... loading ...
پیپلزپارٹی نے سینیٹ میں اپوزیشن لیڈڑ کے لیے جوا کیوں کھیلا ؟ اس کی بہت سادہ سی وجہ ہے کہ حکومت کے سر پر آئندہ الیکشن میں اصلاحات متعارف کرانے کا’’بھوت ‘‘ سوارہے ۔ ان میں بھی سرفہرست الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے الیکشن کروانا پہلی ترجیح ہے ۔ یہ کوئی مذاق تھوڑی ہے کہ وزیراعظم زبان ہلائیں اوریہ کام ہوجائے اس کے لیے پارلیمانی کمیٹی کاقیام ضروری ہوتاہے یعنی قومی اسمبلی اورسینیٹ کے ارکان پرمشتمل پارلیمانی کمیٹی کو یہ بل منظورکرکے بھجواناہے پھریہ بل دونوں ایوانوں میں بحث کے لیے پیش ہوگا اوروہاں سے منظور ہونے کے بعد قانون بنے گا۔ اب اگر اتنے اہم عہدے پرن لیگ کابندہ ہوتاتو پیپلزپارٹی کے ہاتھ بندھے ہوتے ۔ یہ کسی بھی طرح پیپلز پارٹی کو قبول نہیں تھا۔ اس لیے اگرپیپلزپارٹی کا اپوزیشن لیڈرہونا ضروری تھا جوکہ آصف علی زرداری اپنی ’’سیاست‘‘ سے سیدیوسف رضا گیلانی کومنتخب کرواچکے ہیں تواس سے پیپلزپارٹی کے معاملات طے کرنے کی قوت میں اضافہ ہوگا اوریہ بھی سننے میں آرہاہے کہ جوالیکٹرانک مشین آئندہ الیکشن میں متعارف کرانے کاحکومتی منصوبہ ہے، اس سلسلہ میں آصف علی زرداری کوبھی اعتماد میں لیاجاچکاہے ۔اسی لیے انتخابی اصلاحات کے معاملے میں پیپلزپارٹی ، پی ٹی آئی کے ساتھ بیٹھنے کوتیارہے اوریہ ’’ساتھ ‘‘ قانون منظور کرانے تک ہوگا۔
آپ کویاد ہوگا کہ کچھ عرصہ قبل ہی وزیراعظم عمران خان نے ا سپیکر قومی اسمبلی اسدقیصر کوایک خط لکھا تھا جس میں ان سے کہاگیاتھا کہ وہ پارلیمانی کمیٹی بنائیں جوانتخابی اصلاحات تجویزکرے ۔ ان کے اس خط کے فوراً بعد اسدقیصر نے سینٹ میں اپوزیشن لیڈریوسف رضا گیلانی کوفون کیااورپارلیمانی کمیٹی کے لیے نام بھجوانے کی درخواست کی۔ یوسف رضاگیلانی نے اپوزیشن کی دیگرجماعتوں سے مشاورت کیے بغیر نام بھجوانے کی ہامی بھرلی ۔وہ نام کسی بھی وقت دے سکتے ہیں ،یہ ہے وہ بنیادی مسئلہ جو ن لیگ اورپیپلزپارٹی کے درمیان وجہ تنازع بنااوراسی وجہ سے پی ڈی ایم ٹوٹ پھوٹ کاشکارہوئی۔
پی ڈی ایم کی ٹوٹ پھوٹ سے یاد آیا کہ پیپلزپارٹی نے پی ڈی ایم کے اجلاس میں جمعیت علماء اسلام کی جانب سے دیا گیا نام حافظ حمد اللہ کو امیدوار ڈپٹی چیئرمین سینٹ ماننے سے انکارکردیا تھا اور کہا تھا کہ حافظ صاحب اسٹیبلشمنٹ کوکسی طورپرقابل قبول نہیں ہونگے۔ اس لیے دوسرانام دیں جس پرمولانا عبدالغفور حیدری کانام دیاگیا۔ اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ کرکے آصف علی زرداری کے ہاتھ میں کیاآیا ؟ یہ بہت اہم سوال ہے جس کاجواب توآنے والا وقت ہی دے گا لیکن حالات و واقعات کی روشنی میں اگرتجزیہ کریں اور شہرِاقتدار میں ہونے والی سرگوشیوں کوغورسے سنیں توپتہ چلتاہے کہ آصف علی زرداری نے گھاٹے کاسودانہیں کیا۔ وہ 2013 ء سے اس کوشش میں تھے کہ پنجاب ن لیگ سے چھیناجائے اوراس سلسلہ میں وہ اس دورمیں پی ٹی آئی کی پنجاب میں کامیابیوں پرخوشی سے بغلیں بھی بجاتے سنائی دیتے تھے۔ ان کے خیال میں ن لیگ سے جتنی سیٹیں پی ٹی آئی چھینے گی ،اتناہی فائدہ پیپلزپارٹی کوہوگا۔ ان کے خیال میں پنجاب سے اکثریت حاصل کرنے کی وجہ سے ن لیگ ہمیشہ بھاری اکثریت سے وفاق میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوجاتی ہے۔ اگر ن لیگ کے حصہ میں سے آدھا حصہ پی ٹی آئی لے جائے تو اس سے پیپلزپارٹی کی حکومت بننے کے زیادہ مواقع پیداہوسکتے ہیں۔ 2013 سے 2018 تک پیپلزپارٹی اورپی ٹی آئی کبھی سرعام اورکبھی خفیہ طورپر ن لیگ کے خلاف کام کرتی رہی ہیں۔ عمران خان کے دھرنے کے سوا بہت سے مواقع پرپیپلزپارٹی نے ن لیگ کونقصان پہنچایا۔ 2018 ء کے الیکشن میں جب عمران خان کی حکومت بن گئی تو کچھ عرصے کے لیے پیپلزپارٹی اورپی ٹی آئی کے درمیان اختلاف بھی ہوا۔خاص طور پرآئی جی پولیس سندھ اور دیگر اعلیٰ افسران کی تقرری وتبادلوں پراس میں شدت دکھائی دی لیکن بتانے والے بتاتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ نے آصف علی زرداری کاہاتھ پکڑ کرانہیں تسلی دی کہ فکر نہ کرنا ہم ہیں ناں۔۔۔۔ جب پی ڈی ایم بنااوراس نے جارحانہ سیاست کاآغازکیاتوآصف علی زرداری کی پانچوں انگلیاں گھی میں ہو گئیں۔ اسٹیبلشمنٹ کومولانافضل الرحمان ، نوازشریف اور مریم نواز نے دیوارکے ساتھ لگایا توآصف علی زرداری نے وہ ’’چال ‘‘ چلی دی جس سے پی ڈی ایم ماضی کاقصہ بن گئی۔ اب یہ تو نہیں ہوسکتا کہ کوئی بندہ اتنی ’’محنت ‘‘کرے اوراسے ’’صلہ ‘‘ نہ ملے ۔ اب پیپلزپارٹی کوصلہ ملنے کاوقت بہت قریب ہے۔ بتایاجاتاہے کہ اس صلے کاآغاز جنوبی پنجاب سے ہوگا اورممکنہ طورپر جنوبی پنجاب محاذ کوگرین سگنل مل چکاہے اوروہ کسی بھی مناسب وقت پریہ فیصلہ کرسکتاہے اور اس پرکسی کوحیران ہونے کی ضرورت بھی نہیں ۔
جہانگیرترین کے بارے میں بھی یہ خبرگردش کرتی رہی کہ وہ بھی پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیارکرسکتے ہیں لیکن دونوں فریقین نے اسے خارج از امکان قرار دیا ،پھر دوسری ممکنہ صورت یہ بھی ہے کہ اگر عمران خان اسٹیبلشمنٹ کو خاطر میں نہ لائے تو تحریک انصاف کی اکثریت جہانگیر ترین کے ساتھ ہوگی اور عمران خان کا ’’بندوبست ‘‘ کردیا جائے گا۔ ایک صورت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ وہ اپنی کوئی نئی جماعت بناکر آئندہ سیٹ اپ میں پیپلز پارٹی، ق لیگ ، ایم کیو ایم وغیرہ کے اتحاد سے حکومت بنا سکتے ہیں ۔ رہی یہ بات کہ جہانگیر ترین تو تا حیات نا اہل ہو چکے ہیں اس کا بہت سادہ سا جواب ہے کہ یہ پاکستان ہے اور یہاں سب چلتا ہے ۔ جب یہ ساری منصوبہ بندی یا سوچ بچار ہورہی تھی تو مولانافضل الرحمان اور نوازشریف پس پردہ معاملات کوغور سے دیکھ رہے تھے۔ ان دونوں رہنمائوں کی کوشش تھی کہ وہ زیادہ سخت ردعمل نہ دیں تاکہ پیپلز پارٹی کو شہید بننے کا موقع نہ ملے، اس لیے وہ خاموشی سے یہ سب ہوتا دیکھ رہے تھے ۔ دوسری طرف آصف علی زرداری تمام معاملات طے کرنے کے بعد فیصلہ کرچکے تھے کہ اپوزیشن اتحاد سے نکلاجائے لیکن اس کاالزام بھی اپنے سرنہ لیاجائے۔ اسی منصوبہ بندی کے تحت پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس میں انہوں نے نوازشریف پرچڑھائی کردی ،نہ صرف یہ بلکہ اس کی خبریں بھی میڈیا تک پہنچانے کاانتظام کیاگیا اور بتایا جاتاہے کہ خبریں لیک کرنے کے لیے مصطفی نوازکھوکھر کے بجائے آصف علی زرداری کے آزمودہ ’’ہتھیار‘‘ شیری رحمان کے واٹس ایپ کواستعمال کیاگیا ۔ آصف علی زرداری اوراسٹیبلشمنٹ کے اس ’’مشترکہ ‘‘ منصوبے کی کامیابی کے بعد اب آئندہ حکومت سازی پربات چیت چل رہی ہے۔ پیپلزپارٹی ہرصورت میں پنجاب لیناچاہتی ہے۔ اس لیے وہ اسٹیبلشمنٹ کی ہربات ماننے کوتیار ہے، انتخابی اصلاحات کے ذریعے اگر اگلے الیکشن کی جیت کامنصوبہ مکمل ہوتاہے تو اسے پیپلزپارٹی اپنی کامیابی قراردے کر سندھ کے علاوہ وفاق اورپنجاب میں ق لیگ جہانگیر ترین سمیت حکمران بن سکتی ہے ۔ آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ اگر انتخابی عمل صاف و شفاف ہوگیا تو پنجاب سے تو ن لیگ کلین سوئپ کر جائے گی۔ ایسے میں ’’ان ‘‘کا منصوبہ تو ناکام ہو جائے گا ،وہ یہ جوا کیوں کھیلیں گے ۔ اس سلسلہ میں جب اِدھر اُدھر فون گھمایا تو نا قابل یقین منصوبہ بندی کا انکشاف ہوا کہ خان کی پسندیدہ ٹائیگر فورس کو بروئے کار لایا جائے گا اور آج جو عوام کی جیبوں سے پیٹرول، چینی ،ایل پی جی ، ادویات اور دیگر قسم کے مافیا کے نام سے ڈاکہ ڈالا جا رہا ہے، اس رقم کا استعمال الیکشن میں ووٹ خریدنے کے لیے کیا جائے گا۔ آپ ذرا ذہن پر زور دیں کہ احساس پروگرام کے نام پر تقریباً 6 کروڑ شناختی کارڈز کا ڈیٹا اکٹھا ہوا تھا ۔ سنا ہے وہ ڈیٹا ٹائیگر فورس اور دیگر ایجنسیوں کے ذریعے ووٹ خریدنے کے کام آئے گا جس ووٹر یا گھرانے کے سربراہ نے فی ووٹ کے حساب سے ہزاروں روپے وصول کیے ہوں گے وہ ووٹ کیسے نہیں دیں گے۔ اس لیے خان اور اس کے سرپرستوں کو آئندہ الیکشن الیکٹرانک ووٹر مشین کے ذریعے ہی وارے کھاتا ہے ۔ سنا ہے نواز شریف ،شہباز شریف ، مریم نواز اور مولانا فضل الرحمان کو بھی اس منصوبے کی بھنک پڑ چکی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ اس کا کیا توڑ کرتے ہیں، ان کے اس ’’توڑ‘‘پر آئندہ الیکشن کا فیصلہ ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔