک ٹی ہاؤس میں چائے پینے گئے ،اچانک چائے بناتے وقت ان کے ہاتھ سے چینک گر کر ٹوٹ گئی ،بیرا ساڑھے چار روپئے کا بل لایا ،آٹھ آنے چائے کے اور چار روپئے کراکری کے۔منٹو نے خاموشی سے بل ادا کیا اور باہر آگئے۔ دوسرے روز پھر پاک ٹی ہاؤس پہنچ گئے۔ابھی وہ چائے پی ہی رہے تھے کہ ایک دم شور مچ گیاسانپ۔ سانپ۔۔۔ریستوران میں بھگدڑ سی مچ گئی دیکھتے ہی دیکھتے میزیں الٹ گئیں اور برتن ٹوٹ گئے ،لوگ باہر بھاگنے لگے،بیروں نے کسی نہ کسی طرح سانپ پر قابو پا لیا اور اسے مارنے میں کامیاب ہو گئے۔جب بیرا منٹو کے پاس بل لایا تووہ صرف آٹھ آنے کا تھا۔منٹو نے اس سے پوچھا : ’’ آج آپ نے اس میں کراکری کی قیمت نہیں لگائی۔‘‘
بیرے نے کہا : ’’ صاحب ! اس میں آپ کا کیا قصور ہے؟ کراکری تو سانپ کی وجہ سے ٹوٹی ہے۔‘‘منٹو نے بل ادا کر تے ہوئے مسکرا کر کہا: ’’ مگر مجھے تو کوئی بچت نہ ہوئی ،سانپ چار روپے میں خرید کر لایا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔