... loading ...
(مہمان کالم)
میشل کوٹل
کسی بھی ملازم کی طرح صدر جو بائیڈن کو وقفے وقفے سے اپنی کارکردگی کے جائزے سے گزرنا پڑرہا ہے۔جمعرات کو انہیں صد ربنے ایک سو دن ہوگئے ہیں او ریہ وہ عرصہ ہوتا ہے جب دنیا ایک صدر کے اقدامات کا بغور جائزہ لیتی ہے۔ اس نے کتنے بل پا س کروائے ہیں ؟ کس کس کی تقرری کی ہے؟ کتنے ایگزیکٹو ا?رڈرز پر انہوں نے دستخط کیے ہیں؟ کون کون سا وعدہ توڑا ہے؟ وغیرہ۔جو بائیڈن نے ان غیر معمولی حالات میں اپنا منصب صدارت سنبھالا تھا جب چار سال کے دوران ہمیںمتنوع بحرانوں کا سامنا تھا یعنی مہلک کووڈ کی وبا ‘معاشی بے یقینی ‘ماحولیاتی تبدیلی اور نسلی ناانصافیوںکا دور۔اس وقت جرا?ت مندانہ پالیسی اقداما ت کی ضرورت تھی۔یہ وہ زمانہ تھا جب ٹرمپ عہد کی زہریلی سیاست کا سامنا تھا جب ری پبلکن کے ا رکان کی اکثریت کا ا س جھوٹ پر پورا یقین تھا کہ 2020ئ کے امریکی الیکشن چرا ئے گئے ہیں۔ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ ایک 78 سالہ دھیمے مزاج کے بوڑھے ا?دمی پر ان تین مہینوں میں کافی بوجھ پڑگیا ہے مگرجو بائیڈن کے خمیر میں یہ بات شامل ہے کہ وہ ہمیشہ مشکل حالات کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کرتے ہیں۔تاہم ان کے پہلے سو دن نقائص سے پاک تو نہیں کہے جا سکتے مگر اس امر کی بھرپور عکاسی کرتے ہیں کہ انہیں امریکا کا صد رکیوں منتخب کیا گیا تھا اور امریکی عوام اب ان سے کیسی توقعات وابستہ کیے ہوئے ہیں؟
فصدر جو بائیڈن نے بہت تیز رفتار آغاز کیا اور اپنے سب سے بڑے چیلنج کے سامنے ڈٹ گئے یعنی صحت عامہ اور کوو ڈکے زمانے میں درپیش سنگین معاشی بحران کا سامنا۔انہوں نے فوری طور پر کانگرس سے ایک کھرب نوے ارب ڈالرز کے ریلیف پیکیج کی بات کی اور کانگرس نے انہیں ایک کھرب نوے ارب ڈالر ز کا ریلیف پیکیج دے بھی دیا۔کیا ری پبلکن ارکان نے بھی اس پیکیج پر دستخط کر دیے تھے؟ نہیں انہوں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ا س بل کو پیش کرنے کا مقصد بچوں والے خاندانوںکے لیے مستقل ا?مدنی کی ضمانت فراہم کرنا تھا اور اسے دونوں جماعتوں کی طرف سے بہت زیادہ عوامی سپورٹ بھی مل گئی۔یہ سب کچھ وائٹ ہائوس کی نیک نامی کے لیے کافی تھا۔صدر جوبائیڈن یہ با ت بھی اچھی طرح جانتے اور سمجھتے ہیں کہ عوام کی توقعات پر کیسے پورا اترنا ہے یعنی کم سے کم وعدے اور وعدوں سے زیادہ کام اور کارکردگی۔انہوں نے ابتدا میں وعدہ کیا تھا کہ منصب ِصدارت سنبھالنے کے ایک سو دن کے اندر اندر وہ کم از کم کووڈ ویکسین کی 100ملین خوراکوں کا بندوبست کریں گے۔امریکی قوم نے یہ چیلنج مارچ کے وسط تک پورا کر لیا تھا جس سے صدر جو بائیڈن کو یہ موقع مل گیا کہ اپنی صدارت کے ایک سو دن مکمل ہونے تک انہوں نے کووڈ ویکسین کی 200ملین ڈوزز کا ہدف ا?سانی سے پورا کر لیا ہے۔اس کی راہ میں حائل ا?خری رکاوٹ بھی پچھلے ہفتے ہٹا دی گئی۔امیگریشن جیسے مسئلے میں جوبائیڈن کا بھی حصہ شامل تھا۔وائٹ ہائوس میکسیکو کی سرحد پر تارکین وطن کے بچوں کی ا?مد جیسے مسئلے کا سامنا کر رہا تھا اور وہاں ریکارڈ تعدا د میں بچوں کی ا?مد جاری تھی۔یہ بات بھی درست ہے کہ انہیں ایک غیر فعال حکومت ورثے میںملی مگر بعض ڈیموکریٹ ارکان نے بھی یہ شکایت کی ہے کہ ان کی حکومت اس مسئلے پرکوئی واضح پالیسی او رپلان دینے میں ناکام رہی۔ری پبلکن ارکان ا س موقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے فوری طو رپر آگے بڑھے اور ان کے کئی ارکان نے سرحدی علاقے کے دورے بھی کیے۔اس دوران وہ ایسے لوگوں سے بھی ملے جو Duck Dynastyسیریز سے نکالے ہوئے لوگ لگ رہے تھے۔امریکی سرحد پر جاری بے چینی نے جو بائیڈن کو مہاجرین کے داخلے کے مسئلے پر کافی پریشان کررکھا ہے۔صدر ٹرمپ نے مہاجرین کو داخلے کی اجازت کی حد پندرہ ہزار تک محدود کررکھی تھی جسے انہوں نے بڑھا کر 62500کر دیاتھا‘مگر سولہ اپریل کو وائٹ ہائوس نے اعلان کیا ہے کہ صد رٹرمپ والی پابندی بر قرار رہے گی۔ اس پر رد عمل یقینا آئے گا۔چند گھنٹے بعد وائٹ ہائوس نے اعلان کر دیا کہ اس ڈائریکٹو کے بارے میں ایک کنفیوڑن پائی جاتی ہے اور مئی میں مہاجرین کے داخلے کے لیے ایک بڑی تعداد مقرر کی جائے گی۔
بہت سے ووٹر ز کے نزدیک صدر جوبائیڈن کی مقبولیت کا انحصار پالیسیز پر نہیں تھا۔وہ تو ان کی طرف ا س وقت مائل ہوئے تھے جب انہیں اتفاق ‘اتحاد اور صدر ٹرمپ کی طرف سے پیدا کیے گئے انتشار اور تلخی کے خاتمے جیسے وعدے سننے کو ملے۔ ان سب باتوں نے سادہ لوح افراد کوزیادہ متاثر کیا تھامگر جو بائیڈن کا زیادہ جھکائو منفرد قسم کی ترقی کی طر ف ہی دکھائی دیا۔ وہ صدار ت کے منصب کو مزید بیزار کن بھی بنا رہے ہیں۔اگروہ ایسا کرتے ہیں تو یقینا ان کا مذاق بھی اڑے گا۔تھکے ہارے امریکیوں نے ا س ا سٹائل کا بھی خیر مقدم کیا تھا۔ایگزیکٹو ٹائم اور ٹوئٹر پر ٹوئٹس اور فاکس نیو ز پر ٹرمپ کے جمہوریت پر حملوں کے زمانے لد گئے ہیں۔جو بائیڈن ذرا دھیمے مزاج سے کام کرنے کے عادی ہیں اور عام طورپر کیمروں کی روشنیوں سے دور رہنے والے انسان ہیں۔وہ سرجھکائے اپنی پالیسیوں پر خاموشی سے عمل پیرا ہوکر ا?گے بڑھتے رہتے ہیں۔وہ ملازمتوں میں انسانیت کو فروغ دے رہے ہیں۔پولیس فائرنگ سے مرنے والے ہوں یا کووڈ جیسے مہلک وائرس سے مرنے والوں کی بڑھتی ہوئی شرح اموات یا امریکی عوام کے روزمرہ کے معاشی مسائل ‘صد رجو بائیڈن ہر چیلنج کو بڑی ہمدردی اور شائستگی سے قبول کرتے ہیں۔وہ اشتعال میں ا?نے کے بجائے ہمیشہ پرسکون رہ کر معاملات کو دیکھتے ہیں۔ممکن ہے بہت سے لوگوں کے لیے یہ کوئی بڑی بات نہ ہومگر ہم ابھی ابھی ٹرمپ کو بھگت کر آرہے ہیں۔اگرچہ انہوں نے قومی امور پر ری پبلکن پارٹی کے اراکین کانگرس کو بات چیت کی دعوت دی ہے مگر انہوں نے اس بات کو واضح کر دیا ہے کہ وہ ان کی حمایت حاصل کرنے کیلیے کوئی غیر قانونی ہتھکنڈے استعمال کریں گے نہ کرنے دیں گے۔ انہوں نے بارک اوباما کے دور میں یہ ضرور سیکھا ہے کہ وہ خرگوش کے بل میں نہیں گھسیں گے۔جو بائیڈن نے در حقیقت سینیٹ میں بعض اعتدال پسند ری پبلکن ارکان کو کسی حد تک ناراض کرلیا ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ جو بائیڈن تعاون حاصل کرنے کی کوشش میں دوسروں کے احترام کا زیادہ خیال نہیں رکھتے۔ری پبلکن پارٹی کے سینیٹ میں بعض ایسے ارکان بھی ہیں جو اس وجہ سے دوجماعتی سیاست او رمصالحت پسندی سے اپنی محبت کا اظہار کرتے رہتے ہیںتاکہ کہیں وہ نامعقول انسان نہ دکھائی دیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔