وجود

... loading ...

وجود

ماہ صیام، آخری ایام۔۔

جمعه 07 مئی 2021 ماہ صیام، آخری ایام۔۔

دوستو، ماہ صیام کے آخری ایام چل رہے ہیں، آج چوبیس واں روزہ اور پچیس ویں طاق رات ہوگی۔۔ آج جمعہ مبارک کو ’’الوداع‘‘ بھی کہاجارہا ہے، کیوں کہ اب رمضان المبارک میں اگلا جمعہ نہیں آئے گا۔ آج مساجد میں پہلے سے زیادہ رش نظر آئے گا۔ہمارے یہاں الوداع کے روزے پر خاص تیاریاں کی جاتی ہیں، کچھ گھروں میں تو نئے جوڑے بنائے جاتے ہیں۔۔ مساجد ایسی بھری ہوتی ہیں کہ دیکھ کر طبیعت خوش ہوجاتی ہے۔۔
رمضانوں میں بچپن سے دیکھتے آئے تھے، سڑکوں پر افطار کے اجتماعات کا اپنا ہی حسن تھا۔۔ آپ شہر میں کہیں بھی ہوں، آپ کو یہ فکر نہیں ہوتی تھی کہ روزہ کھولنا ہے اس لیے جلدی گھر پہنچو۔۔ ہر سڑک، ہر اسٹاپ، ہر چوراہے پر شاندار قسم کی افطار آپ کی منتظر ہوتی تھی، نوجوان زبردستی روک روک کر نہ صرف افطار کراتے تھے بلکہ ٹھنڈا شربت، جوس بھی پیش کرتے تھے۔۔کراچی میں تو اب بھی ایسا ہی چل رہا ہے۔
مشاہدے میں آیا ہے اور عام طور پریہ بات سچ بھی ثابت ہوئی ہے کہ رمضان میں بڑے بڑوں کا بجٹ فیل ہوجاتا ہے، کیونکہ ماشااللہ اس ماہ مبارک میں دن بھر روزے رکھنے والے خوش عقیدہ حضرات کی خوش خوراکی نفس پر ایسی حاوی ہوتی ہے کہ کسی نعمت کو چھوڑنا گناہ کبیرہ تصور کرتے ہیں۔۔کھجور اور پکوڑے سے لے کر زرق برق ملبوسات تک ببانگ دہل آزادانہ لوٹ مار جاری رہتی ہے۔ حقیقت سے ہمارا رشتہ کچھ زیادہ دوستانہ نہیں، برا نہ منائیے گا لیکن رمضان دراصل ہمارے لیے سال کا سب سے بڑا بزنس سیزن ہوتا ہے۔ غریب روزہ دار مجبور ہے کہ منہ مانگے مول ادا کرے، ٹھیلے والا ہو یا عظیم الشان شاپنگ مال اس مقدس مہینے کی برکت سے پورا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ماہ مقدس کے نام پر ٹی وی چینلز میں علما، نعت گو، اداکار، کرکٹرز، ماڈلز، گلوکار سب ایک میک اپ میں ایک ہی گھاٹ پر منہ مانگے مول لیکر سادگی، قناعت اور اللہ کی رضا کا درس دینے کی نیکی کماتے ہیں۔ سرعام کھانا پینا تو ممنوع مگر اشیائے خورونوش پر لوٹ مار کی آزادی ہوتی ہے۔۔جن کی تیوریوں پر پڑے بل دور سے نظر آ جائیں، بیزارگی اور جھنجھلاہٹ کی تصویر، یہ نشانی ہے روزہ داروں کی، اس کیفیت میں بے تکلف ہونے کا خطرہ قطعی مول نہ لیں۔ خیرحضور روزہ خور ہوں یا روزہ دار دفاتر میں کام آدھا اور جھگڑے دگنے ہو جاتے ہیں۔ بازاروں اور بسوں میں ذرا ذرا سی بات پر چیخ و پکار معمول ہوتی ہے اور بعض ’’برگزیدہ‘‘ روزہ دار مذہبی خبط عظمت کے تحت دفتری کام چھوڑ چھاڑ کر پندونصائح اپنا لیتے ہیں، یہ درسی کیفیت عموما افطار تک جاری رہتی ہے۔۔سڑکوں اور بازاروں میں ہر بندہ دوسرے کو کاٹ کھاجانے والی نظروں سے ’’گھوریاں‘‘ مارتا نظر آتا ہے۔۔ان میں سے توکچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو سحری کھانے کے فوراً بعد کہنا شروع کردیتے ہیں کہ آج روزہ بہت لگ رہا ہے ،دفتر آتے ہیں تو ہر ایک سے فرداً فرداً پوچھتے ہیں’’تمہارا روزہ ہے؟‘‘ اور اس کا جواب سنے بغیر کہتے ہیں’’میرا تو ہے‘‘۔۔ تربوز والا بھی دو،تین ’’دانوں‘‘ کو دھپ،دھپ کرنے کے بعد جب چوتھا دانہ آپ کو دیتا ہے تو آپ یقین کرلیتے ہیں کہ یہی ’’دانہ‘‘ لال، رسیلا اور میٹھا نکلے گا، حالانکہ تربوز والا اصل میں آپ کی نفسیات سے کھیل رہا ہوتا ہے۔۔ہم نے بھی ایک کیلے والے سے جب پوچھا کہ کیلے کیا درجن لگائے۔۔ وہ کچھ فلسفی ٹائپ تھاکہنے لگا، دس روپے کا ایک کیلا(یعنی ایک سو بیس روپے درجن کہتے ہوئے اسے موت پڑرہی تھی شاید)۔۔ہم نے بھولپن سے پوچھا۔۔ دس روپے، چھلکے کے بغیر کتنے کا لگاؤ گے؟؟۔۔
پاکستانی تو جب تک 10 خربوزے سونگھ نہ لیں، ان کو میٹھا خربوزہ ملتا ہی نہیں۔چاہے اس چکر میں کورونا ۔۔ناسوں میں وڑ جائے۔ آفرین لوگ ہیں ہم۔ فروٹ کی دکان پر پڑے ایک خربوزے کو نجانے کتنے لوگ سونگھ کر اور کتنے دبا کر چھوڑ چکے ہوں گے پھر بھی جو شخص خربوزہ لینے آتا ہے وہ سب سے پہلے ماسک اتارتا ہے پھر اسے اٹھا کر سیدھا ’’ناسوں‘‘ سے دبا کے یوں لگاتا ہے کہ ناک ہی اوپر کو چڑھ جاتا ہے پھر گہری سانس یوں بھرتا ہے جیسے عطر سونگھ رہا ہو۔۔سارے ملک میں تاجروں نے دکانیں،سیٹھوں نے صنعتیں اور مولویوں نے مساجد کھولنے کے مطالبات کیے اور کورونا احتیاط کو بالائے طاق رکھ دیا۔لیکن سلام ہے دفتری ملازمین کی احساس ذمہ داری کو،آج تک پورے ملک میں کسی ایک نے ضد نہیں کی کہ ہمارے دفتر کھول دو، ہم کام پر جائیں گے. یہ ہوتی ہے قانون کی پاسداری۔۔ہمیں سرکاری ملازمین سے قانون کی پاسداری سیکھنے کی اشد ضرورت ہے۔۔ باباجی گزشتہ رات فرمارہے تھے۔۔ابھی تک افطاری کی ایک بھی دعوت نہیں آئی،یہ قوم تباہی کی طرف جارہی ہے۔۔
یہ ہمارے معاشرے کی افسوس ناک حقیقت ہے کہ جب رمضان المبارک کا مقدس مہینہ جلوہ گر ہوتا ہے تو ہم میں سے کچھ لوگ رمضان کے تقدس و عظمت کا مذاق اڑاتے ہیں ،صحت و طاقت کے باوجود روزے نہ رکھ کر اس مہینے کی حرمت پامال کرتے ہیں ،کچھ ایسے ہیں جو روزہ کی فرضیت کے منکر بھی ہیں ،ایسے لوگ ہمارے نزدیک دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔آپ دیکھتے ہونگے کہ کچھ مسلمان صحت مند ہونے کے باوجود سڑکوں ،ہوٹلوں اور آفسوں میں دھڑلے سے کھاتے پیتے اور سگریٹ نوشی کرتے نظرآتے ہیں ، ایسے لوگوں کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے کہ’’ میری ساری امت معاف کردی جائے گی سوائے کھلم کھلا گناہ کرنے والوں کے‘‘۔ (بخاری،مسلم)۔۔۔اللہ سے ڈرو جس پر کوئی چیز مخفی نہیں ،بھوک و پیاس کی یہ مشقت جو آپ اللہ کی رضا کے لیے برداشت کررہے ہیں ،اس پر بے پناہ اجرو ثواب ہے۔ حدیثِ قدسی ہے، اللہ تعالی فرماتا ہے ’’روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کابدلہ دوں گا‘‘۔۔یعنی روزہ کی عظمت اور اس کی شان اتنی بلند ہے کہ دیگر عبادتوں کے اجروثواب کے برعکس اللہ تعالیٰ خود ہی اس عبادت کا ثواب اور بدلہ بندے کوعنایت فرمائے گا۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔۔ معصوم اور بھلے لوگو،صرف کرونا کو ہی پھیلنے سے نہیں روکنا بلکہ خود کو بھی پھیلنے سے روکنا ہے۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر